Tag: درخت

  • درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    آسٹریلیا میں پایا جانے والا گلہری کا ہم شکل جانور کوالا موسمیاتی تغیرات اور سخت گرمی کے باعث پیاس کے ہاتھوں بے حال ہے، ایسے میں ایک کسان ان معصوم جانوروں کی پیاس بجھانے کے لیے کوشاں ہے۔

    کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    کوالا کی بنیادی خوراک یوکلپٹس (درخت) کے پتے ہیں جو ان کے جسم کو نہ صرف توانا رکھتا ہے بلکہ ان کے جسم کو درکار پانی کی بے تحاشہ ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ تاہم موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث یوکلپٹس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

    یوکلپٹس کے تازہ پتوں میں پرانے پتوں کی نسبت زیادہ نمی ہوتی ہے لہٰذا کوالا بہت شوق سے یوکلپٹس کے تازہ پتے کھاتے ہیں۔

    تاہم اس درخت کی پیداوار میں کمی سے ایک تو تازہ پتوں کی بھی کمی واقع ہورہی ہے، دوسری جانب کلائمٹ چینج کے اثرات کے باعث نئے یوکلپٹس کے پتے پہلے کی طرح ترو تازہ اور نمی سے بھرپور نہیں ہوتے جو کوالا کی پیاس بجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کوالا کے لیے ایک سنگین صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ جانور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں۔ ان کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں اب 1 لاکھ سے بھی کم کوالا رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب موسم گرما کی شدت میں اضافہ اور ہیٹ ویوز بھی ان معصوم جانوروں کے لیے مزید زحمت ثابت ہوتا ہے اور اس موسم میں ان کی اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایک کسان روبرٹ نے ان جانوروں کے لیے پانی کے ذخائر بنانے شروع کردیے ہیں۔ اس کسان نے یونیورسٹی آف سڈنی کے اشتراک سے اسٹیل کے بڑے برتن میں پانی رکھنا شروع کیا ہے جس میں پانی کی فراہمی ایک الیکٹرک موٹر کے ذریعے رواں رہتی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات کوالا اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ گھنٹوں تک پانی پیتے رہتے ہیں۔ پانی کے یہ ذخائر درختوں کے قریب نصب کیے جارہے ہیں۔

    دوسری جانب کوالا کے لیے پانی رکھنے کے حوالے سے آگاہی مہمات بھی چلائی جارہی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جارہا ہے، کہ ’اگر ان معصوم جانوروں کو پانی نہ ملا تو یہ پلک جھپکتے میں غائب (معدوم) ہوجائیں گے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوالا کو لاحق ان خطرات کے باعث یہ معصوم جانور سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتا ہے۔

  • وہ پودے جو سخت گرمی میں آپ کے گھر کو ٹھنڈا رکھیں گے

    وہ پودے جو سخت گرمی میں آپ کے گھر کو ٹھنڈا رکھیں گے

    موسم گرما کی آمد آمد ہے اور رواں برس جس طرح موسم سرما اپنے عروج پر رہا ایسے ہی موسم گرما بھی اپنی تمام تر شدت کے ساتھ ظاہر ہوگا۔

    گرمیوں کے موسم میں پنکھوں اور اے سی کا استعمال بڑھ جاتا ہے جس کے باعث بجلی کے بل میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ویسے تو گھروں میں پودے لگانا اور انہیں سرسبز رکھنا گھر کے مجموعی درجہ حرارت اور بجلی کے بل کو کم رکھتا ہے تاہم کچھ پودے ایسے بھی ہیں جو نہایت کم قیمت میں فوری طور پر آپ کے گھر کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی پودوں سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    ایلو ویرا

    ایلو ویرا کا پودا اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے، ایلو ویرا ہوا کو جراثیموں اور زہریلے اشیا سے پاک کر کے اسے صاف بناتا ہے جبکہ یہ کمرے کے درجہ حرارت میں بھی کمی کرتا ہے۔

