Tag: داؤد رہبر اقتباس

  • "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    اردو ادب میں ڈاکٹر داؤد رہبر کا نام ایسے قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی عمر کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تخلیق، تشریح و وضاحت میں گزرا۔ وہ دیارِ غیر میں رہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی مٹّی اور یہاں تمدن کے ساتھ اقدار اور ثقافت کے حوالے سے تشنگی بھی ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

    اردو زبان کے اس نام ور ادیب، ماہرِ موسیقی اور شاعر نے امریکا میں رہتے ہوئے جب اپنی کتاب پراگندہ طبع لوگ پیش کی تو اس میں ’’مہاجرت‘‘ کا دکھ بھی ظاہر ہوگیا۔ یہاں جو اقتباس ہم پیش کررہے ہیں، وہ اسی دکھ اور حسرت کا اظہار ہے۔

    ” امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیِ قلب۔ سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہلِ امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے، لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کم یاب ہے، مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔”

    "انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں، سرد نہیں ہوئے۔ ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔”

    "میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا، میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔”

  • جرمن کمپنی کے بنائے ہوئے ریڈیو کا احسان!

    جرمن کمپنی کے بنائے ہوئے ریڈیو کا احسان!

    1939ء میں والد مرحوم نے ایک ریڈیو خریدا۔ جرمنی کی کمپنی ٹیلی فنکن کا بنا ہوا ریڈیو تھا۔

    جس روز آیا، اس سے اگلے روز اتوار تھا۔ صبح برآمدے میں ایک میز پر رکھا گیا، گھنڈی گھمائی گئی تو کسی اسٹیشن سے کوئی مرہٹہ بائی للت کا خیال گا رہی تھی۔ اوّل اوّل والد مرحوم خود ہی ارشاد فرماتے رہے کہ یہ پروگرام سنو، وہ چیز سنو۔ سوائے پکے راگ کے کوئی چیز سننے کی اجازت نہ تھی، چسکا لگنے میں دیر نہ لگی۔

    چند مہینوں میں سب فن کاروں اور جھنکاروں سے آشنائی ہو گئی۔ بائیوں اور بھائیوں کے نام یاد ہو گئے۔ مہینے میں دو بار آل انڈیا ریڈیو کے
    پروگرام کا رسالہ آتا تھا، اس کے آتے ہی ہم سب بھائی بہن اس کے ایک ایک صفحے پر نظریں دوڑا کر خاص پروگراموں پر نشان لگا دیتے تھے اور پھر التزام کے ساتھ سب نفائس الانفاس سنے جاتے تھے۔

    1939ء سے 1949ء تک یعنی دس سال دلّی، بمبئی، لاہور اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں سے جتنی استادانہ موسیقی نشر ہوئی، بیش تَر خاکسار نے کان لگا کر سنی۔ سال میں تین سو چونسٹھ دن ہوتے ہیں، اگر میں کہوں کہ ہر معروف راگ کو میں نے سیکڑوں مرتبہ سنا تو مبالغہ نہ ہو گا۔

    ایک ہی راگ کو مختلف گھرانوں کی مردانہ اور زنانہ گائیکی میں بار بار سنا اور پھر اسی کو ستار، بین، سارنگی، شہنائی اور بانسری پر سننا نصیب ہوا۔ اس طرح باغ و راغ کی روشوں کا نقشہ سامنے آ گیا اور ساٹھ ستّر راگ بخوبی رگ و پے میں بس گئے۔

    دس سال کے اس زمانے میں جو اچھی تان راقم نے سنی، اس کی نقل کی کوشش ضرور کی۔ گھرانہ دار گویّوں کے ہاں یہ ضابطہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن میں گھرانے سے باہر کے کلا کاروں کا گانا بجانا سننے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ اسلوب خلط ملط ہونے سے بچا رہے۔ گھرانوں کی موسیقی کا اپنا اپنا مزاج ہے۔ ایک ہنڈیا کے مسالے دوسری ہنڈیا کے لیے نہیں ہیں۔

    خاکسار پر ایسی پابندی نہیں تھی، روشن آرا کا شنکرا پسند آیا تو اس کی نقل میں لگ گیا۔ پٹور دھن سے سوہنی کا خیال سنا تو اس کو قابو کرنے کی دھن ہوئی۔ استاد فیاض خاں کا الاپ سنا تو ان کی نوم قوم فتح کرنے پر تل گیا، حتیٰ کہ منہ سے ستار کی آواز نکالنے کی کوشش بھی کی۔

    ماڈل ٹاؤن کے آس پاس جنگل تھا اور اس سے آگے نکل کر پنڈی، کوٹ لکھپت اور رسولپورہ یہ گاؤں تھے۔ ان کے کھیتوں کے درمیان سات آٹھ میل روز کی سیر میرا معمول تھا۔ مسلسل راگ گا گا کر سیر کرتا تھا۔ طبلے کی سنگت کا یہ انتظام تھا کہ دائیں کا کام داہنے ہاتھ کی چٹکی سے اور بائیں کی گمک بائیں ہتھیلی کو سینے پر مار کر۔ اس سے ثابت ہوا کہ چھاتی پیٹنا صرف نوحہ خوانی سے مخصوص نہیں، اس سے لے کاری کا کام بھی نکل سکتا ہے۔

    مختلف گھرانوں کے متفرّق گانوں کی نقل سے گھرانوں کے لطائف کا شعور پیدا ہوا۔ استاد فیّاض خاں کے گھرانے کی جیت رہی۔

    ایک تفریحی شغل کے طور پر سنگیت کا جو مزہ ہم نے لیا، اس میں یک گونہ آزادی رہی۔ پھر یہ کہ زندگی کے مشاغل میں بھی تنوع رہا۔ راگ سے روٹی کمانی نہ پڑی۔ راگ وسیلۂ فرحت ہی رہا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر، ماہرِ موسیقی، محقق و مترجم داؤد رہبر کی زندگی کا ایک ورق)