Tag: درخت

  • درخت اگانے والی کتاب

    درخت اگانے والی کتاب

    اگر آپ کتاب دوست انسان ہیں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، کچھ کو سنبھال کر رکھا ہوگا، جبکہ کچھ کتابوں کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دے دیا ہوگا۔

    تاہم ہر شخص یہ زحمت نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتابوں کو بے مصرف جان کر ردی میں ڈال دیتی ہے جس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو، ان درختوں کی قربانی ضرور ضائع ہوجاتی ہے جو اس کتاب کے کاغذ بنانے کے لیے کاٹے گئے ہوتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    اسی طرح نئے سال میں بچوں کی پرانی نصابی کتابیں بھی ردی میں دے دی جاتی ہیں جو بہر صورت ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    تاہم ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کتاب کو ردی میں جانے سے بچانے کے لیے اسے کارآمد بنا ڈالا اور اسے درخت اگانے والی کتاب بنا دیا۔

    بیونس آئرس کے اس شہری نے بچوں کی اس کتاب کے کاغذات کو تیزاب کی آمیزش کے بغیر تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اسے پرنٹ کر لینے کے بعد کاغذ پر ہاتھ سے جاکرندا نامی درخت کے بیج سی دیے جاتے ہیں۔

    جاکرندا نامی نیلے پھولوں کا یہ درخت وسطی و جنوبی امریکا کا مقامی درخت ہے۔

    کتاب کو پڑھ لینے کے بعد بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسے زمین میں دفن کردیں اور روزانہ اسے پانی دیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کتاب سے پودا اگ آتا ہے جو کچھ عرصے میں تناور درخت بن جاتا ہے۔

    کتاب کے اشاعتی ادارے کا کہنا ہے کہ درخت اگانے والی اس کتاب کے ذریعے وہ بچوں میں زمین کے تحفظ اور ماحول اور درختوں سے محبت کا شعور اجاگر کر رہے ہیں۔

    ادارے نے کتاب کے لیے ٹیگ لائن متعارف کروائی ہے، ’بچے اور درخت ایک ساتھ نشونما پائیں‘۔

    ان کے مطابق بچپن سے ہی کتاب کے ذریعے درخت کی دیکھ بھال بچوں کو ایک ماحول دوست انسان بننے میں مدد دے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس درخت سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہوگی جو مرتے دم تک انہیں درخت کا خیال رکھنے پر مجبور کرے گی۔

    جنگل میں مہمات پر مبنی اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبولیت مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بھارت کی 105 سالہ درختوں کی ماں

    بھارت کی 105 سالہ درختوں کی ماں

    اولاد نہ ہونا کسی شادی شدہ جوڑے کے لیے بہت بڑی محرومی بن سکتا ہے تاہم بھارت میں ایسے ہی ایک محروم جوڑے نے اپنی محرومی کا نہایت انوکھا اور فائدہ مند متبادل ڈھونڈ نکالا۔

    بھارتی ریاست کرناٹک کا رہائشی یہ جوڑا جب 25 سال تک اولاد سے محروم رہا تو انہوں نے درخت اگانے شروع کردیے۔ وہ ان درختوں کی بالکل اپنے بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں۔

    اس جوڑے کے اگائے ہوئے درختوں کی تعداد 300 ہوچکی ہے جو افزائش پا کر اب سایہ اور پھل فراہم کر رہے ہیں۔

    ان درختوں نے کرناٹک کے اس گاؤں کو نہایت ہرا بھر اور سر سبز بنا دیا ہے جہاں یہ جوڑا رہائش پذیر ہے۔

    درختوں کو اگانے والی تھماکا جن کی عمر 105 سال ہے، ان درختوں کی ماں کہلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ ہماری قسمت ہے کہ ہمیں اولاد نہ ہوسکی۔ لیکن ان کی جگہ ہم نے درخت اگائے اور بالکل اپنے بچوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کی اور انہیں بڑا کیا‘۔

    زمین کو سرسبز بنانے کی اس بے مثال کوشش کے اعتراف میں اس جوڑے کو اب تک کئی قومی اعزازات سے نواز جا چکا ہے ہے۔ یہی نہیں بالکل ناخواندہ ہونے کے باوجود اب ان دونوں کا نام بھارت کے تعلیمی نصاب میں بھی شامل ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہائیکنگ کرنے کے فوائد سے آگاہ ہیں؟

