Tag: درخت

  • ٹرک پر شجر کاری کا انوکھا مقابلہ

    ٹرک پر شجر کاری کا انوکھا مقابلہ

    بڑے شہروں میں آبادی کے بے تحاشہ اور بے ہنگم اضافے کے بعد چھوٹے چھوٹے گھروں اور فلیٹس کا رواج نہایت عام ہوگیا ہے۔ بڑے شہروں کی زیادہ تر آبادی فلیٹس یا نہایت چھوٹے گھروں میں رہتی ہے۔

    ان گھروں میں ہوا کا گزر اور کھلی جگہیں نہیں ہوتی جہاں پر شجر کاری کی جاسکے۔ یوں آہستہ آہستہ شہروں سے درختوں کا رقبہ کم ہورہا ہے اور تازہ دم کردینے والے سرسبز مقامات کے بجائے شہر کنکریٹ کا قبرستان بنتے جارہے ہیں۔

    اسی مقصد کے لیے جاپان میں شجر کاری کے ایک انوکھے مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔

    جاپان فیڈریشن آف لینڈ اسکیپ کانٹریکٹرز نے ٹرک پر گارڈن بنانے کے منفرد مقابلے کا اعلان کیا۔

    یہ مقابلہ ان افراد کے لیے تھا جو تعمیراتی شعبے سے منسلک ہیں اور آمد و رفت کے لیے ان کے زیر استعمال چھوٹے ٹرکس ہیں۔

    مقابلے میں ملک بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اپنے ٹرک کو منی ایچر گارڈن میں تبدیل کردیا۔

    ٹرک کے مالکان نے روایتی جاپانی باغات سے لے کر جدید باغات تک کے آئیڈے استعمال کیے۔

    کچھ نے اپنے ٹرکوں میں گارڈن کے اندر فوارے بھی بنا دیے جبکہ کچھ نے خوبصورت روشنیاں لگا کر انہیں مزید شاندار بنا دیا۔

    اگر آپ بھی شجر کاری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے کھلی جگہ کی چنداں ضرورت نہیں، ہر وہ شے جو آپ کے کام کی نہیں شجر کاری کرنے میں آپ کے کام آسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانا ایک مشکل اور انتظار طلب مرحلہ ہے جس کے لیے بہت سا وقت درکار ہے۔ تاہم اب سائنسدانوں نے ڈرون کے ذریعے شجر کاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    اس سے قبل سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔

    اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آئے۔

    اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابل عمل بنایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈرون بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کر سکے۔

    یہ ڈرون فضا سے زمین کی طرف بیج پھینکیں گے جس سے ایک وسیع رقبے پر بہت کم وقت میں شجر کاری کا عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔

    طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈرون کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا۔ اس کے بعد ماہرین ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اگائے جانے چاہئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھر دیا جائے گا اور وہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کردے گا۔ یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں 1 بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں 1 لاکھ جبکہ ایک سال میں 1 ارب درخت اگا سکے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ 10 گنا تیز ہے جبکہ اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوگی۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

    گو کہ دنیا بھر میں شجر کاری کا عمل بھی تیز کیا جاچکا ہے لیکن ہر سال 15 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں اور ان کی جگہ صرف 6 ارب نئے درخت لگائے جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کا معجزہ: وسیع و عریض رقبے پر مشتمل انوکھا ترین درخت

    فطرت کا معجزہ: وسیع و عریض رقبے پر مشتمل انوکھا ترین درخت

    آپ نے مختلف تصاویر میں دنیا کے انوکھے اور منفرد ترین درختوں کو ضرور دیکھا ہوگا جو اپنی ہیئت و ساخت کی بنا پر دیگر درختوں سے بالکل الگ معلوم ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک درخت پانڈو نام کا بھی ہے جسے دنیا کا منفرد ترین درخت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    اس تصویر کو دیکھ کر شاید آپ کو خیال آئے کہ یہ تو عام سے درخت ہیں، ان میں انفرادیت کیا ہے؟

