Tag: درخت

  • پاکستان میں عام پائے جانے والے اس درخت میں بے شمار بیماریوں کا علاج

    پاکستان میں عام پائے جانے والے اس درخت میں بے شمار بیماریوں کا علاج

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام درخت اپنے اندر بے شمار بیماریوں کا علاج اور انوکھی خصوصیات رکھتا ہے؟

    یہ درخت مورنگا کا درخت ہے جسے سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ سوہانجنا ایشیا اور افریقہ دونوں خطوں میں پایا جاتا ہے۔ مشرقی افریقہ میں اس درخت کو طویل عرصے سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں اس کے مزید کیا کیا حیران کن فوائد ہیں۔

    سوہانجنا کے بیج پینے کے پانی کو صاف کرتے ہیں۔

    اس کے پتے اگر زمین میں دبا دیے جائیں تو یہ کھاد کی شکل اختیار کرجاتے ہیں جو اس زمین پر ہریالی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

    اس درخت کا ایک ایک حصہ بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سوہانجنا کی پھلیوں کا استعمال جوڑوں میں درد کے لیے نہایت مفید ہیں۔

    ماہرین اب اس درخت سے خطرناک بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس کے پتوں کو پیس کر خشک کرلیا جائے تو یہ جز ذیابیطس، کولیسٹرول، موٹاپے اور آنتوں کی بیماریوں کے علاج میں بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس کے پتوں اور پھلیوں میں خصوصی کیمیائی اجزا موجود ہوتے ہیں جو اس درخت کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاتے ہیں۔

    اور سب سے حیران کن بات یہ کہ یہ درخت قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اگ سکتا ہے اور سخت ترین موسمی حالات میں بھی بہت تیزی سے نشونما پاتا ہے۔

    صوبہ پنجاب میں سوہانجنا کے درخت بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ ماہرین نباتات کے مطابق یہ درخت اندرون سندھ کے علاقوں کے لیے بھی موزوں ہے۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ساؤ پاؤلو: برازیل میں ایمازون کے جنگلات میں سائنس دانوں نے مختلف جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت کی ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ نو دریافت شدہ تمام اقسام ان علاقوں میں ہیں جو انسانی مداخلت کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اور برازیل میمروا انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ان نو دریافت شدہ جنگلی حیات میں 216 نباتات، 93 مچھلیاں، 32 دیگر سمندری حیات، 19 رینگنے والے جانور (حشرات الارض)، ایک پرندہ جبکہ 20 ممالیہ جانور شامل ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ایمازون میں گزشتہ 17 سالوں میں اب تک جنگلی انواع کی 2 ہزار سے زائد اقسام دریافت کی جاچکی ہیں، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ادارے کےمطابق حال ہی میں دریافت کی جانے والی 381 اقسام ایمازون جنگل کے ان حصوں میں ہیں جہاں انسانی عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف برازیل کے پروگرام کو آرڈینیٹر رکارڈو میلو کا کہنا ہے کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ جنگلی حیات کی وہ اقسام معدوم ہوجائیں جو ابھی دنیا کے سامنے بھی نہیں آںے پائیں۔

    یاد رہے کہ ایمازون کے جنگلات رین فاریسٹ کی خاصیت رکھتے ہیں یعنی جہاں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    ایمازون کے جنگلات دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    سکھر: دریائے سندھ کے کنارے سکھر کے مقام پر کچے کے علاقے میں 5 ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر درخت اگانے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات کی جانب سے دریائے سندھ کے کنارے کچے میں سکھر کے مقام پر 5 ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر درخت اگائے جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں

    محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر خالد نظامانی کی نگرانی میں سکھر کے الف کچو میں بیج بوائی اور شجر کاری کا آغاز کیا گیا جس میں پہلے مرحلے پر 5 ہزار ایکڑ جبکہ مجموعی طور پر 18 ہزار ایکڑ پر جنگلات لگائے جائیں گے۔

    شجر کاری کی مہم کا مقصد دریائی جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں دریا کنارے کیکر، کنڈی اور دیگر مقامی درخت لگائے گئے۔

    محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر خالد نظامانی کہنا ہے کہ ماحول کی بہتری کے لیے دریائی جنگلات لازم ہیں اور یہ جنگلات مقامی لوگوں کے تعاون سے لگائے جانے ضروری ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کے 2.2 فیصد حصے پر جنگلات موجود تھے تاہم بے دریغ غیر قانونی کٹائی کے باعث ہم صرف سنہ 1990 سے 2010 کے درمیان اپنا 33 فیصد سے زائد جنگلاتی رقبہ کھو چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بلین ٹری سونامی پاکستان میں سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری

    بلین ٹری سونامی پاکستان میں سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری

    عالمی اقتصادی فورم نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں شجر کاری کی وسیع ترین مہم بلین ٹری سونامی کی کامیابی کا اعتراف کرلیا۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    رپورٹ کے مطابق منصوبے کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    اب ورلڈ اکنامک فورم نے بھی اس منصوبے کی کامیابی کا اعتراف کرلیا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم نے آئی یو سی این ہی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر 12 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم خرچ کی گئی جس کے بعد یہ ملک کی سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری بن گئی ہے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بلین ٹری سونامی کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگیا ہے اور اب تک صوبے بھر میں 94 کروڑ درخت کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔

    منصوبے کے تحت صوبے میں مجموعی طور پر ایک ارب درخت لگائے جانے تھے اور منصوبہ اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔

    مزید پڑھیں: ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تکمیل کے قریب

    ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ حکومت کا کراچی کوسرسبز و شاداب بنانے کا فیصلہ

    سندھ حکومت کا کراچی کوسرسبز و شاداب بنانے کا فیصلہ

    کراچی: سندھ حکومت نے کراچی کو سرسبز و شاداب بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے 9 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کو گرین سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کو گرین سٹی بنانے کے لیے 98 ملین ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔

    یہ منصوبہ 4 سال میں مکمل ہوگا۔ منصوبے کے تحت کراچی میں پاکستان چوک، صدر سے ملیر اور کورنگی تک سبزہ بحال کیا جائے گا۔

    اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شہر میں کسی بھی عمارت کی تعمیر سے پہلے درخت لگانا لازمی قرار دیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر شروع کی جانے والی شجر کاری کی مہم سرسبز پاکستان کے تحت کراچی میں بھی 60 ہزار درخت لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں

    اس وقت کراچی میں موجود درختوں کی اکثریت کونو کارپس کی ہے جو کراچی کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔

    کونو کارپس کے درخت بہت تیزی سے افزائش کرتے ہیں تاہم یہ کراچی کے ماحول سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ یہ درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں، یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل اس درخت کی خرید و فروخت پر پابندی بھی عائد کی جاچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بلین ٹری سونامی: خیبر پختونخواہ کا منفرد اعزاز

    بلین ٹری سونامی: خیبر پختونخواہ کا منفرد اعزاز

    پشاور: عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    حال ہی میں آئی یو سی این کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    یاد رہے کہ بون چیلنج ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے تحت دنیا کے درجنوں ممالک سنہ 2020 تک 15 کروڑ ایکڑ رقبے پر جنگلات میں اضافہ کریں گے۔

    آئی یو سی این نے خیبر پختونخواہ حکومت کو اس اہم سنگ میل کی تکمیل پر مبارک باد بھی دی۔

    دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں جاری شجر کاری کی مہم ’بلین ٹری سونامی‘ کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔

    اس منصوبے کے تحت صوبے بھر میں مجموعی طور پر ایک ارب درخت لگائے جانے تھے اور رپورٹ کے مطابق اب تک 94 کروڑ درخت کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ تکمیل کے قریب

    اب تک متعدد عالمی اداروں بشمول آئی یو سی این اور عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی جانب سے بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کی نگرانی کی جاچکی ہے اور اسے کامیاب قرار دیا جاچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا تیز رفتار ترین منصوبہ ہے اور پوری دنیا میں 3 سال کے عرصے میں کسی بھی ملک نے شجر کاری کا اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تغیرات مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر کے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تغیرات کے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت تمام تر اقدامات اٹھا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی اور تحفظ کے حوالے سے قائم فورم (آر ای ای ڈی پلس) کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو منتخب وزیر برائے کلائمٹ چینج مشاہد اللہ نے بھی شرکت کی۔

    یہ ان کی حلف برداری کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔

    اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی ہوتے ہوئے پاکستان کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانا ناممکن ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے خطرات کے مقابلے میں جنگلات ایک بہترین ڈھال ہیں جو ان خطرات کی شدت بے حد کم کرسکتے ہیں۔

    مشاہد اللہ نے پاکستان پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی آئی جو اب ایک شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

    انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے ایک اور سبب توانائی کے حصول کے لیے لکڑی کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔

    مزید پڑھیں: بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو قابل رسائی بنایا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی شعور و آگاہی کی مہمات پر بھی زور دیا جس کے تحت لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    ماحول کو صاف رکھنے اور آلودگی سے بچانے کے لیے درخت لگانا بے حد ضروری ہیں لیکن اس سے قبل یہ علم ہونا ضروری ہے کہ کس علاقے کی آب و ہوا اور محل وقوع کے لحاظ سے کون سے درخت موزوں رہیں گے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد طاہر صدیقی اس بارے میں نہایت مفید معلومات فراہم کرتے ہیں۔

