Tag: داغ دہلوی

  • داغ دہلوی: قلعۂ معلّیٰ میں پروان چڑھنے والا شاعر اور ایک عاشقِ زار

    داغ دہلوی: قلعۂ معلّیٰ میں پروان چڑھنے والا شاعر اور ایک عاشقِ زار

    نواب مرزا خاں کا تخلّص داغ تھا اور فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب سے نوازے گئے داغ دہلوی صرف استاد شاعر ہی نہ تھے بلکہ فکر و معنویت کے ساتھ زبان و بیان پر کامل عبور رکھتے تھے۔

    داغ کا کلام، خطوط اور ان کے عشق بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنے دور کی مغنّیاؤں اور طوائفوں سے نہ صرف دل لگایا بلکہ خط لکھ کر ان سے اپنے دل کا حال بیان کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ داغ کے ہزاروں شاگرد تھے اور ان میں سے کئی شاگرد تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں فکر و فن کی آبرو تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان شاگردو‌ں میں والیانِ ریاست اور نواب و امراء بھی شامل ہیں۔

    داغ کے کلام میں روزمرہ تیکھا پن، محادورے کی چاشنی، شوخی، حلاوت اور نزاکت سبھی کچھ موجود ہے۔ زباں دانی اور محاورہ تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔

    وہ لوہارو کے ایک رئیس شمس الدین خان کے بیٹے تھے۔ 25 مئی 1831ء کو داغ دلّی کے مشہور محلّہ چاندنی چوک میں پیدا ہوئے۔ غدر کے ہنگامے میں ان کے والد کو ایک انگریز ایجنٹ کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی اور تب داغ اپنے رشتہ دار کے ساتھ رام پور چلے گئے جہاں مولوی غیاث الدّین سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی والدہ جب بہادر شاہ کے ولی عہد مرزا فخرو سے وابستہ ہوگئیں تو اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئیں‌ اور قلعہ معلّیٰ میں داغ نے تعلیم و تربیت پائی۔ قلعہ معلّیٰ میں زبان و ادب کی فضا میں داغ کو مطالعہ کا شوق بھی ہوا اور آسودہ حالی نے شاعری کا سلسلہ بھی نکھارا۔ عبدالمجید قریشی اپنی تصنیف "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” میں لکھتے ہیں کہ داغ کی چار پانچ الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں‌۔ کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔ اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

    شعرائے متاخرین میں داغؔ کا مرتبہ نہایت بلند اور وہ اس دور کے اہم شاعر ہیں۔ داغ دہلوی نے قلعۂ معلّی کی ٹکسالی زبان میں شاعری کی اور اردو غزل کو بوجھل تراکیب اور بھاری بندشوں سے نکال کر سلاست اور روانی سے اس طور سجایا کہ آج بھی ان کا نام زندہ ہے۔ ان کا کلام سننے والے کے دل میں ایک کیفیت پیدا کر دیتا ہے جسے تاثیرِ سخن کہا جاتا ہے۔ گو وہ آتشؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے ہم پلہ نہ ہوسکے لیکن ان کے شاعرِ خداداد ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو شعر ان کی زبان سے نکلا پر اثر ہے۔ ان کا تمام کلام ان کی طبیعت کے قدرتی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

    داغ حقیقت پسند تھے، حسن پرست بھی تھے اور عاشق بامراد بھی! ان کی حسن پرستی اور ان کے عشق کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ یہاں ہم مخمور سعیدی کے ایک مضمون سے داغ کے عشق کے چند مشہور قصّے نقل کررہے ہیں۔ داغ کا منی بائی حجاب پر مر مٹنا بہت مشہور ہے۔

    "زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔”

    "حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسّے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔”

    "داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔”

    "دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انہوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے ورودِ حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟”

    "داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔”
    (بحوالہ: داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 56)

    "حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہو گی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا: "حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔” (از خطوطِ داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)

    "حجاب حیدر آباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلٰوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد و وظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھا تھا، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے: "کوئی 40، 45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا، پتلے پتلے لب، میانہ قد، اونچی پیشانی، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی۔ پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔”(بحوالہ: نگار، جنوری 1953ء)

    حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ "جب تک نکاح نہیں کر لوں گی، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لیے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔”

    داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرما رہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔” (مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)

    لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جا نماز اور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ”جب تک تمہارے اورادو وظائف نہیں چھوٹیں گے، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہوسکتیں۔”

    حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں۔ ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہو کر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔

    تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ” میں لکھتے ہیں:
    "یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبۂ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کار فرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزّت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔”

    لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔”

    مرزا فخرو کے انتقال کرنے کے بعد داغ اور ان کی والدہ کو قلعۂ معلّیٰ‌ چھوڑنا پڑا تھا۔ داغ تو حیدرآباد دکن کے ہوگئے اور وہیں وفات پائی۔ ان کے انتقال کا مہینہ 17 مارچ اور اکثر نے 16 فروری لکھا ہے۔ لیکن سنہ 1905ء تھا۔ داغ نے حضور نظام (دکن) سے وظیفہ بھی پایا اور وہاں‌ ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ دکن کی مشہور تاریخی مکّہ مسجد میں‌ داغ کا جنازہ پڑھا گیا تھا۔

    داغ کو مختلف نواب اور امراء کے علاوہ ریاستوں کی جانب سے وظیفہ ملا۔ ایسی ہی عنایت اور بخشش کا ایک بڑا دل چسپ واقعہ صدق جائسی نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    "سرکار مرحوم ایک وسیع میدان میں کرسی پر رونق افروز تھے۔ اسٹاف کے تمام امرا دست بستہ دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔

    چابک سوار شاہی اصطبل کے گھوڑوں پر شہ سواری کے کمالات دکھا رہے تھے۔ سرکار مرحوم بہ نگاہ غور ایک ایک کے ہنر کو ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ایک سرکش گھوڑا اپنے چابک سوار کو بہت تنگ کر رہا تھا۔ چابک سوار اپنے فن میں ایسا ماہر تھا کہ میخ کی طرح اس کی پیٹھ پر جما بیٹھا تھا۔

    یکایک سرکار مرحوم داغ کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا۔

    ”کیوں داغ! تم بھی کبھی گھوڑے پر بیٹھے ہو؟“

    انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ ”جوانی میں خانہ زاد بیٹھا ضرور ہے، مگر اس کو مدتیں گزریں، زمانہ ہوگیا۔“

    ارشاد ہوا۔ ”اچھا آج ہمیں اپنی شہ سواری دکھاﺅ۔“

    داغ نے عرض کیا، ”بہت خوب“

    سرکار کے اشارے پر وہی بدلگام سرکش گھوڑا حاضر کیا گیا، بے چارے داغ صاحب ﷲ کا نام لے کر سوار ہوئے۔

    ادھر انھوں نے باگ ہاتھ میں لی، اُدھر سرکار کے اشارے پر چابک سوار نے گھوڑے کو چابک رسید کی۔ چشمِ زدن میں داغ صاحب زمین پر قلابازیاں کھا رہے تھے اور گھوڑا تھا کہ آندھی کی طرح جنگل کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔

    پہلے داغ صاحب اٹھائے گئے، پھر سولہ چابک سوار اپنے گھوڑوں پر اس کے تعاقب میں جنگل کی طرف بھاگے، داغ صاحب کے چوٹ نہ آئی تھی، گرد جھاڑ کر سرکار مرحوم کے سامنے حاضر ہوئے، سرکار کا ہنسی کے مارے بُرا حال تھا۔

    جب خوب جی بھر کے ہنس چکے تو فرمایا۔

    ”تم بہت اچھا سوار ہوئے، میں تمہیں چابک سواروں کا افسر مقرر کروں گا۔“ داغ صاحب آداب بجا لائے۔

    پوچھا، ”ہماری ریاست میں کتنے دن سے ہو؟“

    انھوں نے عرض کیا۔ ”دس سال سے۔“

    سرکار نے مہا راجا بہادر (مہا راجا سرکشن پرشاد) کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر سَر جھکایا۔

    ارشاد ہوا، ”ہم نے داغ کو ایک ہزار ماہانہ پر شاعرِ دربار مقرر کیا۔ ان کی دس برس کی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ابھی ابھی ان کو دے دو۔“ یہ حکم دے کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔

    دوسرے دن بارہ بجے سارے شہر نے دیکھا کہ بنڈیوں (چھکڑوں) پر داغ صاحب کی دس سال کی تنخواہ لدی ہوئی پولیس کے دستے کی حفاظت میں داغ کے گھر جارہی ہے۔”

  • جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    جب داغ کی محبوب طوائف صوم و صلٰوۃ کی پابند ہوئی!

    زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔

    حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسّے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔

    داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔

    دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انہوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے ورودِ حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟

    یہ بھی پڑھیے:

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔
    (داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 56)

    حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہو گی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا: "حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔”
    (خطوطِ داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)

    حجاب حیدر آباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلٰوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد و وظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھا تھا، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے: "کوئی 40، 45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا، پتلے پتلے لب، میانہ قد، اونچی پیشانی، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی۔ پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔”
    (بحوالہ: نگار، جنوری 1953ء)

    حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ "جب تک نکاح نہیں کر لوں گی، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لیے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔”

    داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرمارہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔” (مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)

    لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جا نماز اور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ”جب تک تمہارے اورادو وظائف نہیں چھوٹیں گے، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہوسکتیں۔”

    حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں۔ ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہو کر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔

    تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ” میں لکھتے ہیں:
    "یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبۂ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کارفرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزّت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔”

    لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔

    حجاب اگست 1904ء میں داغ سے خفا ہو کر کلکتے واپس چلی گئی تھی۔ اس کے جانے کے لگ بھگ سات مہینے بعد 16 فروری 1905ء کو داغ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

    (بلبلِ ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ نے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعۂ معلّیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی، وہ حسن پرست اور رنگین مزاج تھے، یہ اقتباسات اس استاد شاعر سے متعلق مخمور سعیدی کی کتاب کے ایک مضمون سے لیے گئے ہیں)

  • داغ کا رام پور

    داغ کا رام پور

    انسان کی طرح شہروں کی بھی ایک شخصیت ہوتی ہے جس سے شہر امتیاز حاصل کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں گھر بناتا ہے۔

    دہلی کے ابتدائی دور کے شاعر مضمونؔ نے کہا تھا…

    دل لیا مضمونؔ کا دلّی نے چھین
    جا کہو کوئی محمد شاہ سوں

    اور حالیؔ نے اسی شہر کی محبت میں وطن کو بھلا دیا:

    حالیؔ بس اب یقین ہے دلّی کے ہو رہے
    ہے ذرّہ ذرّہ مہر فزا اس دیار کا

    نظیرؔ اکبرآبادی آگرہ کی زلفوں میں اسیر تھے۔ امیرؔ مینائی اور بہت سے دوسرے شعرا لکھنؤ پر جان دیتے تھے۔ ریاضؔ خیرآبادی کو گورکھپور پسند تھا۔ اس طرح بعض مقامات بعض شاعروں کے تصور کو مہمیز کرنے اور ان کی جذباتی زندگی کا مرکز بن جانے کی وجہ سے شعر و ادب کی دنیا میں بھی احترام کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اگر اس حیثیت سے دیکھا جائے تو داغؔ کا تعلق رام پور سے جذباتی نہ تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور رام پور اور حیدرآباد میں ملازمت کی اور کلکتہ ان کے جذبات کا مرکز بنا۔ اس طرح ان کا واسطہ دہلی، رام پور، کلکتہ اور حیدرآباد چار شہروں سے رہا۔

    بچپن کا کچھ حصہ نواب یوسف علی کے عہد میں دارُالسّرور رام پور میں بسر ہوا۔ حالانکہ رام پور اس وقت اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے اپنی دل کشی اور رنگینی کے لحاظ سے دارُالسرور نہیں بنا تھا۔ پھر بھی داغ کا بچپن فراغت سے بسر ہوا۔ پھر جب داغؔ کی ماں چھوٹی بیگم مغل ولی عہد سے شادی کرکے دہلی کے لال قلعہ میں داخل ہو گئیں تو داغؔ بھی شہزادوں کی زندگی گزارنے لگے اور 1857 کے انقلاب تک کم وبیش یہی حالت رہی۔ انقلاب کے بعد دہلی کی تباہی پر داغؔ نے جو شہر آشوب لکھا ہے وہ دہلی سے ان کی وابستگی کا کھلا ہوا نشان ہے۔ لیکن جب وہاں قیام کا ٹھکانا ہی نہ رہا تو داغؔ نے بھی ایک ذریعہ تلاش کر کے رام پور کی راہ لی۔

