Tag: دانت

  • دانتوں کی دوبارہ نشوونما کے لیے دوا تیار

    دانتوں کی دوبارہ نشوونما کے لیے دوا تیار

    جاپانی سائنس دانوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہوں ایسی منفرد دوائی تیار کرلی ہے، جسے استعمال کرنے کے بعد انسان کے قدرتی دانت نکل آئیں گے۔

    رپورٹس کے مطابق انسانوں سمیت زیادہ تر جانداروں کے دانت قدرتی طور پر صرف دو بار ہی نکلتے ہیں، پہلی بار بچپن میں انسان کے دانت ٹوٹنے کے بعد دوبارہ نکل آتے ہیں، مگر دوسری بار ٹوٹ جائیں تو پھر نہیں نکلتے۔

    ماہرین کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نئی دوائی سے تیسری بار بھی دانت اگ سکیں گے اور ماہرین کے ابتدائی تجربات کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔

    جاپانی نشریاتی ادارے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ماہرین کی جانب سے تیار کردہ دوائی کو ابتدائی طور پر چوہو پر آزمایا گیا، جس دوران چوہوں کے دانت قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہوگئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ماہرین نے اینٹی باڈی کو تقویت پہنچانے والی دوائی چوہوں کو دی اور دیکھا کہ ان کے دانت قدرتی طور پر تیسری بار ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دانتوں کی دوبارہ تخلیق میں رکاوٹ بننے والی پروٹین (USAG-1) کو بلاک کرکے تیسری بار بھی دانتوں کو قدرتی طور پر اگنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران دوائی کی مدد سے چوہوں میں پروٹین (USAG-1) کو بلاک کیا تو ان کے دانت قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہونا شروع ہوگئے تھے۔

    اسی طرح ماہرین نے بعض بالغ انسان رضاکاروں پر بھی تحقیق اور دوائی کے ذریعے ان کی بھی (USAG-1) پروٹین بند کی تو ان میں بھی دانت تخلیق ہونا شروع ہوگئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی آزمائش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دواتی اور طریقے کی مدد سے تیسری بار ایسے دانت بننا شروع ہوجاتے ہیں جو کسی بھی سبب کی وجہ سے بن نہیں پائے تھے لیکن دوائی کی مدد سے وہ ابھر کر سامنے آئے۔

    ناک سنکنا کس قدر نقصان دہ ہیں؟ لازمی احتیاط کریں، ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    ماہرین کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مذکورہ دوائی اور طریقے سے ٹوٹ جانے والے دانتوں کو بھی قدرتی طور پر دوبارہ تخلیق ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

  • دانتوں کی صحت کا دن: دانتوں کا خیال کیسے رکھا جائے؟

    دانتوں کی صحت کا دن: دانتوں کا خیال کیسے رکھا جائے؟

    آج دنیا بھر میں دانتوں کی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، صحت مند دانت ہی ہماری صحت کے ضامن ہیں کیونکہ یہ دانت ہی ہیں جو ہمیں متوازن غذا کھانے کے قابل بناتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ عموماً دانتوں کی صحت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دانتوں کا علاج مہنگا ہوتا ہے۔

    ان کے مطابق کسی پیچیدگی یا تکلیف کی صورت میں تو فوراً ماہر دندان سے رجوع کرنا چاہیئے، تاہم دانتوں کا خیال رکھ کے آپ دانتوں کی صحت اور ان کی عمر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

    ماہرین دندان تجویز کرتے ہیں کہ دن میں 2 بار دانتوں پر برش کرنے (عموماً صبح سو کر اٹھنے کے بعد اور رات سونے سے قبل)، ماؤتھ واش استعمال کرنے اور فلاس کرنے سے دانت اور مسوڑھے صاف اور صحت مند رہتے ہیں۔

    ان کے مطابق دانتوں کی صحت کے لیے مسواک بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں سال میں ایک مرتبہ ڈینٹسٹ سے اپنے دانتوں اور منہ کا معائنہ ضرور کروانا چاہیئے۔

    آسٹریلوی طبی ماہرین کے مطابق چقندر کے باقاعدہ استعمال سے دانتوں کے امراض کو کم کیا جا سکتا ہے۔ چقندر کا استعمال خون میں اضافے کے ساتھ ساتھ دانتوں کی حفاظت بھی کرتا ہے۔