    لیکن یہ جان کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی کہ یہ کسی درخت کا کوئی جنگل نہیں، بلکہ تصویر میں موجود تمام ’درخت‘ دراصل ایک ہی درخت ہے جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    امریکی ریاست اوٹاہ کے ایک جنگل میں پایا جانے والا یہ درخت بذات خود ایک جنگل معلوم ہوتا ہے جو 106 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے۔

    قلمی کالونی کے نام سے پکارا جانے والا یہ درخت نر ہے اور اس کا ہر حصہ علیحدہ جینیاتی شناخت رکھتا ہے۔

    اس درخت کا ہر حصہ زیر زمین جڑوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہے اور جڑوں کا یہ نظام 80 ہزار سال پرانا ہے جبکہ پورے درخت کا وزن 60 لاکھ کلو گرام ہے۔

    ان منفرد اور اچھوتی خصوصیات کے باعث اسے زمین کے سب سے بڑے، وزنی اور طویل العمر ترین زندہ جاندار ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

    اس درخت کی انفرادیت اور خوبصورتی دیکھتے ہوئے اسے فطرت کا معجزہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈھائی ہزار سال پرانے درخت موت کے پنجوں میں

    ڈھائی ہزار سال پرانے درخت موت کے پنجوں میں

    براعظم افریقہ میں پائے جانے والے دنیا کے نایاب ترین ڈھائی ہزار سال قدیم درخت صرف ایک دہائی میں موت سے ہمکنار ہوگئے۔

    افریقہ کے یہ درخت جنہیں عام طور پر باؤباب کہا جاتا ہے 11 سو سے ڈھائی ہزار سال کی عمر کے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمی تغیرات یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے یہ درخت مر رہے ہیں۔

    سائسنی جریدے نیچر پلانٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سب سے قدیم 13 درختوں میں سے کم از کم 9 درختوں کی جڑیں مر چکی ہیں۔ ان 9 میں سے 4 درختوں کو پورے براعظم افریقہ کے سب سے بڑے درختوں کی حیثیت حاصل ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کے مطابق یہ درخت اب تک زمین پر موجود سب سے طویل عمر اور سب سے بڑے پھول دینے والے درخت ہیں۔

    ان درختوں کو اڈنسونیا گرنڈیڈر بھی کہا جاتا ہے اور یہ منفرد ہیئت کے حامل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اپنے قدرتی مقام پر یہ 3 ہزار سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

    یہ قدیم درخت اپنے اندر پانی کی بہت بڑی مقدار ذخیرہ کرسکتے ہیں، ان کے پھل انسانوں اور پرندوں دونوں کے کام آتے ہیں، ان کے پتے بھی ابال کر کھائے اور دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں جن کا ذائقہ پالک جیسا ہوتا ہے۔

    ان درختوں کی چھال سے ہیٹ، کپڑے، باسکٹ اور رسیاں بنائی جاتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ درخت بے حد مضبوط ہوتے ہیں اور آسانی سے نہیں مرتے، تاہم جس طرح ان قدیم درختوں کی موت واقع ہوئی ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں میں کھانا کھانے کا رواج نئی بات نہیں۔ قدیم دور کا انسان پتوں ہی کی مدد سے کھانا تناول کیا کرتا تھا۔ اب اسی خیال کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    جرمنی کی لیف ری پبلک نامی ایک کمپنی ایسے برتن بنا رہی جنہیں بنانے کے لیے پتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    برتنوں کے لیے ان پتوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بھی درخت نہیں کاٹا جاتا۔ اسی طرح یہ برتن پھینکے جانے کے بعد بہت کم وقت میں زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف ہونے کے لیے انہیں 28 دن درکار ہیں۔ یوں یہ ہماری زمین پر آلودگی یا کچرا پھیلانے کا سبب بھی نہیں بنتے۔

