Tag: داستان گوئی

  • قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹ سیڑھیاں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستانِ امیر حمزہ کہتا ہے۔ کسی طرف قصہ حاتم طائی اور کہیں بوستان خیال ہوتی ہے اور صد ہا آدمی اس کے سننے کو جمع ہوتے ہیں۔‘‘
    (آثارُ الصنادید۔ سرسید احمد خان)

    دلّی والوں کو قصہ کہنے اور سننے کا یہ چسکا کچھ سر سید ہی کے زمانے میں نہ تھا، بلکہ محمد شاہی عہد میں بھی ان کا یہی عالم تھا۔ خواجہ بدرالدّین امان دہلوی بوستانِ خیال کے مترجم حدایق الانضار کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اتفاقاً جہاں میر محمد تقی خیال (مصنف بوستان خیال) فروکش تھا، قریب مکان کے ایک نشست گاہ میں چند اشخاص جمع ہوتے تھے اور ایک قصہ گو ان کے روبرو امیر حمزہ کا جو تمام جہان میں مشہور ہے، بیان کیا کرتا تھا۔‘‘

    قصہ گوئی کی یہ عادت دنیا کی ہر تہذیب اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ارسطو نے آدمی کو سیاسی حیوان اور حیوان ناطق ایسے نام دیے، وہاں اسے ایک نام قصہ گو کا بھی دینا چاہیے۔ گویا قصہ کہنے پر وہ مختار ہی نہیں بلکہ مجبور بھی ہے۔ وہ اپنی نفسیات کے دفینے اور اپنے مستقبل کے خواب کو انہی قصوں کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ خواہ وہ قصّے دیوی دیوتا، جن و پری، وحوش و طیور کے ہوں یا اشجع پاستاں اور ہمارے آپ کے ایسے چلتے پھرتے انسانوں کے۔ یہ سارے اقسام قصص کے اس ایک مظہر کی مختلف صورتیں ہیں کہ جن نعمتوں سے ہمیں زندگی میں محروم کیا جاتا ہے، ہم ان کے حصول کی آرزو اپنے خوابوں کی دنیا میں کرتے ہیں۔ باتیں ساری عالم کی ہی ہوتی ہیں، صرف ان کا اعادہ عالمِ خواب میں کیا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ قصہ گو جس قدر بے خود و بے ہوش اور خواب میں ڈوبا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ وحدت زماں یا قومی تاریخ کی وحدت کا احساس رکھتا ہے۔

    لیکن چوں کہ قصہ صرف قومی یا انفرادی نفسیات ہی کی ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ انسانی تجربات کے نچوڑ، تصورِ حیات و کائنات کی ترسیل کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس لئے یہ عالمِ بے داری کی بھی ایک شے ہے۔ وہ ایک مخصوص عہد کے ایک مخصوص معاشرے کے شعور کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ اس شعور کی نوعیت اور اس کی سطح کیا ہے؟ مظاہرِ فطرت کو دیوی دیوتاؤں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے یا ان سے جدا کر کے ان کے اسباب و حل پر غور کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تاریخی اور اضافی ہیں۔ اس سے اس بات پر حرف نہیں آتا کہ آدمی فطرتاً قصہ گو واقع ہوا ہے۔ وہ حقیقت کو خواہ وہ عالمِ خواب کی ہو یا عالمِ بے داری کی، زندگی کی ہو یا بعد زندگی کی، ٹھوس اور محسوس صورتوں میں متصور کرنے کا عادی رہا ہے، عادی ہے اور غالباً رہے گا۔

