Tag: درجہ حرارت میں اضافہ

  • درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ہیٹ ویو کا خدشہ

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ہیٹ ویو کا خدشہ

    محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران درجہ حرارت میں اضافہ متوقع ہے، عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ 8 تا 10 مئی درجہ حرارت 3 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہونے کا امکان ہے جبکہ ہفتے کے آخر میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا تو ہیٹ ویو کی لہر آسکتی ہے، ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے عوام ضروری احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

    محکمہ موسمیات کا مزید کہنا تھا کہ 10 مئی سے مختلف علاقوں میں آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

    ہیٹ ویو کے دوران درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

    جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دی جائے
    جسمانی صحت کے لیے پانی بہت ضروری ہے، جسم میں تھوڑی مقدار میں پانی کی کمی خطرے کی علامت نہیں ہے، کیونکہ اس حالت میں پانی کے استعمال سے کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کے موسم میں گھر سے باہر نکلنے سے قبل پانی لازمی پیئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ باہر ہوں بالخصوص جب دھوپ میں کام کررہے ہوں یا ورزش کررہے ہوں تو کم از کم ہر 15 سے 20 منٹ بعد ایک کپ (8 اونس) پانی پیئیں۔

    پانی کی کمی کے باعث گردوں میں پتھری اور پیشاب کی نالی میں انفیکشن کے ساتھ دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    مشروبات کا استعمال زیادہ کیا جائے
    پیاس کی شدت کو کم کرنے اور جسم میں نمکیات کی مقدار کو برقرار رکھنے کیلئے گھر میں بنے مشروبات فرحت بخش اور مفید ہوتے ہیں۔

    جس سے جسم میں تقویت کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی بھی پوری ہوجاتی ہے، شدید گرمی کا اثر کم کرنے اور ترو تازہ رہنے کیلئے فرحت بخش مشروبات جو آپ گھر پرباآسانی بناسکتے ہیں۔

    گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے سب سے پہلے لسی یا کچی کا استعمال بہت اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ ملیٹھی کا پانی بھی اس کیلئے مفید ہے، آدھا چمچ ملیٹھی ایک لیٹر نیم گرم پانی میں ڈال کر استعمال کریں، اس کیلیے کوئی عمر کی قید نہیں مریض بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ یہ پیاس کی شدت کو کم کرتا ہے۔

    اس کے علاوہ گرمی کے موسم میں دہی کا استعمال نہایت مفید ہوتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی اور مزے دار لسی سے نہ صرف ہاضمہ درست رہتا ہے بلکہ لسی گرم ہوا سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔

    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ
    شدید گرمی میں ہیٹ اسٹروک سب سے زیادہ تشویش ناک مسئلہ ہے، ہیٹ اسٹروک میں جسم خود کو ٹھنڈا نہیں کرپاتا اور جسم کا درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ معمول کے درجہ حرارت میں جسم سے پانی مختلف ذرائع سے خارج ہوتا ہے جن میں پسینہ آنا، گہرے سانس لینا اور پیشات کے ذریعے شامل ہے، لیکن جب نمی 75 فیصد سے زیادہ ہوجائے تو پسینہ آنا غیر مؤثر ہے۔

    اگر آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو الجھن کا شکار ہے یا جلد پر لال دھبے ہوں یا ایسا لگے کہ وہ شخص تیزی سے سانس لے رہا ہوں یا پھر سر درد کی شکایت ہو تو انہیں ٹھنڈی جگہ پر لے جائیں، ٹھنڈا پانی پلائیں، برف یا گیلے تولیے سے ان کی گردن، چہرے اور کمر کو ٹھنڈا کریں اور جلد از جلد کسی ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

  • قیامت خیز گرمی پڑنے سے متعلق خوفناک پیشگوئی

    قیامت خیز گرمی پڑنے سے متعلق خوفناک پیشگوئی

    اقوام متحدہ کی موسمیاتی ایجنسی ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ گزشتہ سال عالمی آب و ہوا کا بڑا ریکارڈ ٹوٹا تھا گیا اور اب 2024 اس سے بھی بدتر ہوسکتا ہے۔

    ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل سیلسٹی ساؤلو نے سمندر کی گرمی اور سکڑتی ہوئی سمندری برف کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 174سالوں میں اوسط درجہ حرارت بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

    گرمی

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ 65 سال کے اعداد و شمار میں سمندروں کا درجہ حرارت بھی گرم ترین سطح پر پہنچ گیا جس میں 90فیصد سمندروں کو گزشتہ سال کے دوران ہیٹ ویو کی خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

    ڈبلیو ایم او کے مطابق گزشتہ سال 2023کو 10 سال کا گرم ترین سال ریکارڈ کیا گیا تھا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال 2024 میں درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ہے، ساؤلو نے خبردار کیا کہ ہیٹ ویوز کے سمندری ماحولیاتی نظام پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

    اقوام متحدہ

    رپورٹ کے جواب میں اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زمین خطرے کے دہانے پر ہے یعنی زمین کو شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔

    انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں اس بات پر زور دیا کہ ایندھن کی آلودگی آب و ہوا میں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور خبردار کیا ہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    ساؤلو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2023 میں گرم موسم کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے، یہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔

  • وزیر اعظم سے خشک دودھ کی در آمد پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ

    وزیر اعظم سے خشک دودھ کی در آمد پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ

    کراچی: کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کے نفاذ سے دودھ کا کاروبار متاثر ہونے پر ڈیری فارمرز نے حکومت سے خشک دودھ کی در آمد پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ڈیری صنعت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ریلیف پیکج دیا جائے اور خشک دودھ کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے۔

    ایسوسی ایشن کے صدر شاکر عمر گجر نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر کہا ہے کہ تحقیقات اور کھپت کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی قوم تازہ دودھ کے استعمال کی عادی ہے جو پاؤڈر دودھ کے مقابلے میں تازہ اور صحت سے بھرپور ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے رپورٹ پیش کی تھی کہ پیکڈ دودھ کے زیادہ تر برانڈز ذائقہ پیدا کرنے اور شیلف زندگی بڑھانے کے لیے فارملین، کین شوگر اور تیل کی ملاوٹ کرتے ہیں جو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ ہیں۔

    انھوں نے لکھا کہ پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک قرار دیا جا چکا ہے جس کو دودھ کے پاؤڈر کی درآمد کی ضرورت نہیں ہے، ڈیری فارمرز کو یوٹیلٹی بلز پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے، اور تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ مویشی منڈیوں اور جانوروں کے بازار کھولنے کی اجازت دی جائے، مقامی ضرورت پوری ہونے تک گندم کے بھوسے، ونڈا کوالٹی اجناس اور فیڈ کی دیگر اشیا کی برآمد پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مویشیوں اور دودھ کا شعبہ زرعی جی ڈی پی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور دیہی علاقوں میں روزگار کا زیادہ تر دار و مدار اسی شعبے پر ہے، حالیہ صورت حال میں ڈیری سیکٹر کو منافع کی صورت حال کا سامنا نہیں ہے لیکن وہ خدمات کی فراہمی، ان کے کاروبار اور روزگار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

  • سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2016 جدید تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت، کویت اور ایران میں غیر معمولی اور قیامت خیز گرمی دیکھی گئی۔ دوسری جانب قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا۔

    مذکورہ رپورٹ کے لیے سال بھر میں زمین اور سمندر کے اوسط درجہ حرارت کا جائزہ لیا گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1880 سے جب سے موسم کا ریکارڈ رکھنے کا آغاز ہوا ہے تب سے یہ تاریخ کا گرم ترین سال ہے۔

