Tag: دبستان لکھنؤ

  • لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، اور ہندوستان میں لکھنؤ وہ شہر ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں نمایاں رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کم زور ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں ایک تہذیبی شمع جلتی رہی جس نے شعر و ادب کے پروانوں کو لکھنؤ کا رخ‌ کرنے پر آمادہ کرلیا اور وہاں علم و فن کی قدر دانی، تحسین اور ادبی سرپرستی میں‌ خوش حالی دیکھی۔

    اردو ادب میں سیرت نگاری، تاریخ اور تنقید و تذکرہ نویسی میں اپنی قابلیت اور قلم کے زور پر نمایاں‌ ہونے والوں میں ایک نام سید سلیمان ندوی کا بھی ہے جنھوں نے لکھنؤ کے بارے میں‌ طویل مضمون رقم کیا تھا۔ اسی مضمون سے چند پارے پیشِ خدمت ہیں۔

    سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں، آج ہم جس تاریخی شہر میں جمع ہیں وہ گو ہمارے پورے ملک کی راجدھانی کبھی نہیں بنا لیکن یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ ہمارے علوم و فنون اور شعر و ادب کا مدتوں پایۂ تخت رہا ہے اور اب بھی ہے۔

    شاہ پیر محمد صاحب جن کا ٹیلہ اور ٹیلے پر والی مسجد مشہور ہے، یہاں کے سب سے پہلے عالم ہیں۔ عالمگیر کے عہد میں سہالی سے فرنگی محل کو علم و فنون کا وہ خاندان منتقل ہوا جو صدیوں تک ہمارے علوم و فنون کا محافظ اور شیراز ہند پورب کا دارالعلوم رہا اوراس نئے زمانے میں مسلمانوں کی نئی عربی درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہیں بنیاد پڑی۔ یہاں کا خاندانِ اجتہاد پورے ملک کے طول و عرض پر تنہا حکمراں ہے۔

    دلّی کے باغ میں جب خزاں آئی تو یہاں بہار کا دور آیا۔ اس اجڑے باغ کے کتنے مرغ خوش لحن تھے، جنہوں نے اڑ اڑ کر اس چمن کی شاخوں پر بسیرا لیا۔ ہندوستان کی موجودہ بولی پیدا تو سندھ اور پنجاب میں ہوئی، نشو و نما دکن میں پایا، تعلیم و تربیت دلّی میں حاصل کی، لیکن تہذیب اور سلیقہ لکھنؤ میں سیکھا۔ اودھ کی راجدھانی جب فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہوئی تو اس کو اور چار چاند لگ گئے۔ میرتقی میرؔ، انشاء اللہ خاں انشاءؔ، جرأت اورمصحفیؔ وغیرہ نے اودھ کا رخ کیا۔ میر انیس کا خاندان دلّی سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ان بزرگوں کے دم قدم سے بادشاہوں کے دربار، امراء کی ڈیوڑھیاں اور اہلِ علم کی محفلیں شعر و سخن کے نغموں سے پُر شور بن گئیں۔ ناسخ و آتشؔ، وزیرؔ و صباؔ اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے شعر و ادب کے جواہر ریزوں کے ڈھیر لگا دیے۔

    شعر و سخن کے چرچوں اور شاعروں کے تفریحی جمگھٹوں کو چھوڑ کر نفس زبان کی ترقی، محاورات کی نزاکت، الفاظ کی تراش خراش اور اصول و قواعد کے وضع و تالیف کا جو اہم کام گزشتہ دو صدیوں میں یہاں انجام پایا، اسی کا اثر ہے کہ اس نے بولی سے بڑھ کر زبان کا درجہ پایا۔ ملک سخن کے دو اخیر فرماں روا انیسؔ اور دبیرؔ نے شاعری نہیں کی، بلکہ اپنے نام سے زبان و ادب کے سکے ڈھال ڈھال کر اہل ملک میں تقسیم کرتے رہے۔

    ناسخؔ نے زبان کی نزاکت و لطافت میں وہ کام کیا جو ہر ایک ہوشیار جوہری جواہرات کے نوک پلک نکال کر جلا دینے میں کرتا ہے۔ ان کے شاگرد والا جاہ میراوسط علی رشک نے صحیح و غلط، ثقیل و سبک لفظوں کو اس طرح پرکھ کر الگ کر دیا کہ ان کی پسند فصاحت کا معیار بن گئی۔ سیکڑوں الفاظ جو بول چال میں رائج تھے، مگر شعر و انشاء کی بارگاہ میں ان کو بار حاصل نہ تھا، ان کو خود اپنے شعروں میں نظم کر کے پچھلوں کے لیے سند پیدا کی۔

