Tag: درانی سلطنت

  • احمد شاہ ابدالی: جدید افغانستان کا معمار

    احمد شاہ ابدالی: جدید افغانستان کا معمار

    احمد شاہ ابدالی 25 برس کی عمر میں شاہِ افغانستان منتخب ہوئے تھے۔ فوج کے اس سالار اور قبائلی سردار کو 1747ء میں قندھار میں منعقدہ ایک جرگے میں ریاست کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا اور یہ انتخاب صرف اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ باصلاحیت اور دوراندیش تھے بلکہ احمد شاہ ابدالی نے عملی زندگی میں خود ایک زبردست جنگجو اور بہترین منتظم بھی ثابت کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خوش اخلاق اور شائستہ انسان تھے جو اپنے ساتھیوں اور اشرافیہ میں بھی یکساں مقبول تھے۔

    پُرکشش شخصیت کے مالک احمد شاہ ابدالی متعدد جنگیں‌ لڑ چکے تھے۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی انھیں افغانستان کے عوام سے بڑا پیار، عزّت اور احترام ملا۔ انھوں نے تمام افغان قبائل کو اکٹھا کرکے ایک افغان ریاست کی بنیاد رکھی۔ احمد شاہ، افغانوں کے ایک بڑے اور مشہور ابدالی قبیلے کے فرد تھے۔ ان کی سلطنت بعد میں درّانی سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ بدالی 1722ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ جرمنی کے ایک مشہور مفکّر اور مؤرخ فریڈرک اینگلز نے 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات رقم کیے ہیں‌ جس میں وہ لکھتا ہے: "افغانستان، فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطۂ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔” بعد میں احمد شاہ ابدالی نے کئی فتوحات حاصل کرکے سلطنت کو وسعت دی اور اس کا دائرہ مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہر سرہند تک پھیل گیا۔ ابدالی کی حکم رانی شمال میں وسطی ایشیا کے آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحرِ ہند کے ساحل تک تھی۔

    کہتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی نے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک نئی پہچان اور آزاد ملک دیا۔ یوں تو افغانستان کی تاریخ کئی سو صدی پرانی ہے، جس میں یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا۔ لیکن احمد شاہ ابدالی کے دور میں اسے خاص مقام حاصل ہوا۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک یہ ریاست کئی حصّوں میں منقسم تھی جسے احمد شاہ کے دور میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک ملک کے طور پر ابھرنے کا موقع ملا اور یہی وجہ ہے کہ احمد شاہ بابائے افغان کہلائے۔ انھیں اکثر احمد شاہ بابا بھی کہا جاتا ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قبضہ کرنا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور شدید لڑائی کا سامنا کرنا پڑا اور افغانوں نے کبھی غیرملکی تسلط کو قبول نہیں‌ کیا۔

    احمد شاہ ابدالی کا دورِ حکومت 25 برسوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ایران نادر شاہ کے زیرِ نگیں علاقوں پر درّانی سلطنت قائم کی۔ نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تھا اور احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے، افغانستان کے بادشاہ منتخب ہوگئے۔ احمد شاہ ابدالی کی موت کے بعد ان کی اولاد نے اقتدار سنبھالا تھا۔

    احمد شاہ ابدالی کا ذکر تاریخ میں مرہٹوں سے پانی پت میں مشہور جنگ کے سبب بھی محفوظ رہے گا۔ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر احمد شاہ ابدالی نہ صرف ان کا زور توڑنے میں کام یاب ہوئے بلکہ اُن کی اس کام یابی سے ہندوستان کا مغل خاندان بھی محفوظ ہوگیا جن کے لیے مرہٹہ بڑا خطرہ تھے۔

    انیسویں صدی کے اوائل میں دنیا نے جمہوریت اور مختلف نظام ہائے مملکت دیکھے اور اسی عرصہ میں سیاست دانوں نے درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا۔ آج افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