    زرعی یونیورسٹی سے ہی تعلیم یافتہ پروفیسر طاہر صدیقی نے ملائشیا اور نیوزی لینڈ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ماحولیات اور شجر کاری کے موضوع پر ان کی 45 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق درخت اپنی افزائش اور ساخت کے اعتبار سے مختلف زمینوں اور مختلف موسمی حالات میں مخصوص اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مخلتف درخت مخصوص آب و ہوا، زمین، درجہ حرارت اور بارش میں پروان چڑھ سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    مثال کے طور پر ٹھنڈے علاقوں کا درخت پائن گرم مرطوب علاقوں میں نہیں بڑھ سکتا۔ لہٰذا موسمی حالات و تغیرات درختوں کے چناؤ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔

    اس کی ایک اور مثال کراچی میں لگائے جانے والے کونو کارپس کے درخت بھی ہیں۔ یہ درخت کراچی کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔

    یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    تاہم معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت موجود ہیں۔

    مزید پڑھیں: ان انوکھے درختوں کی کہانیاں سنیں

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    پنجاب کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق جنگلات کے نقطہ نظر سے جنوبی پنجاب میں زیادہ تر خشک آب و ہوا برداشت کرنے والے درخت پائے جاتے ہیں۔

    آب و ہوا خشک ہے تو یہاں پر خشکی پسند درخت زیادہ کاشت کیے جائیں جو خشک سالی برداشت کرسکیں۔ یہاں بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ، فراش لگایا جائے۔

    اس کے ساتھ آم کا درخت بھی اس آب و ہوا کے لیے نہایت موزوں ہے۔

    ان کے مطابق وسطی پنجاب میں نہری علاقے ہیں لہٰذا وہاں املتاس، شیشم، جامن، توت، سمبل، پیپل، بکاین، ارجن، اور لسوڑا لگایا جائے۔

    شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں۔

    پروفیسر طاہر صدیقی کا کہنا ہے کہ کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں، ان کی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں۔ سفیدہ صرف وہاں لگایا جائے جہاں زمین خراب ہو، یہ سیم و تھور ختم کر سکتا ہے۔ جہاں زیر زمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگایا جائے۔

    اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھو ہار کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر محمد طاہر صدیقی کے مطابق خطہ پوٹھوہار کے لیے موزوں درخت دلو، پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں۔ اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کا باعث بن رہا ہے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔

    اس کی جگہ مقامی درخت لگائے جائیں۔ زیتون کا درخت بھی یہاں کے لیے موزوں ہے۔

    سندھ کے لیے موزوں درخت

    سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا موزوں رہے گا۔

    کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلمہر، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔ اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سوہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا موزوں رہے گا۔

    بلوچستان کے لیے موزوں درخت

    صوبہ بلوچستان کے لیے موزوں ترین درخت صنوبر کا ہے۔ زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے جو دنیا بھر میں صنوبر کا دوسرا بڑا جنگل ہے۔

    باقی بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون کرک، پھلائی، کیر، بڑ، چلغوزہ پائن، اور اولیو ایکیکا لگایا جائے۔

    خیبر پختونخواہ کے لیے موزوں درخت

    پروفیسر طاہر کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں شیشم، دیودار، پاپولر، کیکر، ملبری، چنار اور پائن ٹری لگایا جائے۔

    درخت لگانے کے لیے مزید ہدایات

    پروفیسر طاہر صدیقی کے مطابق

    اگر آپ اسکول، کالج یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگیں گے اور ان کے درمیان 10 سے 15 فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیئے۔

    گھر میں درخت لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔

    آپ مالی کے بغیر بھی باآسانی درخت لگا سکتے ہیں۔ نرسری سے پودا لائیں، زمین میں ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اورگینک ریت اور مٹی سے بنی کھاد ڈالیں۔

    اگر پودا کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں۔ پودا ہمیشہ صبح کے وقت یا شام میں لگائیں۔ دوپہر میں نہ لگائیں اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔

    پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں۔ گڑھا نیچا رکھیں تاکہ اس میں پانی رہیں۔

    ہر ایک دن بعد کر پانی دیں۔ پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اس کو کھرپی سے نکال دیں۔

    اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا یوریا فاسفورس والی کھاد اس میں ڈالیں لیکن یوریا کم ڈالیں ورنہ اس سے پودا سڑ سکتا ہے۔

    گھروں میں لگانے کے لیے شہتوت، جامن، سہانجنا، املتاس اور بگائن نیم کے درخت موزوں ہیں۔