    ان کے مطابق چقندر میں موجود غیر نامیاتی نائٹریٹ جسم میں داخل ہو کر نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور دانتوں کی حفاظت کرتا ہے۔

    دانتوں کو جگمگانے کے لیے سب سے آزمودہ شے اسٹرابیری ہے۔ اس میں شامل اینٹی آکسیڈنٹس دانتوں کی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں اور ان کا باقاعدہ استعمال دانتوں کو جگمگا دیتا ہے۔

    دانتوں کے لیے ناریل کا تیل بھی بہت مفید ہے، ناریل کے تیل میں دانتوں کو صاف اور بیکٹریا سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ناریل کے تیل سے برش کرنے کے علاوہ اسے 5 منٹ تک منہ میں بھر کر بھی رکھا جاسکتا ہے۔

  • دانتوں کو صحت مند بنانے کے لیے یہ چیز استعمال کریں

    دانتوں کو صحت مند بنانے کے لیے یہ چیز استعمال کریں

    ناریل کا تیل مختلف استعمالات کے لیے عام شے ہے جو بے حد فوائد رکھتا ہے، لیکن اس کا استعمال گلے اور دانتوں کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔

    ناریل کا تیل کھانا پکانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں شامل اینٹی مائکروبیل اور اینٹی آکسیڈنٹ صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔

    اس کا استعمال دانتوں کے امراض اور کیڑوں کی روک تھام، مسوڑھوں کی سوزش کم کرنے اور دانتوں کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    دانتوں کے امراض سے نجات کے لیے اس کا استعمال انتہائی سہل ہے، روزانہ ایک چمچ ناریل کے تیل سے غرارے کریں اور اس کے لیے اسے دیر تک منہ میں گھماتے رہیں، پھر برش یا مسواک سے دانت صاف کرلیں۔

    باقاعدگی سے برش نہ کرنے سے دانتوں میں غذا کے ذرات پھنس کر ان پر میل جمنے کے علاوہ خردبینی حیوانیے، بیکٹریاز بھی جمع ہوجاتے ہیں، جن کے سبب رفتہ رفتہ دانتوں کی چمک دمک ختم ہونے لگتی ہے۔

    ایسی صورت میں ناریل کے تیل سے غرارے کرنا انتہائی سود مند ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ غراروں کے دوران ناریل کا تیل منہ کی جھلی میں جذب ہوکر نہ صرف ورم کم کرتا ہے، بلکہ دانتوں کے اندر موجود نقصان دہ بیکٹریاز کو تلف بھی کردیتا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ سانس کو خوشبودار کرتا ہے اور مسوڑھوں کی حفاظت کے ساتھ دانتوں کو گلنے سڑنے سے بھی بچاتا ہے۔

    بعض افراد کو ناریل کے تیل سے الرجی بھی ہوسکتی ہے، ایسے لوگ اس کے استعمال سے گریز کریں۔

  • 15 کلو وزنی دیگ منہ میں دبا کر رقص کرنے والا نوجوان

    15 کلو وزنی دیگ منہ میں دبا کر رقص کرنے والا نوجوان

    دنیا میں بڑے بڑے جرات مند اور طاقتور افراد گزرے ہیں جنہوں نے اپنی طاقت سے لوگوں کو حیران کردیا، ایسا ہی ایک نوجوان سندھ کا عرفان قمبرانی بھی ہے جس نے اپنی معمولی سی جسامت پر ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ لوگ دنگ رہ گئے ہیں۔

    صوبہ سندھ کے ضلع بدین کا رہائشی عرفان قمبرانی نہایت مضبوط دانتوں کا مالک ہے، وہ 15 کلو کی دیگ باآسانی اپنے دانتوں میں دبا کر رقص اور چہل قدمی کرسکتا ہے۔

    عرفان کی کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ دانتوں میں دیگ اٹھا کر رقص کر رہا تھا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وہ مشہور ہوگیا اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے کے لیے آنے لگے۔

    لوگ آ کر اس کا رقص دیکھتے ہیں اور اسے انعام سے بھی نوازتے ہیں۔

    عرفان ایک باورچی ہے اور وہ شادی بیاہ اور تقریبات کے لیے کھانے تیار کرتا ہے، تاہم اس کے فن کی بدولت بھی اسے مختلف تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں وہ لوگوں کو اپنے رقص سے محظوظ کرتا ہے۔