    آریکا پام ٹری

    یہ پودا کم روشنی میں بھی ہرا بھرا رہتا ہے اور ہوا کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں کمی کرتا ہے۔

    ویپنگ فگ

    ویپنگ فگ نامی پودا گرمی سے پیدا ہونے والی بدبو کو ختم کر کے کمرے کی فضا کو خوشبو دار بناتا ہے جبکہ گرمی میں بھی کمی کرتا ہے۔

    بے بی ربڑ پلانٹ

    یہ پودا بھی کمرے کو ٹھنڈا رکھنے اور گرمی کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

  • جنگلات کا عالمی دن: پاکستان سرسبز مستقبل کی جانب گامزن

    جنگلات کا عالمی دن: پاکستان سرسبز مستقبل کی جانب گامزن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز 28 نومبر 2012 سے کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے تاہم پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے بعد ملک میں جنگلات کا رقبہ صرف 2.2 فیصد رہ گیا ہے، البتہ بلین ٹرین سونامی منصوبہ پھر سے ملک میں جنگلات کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’جنگلات اور تعلیم‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس تعلیم کو فروغ دینا ہے جس میں درختوں اور جنگلات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی حفاظت، تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کو نصاب کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں جنگلات کی محافظ ثابت ہوں۔

    پاکستان میں کچھ سال قبل شروع کیے جانے والے ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے نے پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ماحول دوست اقدامات کی بدولت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کی حفاظت سے متعلق شعور پیدا ہورہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2015 اور 2016 کے درمیان جنگلات کے رقبے میں 6 لاکھ ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔

    ایف اے او کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 3 کروڑ 62 لاکھ سے بڑھ کر 3 کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہوگیا ہے تاہم اسی عرصے میں پرانے جنگلات کے رقبے میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

    آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہونے لگا ہے جس نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات قائم کیے۔

    رپورٹ کے مطابق منصوبے کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    گزشتہ حکومت میں صوبہ خیبر پختونخواہ تک محدود یہ منصوبہ اب پورے ملک میں شروع کیا جاچکا ہے اور اس کے تحت بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے۔

  • کراچی: درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف مظاہرہ، خواتین کی بڑی تعداد کی شرکت

    کراچی: درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف مظاہرہ، خواتین کی بڑی تعداد کی شرکت

    کراچی: شہرِ قائد میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف شہریوں نے بڑی تعداد میں مظاہرہ کیا، جس میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے کلفٹن میں سی ویو کے قریب بڑی تعداد میں شہریوں نے درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف مظاہرہ کیا۔

    مظاہرے میں کلفٹن اور ڈیفنس کی خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی، مظاہرے کی قیادت پی ٹی آئی ایم این اے آفتاب صدیقی کر رہے تھے۔

    مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’درختوں کی غیر قانونی کٹائی بند کرو‘ کے نعرے درج تھے۔

    مظاہرے کے دوران شرکا کی جانب سے نعرے بھی لگائے گئے، مظاہرین نے ’درخت کاٹنا بند کرو‘ کے نعرے لگائے۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر درختوں کی کٹائی جاری رہے گی تو ہماری آنے والی نسلوں کو زمین پر سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے درخت اگاؤ مہم جاری ہے، اس کے با وجود کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔

    درختوں کی کٹائی میں مختلف ادارے بھی ملوث ہیں، گزشتہ دنوں میٹروول سائٹ ایریا میں کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کے پول لگانے کے لیے سڑک کے کنارے درختوں کو کاٹا گیا۔

  • اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، دارالحکومت میں جلد جامن، آڑو، امرود، لوکاٹ، آلو بخارہ اور چیکو کے پودوں کی شجر کاری کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت قومی صحت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پھل دار پودے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں 500 پھل دار پودے لگائے جائیں گے۔

