Tag: درخت

  • سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین بااثر افراد کو الاٹ

    سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین بااثر افراد کو الاٹ

    کراچی: صوبہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کر کے زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات سندھ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق لاکھوں ایکڑ جنگلات کی زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی ہے جن کا تعلق سندھ کے مختلف شہروں سے ہے۔

    محکمہ جنگلات نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے شہر دادو میں 27 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر بااثر افراد کا قبضہ ہے، سکھر رینج میں جنگلات کی 23 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔

    اسی طرح شکار پور، لاڑکانہ، کھپرو اور خیرپور میں بھی جنگلات کی زمینوں پر مافیا قابض ہیں۔

    محکمہ جنگلات کے مطابق مافیا کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں صرف 15 ہزار 723 ایکڑ زمین واگزار کرائی جاسکی ہے۔

    خیال رہے کہ سندھ میں جنگلات کی تباہی کی بڑی ذمہ دار بے لگام ٹمبر مافیا بھی ہے جس کے آگے حکام بے بس ہیں۔

    یہ ٹمبر مافیا سندھ کے ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے قیمتی ترین تیمر کے جنگلات کو نصف سے زیادہ کاٹ چکی ہے۔

    سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز یا تیمر کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو ٹمبر مافیا کی من مانی کی وجہ سے اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

    درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

     کیا آپ نے ایسی بکریاں دیکھی ہیں جو درختوں پر چڑھ کر باآسانی اس کے اوپر پہنچ جاتی ہیں؟

    ایسی بکریاں عموماً شمالی افریقی ملک مراکش میں پائی جاتی ہیں اور انہیں درختوں پر چڑھتے دیکھنا خاصا دلچسپ تجربہ ہوسکتا ہے۔

    ایک عمومی خیال تھا کہ یہ بکریاں درختوں کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ یہ درختوں کے اوپر چڑھ کر ان کے پھل کھا لیتی ہیں جبکہ ان کے چڑھنے اترنے کے باعث ٹہنیوں اور شاخوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    تاہم ماہرین نے جب غور سے ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا تو انہیں علم ہوا کہ یہ بکریاں دراصل جنگلات اور درختوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ بکریاں درختوں پر چڑھ کر مختلف پھل اور پھول کھاتی ہیں تو اس دوران ان کے بیج وہیں تھوک دیتی ہیں۔ یہ بیج زمین میں جا کر نئے پودے اگانے کا سبب بنتے ہیں۔

    گویا ان بکریوں کی حیثیت بیجوں کو پھیلانے والوں کی سی ہے جو جنگلات، درختوں اور پودوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    یہ کام بکریوں کے علاوہ پرندے اور مکھیاں بھی انجام دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسان کی بقا کے لیے مکھیاں ضروری

    پرندے اور مکھیاں جب پودوں پر بیٹھتی ہیں تو پودوں کے پولی نیٹس ان کے پیروں سے چپک کر جا بجا پھیل جاتے ہیں اس کے بعد جس جگہ یہ گرتے ہیں وہاں نئے پودے اگ آتے ہیں اور یوں پودوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    یوں تو جاپان میں چیری بلاسم کے درخت نہایت عام ہیں اور اگر کبھی آپ کا جاپان جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ کو جابجا یہ درخت نظر آئیں گے، تاہم وہاں چیری بلاسم کا ایک درخت ایسا بھی ہے جس کی عمر 1 ہزار سال ہے۔

    مہارو تکیزکورا نامی یہ ایک ہزار سالہ قدیم درخت اپنی تاریخی اہمیت کے لحاظ سے ایک یادگاری مقام کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ سینکڑوں مقامی و غیر ملکی افراد اس درخت کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    یہ درخت جاپان کے شہر فوکو شیما میں موجود ہے۔

    اس درخت کا زمین سے رشتہ اتنا گہرا ہے کہ جب سنہ 2011 میں جاپان میں 9 شدت کا خوفناک زلزلہ اور اس کے بعد سونامی آیا، اور اس کی وجہ سے فوکو شیما کے ایٹمی بجلی گھر سے تابکار شعاعوں کا اخراج شروع ہوا، تب بھی یہ درخت اپنی جگہ پر قائم و دائم کھڑا رہا۔

    سنہ 2011 کے اس زلزلے میں 15 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنے، سمندر کی 10 میٹر بلند لہروں نے عمارتوں، گاڑیوں اور ہزاروں درختوں کو زمین بوس کردیا، لیکن اس درخت نے اپنی جڑیں چھوڑنے سے انکار کردیا اور آج تک شان سے سر اٹھائے وہیں کھڑا ہے۔

    اس درخت کو جاپان کا قومی ورثہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    بہار کے موسم میں جب یہ درخت گلابی پھولوں سے لد جاتا ہے اور ان پھولوں کے بوجھ سے درخت کی ٹہنیاں جھکی جاتی ہیں تب اس درخت کے حسن کو آنکھوں میں سمونا مشکل ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا چیری بلاسم فیسٹیول