    لکھنؤ میں غالباً یہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۸۴۸ء میں اردو لغت ترتیب دیا، جس کا نام ’’نفس اللغۃ‘‘ہے۔ سید انشاء اللہ خاں کے دریائے لطافت کا دھارا بھی یہیں بڑھا۔ شیخ امداد علی بحر المتوفی ۱۸۸۲ء کی نسبت بھی مشہور ہے کہ انہوں نے کوئی لغت لکھا تھا، مگر اس کا سراغ نہیں ملتا۔

    حکیم ضامن علی جلال جن کے دیدار کا شرف مجھے بھی حاصل ہے، ان شعراء میں ہیں جنہوں نے زبان کو نہ صرف شاعری بلکہ وضع اصول اور تحقیقات کے لحاظ سے بھی مالا مال کیا ہے۔ سرمایہ زبان اردو، مفید الشعراء، تنقیح اللغات، گلشن فیض اور قواعد المنتخب وغیرہ ان کی وہ کتابیں ہیں جو اردو زبان کا سرمایہ ہیں۔ منشی امیر احمد مینائی کے شاعرانہ خدمات سے قطع نظر، امیر اللغات کے مصنف کی حیثیت سے ہماری زبان پر ان کا بڑا احسان ہے کہ اردو کے اس عظیم الشان لغت کے دو حصّے الف ممدودہ اور الف مقصورہ تک چھپ سکے۔ ان کے جلیل القدر شاگرد نواب فصاحت جنگ جلیل سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ رام پور میں اس لغت کا پورا مسودہ موجود ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہماری زبان کی بڑی بدقسمتی ہو گی کہ ترقی کے اس روز بازار میں بھی مشتاقوں کی آنکھیں اس عروس فن کی دید سے محروم ہیں۔

    لکھنؤ نے شعر و سخن کے ذریعہ سے اس زبان کی جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ ہماری علمی محفلوں کی بار بار کی دہرائی ہوئی کہانیاں ہیں اور جو شہرت کی بنا پر زبان زد خاص و عام ہیں۔ مجھے اس شاہراہ سے ہٹ کر لکھنؤ کی وہ خدمتیں گنانا ہیں جن کو اس دور کے قدر داں بھول گئے ہیں یا ہماری زبان کی تاریخ سے یہ اوراق گر کر کھو گئے ہیں۔

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔

    اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔

    معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔

    اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ لکھنوی تہذیب و ثقافت کی علامت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی تصوّر کیے جاتے ہیں جسے بعد میں دبستانِ لکھنؤ کے نام سے جانا گیا۔ ان سے پہلے اودھ کا مرکز فیض آباد تھا، اور لکھنؤ ایک معمولی قصبہ تھا، تاہم 1775ء میں تخت نشینی کے بعد آصف الدّولہ نے اودھ کو دہلی سے جداگانہ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت دینے کے اقدام کیے۔ انھوں نے لکھنؤ میں علم و ادب کے بڑے ناموں اور فنون کے ماہرین کو جمع کرلیا اور اسے اہلِ‌ علم و باکمال شخصیات کے لیے شہرِ راحت بنا دیا۔ وہ یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔

    آج آصف الدّولہ کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ شہزادوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کی گئی اور اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ انھوں نے دوسرے فنون میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ وہ شروع ہی سے شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بعد میں‌ شاعر بھی مشہور ہوئے۔ امورِ سلطنت کی بات کی جائے تو انگریزوں کی کمپنی نے ایک معاہدہ کی صورت میں انھیں بے اختیار اور اپنا مطیع رکھا ہوا تھا۔

    بعض تذکروں میں آیا ہے کہ اس فرماں روا کے دور میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسے اہلِ کمال لکھنؤ آئے اور کہا جاتا ہے کہ سوز کو آصف الدّولہ نے شاعری میں اپنا استاد بنایا۔ لیکن نیاز فتح پوری جیسے بڑے ادیب اور نقّاد نے اپنے ایک مضمون میں‌ لکھا ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصفُ الدّولہ ان کے کلام کو پسند کرتا تھا اور ان کی شاگردی اختیار کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ یا یہ کہ اگر شاگردی کا سلسلہ رہا بھی تو صرف چند دن جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا کلام سوز کے رنگ کا ہے اور ممکن ہے کہ اس بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ آصفُ الدّولہ کا سارا کلام سوز ہی کا کلام ہے اور اسی لیے اب سوز کا کلام بہت کم نظر آتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کیوں کہ سوز نے جب کہا، ہمیشہ سہل زمینوں میں اور مشکل ردیف و قوافی اختیار ہی نہیں کیے۔ بَرخلاف اس کے آصفُ الدّولہ کے یہاں ایسی مشکل زمینیں نظر آتی ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے کلام میں نظر آئیں اور میرے نزدیک یہ اثر تھا مصحفی اور انشا کی صحبت کا۔