    عام دھاتوں یا پلاسٹک سے بنائے جانے والے برتنوں کے برعکس اس میں کوئی کیمیکل یا مصنوعی رنگ بھی استعمال نہیں کیے جاتے یوں یہ مضر صحت اجزا سے محفوظ ہیں۔

    پتوں کو پلیٹ یا مختلف برتنوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ان پر عام دھاگوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ یہ دھاگے اور پتے زمین میں تلف ہو کر اس کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لاہورہائی کورٹ کے حکم پر لاہور میں 27 ہزار 510 درخت لگا دیے گئے

    لاہورہائی کورٹ کے حکم پر لاہور میں 27 ہزار 510 درخت لگا دیے گئے

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر لاہورمیں27ہزار510 درخت لگا دیے گئے، عدالت نے سرکاری محکموں کی طرف سے رپورٹس آنے کے بعد درخواست نمٹا دی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ،جس میں بتایا گیا کہ عدالت کے حکم پر لاہورمیں 27ہزار510 درخت لگا دیے گئے، پنجاب انوائر منٹل پروٹیکشن ایجنسی نے درخت لگانے کی تصدیق کردی ہے۔

    عدالت نے سرکاری محکموں کی رپورٹس آنے کے بعد درخواست نمٹا دی۔

    خیال رہے کہ منصوبوں کے لئے درخت کی کٹائی کے خلاف درخواست دائرکی گئی تھی، جس پر عدالت نے محکموں کو شہر میں درخت لگانے کا حکم دیا تھا۔

    یاد رہے جنوری میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ماحولیاتی آلودگی کےبڑھنے ، پانی کی آلودگی اور اسپتالوں کےفضلہ جات ٹھکانےنہ لگانے سے متعلق کیسز کی سماعت پر چیف جسٹس نے چھ مقامات پرآلودگی جانچ کر رپورٹ طلب کرلی جبکہ سیکرٹری ماحولیات کو وارننگ دی تھی۔

    ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مقدمے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سموگ کمیشن رپورٹ مرتب کرکے نو جون کوپیش کی جائے ۔۔چیف جسٹس نے متنبہ کیا صحت معاملہ ہے،اس پرتاخیربرداشت نہیں کی جائےگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    سری لنکا میں آسمان سے درختوں کی بارش

    کیا آپ نے کبھی آسمان سے درختوں کو برستے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ شاید یہ سننے میں آپ کو عجیب لگے لیکن سری لنکا میں ایسا ہو رہا ہے جہاں آسمان سے درخت ’برستے‘ ہیں۔

    سری لنکا میں مختلف خالی مقامات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد کے ایسے گولے برسائے جارہے ہیں جو کچھ عرصے بعد اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا کو یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ صرف گذشتہ چند عشروں میں اس ملک کے آدھے جنگلات کو مختلف مقاصد کے لیے کاٹا جاچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون

    اب سری لنکا کا ارادہ ہے کہ سنہ 2017 تک وہ اپنے اس کھوئے ہوئے اثاثے کو کسی حد تک واپس حاصل کرلے۔

    آسمان سے برسائے جانے والے یہ گولے چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے ہیں جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آتے ہیں۔

    یہ طریقہ کار جاپانی کسانوں کا ایجاد کردہ ہے جنہوں نے کاشت کاری میں انسانی محنت کم کرنے کے لیے اسے ایجاد کیا۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    دنیا کے انتہائی انوکھے درختوں سے ملیں

    ہماری زمین پر اس وقت لگ بھگ 3 کھرب درخت موجود ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو اب تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے، صرف وہاں رہنے والے مقامی افراد ہی ان درختوں سے واقف ہیں جو جدید سہولیات سے عاری زندگی جی رہے ہیں۔

    ان میں سے کئی درخت ایسے ہیں جو اپنے اندر نہایت انوکھی کہانیاں سموئے ہیں۔ منفرد ساخت، قد و قامت اور رنگت کے حامل یہ درخت اپنےاندر بے شمار خصوصیات رکھتے ہیں۔