    قصہ گوئی زندگی سے فرار اختیار کرنے کا نہیں بلکہ زندگی سے دست و گریباں رہنے کا ایک مقصدی مشغلہ ہے۔ ہم زندگی میں جن طاقتوں سے ہار جاتے ہیں انہیں خواب میں یا ان قصوں میں مفتوح کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کی آرزو میں مرتے ہیں، ان کی تحصیل کا خواب انہی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کا یہ صرف ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جو نشیب و فراز، امتداد سن و سال کے آتے ہیں، ان سے مساعدت اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم اور بقدرِ حوصلہ مبدا و معاد کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہم ان کہانیوں کے ذریعے لیتے آئے ہیں۔ زندگی کی اس عظیم خدمت کو جو ہم ان کہانیوں سے لیتے آئے ہیں کیوں کر فرار اور عیش کوشی سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قصہ کہنے کے لیے فراغت درکار ہے اور اس کے سننے کے لئے شاید اس سے زیادہ فراغت چاہیے اور یہ فراغت اسی وقت ملتی ہے جب کہ معاشی خوش حالی ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد ہی تفریح ہے، جیسا کہ مرزا غالب نے ازراہ تفنن طبع کہا ہے، ’’داستان گوئی من جملہ فنونِ سخن ہے۔ سچ ہے دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔‘‘

    تفریح تو اس کا صرف ایک پہلو ہے، جیسا کہ کسی بھی مقصد کی تعمیل میں پایا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ مقصد بہ حسنِ تمام پورا ہو۔ مقصد اور ادائے مقصد کا اتحا د ہی کسی عمل کو فن کارانہ عمل میں تبدیل کرتا ہے، حسن ان دونوں کے اتحادِ کامل سے نمو پاتا ہے۔ نہ کہ وہ پہلے سے کہیں موجود رہتا ہے۔ تبھی تو ہمارے شعرا دستِ قاتل کی اداکاری کی بھی داد دیتے رہے ہیں۔ ع: نظر لگے نہ کہیں ان کے دستِ بازو کو۔

    پھر بھی وہی فرماتے ہیں کہ یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔ شاید اس لیے کہ ہمارا یہ فن ان کے زمانے میں زندگی کے مقاصد سے اپنا رشتہ توڑ رہا تھا۔ لیکن ہم ان کی یہ بات اس دور کی داستان کے بارے میں کیوں کر سچ مانیں، جب کہ ہمارے فن اور ہماری زندگی کے مقاصد کے درمیان ایک گہرا رشتہ تھا۔ میں نے قصہ چہار درویش کو اسی نقطۂ نظر اور اسی زمانے کے پس منظر میں دیکھا ہے، لیکن اس سے اس حقیقت پر پردہ نہیں پڑتا ہے کہ غالب کے زمانے سے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب سے سر سیّد احمد خاں نے سوپر نیچرل کو نیچرل کے میدان سے خارج کر دیا، داستان گوئی جس میں سوپر نیچر کا ذکر لازمی طور سے ہوتا، ہمارے لیے صرف دل بہلانے کا ایک فن رہ گیا تھا اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ہم معذرت خواہ ہوں۔

    زندگی کے ارتقائی تغیرات میں نہ صرف زندگی کے مقاصد بدلتے رہتے ہیں بلکہ حصول مقاصد کے ذرائع بھی بدلتے رہتے ہیں۔ سرسید کے نیچری عہد میں داستانوں نے ناول اور مختصر کہانیوں کے لیے جگہ خالی کی، جن میں اب ہم نیچرل دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اس سے داستانوں سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے برعکس کچھ زیادہ بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ اب ہم ان داستانوں کی جذباتی اور داخلی گرفت سے آزاد ہو گئے ہیں۔ آج ان کا تجزیہ ہم خارجی انداز سے کرنے پر زیادہ قادر ہیں اور جس طرح کہ ایک بالغ آدمی اپنے بچپن کے تجربوں کے اعادے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہوتا ہے، اسی طرح اس عہد کا بالغ آدمی بھی، ان داستانوں کے مطالعے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے طریقِ فکر کی بدلتی ہوئی صورت کو دیکھ کر ازمنہ قدیم کے طریقِ فکر کو سمجھنے پر زیادہ سے زیادہ قادر ہو سکتا ہے اور اس طرح انسانی نفسیات کے مطالعے میں زیادہ گہرائی اور بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔

    (اردو کے ترقی پسند نقاد اور محقق ممتاز حسین کے مضمون سے اقتباسات)

  • ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے پاکستانی ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے کئی سفر کی داستان ہے۔

    اس دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں بھی لکھا ہے میر باقر علی کو دہلی کا سحر طراز داستان گو کہا جاتا ہے جنھیں‌ زبان و بیان پر غضب کی قدرت تھی۔ داستان سناتے تو سماں باندھ دیتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:

    ان (میر باقر علی) کی داستانِ حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلّی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔

    آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلّی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزّت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلّی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔

    اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب، ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کر دی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلّی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلّی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

    انتظار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ(سروتا) چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلّی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

  • قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    جنوبی ہندوستان کی سلطنتِ گولکنڈہ اور قطب شاہی خاندان کے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔

    وہ 1565ء میں‌ پیدا ہوا اور اس سلطنت کا پانچواں حکم راں تھا جس نے بعد میں شہر حیدرآباد دکن بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    اسی قلی قطب شاہ کے عشق کی کہانی بھی مشہور ہے جس کی حقیقت میں مؤرخین کا اختلاف ایک طرف، مگر یہ لوک گیتوں اور کہانیوں کا حصّہ ہے۔

    کہتے ہیں محمد قلی قطب شاہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کو اس سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ رکا۔

    مشہور ہے کہ ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے بپھرے ہوئے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو پدرانہ شفقت اور محبت نے جوش مارا اور حکم دیا کہ دریائے موسیٰ پر پُل تعمیر کردیا جائے۔ غالباً یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے گزر کر شہزادہ اپنی محبوبہ سے ملنے جاتا تھا۔

    بالآخر وہ وقت آیا جب محمد قلی قطب شاہ سلطان بنا اور اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کہتے ہیں اس کا نام ‘بھاگ متی’ تھا، جسے سلطان نے ‘قطبِ مشتری’ کے خطاب سے سرفراز کیا۔

    ادبی مؤرخین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ جس لڑکی (بھاگ متی) کی محبّت میں‌ گرفتار ہوا تھا، وہ رقص و موسیقی میں کمال رکھتی تھی۔ اسی کے نام پر بادشاہ نے شہر ‘بھاگ نگر’ بسایا تھا جسے بعد میں حیدر آباد کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بھاگ متی کو حیدر محل کہا جانے لگا تھا۔

    سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبّت کی داستان کو بعض مؤرخین نے من گھڑت داستان اور افسانہ لکھا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے قبولِ اسلام اور سلطان سے نکاح کے بعد ملکہ بن جانے پر بھی بحث کی جاتی ہے۔

    شہر حیدرآباد کی وجہِ تسمیہ وہ خطاب بتایا جاتا ہے جو قطبِ‌ مشتری سے ‘حیدر محل’ ہوگیا تھا، تاہم اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن سلطان اور محبوبہ سے محرم بننے تک بھاگ متی داستانوی ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔

  • لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    لال قلعہ کی جھلکِ ظرافت آمیز

    بہادر شاہ ابو ظفر کے عہد میں غدر سے پہلے دو داستان گو شہر میں مشہور تھے۔ بڑے عبداللہ خاں اور چھوٹے عبد اللہ خاں۔ دونوں کے دونوں اپنے فن میں کامل تھے۔

    بڑے عبداللہ خاں اکثر حضورِ والا کو داستان سناتے تھے اور حضورِ والا پسند فرماتے تھے۔ میر کاظم علی دہلوی جو داستان گوئی میں فرد تھے، انہی کے شاگرد تھے اور میر باقر علی دہلوی انہی اپنے ماموں میر کاظم علی صاحب کے داستان میں شاگردِ بے نظیر تھے، جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔

    رات کا وقت تھا۔ حضورِ والا چھپر کھٹ پر لیٹے تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں صاحب چھپر کھٹ کے پاس بیٹھے تھے۔ عبداللہ خاں نے حسبِ دستور داستان شروع کرنے سے پہلے یہ لطیفہ بیان کیا کہ امر گڑھ کے قلعہ کے پاس چوک میں دو مسافر یوں بات چیت کر رہے تھے۔