    ہائیکنگ کرنے کے فوائد سے آگاہ ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں ہائیکنگ کرنا آپ کی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟

    شہروں کی بھیڑ بھاڑ اور شور شرابہ سے دور کسی پرسکون قدرتی مقام پر پیدل چلنا اور گھومنا پھرنا آپ کے جسم، دماغ اور روح پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

    معروف امریکی ماہر ماحولیات جان میئر، جسے پہاڑوں والا جان بھی کہا جاتا تھا، اپنی کتاب ’اور نیشنل پارکس‘ میں رقم طراز ہے، ’فطرت کا سکون آپ کے اندر ایسے سرائیت کرے گا جیسے سورج کی روشنی درختوں میں سرائیت کرتی ہے۔ ہوا کی تازگی آپ کے اندر تازگی بھر دے گی، اور طوفانوں کی قوت آپ کے اندر آجائے گی‘۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    جنگل یا درختوں کے درمیان چہل قدمی، درختوں کی خوشبو سونگھنا، اور جنگل میں بہنے والی پانیوں کا شور اور پرندوں کی چہکار سننا آپ کے دماغ کو تازہ دم کرتا ہے اور اس بات کی تصدیق طبی ماہرین بھی کرتے ہیں۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ ہائیکنگ آپ کو کیا کیا فوائد پہنچا سکتی ہے۔


    منفی خیالات میں کمی

    hiking-2

    منفی خیالات رکھنا اور ان پر مسلسل توجہ مرکوز کیے رہنا بے چینی، ڈپریشن اور عدم اطمینان کو جنم دیتا ہے۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق فطرت کے ساتھ وقت گزارنا دماغ میں منفی خیالات میں کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پیدل چلنا بھی ایک بہترین ورزش ہے جو غصہ، حسد اور دیگر منفی خیالات کا خاتمہ کرتی ہے لہٰذا اگر ہائیکنگ کی جائے یعنی کسی قدرتی مقام پر پیدل چلا جائے تو یہ آپ کے اندر سے تمام منفی خیالات کو ختم کردیتی ہے۔


    جدید ٹیکنالوجی سے دوری

    ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی جیسے کمپیوٹر، ٹی وی، اسمارٹ فونز وغیرہ نے ہمیں ساری دنیا سے جوڑ تو دیا ہے لیکن یہ ہماری جسمانی و نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ دور دراز علاقوں میں جانا جہاں آپ کے اسمارٹ فونز کام نہ کر سکیں، آپ کو فطرت سے جڑنے میں مدد دیتے ہیں۔

    آج کل کے دور میں ہم اپنے تمام مسائل کا حل گوگل سے تلاش کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، تو ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں جب آپ کا اسمارٹ فون آپ کے پاس نہ ہو، اور آپ کسی مشکل کا شکار ہوجائیں، تو آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں جو آپ کو مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہیں۔


    بچوں پر مفید اثرات

    hiking-3

    ہائیکنگ کے لیے جاتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ رکھیں۔ فطرت کے قریب وقت گزارنا ان بچوں کے لیے نہایت مفید ہے جن میں شدت پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے اور وہ سخت مزاج یا غصیلے ہوتے ہیں۔

    فطرت کے قریب رہنا ایسے بچوں کے مزاج میں ٹہراؤ اور نرمی پیدا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہائیکنگ کے لیے جانا ان بچوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے اور باآسانی ان کی توجہ بھٹک جاتی ہے۔ قدرتی مناظر ان کی تخلیقی اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔


    دماغی کارکردگی میں اضافہ

    hiking-5

    ماہرین کے مطابق ہائیکنگ آپ کے دماغ کے افعال و کارکردگی میں بھی اضافہ کرتی ہے اور آپ کی فیصلہ سازی، چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور یادداشت میں بہتری آتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں انسانی فطرت کے مطابق ہدایات فراہم کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات قرآن میں لکھے گئے الفاظ کی تصدیق کر رہی ہیں۔