    ان میں سے کوئی درخت کئی صدیوں سے موجود ہے، اور وقت کی اونچ نیچ کا گواہ بھی، کچھ درختوں نے بڑی بڑی آفتیں، سیلاب، زلزلے، طوفان، ایٹمی دھماکے سہے لیکن پھر بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہے۔

    مزید پڑھیں: جاپان کا 1 ہزار سال قدیم درخت

    سنہ 1999 میں بیتھ مون نامی ایک فوٹوگرافر نے ایسے ہی نایاب لیکن گمنام درختوں کی تصاویر کھینچ کر انہیں دنیا کے سامنے لانے کا سوچا۔

    اس نے ایسے درختوں کی تلاش شروع کردی جو تاریخی یا جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے۔

    ان درختوں کی تلاش کے لیے اس نے طویل تحقیق کی، ملکوں ملکوں کی سیاحت کرنے والوں سے گفتگو کی، لوگوں سے پوچھا۔

    بالآخر اس نے اپنے منفرد سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں وہ پہلے برطانیہ گئی، پھر امریکا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا سفر کیا جہاں اس نے دور دراز علاقوں میں موجود قدیم اور انوکھے درختوں کی تصاویر کھینچی۔

    یہ درخت طویل عرصے تک موجودگی کے باعث مقامی قوم کے لیے ثقافتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے درختوں کی کئی اقسام خطرے کا شکار اقسام کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: طویل ترین درختوں کی کلوننگ

    بیتھ مون نے ان درختوں کی تصاویر کو ’ قدیم درخت: وقت کی تصویر‘ کے نام سے پیش کیا۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر درخت کی اپنی الگ ’زندگی‘ ہے۔ ہر درخت کئی عشروں سے موجود ہے اور اس نے وقت کے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

    آئیں ہم بھی ان نایاب اور انوکھے درختوں سے ملتے ہیں۔


    ڈریگن بلڈ ٹری

    یمن کے جزیرہ سکوترا میں پائے جانے اس درخت کی عمر 500 سال ہے۔ یہ درخت ہر قسم کے حالات اور موسموں سے لڑنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    شاخ در شاخ پھیلا ہوا یہ درخت ایک چھتری جیسا ہے جو بے شمار زندگیوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔

    سال میں 2 بار گاؤں والوں کو ان درختوں کے تنے کا کچھ حصہ کاٹنے کی اجازت ہے جس سے یہ سرخ رنگ کا قیمتی محلول حاصل کرتے ہیں جو نہایت بیش قیمت ہوتا ہے اور دوائیں بنانے کے کام آتا ہے۔


    صحرا کا پھول

    ڈیزرٹ روز نامی یہ درخت بھی جزیرہ سکوترا میں ہی واقع ہیں۔ انہیں بوتل نما درخت بھی کہا جاتا ہے۔

    جس مقام پر یہ درخت موجود ہیں وہ علاقہ اپنے منفرد اور انوکھے پس منظر کی وجہ سے اس دنیا سے الگ ہی کوئی مقام معلوم ہوتا ہے۔


    اڈنسونیا گرنڈیڈر

    مشرقی افریقی ملک مڈغا سکر کے ساحلی شہر مورندوا میں پائے جانے والے ان درختوں کی لمبائی 100 فٹ تک ہوتی ہے۔ ان درختوں کو جنگل کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔

    ان درختوں کی اوسط عمر 800 سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے درختوں کی یہ نایاب ترین قسم اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اس قسم کے صرف 20 درخت باقی رہ گئے ہیں۔

    صرف مڈغا سکر میں پائے جانے والے ان درختوں کا یہاں پورا جنگل موجود تھا۔


    کاپوک درخت

    امریکی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ پر پایا جانے والا کاپوک درخت دیکھنے میں نہایت منفرد ہیئت کا حامل ہے۔