  • دانتوں کے امریکی ڈاکٹر کا بڑا فراڈ پکڑا گیا، 100 مریضوں نے مقدمات دائر کر دیے

    دانتوں کے امریکی ڈاکٹر کا بڑا فراڈ پکڑا گیا، 100 مریضوں نے مقدمات دائر کر دیے

    وسکونسن: دانتوں کے ایک امریکی ڈاکٹر کا بڑا فراڈ پکڑا گیا ہے، وہ اپنے مریضوں کے دانت چالاکی سے قصداً توڑ دیتا تھا، تاہم اب وہ 100 مریضوں کی جانب سے دائر مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق دانتوں کے ایک امریکی ڈاکٹر اسکاٹ چارمولی نے مریضوں کے دانت قصداً توڑ کر لاکھوں ڈالر کما لیے، وہ جان بوجھ کر مریضوں کے دانتوں کو نقصان پہنچاتا تھا، تاکہ وہ اس میں کراؤن لگا سکے اور اس طرح اضافی رقم اینٹھ سکے۔

    امریکی ریاست ونسکونسن میں اس اسکینڈل نے لوگوں کو چونکا دیا ہے، اسکاٹ چارمولی نے باقاعدگی کے ساتھ اپنے کلائنٹس کے دانت جان بوجھ کر ڈرل کیے اور ان سے علاج کی اضافی سروسز کے لیے معاوضہ لیا، وہ پہلے دانت چالاکی سے توڑ دیتا تھا اور پھر اسے ٹھیک کرتا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق وسکونسن میں عام طور سے ڈینٹسٹ فی 100 مریضوں میں صرف 6 مریضوں کو کراؤن لگاتے ہیں، لیکن 61 سالہ اسکاٹ نے فی 100 مریضوں میں 32 سے زیادہ کراؤن لگائے، یہ دانتوں کا ایک پروسیجر ہے جس میں دانتوں کی شکل کی کیپ خراب دانت پر جمائی جاتی ہے۔

    مریضوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کراؤن کے لیے اس لیے رضامندی ظاہر کی کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر اسکاٹ ایک پروفیشنل ہے اور اسی لیے انھوں نے اس پر اعتماد کیا۔

    واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق دندان ساز نے 2014 میں 434 کراؤنز لگا کر 1.4 ملین ڈالر کمائے، 2015 تک اس نے 1,000 سے زیادہ کراؤنز لگا کر 2.5 ملین ڈالر کمائے تھے۔ 2016 سے 2019 تک اس نے کراؤنز کے لیے 4.2 ملین ڈالر سے زیادہ کا بل کیا، اور 2019 میں یکم جنوری 2018 سے 7 اگست 2019 تک 20 ماہ کی مدت میں 1,600 سے زیادہ کراؤنز لگائے۔

    وہ اس وقت پکڑا گیا جب اس نے 2019 میں اپنی ڈینٹل پریکٹس فروخت کر دی، اور نئے مالکان نے اس کی فائلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کراؤن کے پروسیجر کی بہت زیادہ شرح کو نوٹ کیا اور متعلقہ حکام کو اس کی اطلاع دی۔ چرمولی کے تقریباً 100 سابقہ ​​مریضوں نے اب ان کے خلاف طبی بد دیانتی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

    دفاعی وکیل نیلا رابنسن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسکاٹ چارمولی ان الزامات سے انکار کرتا ہے، انھوں نے 40 سے 60 گھنٹے فی ہفتہ پریکٹس کے دوران کئی سالوں کی محنت، مستعدی اور اچھی کاروباری ذہانت سے یہ دولت کمائی۔

    وسکونسن کے مشرقی ضلع کے امریکی اٹارنی کے دفتر کے مطابق اگر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو چرمولی کو ہر فراڈ کی کے لیے 10 سال اور جھوٹے بیانات میں سے ہر ایک کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ چرمولی کا ڈینٹل لائسنس بھی فروری 2021 میں معطل کیا جا چکا ہے۔

  • چمکدار دانتوں کے لیے آسان گھریلو ٹوٹکا

    چمکدار دانتوں کے لیے آسان گھریلو ٹوٹکا

    بعض افراد کے دانت نہایت پیلے اور داغدار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پوری شخصیت کا تاثر نہایت خراب ہوجاتا ہے، ایسے افراد کے لیے ایک نہایت آسان گھریلو ٹوٹکا پیش ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں دانت سفید کرنے کا آسان طریقہ بتایا گیا۔