    وہ اس شہر سے پہلے ہی مانوس تھے حالانکہ اب بہت فرق ہو چکا تھا۔ اب وہ ایک اچھے شاعر کی حیثیت رکھتے تھے اور دربار رام پور میں جس طرح دہلی اور لکھنؤ کے بعض شعرا کی سرپرستی ہو رہی تھی، اس کے پیش نظر انہیں بھی یہی خیال پیدا ہوا کہ وہ درباری شعرا کے زمرے میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ابتدا انہیں اس میں کام یابی نہیں ہوئی۔ امیرؔ مینائی نے اپنے تذکرہ ’’یادگارِ شعرا‘‘ میں وہاں کے کئی سو چھوٹے بڑے شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ اور دوسرے قرائن سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کی درباری زندگی پر زوال آیا تو رام پور میں شعر و سخن کی محفل جمی۔ خاص کر نواب یوسف علی خاں اور ان کے جانشین نواب کلب علی خاں نے رام پور کو ایک بڑا علمی اور تہذیبی مرکز بنا دیا لیکن شروع میں داغؔ کو وہاں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔

    یوں تو داغؔ رام پور برابر آتے جاتے رہے لیکن انہیں وہاں باقاعدہ ملازمت 1866 میں ملی اور وہ بھی داروغۂ اصطبل کی حیثیت سے۔ حالانکہ وہاں شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ 1865 میں وہ نواب کلب علی خاں کی تخت نشینی کے موقع پر نظم کہہ چکے تھے اور بعض شاعروں میں غزلیں سنا کر داد بھی وصول کر چکے تھے۔ چنانچہ ان کے خاص شاگرد احسنؔ مارہروی کہتے ہیں کہ رام پور میں پہلی غزل انہوں نے صاحبزادہ محمد رضا خاں کے یہاں ایک مشاعرے میں پڑھی جس کا مطلع مشہور مطلع تھا،

    بھولے بھٹکے جو ترے گھر میں چلے آتے ہیں
    اپنی تقدیر کے چکر میں چلے آتے ہیں

    رام پور سے داغؔ کا تعلق کئی حیثیتیں رکھتا ہے۔ لالہ سری رام نے خمخانۂ جاوید میں لکھا ہے کہ وہ تقریباً چالیس سال رام پور میں رہے اور احسن مارہروی نے چالیس پینتالیس بتایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں وہ ساری مدت شامل کر لی گئی ہے جب انہوں نے بچپن ہی میں رام پور آنا جانا شروع کیا، ورنہ وہ باقاعدہ زیادہ سے زیادہ بیس سال رام پور میں رہے اور اس دوران میں بھی تھوڑے تھوڑے دنوں کے لیے اِدھر اُدھر جاتے رہے۔ کبھی دہلی گئے کبھی لکھنؤ۔ پٹنہ اور کلکتہ سے یہ سلسلہ 1888 تک جاری رہا، جب کہ وہ حیدرآباد چلے گئے اور وہاں تقریباً سترہ سال تک عزت اور وقار کی زندگی بسر کرنے کے بعد اپنی شہرت کے بام عروج پر پہنچ کر انتقال کیا۔

    داغؔ اس حیثیت سے بڑے خوش قسمت تھے کہ جب قلعۂ معلیٰ سے نکلے تو انہیں دربار کی کم و بیش ویسی ہی فضا رام پور میں مل گئی۔ نواب کلب علی خاں نے انہیں ایسا آرام پہنچایا کہ رام پور ان کے لیے واقعی دارُالسّرور بن گیا۔ ایک طرف نواب کی مصاحبت دوسری طرف شعرا میں عزت، عوام میں قدر دانی اور تیسری طرف زندگی کی وہ چہل پہل جس سے ان کے مزاج کو مناسبت تھی۔ ان کے لیے یہ ساری باتیں رام پور میں یکجا ہو گئی تھیں۔

    نواب کلب علی خاں نے تخت نشین ہوتے ہی ’’بے نظیر‘‘ کا مشہور میلہ شروع کیا جس کی رونق اور چہل پہل، رنگینی اور جشن آرائی دور دورسے صاحبان کمال کو کھینچ لاتی تھی۔ رام پور سے وابستہ بہت سے شاعروں نے اس میلے پر نظمیں لکھی ہیں۔ لیکن داغؔ کے لیے یہ میلہ ایک تفریح گاہ سے بڑھ کر آفت جان بن گیا۔ اسی میلے میں انہیں منی بائی حجاب کلکتہ کی مشہور گانے والی اور شاعرہ سے تقریباً پچاس سال کی عمرمیں عشق ہوا اور مرتے دم تک یہ دکھ ان کے ساتھ رہا۔ یہاں اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا ہے کہ یہ زبردست چوٹ انہوں نے رام پور ہی میں کھائی جس کی یادگار ان کی مشہور مثنوی فریاد داغؔ ہے۔