  • ایک درخت پاکستان کے لیے: 2 ستمبر کو خصوصی دن منانے کا فیصلہ

    ایک درخت پاکستان کے لیے: 2 ستمبر کو خصوصی دن منانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے 2 ستمبر کو پلانٹ فار پاکستان ڈے منانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں پودے لگائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نئی حکومت نے پختونخواہ میں شروع کی گئی بلین ٹری سونامی مہم کو ملک بھر میں پھیلاتے ہوئے 2 ستمبر کو پلانٹ فار پاکستان ڈے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس حوالے سے وزارت موسمیاتی تبدیلی نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ خصوصی دن کی ’جوائن پرائم منسٹر پاکستان عمران خان‘ کے نام سے تشہیر ہوگی۔ پروگرام کے تحت ہر شہر میں پودے لگانے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔

    شہریوں کو پودوں کی فراہمی کے لیے خصوصی پوائنٹس بھی بنائے جائیں گے۔ پروگرامز کو حتمی شکل دینے کے لیے منگل کو اجلاس طلب کرلیا گیا۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے موسیماتی تبدیلی ملک امین اسلم اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    پختونخواہ کے بلین ٹری منصوبے کو قومی سطح تک پھیلانے کا فیصلہ کابینہ اجلاس میں ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ میں ایک ارب پودے کامیابی سے لگائے گئے تھے۔ منصوبے کی کامیابی کا اعتراف بین الاقوامی ادارے بھی کر چکے ہیں۔

     

  • کراچی کے نوجوان شجرکاری کے لیے مشینری استعمال کرنے لگے

    کراچی کے نوجوان شجرکاری کے لیے مشینری استعمال کرنے لگے

    کراچی: شہر قائد کے نوجوانوں نے شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کے لیےاپنی مدد آپ کے تحت جدید مشینری کا استعمال شروع کردیا ہے، مشینری کے استعمال سے پودے لگانے پر صرف ہونے والے وقت اور لاگت دونوں کی بچت ہوگی۔

    تفصیلات کےمطابق اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت کراچی کے نوجوانوں کی ایک تنظیم ’امیدبہار‘ شہر کے مختلف علاقوں میں مقامی درخت لگارہی اور ان کی باقاعدہ دیکھ بھال بھی کررہی ہے اور اب اس مقصد کے لیے وہ مشینری بھی استعمال کررہے ہیں۔

    شہر قائد کے ان نوجوانوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں اپنے ہم خیال لوگوں کی ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جو کہ ہر اتوار کو شجر کاری کرتی ہیں۔ تاہم یہ نوجوان پودے لگا کر انہیں یونہی نہیں چھوڑدیتے بلکہ جہاں بھی یہ شجر کاری کرتے ہیں ، اس سے پہلے وہاں باقاعدہ کسی شخص یا ادارے کو اس پودے کی دیکھ بھال اور پانی فراہم کرنے کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔

    شجر کاری میں سب سے مشکل کام زمین میں گڑھا کرنا ہوتا ہے جس کے لیے عموماً کسی مزدور کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور اس میں وقت بھی صرف ہوتا ہے، تاہم ان نوجوانوں کی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مخیر شخص نے انہیں لاہور سے ایک مشین منگوا کر دی ہے جس سے گڑھا کرنا منٹوں کی بات ہوگئی ہے۔

    کراچی کے یہ نوجوان اب تک عائشہ منزل، کنیز فاطمہ سوسائٹی اور دیگر علاقوں میں 400 سے زائد مختلف اقسام کے پودے لگا چکے ہیں جن میں نیم، پیپل، مورنگا، کنیر ،فارس بیلیا وغیرہ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب پودوں کا کوئی نہ کوئی شخص ذمہ دار ہے ، لہذا یہ پودے بخوبی پروان چڑھ رہے ہیں۔

    یہ نوجوان پر امید ہیں کہ ایک دن ان کے لگائے یہ درخت نہ صرف انسانوں کو سایہ اور آکسیجن فراہم کریں گے بلکہ ماضی میں ہیٹ اسٹروک کا شکار بننے والے کراچی شہر کو درپیش موسمیاتی چیلنجز پرقابو پانے میں بھی مدد دیں گے، ان کا ارادہ ہے کہ مستقبل میں یہ اور جدید مشینری حاصل کرکے اپنے کام کی رفتار کو بڑھائیں۔

  • سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم ۔ تیمر کے بچاؤ کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔

    ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔


    کراچی کے تیمر تباہی کی زد میں

    پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تیمر اب تباہی کی زد میں ہے۔

    سندھ کی بے لگام ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے تیمر کے ان جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے۔

    بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔

    ان مینگرووز کو تباہ کرنے والی وجوہات میں قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب بھی ہیں۔

    ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیمر اب اپنی ڈھال کی حیثیت کھو چکا ہے، اور اب اگر کسی منہ زور طوفان یا سونامی نے کراچی کا رخ کیا، تو اس شہر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

    اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی جنگلات کس طرح خوفناک سمندری طوفانوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درختوں کے وہ حیران کن فوائد جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے

    درختوں کے وہ حیران کن فوائد جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے

    ہم نے بچپن میں اپنی کتابوں میں درختوں کے بہت سے فوائد پڑھے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں جو سانس لینے کے لیے ضروری ہے۔

    اس کے علاوہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ یہ انسانوں کو لکڑیاں اور کاغذ جبکہ جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔

    تاہم ان کے علاوہ بھی درختوں کے کچھ حیران کن فوائد ایسے ہیں جو آپ نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنے ہوں گے۔


    سیلاب سے بچاؤ

    جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔

    درخت کی جڑیں نہ صرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔


    قحط سے بچاؤ

    جس طرح درخت سیلابوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اسی طرح یہ قحط اور خشک سالی سے بھی بچاتے ہیں۔

    یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہیں اور بادلوں کی تشکیل میں بھی مدد کا باعث بنتے ہیں۔


    لینڈ سلائیڈنگ سے تحفظ

    درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہونے پاتی۔


    زمین کی زرخیزی میں اضافہ

    کسی علاقے میں درختوں کی موجودگی اس علاقے کی زمین کی زرخیزی کی ضامن ہے۔

    درخت مسلسل مٹی اور زمین کو پانی فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے وہ بنجر نہیں ہونے پاتی اور اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔


    صوتی آلودگی میں کمی

    کیا آپ جانتے ہیں درخت شور کی آلودگی میں بھی کمی کرتے ہیں؟ یہ کسی جگہ پر موجود پرشور آوازوں کو بھی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    صرف درخت ہی نہیں بلکہ اس کی شاخیں اور پتے بھی یہ کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد اور پرشور مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ یہ اس مقام سے شور کو جذب کر کے اسے پرسکون بنائیں۔


    لوگوں کی خوشگوار صحت

    شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس مقام پر زیادہ درخت موجود ہوتے ہیں وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔

    درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الیکشن دفتر کو چھپانے والے درخت بے دردی سے کاٹ دیے گئے

    الیکشن دفتر کو چھپانے والے درخت بے دردی سے کاٹ دیے گئے

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گلستان جوہر کے علاقے میں ایک سیاسی جماعت کے الیکشن دفتر کے سامنے موجود درخت کاٹ دیے گئے۔

    ذرائع کے مطابق حلقہ این اے 243 میں یہ درخت ایک سیاسی جماعت کے الیکشن دفتر کو واضح کرنے کے لیے کاٹے گئے جو درختوں کی آڑ میں چھپا ہوا تھا۔

    کاٹے جانے والے درختوں کی تعداد 6 تھی۔

    واقعے کے اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہوگئیں جس کے بعد مذکورہ جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بے دریغ درختوں کی کٹائی کی گئی جس کے باعث شہر کے درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

    گزشتہ چند سالوں سے ہیٹ ویو باقاعدگی سے کراچی کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے اور شہریوں کو سایہ میسر کرنے کے لیے نہ ہی تو سایہ دار درخت ہیں نہ ہی سرسبز مقامات۔

    گرمی کی شدت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت اور عام شہریوں کی جانب سے شجر کاری کی جارہی ہے تاہم یہ ناکافی ہے اور منصوبہ بندی کے تحت بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مارگلہ کی پہاڑیوں پر شجر کاری مہم

    مارگلہ کی پہاڑیوں پر شجر کاری مہم

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر شجر کاری مہم کا آغاز کردیا گیا جس کے لیے سیڈ بالز یا سیڈ بم کا استعمال کیا جارہا ہے۔

    سیڈ بالز کھاد سے بنے ہوئے ان گولوں کو کہا جاتا ہے جس میں مختلف اقسام کے بیج اور چکنی مٹی کی آمیزش کی جاتی ہے۔ ان گولوں کو زمین میں دبا دیا جاتا ہے جس کے بعد ان سے پودے اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    دنیا بھر میں شجر کاری کے لیے یہ طریقہ نہایت کامیاب سمجھا جارہا ہے۔

    اسلام آباد میں یہ مہم دارالحکومت کے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے تعاون سے شروع کی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: اسلام آباد کی سڑکیں ماحول دوست بن گئیں

    مہم میں شامل رضا کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے 15 سے 20 ہزار کے قریب سیڈ بالز تیار کی ہیں جو مارگلہ کی پہاڑیوں پر آنے والے افراد کو نہایت سستے داموں فروخت کی جارہی ہیں۔

    وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر میں شجر کاری کی اس تکنیک کو فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک نہایت آسان اور کم قیمت ذریعہ ہے اور اس طریقے سے نہایت جلدی پودے اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    خیال رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد درختوں سے گھرا ہوا سرسبز شہر ہے تاہم بڑھتے ہوئے رہائشی منصوبوں کی وجہ سے یہاں بھی درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