    فوٹوگرافر نے اس درخت کو سنہ 1940 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں دیکھا تھا۔ ’60 سال میں یہ درخت عظیم بن چکا ہے‘۔

    اس درخت کی جڑیں زمین کے اوپر 12 فٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔


    افٹی ٹی پاٹ

    مڈغاسکر میں ہی موجود یہ درخت چائے دان جیسا ہے لہٰذا مقامی افراد نے اسے یہی نام دے ڈالا۔

    یہ درخت 12 سو سال قدیم مانا جاتا ہے۔ اس کا تنا 45 فٹ کے پھیلاؤ پر مشتمل ہے اور اس کے اندر 31 ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔


    تیر کے ترکش

    جنوبی افریقی ملک نمیبیا میں پائے جانے والے درختوں کی اس قسم کو زمین پر موجود تمام درختوں میں نایاب اور غیر معمولی ترین قرار دیا جاتا ہے۔ یہ درخت صدیوں پرانے ہوسکتے ہیں۔

    یہ درخت 33 فٹ بلندی تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مقامی افراد ان درختوں کی کھوکھلی شاخیں کاٹ کر ان سے تیروں کے ترکش بناتے ہیں۔

    سنہ 1995 میں ان درختوں کے جنگل کو نمیبیا کی قومی یادگار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔


    رلکیز بائیون

    کمبوڈیا میں موجود 12 ویں صدی کے ایک بودھ مندر میں موجود یہ درخت کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کا ہی حصہ لگتا ہے۔ درخت کی شاخیں اور مندر کے در و دیوار آپس میں پیوست ہیں۔

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدیم وجود کو سہارا دیے کھڑے ہیں اور صرف مندر کو گرانا یا درخت کو کاٹنا نا ممکن لگتا ہے۔

    مندر کے پیچھے ان درختوں کا جنگل موجود ہے جس نے انسانوں کی جانب سے اس مندر کو ترک کیے جانے کے بعد اس پر ’قبضہ‘ کرلیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: نیشنل جیوگرافک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ باغ میں تبدیل

    فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ باغ میں تبدیل

    ممبئی: بھارت کے شہر ممبئی میں ایک فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنا لیا گیا۔ اب اس فلائی اوور کے اوپر گاڑیاں دوڑتی ہیں اور نیچے شہری اپنا فارغ وقت پھولوں اور پودوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔

    ممبئی کے علاقے مٹنگا میں ڈاکٹر بابا صاحب روڈ پر واقع فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنالیا گیا۔ اس باغ کا نام نانا لعل ڈی مہتا گارڈن رکھا گیا ہے۔

    m11

    m8

    یہ فیصلہ اس خالی جگہ کو غلط استعمال، خاص طور پر نشئی افراد کی پناہ گاہ بننے سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔

    اس سے پہلے 4 سال قبل جب یہ فلائی اوور کھولا گیا تو اس کے نیچے نشئی افراد، جواریوں اور گداگروں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ کچھ رہائشیوں نے اس بارے میں ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کو آگاہ کیا اور ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی اپیل کی۔

    m10

    m9

    شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں سیکیورٹی گارڈز بھی تعینات کیے تاکہ وہ اس جگہ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھیں اور یہاں کچرا کنڈی نہ بننے دیں۔ جواریوں اور نشئی افراد کی وہاں موجودگی مقامی افراد کے لیے بے حد تکلیف اور پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    سال 2011 میں یہاں کے لوگوں نے مقامی و شہری حکومتوں کو درخواست دی جس میں تجویز پیش کی گئی کہ اس جگہ کو گارڈن میں تبدیل کردیا جائے۔ کئی درخواستوں کے بعد 2015 میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا۔