    یہ مضمون ٹی آر ٹی اردو کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کی مصنفہ جویریہ صدیق ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارت میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر درخت لگانے کی ترغیب

    بھارت میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر درخت لگانے کی ترغیب

    بھارت میں یوں تو مسلمانوں سے نفرت کے واقعات میں بے انتہا اضافہ ہورہا ہے تاہم انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے احکامات کے بعد سرکاری حکام مجبوراً قرآنی آیات کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔

    چند روز قبل عالمی یوم ماحول کے موقع پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران لوگوں کو درخت لگانے پر زور دیا۔

    اس موقع پر انہوں نے ریاستی محکمہ جنگلات کی جانب سے شائع شدہ ایک پمفلٹ بھی پڑھا جس میں اسلام سمیت مختلف مذاہب سے منسوب درختوں کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

    یوگی کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب تحفظ ماحول اور شجر کاری کا درس دیتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: طالبان کی لوگوں کو درخت لگانے کی تاکید

    یوگی کی اس تقریر کے بعد محکمے نے مذکورہ پمفلٹس کو مزید بڑی تعداد میں شائع کروا کے پوری ریاست میں بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہر مذہب کے لوگوں میں درختوں کے تحفظ اور نئے درخت اگانے کا شعور پھیلایا کیا جاسکے۔

    ان پمفلٹوں میں نہ صرف قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے بلکہ دیگر مذہبی کتب جیسے انجیل، سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب، ہندوؤں کی وید اور بدھوں کی مقدس کتب سے حوالے دیےگئے ہیں جن میں درختوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

    پمفلٹ میں لکھا گیا ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے تلسی، انجیر، کھجور، زیتون، انگور، انار، پیلو (جس سے مسواک بنائی جاتی ہے) مہندی اور ببول کا ذکر کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ان انوکھے درختوں کی کہانیاں سنیں

    علاوہ ازیں دیگر مذاہب سے منسوب درختوں کے بارے میں بھی بتایا گیا جیسے انجیل میں انجیر، شہتوت، کھجور، انگور، ایلو ویرا وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ پمفلٹ کے مطابق حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ نے ممنوعہ پھل کھانے کے بعد انجیر کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپا تھا۔

    اسی طرح بدھ مذہب کی کتاب میں آم، پیپل، جامن، ریٹھا اور شیشم کے درختوں کا ذکر ہے اور پمفلٹ کے مطابق یہ درخت گوتم بدھا کے باغ میں موجود تھے۔

    محکمے کو امید ہے کہ ان پمفلٹس کی تقسیم کے بعد لوگ ماحول کی حفاظت بھی اپنے ایمان کی طرح کریں گے اور اسے ایک مقدس مذہبی فریضہ جانیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • درختوں کی کٹائی اور کاروبار میں بڑے نام ملوث: سپریم کورٹ

    درختوں کی کٹائی اور کاروبار میں بڑے نام ملوث: سپریم کورٹ

    اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سب سے زیادہ قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے خود گلگت بلتستان میں درختوں کو کاٹنے کی پالیسی منظور کی۔ درختوں کی کٹائی اور اس کے کاروبار میں طاقتور لوگ ملوث ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں درختوں کی کٹائی سے متعلق دائر مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 200 روپے کے جرمانے سے درختوں کی کٹائی نہیں روکی جاسکتی۔ محکمہ جنگلات خود درختوں کی کٹائی میں ملوث ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب تک وفاقی حکومت اور محکمہ جنگلات درختوں کی کٹائی کے حوالے سے بنائے جانے والے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے اس کام کو نہیں روکا جا سکتا۔ وزیر اعظم نے خود گلگت بلتستان میں درختوں کو کاٹنے کی پالیسی منظور کی۔

    مزید پڑھیں: شیشم کے درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور فروخت جاری

    جسٹس فائز نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے درختوں کی کٹائی کے حوالے سے منظوری میں کہا گیا تھا کہ پرانے درختوں کی جگہ نئے درخت لگائے جائیں گے۔ کیا نئے درخت پرانے درختوں کا نعم البدل ثابت ہوسکتے ہیں۔

    دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اسلام آباد کے کرکٹ گراؤنڈ سے منسلک دیہاتوں اور جنگلات میں اثر و رسوخ والے لوگ قبضے کر رہے ہیں۔ 8 ٹرکوں کے ساتھ پکڑے جانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ درختوں کی کٹائی کے کام میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔

    یاد رہے سہالہ کہوٹہ روڈ پر درختوں کی کٹائی کی خبر اے آر وائی نیوز پر نشر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اس کیس کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت اور آئی سی ڈی سے جواب طلب کیا تھا۔

    مقدمے کی مزید سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