    1773ء میں آج ہی کے روز احمد شاہ ابدالی وفات پاگئے تھے۔ ان کا مقبرہ افغانستان کے مشہور شہر قندھار میں واقع ہے۔ مقامی اور غیرملکی مؤرخین نے بھی ابدالی کے دورِ‌ حکومت اور بطور بادشاہ کارناموں کو سراہا ہے۔ ایک ہندوستانی مؤرخ گنڈا سنگھ کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ’احمد شاہ ابدالی درانی: جدید افغانستان کے معمار‘ میں لکھا ہے ’احمد شاہ ابدالی نے اپنی پوری زندگی ملک کی بہتری کے لیے وقف کر دی تھی اور وہ آج بھی افغان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں جنوبی اور سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کی بڑی تعداد ان کا نام ادب سے لیتی ہے۔ ‘

  • ایک کنیز کی محبّت میں گرفتار ہوجانے والے تیمور شاہ درانی

    ایک کنیز کی محبّت میں گرفتار ہوجانے والے تیمور شاہ درانی

    تیمور شاہ درانی اپنی محبوب کنیز کو مغل شہزادی اور اپنی ملکہ کے انتقام سے تو نہیں بچا سکے تھے، لیکن اس کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کروا دیا تھا۔ آج وہ کنیز پشاور میں ابدی نیند سو رہی ہے جب کہ بادشاہ افغانستان کے شہر کابل میں مدفون ہیں۔ تیمور شاہ درانی 18 مئی 1793ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    احمد شاہ درانی وہ حکم راں تھے جنھیں افغانستان اور ہندوستان کی تاریخ میں احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے انھیں درانی سلطنت کا بانی اور ایسا حکم راں تسلیم کیا جاتا ہے جس نے جدید ریاستِ افغانستان کی بنیاد رکھی۔ تیمور شاہ درانی اسی بادشاہ کے فرزند تھے۔ انھوں نے 1748ء میں‌ مشہد میں آنکھ کھولی تھی۔ اُس دور میں‌ افغانستان اور ہندوستان کے شمالی علاقے پشاور تک درانی خاندان کی حکومت تھی۔ 1772ء میں تیمور شاہ نے عنانِ حکومت سنبھالا اور پشاور کے قلعہ بالاحصار کی قیام گاہ میں موسمِ سرما میں‌ ان کی آمد ہوتی تھی۔ گرمیاں وہ کابل میں‌ گزارتے تھے۔

    اُس کنیز کا نام بی بی جان تھا جن کا مقبرہ آج پشاور کے وزیر باغ کے علاقے میں ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق مقبرہ اٹھارویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

    بی بی جان انتہائی خوب صورت اور ذہین بھی تھیں اور انہی خصوصیات کے باعث وہ بادشاہ کے قریب آگئی تھیں۔ تاریخی کتب میں اگرچہ ابدالی دور اور اس کے دوسرے حکم راں کے متعلق کچھ خاص نہیں‌ لکھا گیا مگر کہتے ہیں‌ کہ بادشاہ اکثر اپنی اس کنیز سے باغ میں ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ ان کی بیوی مغل شہنشاہ کی بیٹی تھیں اور یہ کنیز ملکہ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی تھی۔ انھوں نے بادشاہ کو کنیز کی محبّت سے آزاد کرانے کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا اور کہتے ہیں کہ کنیز کو بلا کر اسے زہر کا پیالہ تھما دیا تھا اور حکم دیا کہ وہ اسے پی لے۔ درانی عہد اور دوسرے حکم راں کے بارے میں چوںکہ کوئی دستاویزی شکل میں معلومات محفوظ نہیں اس لیے اکثر لوگ اس قصّے کو اپنے اپنے انداز میں‌ بیان کرتے ہیں جسے مستند نہیں‌ مانا جاسکتا۔ مقامی لوگوں میں‌ بی بی جان کی محبت کی داستان اور ملکہ کے انتقام کی کہانی سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی ہے۔ ان کی موت کا واقعہ لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانا ہے۔

