Tag: داستانوی ادب

  • تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    تکلی کی کہانی (ہندوستانی لوک ادب سے انتخاب)

    سورگ میں ایک دیوی رہتی تھی۔ اس کا نام پھرکی تھا۔ وہ بُنائی کا کام اتنی ہوشیاری سے کرتی تھی کہ کچھ نہ پوچھیے۔ جس وقت ہاتھ میں تیلیاں لے کر بیٹھتی تھی بات کی بات میں بڑھیا سے بڑھیا سوئٹر، بنیان، مفلر وغیرہ بُن کر رکھ دیتی تھی۔ اس لئے دور دور تک اس کی تعریف ہو رہی تھی۔

    پھرکی کی شہرت ہوتے ہوتے رانی کے کانوں تک پہنچی۔ وہ اپنی تمام بچیوں کو بُنائی کا کام سکھانا چاہتی تھی اور بہت دن سے ایک ایسی ہی ہوشیار دیوی کی تلاش میں تھی۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا۔’’سنتی ہوں پھرکی بہت ہوشیاری سے بنائی کا کام کرتی ہے۔ کہو تو اسے بلا لوں۔ وہ یہیں رہے گی اور راج کماریوں کو بنائی سلائی سکھلایا کرے گی۔‘‘

    ایک سہیلی کچھ سوچ کر بولی۔’’اس بات کا کیا بھروسہ کہ سلائی بنائی کے کام میں اکیلی پھرکی ہی سب دیویوں سے زیادہ ہوشیار ہے۔ میری بات مانیے ایک جلسہ کر ڈالیے۔ جس میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سب دیویاں آئیں اور اپنا اپنا ہنر دکھائیں۔ جو سب سے بازی لے جائے وہی پہلا انعام پائے اور ہماری راج کماری کو بھی ہنر سکھائے۔‘‘

    رانی کو یہ صلاح بہت پسندآئی۔ اس نے فوراً جلسہ بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی دن سارے سورگ میں منادی کرا دی۔ ٹھیک وقت پر جلسے میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سیکڑوں دیویاں آپہنچیں اور لگیں اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھانے۔ آخر پھرکی بازی لے گئی۔ رانی نے سہیلیوں کی صلاح سے اسے ہی پہلا انعام دیا۔ پھر اس سے کہا۔’’بس اب تمہیں یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ آج سے تم میری سہیلی ہوئیں۔ مزے سے یہیں رہو اور راج کماری کو بنائی سلائی سکھایا کرو، سمجھیں؟ ‘‘

    اس طرح پھرکی کی قسمت جاگ اٹھی۔ وہ رانی پاس رہنے لگی۔ راج کماریاں ہر روز تیلیاں، سوت، کپڑا، قینچی، سوئی دھاگا وغیرہ لے کر اس کے پاس جا بیٹھتیں اور وہ انہیں بڑی محنت سے سلائی بنائی کا کام سکھایا کرتی۔ رانی اس کا کام دیکھتی تو بہت خوش ہوتی اور اسے ہمیشہ انعامات سے نوازا کرتی۔

    رفتہ رفتہ پھرکی مالا مال ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی۔’’رانی کی مہربانی ہے ہی۔ مال کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ سلائی بنائی کا کام بھی میں سب سے اچھا جانتی ہوں۔ اب سورگ میں ایسی کون سی دیوی ہے جو میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘ بس اس کا غرور جاگ اٹھا اور پھرکی کا دماغ پھر گیا۔ وہ اب اور تو اور رانی کی سہیلیوں سے بھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ پھرکی کا یہ سلوک رانی کی سہیلیوں کو بہت ناگوار گزرا۔ ایک دن انہوں نے رانی سے شکایت کی۔ ’’پھرکی کو تو آپ نے خوب سر چڑھایا ہے۔ اب تو وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتی۔ جب دیکھو غرور سے منہ پھلائے رہتی ہے۔ آپ ہی بتائیں۔ وہ اب ہمارے سورگ میں کس طرح رہ سکتی ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی رانی آگ بگولا ہو گئی۔ بولی۔ ’’ایسا! کہتی کیا ہو؟ پھرکی غرور کرنے لگی ہے۔ پھر تو وہ دیوی ہی نہیں رہی اور جو دیوی نہیں ہے وہ سورگ میں کب رہ سکتی ہے۔ میں ابھی اسے سزا دوں گی۔ ذرا اسے پکڑ تو لاؤ میرے سامنے۔‘‘