    قرآن کریم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہمیں جو رہنمائی فراہم کی گئی اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج دنیا اور انسانیت ایک محفوظ موڑ پر کھڑی ہوتی جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

    اس وقت ہماری دنیا کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کا درپیش ہے جو ماہرین کے مطابق دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قرآن شریف میں‌ زمین کے خشک حصے غرق آب ہونے کی پیش گوئی

    زمین کو بچانے کے لیے سائنسدان اور ماہرین آج جو مشورے اور اقدامات کر رہے ہیں قرآن کریم اس کی 14 سو سال پہلے ہدایات دے چکا ہے۔

    قرآن کریم اور اسوہ حسنہ میں جہاں انسانوں اور جانوروں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہیں درختوں، پھولوں، پودوں، ماحول کا خیال رکھنے اور قدرتی وسائل کے اسراف سے بھی ممانعت کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام ہمیں کس طرح ماحول کی حفاظت کرنے کا سبق دیتا ہے۔

    صفائی نصف ایمان ہے

    کیا آپ نے بچپن سے پڑھی اس حدیث کے مفہوم پر کبھی غور کیا ہے؟ صفائی ہمارے ایمان کا آدھا حصہ ہے یعنی اگر ہم صفائی پسند نہیں تو ہمارا ایمان بھی آدھا ہے۔ جسم اور لباس کی صفائی سے لے کر گھر، گلی، محلے، اور پورے شہر تک کی صفائی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہم اس پر عمل نہیں کر رہے جس کا ثبوت ہمارے شہروں میں جابجا لگے گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گندگی اور کچرا نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت و جذبات پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    صاف ستھرے علاقوں اور شہروں کے لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے جبکہ ان کی جذباتی و دماغی کیفیت بھی مثبت رہتی ہے اور وہ غصے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

    اصراف سے بچیں

    اسلام میں اصراف یا فضول خرچی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام کے پیروکار ہوتے ہوئے ہمیں ہر شے خصوصاً قدرتی وسائل جیسے پانی، غذا یا توانائی کے غیر ضروری استعمال سے بچنا چاہیئے۔

    قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے، ’اللہ اصراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘۔

    درخت لگانا

    ایک درخت لگانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، آب و ہوا کو صاف کرتا ہے، پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے، جبکہ ماحول میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔

    حضور اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا (مفہوم)، ’زمین بہت خوبصورت اور سرسبز ہے، اللہ نے انسان کو اس کا محافظ بنایا ہے۔ جو شخص ایک پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے، یہاں تک کہ وہ درخت بن کر پھل دینے لگے، تو ایسے شخص کو اس کا انعام ضرور ملے گا‘۔

    اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جنگ کی جو اخلاقیات طے کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی، ’جنگ کے دوران دشمن علاقے کا کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں‘۔

    ذمہ داری کا احساس

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے‘۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ بطور ایک ذمہ دار ہونے کے ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، دیگر جانداروں کو اس زمین پر سکون سے رہنے دیں، ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی اور کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں۔

  • صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    براعظم افریقہ میں صحرا زدگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتی ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    افریقہ میں یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ اس خطے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں رہنے والے 1 بلین کے قریب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہاں آلودہ پانی سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں تاہم ان درختوں کی افزائش کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہے جو افریقہ میں ویسے ہی نایاب ہے۔

    desert-2

    البتہ ماہرین نے اس کے باوجود اس کا حل نکال لیا۔

    بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت صحراؤں میں درخت اگائے جارہے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی علاقہ میں کیا گیا۔

    یہاں آب پاشی کے لیے بڑے بڑے پائپ بچھائے گئے جس میں قاہرہ میں واقع ایک ٹریٹ منٹ پلانٹ سے پانی آتا ہے۔

    desert-5

    desert-4

    اس پلانٹ سے آنے والا پانی کسی حد تک آلودہ ہے لہٰذا یہ زراعت کے لیے تو موزوں نہیں البتہ درخت اگانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلودہ پانی ہمیں سرسبز اور صحت مند درخت تو نہیں دے سکتا، تاہم یہ ایسے درخت ضرور دے سکتا ہے جو صرف فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کی کوشش