    امریکی ماہرین کی اس تحقیق سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی تیز رفتاری کی طرف پریشان کن اشارہ ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا تاہم 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا۔

    earth-heat

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔

    نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

    ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    مذکورہ رپورٹ جاری کرنے والے ادارے نواا نے کچھ عرصہ قبل ایک اور رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی گئی تھی جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    یہ غیر معمولی مظاہر سال 2015 میں رونما ہوئے تھے۔ ان میں کراچی کے 2000 شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی قیامت خیز ہیٹ ویو بھی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کا کہنا تھا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

  • اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کرہ ارض کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس یہ دن ’اوزون اور کلائمٹ‘ کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔

    اوزون سورج کے گرد قائم آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ کا 90 فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

    سنہ 1970 میں مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی زہریلی گیسیں اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔ تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔ 1974 میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اوزون کی تہہ کو لاحق خطرات کے باعث اگلے 75 سالوں میں اس تہہ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

    ozone-2

    دسمبر 1994 میں اقوام متحدہ نے آج کے دن کو اوزون کی حفاظت کے دن سے منسوب کیا جس کا مقصد اس تہہ کی اہمیت کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔


    اوزون کو کس چیز سے خطرہ لاحق ہے؟

    دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں کئی ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہیں اس ترقی نے ہماری زمین پر ناقابل تلافی خطرناک اثرات مرتب کیے۔

    ہماری فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ ہماری فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کاربن کا اخراج ہماری اور ہماری زمین کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے اور یہ اوزون پر بھی منفی طور سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

    اس کا سب سے زیادہ اثر برف سے ڈھکے انٹار کٹیکا کے علاقے میں ہوا جہاں اوزون کی تہہ میں گہرا شگاف پیدا ہوچکا ہے۔ اوزون کو نقصان کی وجہ سے اس علاقہ میں سورج کی روشنی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ آرہی ہے جس سے ایک تو اس علاقہ کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا دوسری جانب برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے دنیا بھر میں شدید سیلاب آنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: قطب شمالی کی گلابی برف

    تاہم ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ انٹار کٹیکا کے اوپر اوزون میں پڑنے والا شگاف اب مندمل ہورہا ہے اور 2050 تک یہ پہلے کی طرح مکمل ٹھیک ہوجائے گا۔

    اوزون کی تہہ کو ان چیزوں سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ۔

    سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ۔

    کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بعد اس سے نکلنے والا زہریلا دھواں۔

    کلورو فلورو کاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال۔ یہ گیس انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1989 میں 150 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر عمل کے بعد اب دنیا بھر میں ہائی سی ایف سی گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔


    اوزون تہہ کی تباہی کی صورت میں نقصانات

    اوزون کی تہہ تباہ ہونے یا اس کی موٹائی میں کمی ہونے کی صورت میں یہ نقصانات ہوں گے۔

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافہ۔

    عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ۔

    دنیا بھر میں سیلابوں کا خدشہ ۔ ساحلی شہروں کے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ۔

    سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنا جس سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    شدید گرمی سے درختوں اور پودوں کو نقصان۔

    گرم موسم کے باعث زراعت میں کمی جس سے کئی علاقوں میں قحط اور خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ۔
    ozone-4


    اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟

    اوزون کی حفاظت ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال سے ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں طویل المدتی شہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں سبزہ اگایا جائے تاکہ وہ ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک

    مزید پڑھیں: مراکش میں مساجد کو ماحول دوست بنانے کا آغاز

    واضح رہے کہ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں بھی ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔


     

  • گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

    حال ہی میں ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک پیشن گوئی میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔

    birds

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسل معدوم ہونے لگے گی۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اگر درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا تو 2050 تک دنیا سے ایک چوتھائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    wildlife-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث جہاں دنیا کو قدرتی آفات میں اضافے کا خطرہ لاحق ہے وہیں جانور بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    اس سے قبل کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث 1999 میں سینٹرل امریکا کا آخری سنہری مینڈک بھی مرچکا ہے جسے کلائمٹ چینج کے باعث پہلی معدومیت قرار دی گئی ہے۔

    polar-bear

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے جس سے برفانی ریچھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی امریکی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