    جب یہ افتاد پڑی تو رام پور دارُالسّرور ان کے لیے جہنم بن گیا اور حجاب سے ملنے کی آرزو انہیں لکھنؤ، پٹنہ، عظیم آباد اور کلکتہ لے گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی شہر تھا تو کلکتہ، جہاں ان کی جان بستی تھی۔ دہلی نے انہیں پیدا کیا، جوان بنایا اور شاعری سکھائی، وہ زبان دی جس پر انہیں بجا طور پر ناز تھا۔ رام پور نے انہیں سہارا دے کر زندگی کے جھمیلوں سے بچا لیا اور حیدرآباد نے انہیں وہ عزت بخشی جو کسی شاعر کو آسانی سے نصیب نہیں ہوتی لیکن کلکتہ جہاں وہ صرف ایک بار گئے، ان کی تمناؤں اور خوابوں کا مرکز بن گیا۔ بہرحال یہ زندگی کا خوش گوار حادثہ رام پور ہی میں پیش آیا جہاں کلب علی خاں انہیں ہر طرح کا آرام اور اعزاز بخش رہے تھے۔

    اس زمانے میں رام پور میں بہت سے اہم شعراء یکجا ہو گئے تھے۔ جیسے میرؔ، امیرؔ، جلالؔ، منیرؔ شکوہ آبادی، جانؔ صاحب، رساؔ اور ذکیؔ وغیرہ۔ ان کے مقابلے میں داغؔ کی شاعری چمکی اور امتیازی خصوصیات پیدا کر کے منفرد ہو گئی۔ خواص اور عوام دونوں ان کے گرویدہ تھے۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے ہی عام ہو جاتی تھی اور لوگ سڑکوں پر گاتے پھرتے تھے۔

    (اردو کے ممتاز نقّاد، ادیب اور شاعر سید احتشام حسین کے قلم سے)

  • یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    آج اردو زبان کے مشہور شاعر اور متعدد نثری کتب کے مصنّف احسن مارہروی کا یومِ وفات ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں 1940ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام سید علی احسن تھا، عرفیت شاہ میاں جب کہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو احسن تخلّص اختیار کیا۔ مارہرہ ضلع ایٹہ میں 9 نومبر 1876ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد 1895ء میں استاد داغ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ 1921ء میں علی گڑھ میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے اور بعد میں پروفیسر ہوگئے۔

    داغ کی شاگری اختیار کرنے بعد انھوں نے ماہنامہ گلدستہ ریاضِ سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ء میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرے کا مسوّدہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیحُ الملک جاری کیا۔

    انھوں نے شاعری کے مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات یادگار چھوڑا۔ نمونہ منثورات احسن مارہروی کی ایک شاہ کار کتاب ہے جس میں اردو کی ابتدا، نثر کے وہ تمام نمونے جن کا ریاست اور دفاتر سے تعلق ہے اور ایک زبان کو وقیع بنا سکتے ہیں، شامل ہیں۔ اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے یہ مضامین اور دستاویزی نمونے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع بھی ہوئے جن میں ریاستی دفاتر سے متعلق احکام و ہدایات اور کارگزاریوں اور اسی نوع کے نامے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فاضل مرتّب نے دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقا کا مفصّل جائزہ بھی لیا ہے۔

    ان کی کتب ’’جلوۂ داغ‘‘ (استاد داغ کی زندگی) ’’انشائے داغ‘‘(مکتوباتِ استاد داغ)، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، اور تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    احسن مارہروی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
    تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا

    پھر گئیں بیمارِ غم کو دیکھ کر
    اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا

    ہم کہاں، اے دل کہاں دیدارِ یار
    ہو گیا تیری بدولت دیکھنا

    ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
    ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا

    سامنے تعریف پیچھے گالیاں
    ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا

    اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
    دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا

    صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
    ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا

  • نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    نواب حسن علی خاں امیرؔ کو منانے کے لیے لکھا گیا ایک خط

    اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ایک موضوع کے طور پر خاص اہمیت دی گئی ہے اور اپنے زمانے کے مشاہیر اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان رابطے کی اس تحریری شکل کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے خطوط کو سرفہرست رکھتے ہوئے ان کی زبان، روز مرّہ کے الفاظ کا بے تکلّف استعمال اور مکتوب نگاری کی دیگر خصوصیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اردو کے استاد شاعر مرزا داغ دہلوی کے خطوط بھی مشہور ہیں۔

    داغ کے خطوط میں بھی ان کی زندگی سے متعلق بے شمار واقعات، حادثات، خواہشات، مختلف درباروں سے ان کی وابستگی، ان کے معاشقوں کا تذکرہ، عزیز شاگردوں کا احوال، اردو زبان و بیان اور شاعری کے بارے میں‌ کئی باتیں‌ پڑھنے اور سیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں‌ ہم ان کے ایک ایسے ہی خط کو موضوع بنارہے ہیں‌ جس میں‌ انھوں نے اپنے ایک رفیق سے پیدا ہونے والی کسی رنجش یا غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

    نواب حسن علی خاں امیرؔ، حیدر آباد (دکن) کے شرفا میں شمار ہوتے ہیں اور جب داغ ؔ حیدر آباد پہنچے تو امیر بڑے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کہنے کو داغ کے شاگرد تھے، لیکن شاگردی سے زیادہ دوستی و محبّت کا رشتہ رہا۔

    آخری وقت تک خانگی معاملات میں بھی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے داغ کے ساتھ رہے۔ 1902ء کے شروع میں کسی وجہ سے امیر ؔ نے داغ سے ناراض ہوکر ان کے یہاں آنا جانا بند کردیا تو دیکھیں کہ داغ ؔ نے کن الفاظ میں انھیں مدعو کیا۔

    نواب صاحب!
    صاحب عالم بہادر کہتے ہیں کہ کل صبح پتنگوں کے پیچ ہیں۔ بغیر نواب صاحب کی تشریف آوری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھ کو خبر نہیں تھی کہ پیچ تو وہاں لڑیں گے اور دلوں میں پیچ مجھ سے پڑیں گے، مردِ خدا! یہ کیا بات ہے آپ نے یک لخت ملاقات کم کر کے کیوں ترک کردی۔

    میں نے کوئی بات بغیر آپ کے مشورے کے نہیں کی، مصلحتِ وقت نہیں چھوڑی جاتی، آپ کو حسبِ معمول روز آنا چاہیے۔ ماحضر یہیں تناول فرمانا چاہیے اور اگر یہاں کھانا کھانا گوارا نہیں تو بہتر ہے نہ کھائیے۔ مجھ کو بھی نہ کھلائیے، آئیے، آئیے تشریف لائیے۔

    داغ 25، جنوری 1902ء (شب)

    اس کے باوجود نواب امیر کے نہ آنے پر اپنے ذاتی رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ہی خط میں لکھتے ہیں۔

    نواب صاحب آپ تو بیٹھے بٹھائے کلیجے میں نشتر چبھو دیتے ہیں۔ یہ فقرہ کیوں کر دل دوز اور جگر فگار نہ ہو کہ اب مجھے روز کی حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجھ سے جو کچھ ہوا دانستہ نہیں ہوا۔ حجاب (داغ دہلوی کی ایک محبوبہ) جیسی ہزار ہوں تو تمہارے خلوص، تمہاری محبّت پر نثار۔ تم سے کیا پردہ ہے، اور تم سے کیا چھپا ہے۔

    (ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی کے ایک مضمون سے خوشہ چینی)

  • خوش گمانی…..

    خوش گمانی…..

    ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔

    کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے، ہجر سے پہلے۔‘‘ انھوں نے ایک شعر جس میں ’سفر‘ کا قافیہ باندھا تھا، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ ’’کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون تھوکنے لگے۔‘‘

    استاد داغ دہلوی یہ سن کر مسکرائے اور بولے:

    ’’ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں۔‘‘ اس جملے پر حاضرین میں ہنسی دوڑ گئی اور کنتوری صاحب کو خفت محسوس ہوئی۔

  • مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    مشہور شاعر داغ دہلوی کی "دولت” سے بھری ہوئی 5 الماریاں!