    ’’آپ کی وضع سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں! میں لکھنؤ کا باشندہ ہوں۔ مگر آپ کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دہلی والے ہیں۔‘‘

    ’’بیشک میں دہلی رہتا ہوں۔ لکھنوی صاحب! یہ تو فرمائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    لکھنوی: میں امیروں کو میٹھی میٹھی باتیں سناتا ہوں۔ آپ کیا شغل رکھتے ہیں؟

    دہلوی: میں بات میں رفو کرتا ہوں۔

    لکھنوی: ہم تم اس راجہ کے دربار میں چلیں اور اپنا ہنر دکھائیں۔

    دونوں کی سرِشام راجہ تک پہنچ ہوگئی۔ راجہ نے کہا، ’’کچھ بیان کرو۔‘‘

    لکھنوی: حضور یہ فدوی آج ہی آپ کے شہر میں داخل ہوا ہے۔ شہر سے ملی ہوئی ندی جو بہتی ہے اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی تھا۔ اتفاقاً ایک بیل ندی میں اترا، اس کا پاؤں پانی میں پھسلا۔ گرا اور گرتے ہی بھسم ہوگیا اور ا س کا ریشہ ریشہ پانی میں بہہ گیا۔

    راجہ: یہ بات سمجھ میں نہیں آئی!

    دہلوی: حضور ان کا کہنا سچ ہے۔ بیل کی بیٹھ پر سوکھا چونا لدا ہوا تھا۔ بیل کے گرتے ہی چونا بجھا اور بیل کو گلا کر اس کی بوٹی بوٹی کردی۔

    راجہ اس حاضر جوابی سے بہت خوش ہوا اور دونوں کو پچاس روپیہ دے کر رخصت کیا۔ راجہ کے محل سے نکل کر لکھنؤ والے نے دہلی والے سے کہا،

    ’’کل پھر ہم تم مل کر راجہ کے یہاں چلیں گے۔‘‘

    دہلی والے بولے میں تمہاری بات میں رفو نہیں کرسکتا۔ تم بے تکی باتیں بناتے ہو۔ کجا سوکھی ندی میں بیل کا گرنا اور کجا اس کا بھسم ہوجانا وہ تو مجھے سوجھ گئی اور بات میں رفو ہوگیا۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب اور شاعر ناصر نذیر فراق دہلوی کے مضمون سے انتخاب)

  • مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    عبدالحلیم شرر کا مقبول ترین ناول "فردوسِ بریں” تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح کے نام سے جانتے ہیں۔

    شرر کو ان کی تاریخی داستان اور ‌ناولوں کی وجہ سے خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔

    یہاں‌ہم ان کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں یہ 1899 میں شایع ہوا تھا اور حسن بن صباح وہ کردار ہے جس کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنّت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا۔ اس ناول میں‌ شرر نے اسی جنت کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔

    اس ناول کو جہاں‌ اردو قارئین نے بہت شوق سے پڑھا اور اس کا چرچا ہوا، وہیں‌ شرر کا نام مغرب اور یورپ تک بھی پہنچا۔

    اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کے علاوہ پچھلے چند برسوں‌ میں یورپ میں اس ناول کی کہانی کو تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ اس ناول کے دو پارے آپ کی توجہ کے لیے پیش ہیں جو شرر کی خوب صورت نثر اور ان کے فنِ ناول نگاری کا نمونہ ہیں۔

    "حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔”

    "لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔”

    عبدالحلیم شرر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور جب تاریخی ناول نگاری کی طرف توجہ دی تو اپنے ناولوں کے ذریعے مغرب کی اسلام دشمنی اور بیزاری کا خوب جواب دیا۔ وہ اصلاحی اور بامقصد تخلیق کے قائل تھے۔

    فردوسِ بریں کو ایک تخلیقی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد دوسرے ناول اور ڈرامے بھی پسند کیے گئے۔