    ذرائع کے مطابق لگائے جانے والے پودوں میں جامن، آڑو، امرود، لوکاٹ، آلو بخارہ اور چیکو کے پودے شامل ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے وزارت قومی صحت نے اراضی حاصل کرلی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پھل دار پورے فضل الحق روڈ کی گرین بیلٹ پر لگائے جائیں گے۔ وزارت صحت اور مقامی آبادی پودوں کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہوگی۔

    اس مقصد کے لیے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گرین بیلٹ وزارت قومی صحت کے حوالے کردی ہے۔

    دارالحکومت میں پھل دار شجر کاری کا یہ منصوبہ وزیر اعظم کے بلین ٹری سونامی منصوبے کا حصہ ہے، دوسرے مرحلے میں مزید مقامات پر بھی پھل دار پودے لگائے جائیں گے۔

    خیال رہے کہ اسلام آباد میں ملبیری درختوں کی بھرمار ہے جو شہریوں میں پولن الرجی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

    سی ڈی اے ان درختوں کو کاٹ کر دیگر درخت لگانے پر بھی کام کر رہی ہے۔

  • لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا طریقہ

    لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا طریقہ

    تیز بارشوں کے دوران پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ عام ہوجاتی ہے جو بھاری جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے، پاکستان میں ایسے واقعات عام ہیں تاہم افریقی ملک کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ سے بچنے کا انوکھا طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔

    کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بہت عام ہیں جو کسانوں کی فصلوں اور بعض اوقات گھروں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔

    ان کسانوں نے اس سے بچنے کے لیے ڈھلوان سطحوں پر بانس کے درخت اگا دیے ہیں۔ بانس کے درخت زمین کی مٹی کو جکڑ کر رکھتے ہیں اور تیز بارشوں میں زمینی کٹاؤ سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    یہ درخت جلد نشونما پا کر بہت تیزی سے پھیل جاتے ہیں چنانچہ جلد ہی ڈھلانوں پر ان کا جنگل اگ آتا ہے۔

    یہ درخت گاؤں والوں کو نقصان سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی کمائی کا ذریعہ بھی ہیں، کسان ان کی لکڑی کاٹ کر فروخت بھی کرتے ہیں جس سے فرنیچر اور گھر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ درخت جلدی اگ آتے ہیں لہٰذا یہ کسانوں کو باقاعدہ اضافی آمدنی فراہم کرتے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس شمالی کینیا میں طوفانی بارشوں سے خطرناک لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 2 لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی پر بھی مجبور ہوئے تھے۔

  • زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے ایمازون جنگل کی سیر کریں

    زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے ایمازون جنگل کی سیر کریں

    جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگلات زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے جو برازیل کے علاوہ پیرو، کولمبیا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔

    ایمازون جنگل مختلف اقسام کی جنگلی حیات کا مسکن بھی ہے۔

    آج ہم آپ کو اس خوبصورت جنگل کی سیر کروا رہے ہیں۔ 360 ڈگری زاویے پر گھومتی یہ ویڈیو عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنائی گئی ہے۔

    ویڈیو میں جنگل میں بہتی خوبصورت آبشاریں اور ندیاں بھی دکھائی دیں گی۔ اس ویڈیو کے ذریعے آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ بذات خود ان خوبصورت جنگلات میں موجود ہیں۔

  • یہ ’درخت مصطفیٰ کمال‘ کون سے ہیں؟

    یہ ’درخت مصطفیٰ کمال‘ کون سے ہیں؟

    دنیا بھر میں بڑے اور کامیاب لوگوں کے نام پر مختلف سائنسی ایجادات و دریافتوں کا نام رکھنا کوئی نئی بات نہیں، سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے نام پر بھی ایک درخت کا نام رکھ دیا گیا۔

    یہ واقعہ دراصل گزشتہ روز سامنے آیا جب صوبہ بلوچستان کے ضلع واشک میں ڈپٹی کمشنر کا جاری کردہ حکم نامہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