    حضرت مرزا داغ دہلوی کو بھی مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ جو نئی کتاب بھی شایع ہوتی، وہ فوراً اسے خرید لیتے اور اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے۔

    مطالعہ وقفے وقفے سے کرتے، لیکن کتاب کو پوری پڑھ کر چھوڑتے۔ انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمرا کتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا جس میں چار پانچ الماریاں کتابوں سے پُر تھیں اور ہر الماری میں دو دو ڈھائی ڈھائی سو کتابیں ہوتی تھیں۔

    وہ کتابوں کی جلدیں قیمتی بندھواتے اور ہر کتاب پر مالکِ کتاب کی حیثیت سے اپنا نام بھی ڈلواتے۔ اساتذۂ اردو اور فارسی کے پورے کلیّات اور دواوین ان کے کتب خانے میں موجود تھے۔

    کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔

    اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

    (علم و ادب کے شائق، مختلف ادبی واقعات، یادوں اور تذکروں کو کتابی شکل میں‌ محفوظ کرنے والے عبدالمجید قریشی کی ایک خوب صورت کاوش "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” بھی ہے، جس میں‌ استاد شاعر داغ دہلوی کے کتب خانے کا ذکر بھی ہے اور یہ سطور اسی کتاب سے لی گئی ہیں)

  • چھکڑوں‌ پر لدی دس سال کی تنخواہ

    چھکڑوں‌ پر لدی دس سال کی تنخواہ

    سرکار مرحوم ایک وسیع میدان میں کرسی پر رونق افروز تھے۔ اسٹاف کے تمام امرا دست بستہ دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔

    چابک سوار شاہی اصطبل کے گھوڑوں پر شہ سواری کے کمالات دکھا رہے تھے۔ سرکار مرحوم بہ نگاہ غور ایک ایک کے ہنر کو ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ایک سرکش گھوڑا اپنے چابک سوار کو بہت تنگ کر رہا تھا۔ چابک سوار اپنے فن میں ایسا ماہر تھا کہ میخ کی طرح اس کی پیٹھ پر جما بیٹھا تھا۔

    یکایک سرکار مرحوم داغ کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا۔

    ”کیوں داغ! تم بھی کبھی گھوڑے پر بیٹھے ہو؟“

    انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ ”جوانی میں خانہ زاد بیٹھا ضرور ہے، مگر اس کو مدتیں گزریں، زمانہ ہوگیا۔“

    ارشاد ہوا۔ ”اچھا آج ہمیں اپنی شہ سواری دکھاﺅ۔“

    داغ نے عرض کیا، ”بہت خوب“

    سرکار کے اشارے پر وہی بدلگام سرکش گھوڑا حاضر کیا گیا، بے چارے داغ صاحب ﷲ کا نام لے کر سوار ہوئے۔

    ادھر انھوں نے باگ ہاتھ میں لی، اُدھر سرکار کے اشارے پر چابک سوار نے گھوڑے کو چابک رسید کی۔ چشمِ زدن میں داغ صاحب زمین پر قلابازیاں کھا رہے تھے اور گھوڑا تھا کہ آندھی کی طرح جنگل کی طرف بھاگا جارہا تھا۔

    پہلے داغ صاحب اٹھائے گئے، پھر سولہ چابک سوار اپنے گھوڑوں پر اس کے تعاقب میں جنگل کی طرف بھاگے، داغ صاحب کے چوٹ نہ آئی تھی، گرد جھاڑ کر سرکار مرحوم کے سامنے حاضر ہوئے، سرکار کا ہنسی کے مارے بُرا حال تھا۔

    جب خوب جی بھر کے ہنس چکے تو فرمایا۔

    ”تم بہت اچھا سوار ہوئے، میں تمہیں چابک سواروں کا افسر مقرر کروں گا۔“ داغ صاحب آداب بجا لائے۔

    پوچھا، ”ہماری ریاست میں کتنے دن سے ہو؟“

    انھوں نے عرض کیا۔ ”دس سال سے۔“

    سرکار نے مہا راجا بہادر (مہا راجا سرکشن پرشاد) کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر سَر جھکایا۔

    ارشاد ہوا، ”ہم نے داغ کو ایک ہزار ماہانہ پر شاعرِ دربار مقرر کیا۔ ان کی دس برس کی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ابھی ابھی ان کو دے دو۔“