    فورا دو تین دیویاں دوڑی دوڑی گئیں اور پھرکی کو پکڑ لائیں۔ رانی نے اس پر غصے کی نگاہ ڈالی اور کہا۔ ’’کیوں ری پھرکی۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تو غرور کرنے لگی ہے؟ جانتی ہے غرور کرنے والے کو کیا سزا ملتی ہے؟ غرور کرنے والا فورا سورگ سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور تو اور غرور کرنے پر تو میں بھی سورگ میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں کا قانون یہی ہے۔‘‘

    پھرکی سہم کربولی، ’’اب تو غلطی ہو گئی۔ شریمتی جی! بس اس بار مجھے معاف کر دیجیے۔ پھر کبھی ایسی غلطی کروں تو آپ کی جوتی اور میرا سر۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’تیرے لیے قانون نہیں توڑا جا سکتا۔ تجھے ضرور سزا ملے گی اور سورگ چھوڑ کر زمین پر جانا ہی پڑے گا۔ ہاں میں اتنی مہربانی کر سکتی ہوں کہ تو جو شکل چاہے اسی شکل میں تجھے زمین پر بھیج دوں۔ بول تیری خواہش وہاں کس شکل میں جانے کی ہے؟‘‘ اسی وقت وہاں اچانک ایک فقیر آ پہنچا۔ وہ کپڑوں کی بجائے چغہ پہنے ہوئے تھا۔ اسے دیکھ کر سب دیویوں کو بہت تعجب ہوا۔ رانی نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ صورت تو آپ نے بہت عجیب بنا رکھی ہے۔ ہم نے تو آج تک ایسی عجیب و غریب صورت دیکھی ہی نہیں۔‘‘

    فقیر نے جواب دیا۔’’میں ایک معمولی انسان ہوں۔ زمین کا رہنے والا ہوں۔‘‘

    رانی نے کہا۔’’اچھا آپ انسان ہیں۔ زمین کے رہنے والے ہیں۔ انسان غرور کے پتلے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی سورگ میں نہیں آسکتے۔ بھلا آپ کس طرح یہاں آ پہنچے۔‘‘

    فقیر بولا۔’’میں نے غرور چھوڑ کر بہت دنوں تک تپ کیا ہے۔ اپنی ساری زندگی اپنے ہم وطنوں کی خدمت ہی میں بسر کی ہے۔ اسی لئے میں یہاں آ سکا ہوں۔‘‘

    رانی نے خوش ہو کر کہا۔’’پھر تو آپ بھلے آدمی ہیں۔ آپ سے مل کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتا مل کہیے۔‘‘

    فقیر بولا۔ ’’دیوی زمین پر رہنے والے انسان بہت دکھی ہیں۔ کپڑے پہننا بھی نہیں جانتے۔ وہ بے چارے اپنے جسم پر پتے لپیٹ لپیٹ کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی ایسی چیز دیجیے جس کے ذریعے سے وہ سوت کات سکیں۔ روئی تو زمین پر بہت ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں نے اس کا سوت نکال لیا وہاں کپڑے تیار ہوئے ہی سمجھیے۔‘‘

    رانی نے کہا ۔’’اچھا اچھا آپ تشریف تو رکھیے۔ بھگوان نے چاہا تو میں ابھی آپ کی خواہش پوری کیے دیتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے پھرکی سے پھر وہی سوال کیا۔’’ہاں پھر تو کس شکل میں زمین پر جانا چاہتی ہے؟‘‘

    پھرکی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر جوا ب دیا۔’’شریمتی جی! میں تو وہاں کسی بھی شکل میں نہیں جانا چاہتی۔ اگر آپ مجھے وہاں بھیجنا ہی چاہتی ہیں تو ایسی شکل میں بھیجیے جس سے میں سب انسانوں کی خدمت کر سکوں، ان کا دل بہلا سکوں اور ان سے عزت بھی پا سکوں۔‘‘

    رانی مسکرا کر بولی۔’’میں مانتی ہوں پھرکی تو سچ مچ بہت ہوشیار ہے۔ تُو نے ایک ساتھ تین ایسی بڑی بڑی باتیں مانگی ہیں جن سے تو زمین پر بھی ہمیشہ دیوی بن کر رہے گی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں تجھے ابھی ایسی شکل دیتی ہوں جس سے تیری خواہش پوری ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی۔‘‘ یہ کہہ کر رانی نے چلّو میں تھوڑا سا پانی لیا اور کچھ منتر پڑھ کر پھرکی پر چھڑک دیا۔ پھر کیا تھا۔ پھرکی فوراً تکلی بن کر کھٹ سے گر پڑی۔ رانی نے جھپٹ کر وہ تکلی اٹھالی اور فقیر کو دے دی۔ فقیر نے تکلی لیتے ہوئے پوچھا- ’’اس کا کیا ہوگا دیوی؟ یہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔‘‘