    m7

    m6

    اس گارڈن کے فرش کو دریا نرمادا کے بہاؤ کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انجینیئرز اور آرکیٹیکٹس نے دریا کے بہاؤ کا مشاہدہ کیا اور اس کا نقش گارڈن کے فرش پر ڈیزائن کیا۔ 600 میٹر لمبے راستے کو نیلے رنگ سے رنگا گیا ہے جبکہ اطراف میں دریائے نرمادا کے کنارے واقع پہاڑوں کی نقل بنائی گئی ہے۔

    m2

    گارڈن میں ایک گرینائٹ کا بلاک بھی نصب کیا گیا ہے جس میں دریائے نرمادا کی تاریخ اور اس کے بارے میں معلومات درج ہیں۔

    m5

    m4

    گارڈن میں 300 لائٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔

    قریبی آبادی کے رہائشی کریدیتا پٹیل اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ممبئی جیسے پرہجوم شہر میں ایسی پرسکون جگہ کا ہونا ایک نعمت ہے۔ یہاں ہم اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے ملتے ہیں اور یہاں واک کر کے ہمیں بہت مزہ آتا ہے‘۔

    m3

    m1

    اس گارڈن کو صبح 8 سے دوپہر 1 اور شام 4 سے رات ساڑھے 9 بجے تک کھولا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ملکہ برطانیہ درختوں کی شوقین نکلیں

    ملکہ برطانیہ درختوں کی شوقین نکلیں

    لندن: برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم یوں تو بے شمار نجی و سرکاری سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں تاہم انہیں درختوں کا بھی بے حد شوق ہے اور شجر کاری کے لیے بھی وہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال ہی لیتی ہیں۔

    حال ہی میں ملکہ برطانیہ کے بارے میں پیش کی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ملکہ کے اس شوق کا انکشاف ہوا۔

    اس فلم میں جس کا نام ’دا کوئنز گرین پلینٹ‘ ہے، ملکہ کی جانب سے شروع کیے گئے اس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں جنگلات کے تحفظ پر کام کیا جارہا ہے۔

    مذکورہ پروجیکٹ کا نام ’دا کوئنز کامن ویلتھ کنوپی‘ ہے۔

    فلم کے مطابق ملکہ نے دنیا بھر میں جس جس ملک کا دورہ کیا، وہاں انہوں نے شجر کاری ضرور کی۔

    فرانس میں ہونے والے کینز فلم فیسٹیول میں فلم کی نمائش کے موقع پر ہدایت کار نے بتایا کہ ملکہ کو یہ شوق اپنے اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔

    ان کے مطابق شاہی محل بکھنگم پیلیس کے باغ میں ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھ سے لگائے گئے درخت بھی موجود ہیں اور ملکہ الزبتھ کی ہدایت پر ان کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔

    دستاویزی فلم میں وہ مناظر بھی موجود ہیں جب ملکہ ایک ماہر نباتات سر ڈیوڈ اٹنرگ کے ساتھ شاہی محل کے باغ کا دورہ کر رہی ہیں۔ سر ڈیوڈ طویل عرصے سے ملکہ کے اس شوق میں ان کا ساتھ دیتے آرہے ہیں۔ دونوں ہم عمر ہیں اور ان کے درمیان کافی گہرا تعلق موجود ہے۔

    فلم کے مطابق پودوں اور درختوں کا شوق نہ صرف خود ملکہ بلکہ ان کے پورے خاندان میں ہے۔ ان کے صاحبزادے اور تخت کے ولی عہد شہزادہ چارلس بھی درختوں کا شوق رکھتے ہیں۔

    فلم میں سر ڈیوڈ سے گفتگو کرتے ہوئے ملکہ کہتی ہیں کہ ان کے باغ میں موجود زیادہ تر درخت انہیں تحفتاً موصول ہوئے ہیں۔ ’تحفے دینے کے حوالے سے میں ایک مشکل شخصیت سمجھی جاتی ہوں، چنانچہ جب لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ مجھے کیا تحفہ دیں تو وہ مجھے ایک پودا تحفے میں دے دیتے ہیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