    یہ حکم دے کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔

    دوسرے دن بارہ بجے سارے شہر نے دیکھا کہ بنڈیوں (چھکڑوں) پر داغ صاحب کی دس سال کی تنخواہ لدی ہوئی پولیس کے دستے کی حفاظت میں داغ کے گھر جارہی ہے۔

    (صدقِ جائسی کی آپ بیتی سے انتخاب)

  • داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    حقیقت تو یہ ہے کہ داغ فطرتاً حسن پرست اور عاشق مزاج تھے۔

    طبیعت میں بلا کی شوخی تھی۔ تادم مَرگ یہ ان کے ساتھ رہی اور یہی ان کی شاعری کی کام یابی کا راز تھا۔

    داغ نے آخر وقت تک مہ و شو سے سابقہ رکھا اور ہمیشہ شگفتہ اور جان دار شعر کہتے رہے۔ چناں چہ دکن میں جو اچھی غزلیں داغ نے کہی ہیں، ان کے اکثر شعر ایسی ہی محفلوں میں لکھے گئے تھے۔

    بعض دفعہ تو یہ ہوتا کہ گانا ہورہا ہے، داغ شعر لکھوا رہے ہیں۔ آمد کا وہ عالم ہے کہ دو شاگرد علیحدہ علیحدہ لکھتے جاتے ہیں پھر بھی جس تیزی سے داغ شعر کہتے، اس رفتار سے لکھنا مشکل ہوجاتا اور نتیجتاً ایک آدھ شعر یا دو چار مصرعے چھوٹ جاتے۔

    مثنوی ”فریاد داغ“ میں داغ نے اپنی منظورِ نظر منی جان حجاب کی جوانی کی تصویر یوں کھینچی ہے۔

    سج دھج آفت غضب تراش خراش
    کسی اچھے کی دل ہی دل میں تلاش

    حجاب کے ہونٹ پر تِل تھا، داغ نے اس پر ایک رُباعی لکھی۔

    تم تو فلک حُسن پہ ہو ماہِ منیر
    سائے کی طرح ساتھ داغ دل گیر
    خالِ لب گل فام ہے شاہد اس کا
    بے داغ نہ کھنچ سکی تمہاری تصویر

    استاد شاعر داغ دہلوی کا تذکرہ، یاسین خاں علی خان کے قلم سے

  • داغ نے شریف کو پھنسا دیا!

    داغ نے شریف کو پھنسا دیا!

    مرزا داغ کوئی دس برس تک استاد ذوق سے اصلاح لیتے رہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ انہوں نے تین سال تک غالبؔ سے بھی اکتساب فیض کیا، لیکن ان کے با قاعدہ شاگرد نہیں بنے۔

    داغ نے شاعری میں اوج حاصل کیا اور خوب شہرت پائی۔ ان کے شاگرد پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ داغ اپنے شاگردوں کے ساتھ اکثر مذاق بھی کرتے تھے۔

    ان کی شگفتہ بیانی اور مزاح کا ایک واقعہ کچھ یوں ہے۔
    داغ کے ایک شاگرد مدراس کے تھے جو شریف تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا کلام چھپوانے کا ارادہ کیا تو استاد سے نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔ داغ نے کہا ‘‘کلام شریف’’ سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ انہیں تامل ہوا تو استاد داغ نے کہا، بھئی مضطر خیرآبادی کا دیوان نہیں دیکھا، ‘‘کلامِ مضطر’’۔

    اُس بندۂ خدا نے حقیقتاً ‘‘کلام شریف’’ کے عنوان سے اپنا دیوان چھپوا دیا۔ لوگوں نے لے دے شروع کی تو بھاگے ہوئے استاد کے پاس آئے اور بولے، حضرت غضب ہو گیا لوگ مارے ڈالتے ہیں۔“ داغ نے معصومیت سے کہا۔
    ہاں بات تو ہے بھی بے ادبی کی۔ یہ سنا تو شریف صاحب بولے۔

    آپ ہی نے تو یہ بتایا تھا۔ داغ نے ہنس کر کہا کہ اپنے نام کے ساتھ وطن مبارک کی صراحت کیوں نہ کر دی۔ کوئی جھگڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔ تب انہوں نے اپنا مجموعہ کلام شریف کے بجائے کلام شریف مدراسی کے نام سے شایع کروایا اور یوں مشکل سے نکلے۔