    رانی نے جواب دیا۔ ’’چیز چھوٹی تو ضرور ہے۔ لیکن اس سے لوگوں کا بہت بڑا کام نکلے گا۔ اس کے ذریعے سے ان کو سوت ملے گا جس سے کپڑے بُنے جائیں گے۔ بچوں کو یہ کھلونے کا کام دے گی اور فرصت کے وقت سیانوں کا دل بہلایا کرے گی۔ وہ چاہیں گے تو آپس میں کھیلتے کھیلتے یا گپ شپ کرتے ہوئے بھی اس کے ذریعے سوت نکالتے رہیں گے، ابھی لے جائیے۔‘‘

    کہتے ہیں اسی تکلی سے انسان نے کاتنا سیکھا اور تکلی کی ترقی کے ساتھ ہی تہذیب کی ترقی ہوئی۔

    (مدھیہ پردیش کی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • جب شیر اڑ سکتا تھا!

    جب شیر اڑ سکتا تھا!

    کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں شیر اڑ سکتا تھا۔ اور اس وقت کوئی بھی شے اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔

    وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کی ہڈیوں کو توڑے۔ وہ ان کے ڈھانچے جوں کے توں رکھنا چاہتا تھا ( وہ اسی طرح اپنی اڑنے کی صلاحیت برقرار رکھ سکتا تھا)۔ لہٰذا اس نے ان کی رکھوالی کے لیے دو سفید کوؤں کا ایک جوڑا بنایا۔ انہیں، اس نے ہڈیوں کے گرد بنائے گئے حصار کی دیوار پر بٹھایا اور خود شکار کرنے کے لیے نکل گیا۔

    اب یہ اس کا معمول بن چکا تھا، لیکن ایک دن بڑا مینڈک ادھر آن پہنچا۔ اس نے تمام ہڈیوں کو ٹکڑے کر دیا، ’’آدمی اور جانور زیادہ زندہ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ اس نے کوؤں سے کہا، ’’جب وہ آئے تو اسے یہ بھی کہنا کہ میں ادھر جوہڑ کے کنارے رہتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو پھر اسے خود وہاں آنا ہو گا۔‘‘

    ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لیے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصّے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہٰذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    ’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔

    ’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘

    شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا، لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔

    کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوّے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘

    کیا تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟

    (افریقی لوک ادب سے انتخاب)

  • قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    جنوبی ہندوستان کی سلطنتِ گولکنڈہ اور قطب شاہی خاندان کے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔

    وہ 1565ء میں‌ پیدا ہوا اور اس سلطنت کا پانچواں حکم راں تھا جس نے بعد میں شہر حیدرآباد دکن بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    اسی قلی قطب شاہ کے عشق کی کہانی بھی مشہور ہے جس کی حقیقت میں مؤرخین کا اختلاف ایک طرف، مگر یہ لوک گیتوں اور کہانیوں کا حصّہ ہے۔

    کہتے ہیں محمد قلی قطب شاہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کو اس سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ رکا۔

    مشہور ہے کہ ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے بپھرے ہوئے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو پدرانہ شفقت اور محبت نے جوش مارا اور حکم دیا کہ دریائے موسیٰ پر پُل تعمیر کردیا جائے۔ غالباً یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے گزر کر شہزادہ اپنی محبوبہ سے ملنے جاتا تھا۔

    بالآخر وہ وقت آیا جب محمد قلی قطب شاہ سلطان بنا اور اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کہتے ہیں اس کا نام ‘بھاگ متی’ تھا، جسے سلطان نے ‘قطبِ مشتری’ کے خطاب سے سرفراز کیا۔

    ادبی مؤرخین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ جس لڑکی (بھاگ متی) کی محبّت میں‌ گرفتار ہوا تھا، وہ رقص و موسیقی میں کمال رکھتی تھی۔ اسی کے نام پر بادشاہ نے شہر ‘بھاگ نگر’ بسایا تھا جسے بعد میں حیدر آباد کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بھاگ متی کو حیدر محل کہا جانے لگا تھا۔

    سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبّت کی داستان کو بعض مؤرخین نے من گھڑت داستان اور افسانہ لکھا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے قبولِ اسلام اور سلطان سے نکاح کے بعد ملکہ بن جانے پر بھی بحث کی جاتی ہے۔

    شہر حیدرآباد کی وجہِ تسمیہ وہ خطاب بتایا جاتا ہے جو قطبِ‌ مشتری سے ‘حیدر محل’ ہوگیا تھا، تاہم اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن سلطان اور محبوبہ سے محرم بننے تک بھاگ متی داستانوی ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