    اگر کسی کو پان کھانے کی عادت ہے تو سب سے پہلے دن میں متعدد بار برش کرنے کی عادت اپنانی ضروری ہے۔ دن میں جتنی بار پان کھایا جائے اتنی ہی بار برش کیا جائے، اس سے دانت خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں ناگر موتھا نامی جڑی بوٹی، پھٹکری اور بادام کو ہم وزن ملا کر پیس لیا جائے اور اسے فرائی پین میں ڈال کر جلا لیا جائے۔

    اس سیاہ پاؤڈر میں شہد شامل کر کے رات کو سونے سے پہلے برش کیا جائے۔ شہد دانتوں کی پالش خراب ہونے سے روکے گا۔

    روز رات کو سونے سے قبل اچھی طرح برش کیا جائے، جبکہ صبح بھی اس سے برش کیا جائے، اس کے باقاعدہ استعمال سے دانت نہایت چمکدار ہوجائیں گے۔

  • دانتوں کو موتیوں کی طرح چمکدار بنانے کا گھریلو ٹوٹکا

    دانتوں کو موتیوں کی طرح چمکدار بنانے کا گھریلو ٹوٹکا

    زیادہ چائے کافی یا پان چھالیہ وغیرہ استعمال کرنے والے افراد کے دانت داغدار اور پیلے پڑجاتے ہیں جنہیں گھر میں ایک آسان ٹوٹکے سے صاف کیا جاسکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بلقیس نے دانتوں کو سفید بنانے کی آسان ترکیب بتائی۔

    اس کے لیے آدھا کپ میتھی دانہ اور 6 لونگ لیں اور اسے اچھی طرح پیس کر پاؤڈر بنا لیں۔ اب اس پاؤڈر میں آدھا چمچ نمک شامل کریں۔ اس مقصد کے لیے گلابی نمک بہترین نتائج دے سکتا ہے تاہم عام نمک بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس میں ذرا سا پانی شامل کر کے پیسٹ بنالیں اور ٹوتھ برش سے اچھی طرح 10 منٹ تک برش کریں۔

    ڈاکٹر بلقیس کے مطابق اس کے استعمال سے دانت موتیوں کی طرح چمکدار اور سفید ہوجائیں گے۔

  • بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات سے مستقبل میں ان میں مختلف دماغی امراض کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

    میساچیوسٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات اور موٹائی کو دیکھ کر مستقبل میں ان میں ڈپریشن اور دماغی امراض کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

    ایم جی ایچ کی ماہر ایرن سی ڈن نے اپنی حیرت انگیز تحقیق میں کہا کہ ابتدائی کم عمری میں بچوں کی مشکلات آگے چل کر ان کی شخصیت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    بچوں کے ابتدائی ماہ و سال بہت حساس ہوتے ہیں اور کوئی بھی ناخوشگواری ایک تہائی دماغی عارضوں کی وجہ بن سکتی ہے جس کے واضح اثرات جوانی اور بلوغت میں سامنے آتے ہیں۔

    تحقیق کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ڈپریشن اور دیگر امراض میں مبتلا افراد سے ان کے بچپن کے واقعات اور مسائل کے بارے میں پوچھا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہرفرد کو اپنے بچپن کی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس لحاظ سے یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے ساتھ بچپن میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے نقوش دانتوں پر آجاتے ہیں۔ یوں انہیں، زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ایک ریکارڈ کہا جاسکتا ہے۔ بیماری ہو، ذہنی تناؤ ہو یا پھر غذائی قلت ان کا اثر دانتوں پر آتا ہے۔ درختوں کے تنوں میں دائروں کی طرح کی دھاریاں دانتوں میں بنتی ہیں جنہیں اسٹریس لائن کہا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں ایم جی ایچ کےماہرین نے 70 بچوں کا جائزہ لیا جس میں ایوون لونگٹیوڈینل اسٹڈی آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن کے تحت برطانوی بچوں کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے والدین میں حمل کی سختیوں، والدہ کی نفسیاتی مسائل کی تاریخ، پڑوس کا ماحول، غربت اور رویہ اور معاشرتی سپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن ماؤں نے تناؤ بھرا ماحول گزارا تھا اور بے چینی سے گزری تھیں ان کے بچوں پر اس کے اثرات دیکھے گئے اور ان کے دانتوں پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے تھے۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے بعد زور دیا ہے کہ بچوں میں دودھ کے دانتوں کے معائنے سے انہیں مستقبل میں کئی امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔

  • مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    مرنے والے کے جسم کا ایک حصہ یادگار رکھنے کی عجیب و غریب روایت

    دنیا بھر میں موت کے حوالے سے عجیب و غریب روایات و رواج رائج ہیں تاہم حال ہی میں ایک ایسی روایت سامنے آئی ہے جس نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ایک خاتون نے ریڈ اٹ پر اپنی کہانی شیئر کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کے سسرال میں ایک عجیب و غریب روایت ہے جس میں مرنے والے کے لواحقین اس کے دانت توڑ کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ یہ ٹوٹے ہوئے دانت میت کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، جو شخص میت کو جتنا زیادہ عزیز تھا اسے اسی کے مطابق دانت دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام دانت جو کہ میت نے اپنی ساری زندگی میں جمع کیے ہیں وہ اس کے جسم کے ساتھ دفن کر دیے جاتے ہیں۔

    خاتون نے بتایا کہ جب اس کے شوہر کی دادی فوت ہوئیں تو ساس نے اسے دادی کا دانت دیا، جب خاتون نے دانت رکھنے سے انکار کیا تو ان کا شوہر خفا ہوگیا۔

    خاتون نے دلیل دی کہ وہ نہ تو کسی کے دانت اپنے ساتھ رکھیں گی اور نہ ہی وہ چاہیں گی کہ مرنے کے بعد ان کے دانت توڑے جائیں۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر کا خاندان بہت اچھا ہے لیکن انہیں یہ رسم بالکل پسند نہیں۔

    سوشل میڈیا صارفین نے اس عجیب و غریب روایت پر مختلف تبصرے کیے۔ ایک صارف نے کہا کہ یہ پاگل پن کی انتہا ہے۔

    ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ عجیب تو ہے لیکن یہ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا، آپ کو اس کا پس منظر ضرور جاننا چاہیئے۔

  • وزن کم کرنے کے لیے کیا یہ انوکھا ترین طریقہ کارآمد ہوگا؟

    وزن کم کرنے کے لیے کیا یہ انوکھا ترین طریقہ کارآمد ہوگا؟

    وزن کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ سے لے کر جمنگ تک بے شمار طریقے اپنائے جاتے ہیں، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک انوکھا اور منفرد طریقہ ایجاد کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے ماہرین نے ڈینٹل سلم نامی ایک ڈیوائس تیار کی ہے، یہ ڈیوائس جبڑوں کو 2 ملی میٹر سے زیادہ کھلنے نہیں دیتی، جس سے سانس لینے میں تو کوئی مشکل نہیں ہوتی مگر ٹھوس غذا کو کھانا ممکن نہیں ہوتا۔

    نیوزی لینڈ کے اوٹاگو یونیورسٹی کے محقق پال برنٹن اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیوائس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ لوگ محض سیال غذا تک محدود ہوجائیں۔

    انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ جسمانی وزن میں لوگوں کی ناکامی میں بنیادی رکاوٹ نئی عادات کو قائم رکھنے میں ناکامی ہے۔

    اس ڈیوائس کی آزمائش 7 صحت مند افراد پر کی گئی جو موٹاپے کے شکار تھے اور انہیں ایک دن میں سیال غذا کے ذریعے 12 سو کیلوریز استعمال کروائی گئیں۔

    برٹش ڈینٹل جرنل میں اس تحقیق کے نتائج جاری ہوئے جس میں بتایا گیا کہ 2 ہفتے کے دوران ان افراد کے جسمانی وزن میں اوسطاً 6 کلو سے زیادہ کمی آئی۔

    تحقیق میں شامل افراد نے نتائج پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس ڈیوائس سے بولنے یا سانس لینے میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوتی۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2 سے 3 ہفتے کے اس سخت معمول کے بعد ڈیوائس کے مقناطیسی حصے کھلنے لگتے ہیں اور لوگ کچھ حد تک ٹھوس غذا استعمال کرسکتے ہیں۔

    اس ڈیوائس کی تیاری کے پیچھے یہ خیال ہے کہ مہنگی سرجری سے وزن کم کروانے کی بجائے مخصوص وقت تک ڈیوائس کی مدد سے اسے بہتر کیا جائے۔