    واشک کے ڈپٹی کمشنر نے حکم جاری کیا کہ ضلع بھر میں سفیدے کا درخت یعنی یوکپلٹس اور ’درخت مصطفیٰ کمال‘ یعنی کونو کارپس لگانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے لہٰذا اس ضمن میں ان دونوں درختوں کی شجر کاری سے پرہیز کیا جائے۔

    خیال رہے کہ کسی علاقے میں کسی مخصوص قسم کے درخت لگانے پر اس وقت پابندی عائد کی جاتی ہے جب وہ درخت اس علاقے کے لیے موزوں نہ ہوں اور وہاں کے ماحول، جانور و پرندوں اور مقامی آبادی کے لیے نقصان پیدا کرنے کا سبب بنے۔

    کونو کارپس کے درختوں کا نام اس وقت سامنے آیا تھا جب سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے شہر کو سرسبز کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کروائی تاہم مقامی انتظامیہ کی نااہلی کہ شہر کی آب و ہوا اور درختوں کی مطابقت کا خیال کیے بغیر پورے شہر کو کونو کارپس کے درختوں سے بھر دیا گیا۔

    کونو کارپس درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے جس کے باعث یہ کراچی کے لیے مناسب نہیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ان درختوں کے باعث پولن الرجی فروغ پانے لگی۔

    یہ درخت دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درخت زیر زمین اپنی جڑیں نہایت مضبوط کر لیتے ہیں جس کے باعث یہ شہر کے انفرا اسٹرکچر کو متاثر کر رہے ہیں۔ زیر زمین موجود پانی کی پائپ لائنیں ان کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کس علاقے کے لیے کون سے درخت موزوں ہیں؟

    ان درختوں کی تباہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ درخت نا موزوں ہیں جس کی وجہ سے ضلع واشک میں بھی اسے لگانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطع نظر اس سے کہ ان درختوں کو لگاتے ہوئے سابق میئر کراچی کی کم علمی آڑے آئی یا جانتے بوجھتے اس کے نقصانات سے صرف نظر کیا گیا، کونو کارپس کو مصطفیٰ کمال کا دیا ہوا تحفہ کہا جاتا ہے جو کراچی والوں کے لیے کسی زحمت سے کم نہیں۔

  • درخت بھی باتیں کرتے ہیں

    درخت بھی باتیں کرتے ہیں

    آپ نے درختوں کے زندہ ہونے اور ان کے سانس لینے کے بارے میں تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں درخت آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں؟

    دراصل درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔

    ان جڑوں کے ساتھ زیر زمین خودرو فنجائی بھی اگ آتی ہے جو ان درختوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔

    یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔

    درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔

    ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔

    اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔

    اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔

    نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا یہ کام پورے جنگل کے درختوں کے درمیان انجام پاتا ہے۔

    بڑے درخت ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟

    اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔

    اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔

  • آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    دنیا بھر میں پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں بلند شرح اموات کی بڑی وجہ آلودہ پانی پینا ہے۔

    تاہم پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام درخت آلودہ پانی کو بغیر کسی کیمیائی عمل کے صاف کر کے اسے پینے کے قابل بنا سکتا ہے۔

    یہ درخت مورنگا کا درخت ہے جسے سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ سوہانجنا ایشیا اور افریقہ دونوں خطوں میں پایا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سوہانجنا کے بیجوں کو پیس کر پانی میں شامل کردیا جائے تو یہ پانی میں موجود آلودگی کو کافی حد تک ختم کرسکتا ہے۔

    پانی کو صاف کرنا سوہانجنا کی کئی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 2 ارب افراد کو میسر پینے کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے، پینے کے لیے بالکل ناقابل استعمال اس پانی سے ہر سال 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    سوہانجنا کے درخت صوبہ پنجاب میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ ماہرین نباتات کے مطابق یہ درخت اندرون سندھ کے علاقوں کے لیے بھی موزوں ہے۔

    یہ حیران کن درخت قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اگ سکتا ہے اور سخت ترین موسمی حالات میں بھی بہت تیزی سے نشونما پاتا ہے۔