    مشہور ہے کہ تیمور شاہ درانی اس کنیز کو پیار سے ’بیبو‘ کہا کرتے تھے اور اکثر ان سے اپنے امور میں مشاورت بھی کرتے تھے جو ملکہ ہی نہیں‌ اکثر درباریوں کو بھی ناپسند تھا اور اسی لیے ملکہ کو بی بی جان کو راستے سے ہٹانے میں مشکل پیش نہیں آئی۔

    پشاور کو باغات اور پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اور اس زمانے میں اس شہر کے ارد گرد باغات تھے۔ اس دور میں بڑے لوگوں کو ان باغات میں دفن کیا جاتا تھا اور بی بی جان کو وزیر باغ میں دفن کیا گیا۔

    آج یہ مقبرہ انتہائی خستہ حال ہے لیکن اس میں موجود قبر تیمور شاہ درانی کی محبوب کنیز کی ہے یا نہیں‌، یہ ایک راز ہے۔ اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔

  • افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    جرمنی کے انقلابی مفکّر اور متعدد تاریخی کتب کے مصنّف فریڈرک اینگلز 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات کو رقم کرتے ہوئے لکھا تھا:

    افغانستان فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطہ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔

    درّانی سلطنت
    افغانستان کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے، اور یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا ہے جسے درّانی سلطنت کے قیام کے بعد افغانستان کہا جانے لگا۔

    احمد شاہ ابدالی اور ماضی کا افغانستان
    یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھے جن کی سلطنت کو آج ہم افغانستان کے نام سے جانتے ہیں۔

    تاریخ کی مختلف کتب میں لکھا ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قابض ہونا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس سلطنت کا جغرافیہ بھی ایران کے نادر شاہ اور اس سے قبل مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک افغانستان کئی حصّوں میں منقسم رہا۔ تاہم ایک ملک کے طور پر افغانستان اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ابھرا جنھیں سب سے عظیم افغان سمجھا جاتا ہے اور وہ بابائے افغان مشہور ہیں۔ انھیں عام طور پر احمد شاہ بابا بھی پکارا جاتا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی ہی وہ حکم راں ہیں جنھوں نے افغانستان کو ریاست کے طور پر چلایا۔ ان کا دورِ حکومت 25 برس پر محیط ہے جس میں انھوں نے ملک اور قوم کی ترقّی کے لیے کام کیا اور ایک ذمہ دار اور سنجیدہ حکم راں کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    نادر شاہ کا زمانہ، قتل اور نئے حکم راں کا انتخاب
    احمد شاہ ابدالی نے جن علاقوں پر مشتمل درّانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی وہ ایران کے نادر شاہ کے زیرِ نگیں تھے۔ یہ وہی نادر شاہ ہے جو تاریخ میں دلّی کو تاراج کرنے اور ہندوستان میں لوٹ مار اور قتلِ عام کے لیے مشہور تھا۔

    نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے افغانستان کی بنیاد رکھی۔ وہ نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے جنھیں 1747ء میں 25 برس کی عمر میں اتفاقِ رائے سے افغانستان کا بادشاہ منتخب کیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ کا قبیلہ درّانی کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی سلطنت کو درّانی سلطنت کہا جانے لگا۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے وہاں حکومت کی اور بعد میں اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ان کا مقبرہ قندھار میں ہے۔

    تاریخ احمد شاہ کو ایک ایسے حکم راں کے طور پر جانتی ہے جنھوں نے افغان قبائل کو یکجا کرکے ایک ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے جنگیں بھی لڑیں اور اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ ان کا بڑا کارنامہ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر ان کا زور توڑنا ہے جو ہندوستان میں مغلیہ حکومت اور دیگر ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔

    آج کا افغانستان اور موجودہ حالات
    انیسویں صدی کے اوائل میں سیاست دانوں نے اسی درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا تھا۔

    افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

    مسلمان اکثریت والا یہ ملک اس وقت دنیا کی توجّہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکا اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کی تیزی سے پیش قدمی اور سرکاری فوج کی پسپائی کے بعد گزشتہ دنوں کابل میں طالبان کا داخل ہوکر کنٹرول سنبھال لینا، اس وقت بین الاقوامی میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