    اسی مضمون میں آگے چل کر نیاز صاحب لکھتے ہیں: بہرحال آصفُ الدّولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو، یہ بالکل یقینی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے نہایت پاکیزہ ذوقِ سخن لے کر آیا تھا اور اس میں سوز یا کسی اور کی صحبت کو دخل نہ تھا۔ آصف الدّولہ کی ماں تاریخِ اودھ کی وہ مشہور خاتون ہے جسے بہو بیگم کے نام سے آج لکھنؤ کا ہر وثیقہ دار جانتا ہے۔

    نیاز فتح پوری نے لکھا، آصف الدّولہ کی شاعری کی عمر کیا تھی یا یہ کہ کس عمر میں اس نے شاعری کی ابتدا کی، اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے ساکت ہیں۔ لیکن کلام کی کثرت کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ شوق انہیں عنفوان شباب ہی سے شروع ہو گیا ہوگا۔ ان کا جو قلمی کلیات میری نظر سے گزرا ہے، بڑی تقطیع کے سیکڑوں صفحات پر محیط ہے اور تمام اصنافِ سخن اس میں پائے جاتے ہیں۔

    آصفُ الدّولہ نے لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے تعمیر کردہ امام باڑے میں دفن ہوئے۔ 1797ء میں آج ہی کے وفات پانے والے اودھ کے اس نواب کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، علم و فنون کے قدر دان اور عظیم سرپرست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

  • فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی کے طور پر لیا جاتا ہے جو دبستانِ لکھنؤ مشہور ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی اہلِ علم اور نادرِ روزگار شخصیات وہاں سے لکھنؤ پہنچے تو دربار میں ان کی بڑی عزّت کی گئی اور صاحبانِ کمال کا خیر مقدم کیا گیا، یہی نہیں بلکہ نواب نے اپنے خرچ پر انھیں لکھنؤ بلایا۔

    آصفُ الدّولہ کو اسی سبب ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، فنونِ لطیفہ کا شائق اور فن کا قدر دان کہا جاتا ہے انھوں نے نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی بلکہ عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروا کے فنون اور ہنر کو بھی توقیر بخشی اور ہندستان میں گنگا جمنی تہذہب کے علم بردار مشہور ہوئے۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    دلّی اجڑا تو اہلِ علم نے کس شہر کا رخ کیا؟

    اردو زبان و ادب کے شائق و شیدا، سنجیدہ اور باذوق قارئین، خاص طور پر ادب کے طالبِ علموں نے "دبستانِ لکھنؤ” کی اصطلاح سن رکھی ہو گی اور اسی طرح لفظ "لکھنویت” سے بھی واقف ہوں گے جو ایک پس منظر رکھتا ہے۔

    دبستانِ لکھنؤ سے ہم شعر و ادب کا وہ رنگ اور انداز مراد لیتے ہیں جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا تھا۔ اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو اور دہلی کی شاعری سے مختلف ہے۔

    دہلی کے حالات بگڑے اور جب لکھنؤ میں اہل ذوق اور شعرا اکٹھے ہوئے تو دیگر مراکزِ علم و ادب کے مقابلے میں دبستانِ لکھنؤ کا چرچا بھی ہونے لگا۔

    ہندوستان میں اس سے پہلے علم و ادب کے لیے دکن اور دہلی بڑے مراکز مانے جاتے تھے، لیکن دہلی میں تاج و تخت کے لیے لڑائی اور وہاں کا امن و سکون غارت ہونے کے بعد اہلِ علم و فضل نے لکھنؤ اور فیض آباد کو اپنی دانش اور سخنوری سے سجایا اور یہاں پر علم و ادب کی محفلوں کو خوب رونق بخشی۔

    میر تقی میر بھی ان شعرا میں شامل ہیں جو حالات بگڑنے پر دہلی چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے۔