    یہاں کے موسم کی وجہ سے درختوں کی افزائش کی رفتار حیران کن طور پر تیز ہے اور صرف 2 سے 3 سال میں یہاں قد آور درخت اگ آئے۔

    صحرا میں اگنے والے اس جنگل کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ صحرائی طوفانوں سے حفاظت فراہم کر رہا ہے جبکہ ان درختوں کی لکڑی تعمیرات اور ایندھن جلانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    desert-3

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے صحرا کے 5 لاکھ ایکڑ کے رقبہ پر درخت اگائے جاسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت درختوں اور جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے زمین کے ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی بھی اہم وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    ملک بھر میں اگلے 5 برسوں میں 10 کروڑ درخت لگانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اگلے 5 سالوں میں ملک بھر میں 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹر میر محمد یوسف بدینی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کا اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں آئی جی جنگلات محمود ناصر نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اگلے 5 برسوں میں ملک بھر میں درختوں کے کنارے 10 کروڑ درخت لگائے جائیں گے جبکہ تیمر (مینگرووز) کے جنگلات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔

    محمود ناصر نے بتایا کہ سنہ 2011 سے 2106 تک چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا میں 7 کروڑ سے زائد درخت لگائے گئے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک درخت کی کوئی خاص تعریف مقرر نہیں تھی، تاہم اب سے ہر 3 میٹر سے اونچا پودا درخت میں شمار کیا جائے گا۔

    کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کو گرین کلائمٹ فنڈ کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر سینیٹر محمد علی خان سیف کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام بات ہے کہ ماحولیات کی مد میں ملنے والے فنڈز سے پرتعیش گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں جس سے فنڈ دینے والوں کی نظر میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔

    کمیٹی نے وزارت کلائمٹ چینج کے حکام کو ہدایت کی کہ اس مد میں ملنے والے تمام فنڈز کو درست جگہ پر استعمال کیا جائے اور انہیں ضائع نہ ہونے دیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تائیوان کا درختوں پر مشتمل اسکائی اسکریپر

    تائیوان کا درختوں پر مشتمل اسکائی اسکریپر

    تائی پے: تائیوان میں فضائی آلودگی سے لڑنے کے لیے ایک بلند و بالا اسکائی اسکریپر تعمیر کیا جارہا ہے جس میں 23 ہزار درخت لگائے جائیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ درختوں پر مشتمل یہ عمارت ہر سال 130 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرے گی۔ مذکورہ عمارت کی 21 منزلوں پر 23 ہزار درخت لگائے جارہے ہیں۔

    یہ عمارت ڈی این اے کے ساخت جیسی ہے اور اس کے اندر اور باہر شجر کاری کی جائے گی۔ یہ منصوبہ بہت تیزی سے تعمیر کیا جارہا ہے اور توقع ہے کہ یہ بہت جلد مکمل ہوجائے گا۔

    اس عمارت پر یہ شجر کاری عمودی باغبانی کے تحت کی جارہی ہے۔

    عمودی باغبانی کا تصور چند عشروں قبل ہی پرانا ہے جس میں زمین کے بجائے دیواروں پر باغبانی کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے عمارت کی دیوار سے ذرا سے فاصلے پر مختلف سہاروں کے ذریعہ پودے اگائے جاتے ہیں جو نشونما پا کر دیوار کو ڈھانپ لیتے ہیں۔

    مختلف گھروں اور عمارتوں کی دیواروں کو اس طریقے سے سبز کردینا اس عمارت کے درجہ حرات کو کم رکھتا ہے جو موسم کی حدت سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کے باعث جنگلات اور درختوں کو کاٹ کر مختلف رہائشی و تعمیراتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس سے شہروں سے سبزہ بالکل ختم ہو کر شدید گرمی، اور آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔

    ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ عمودی باغبانی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہمیں بہت جلد اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سب سے زیادہ درختوں والے شہر

    سب سے زیادہ درختوں والے شہر

    دنیا بھر میں کچھ شہر اپنی بلند و بالا عمارتوں، جھلملاتی روشنیوں، اور مصنوعی آرائش کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں جہاں دنیا بھر کے لوگ آنا اور سیاحت کرنا پسند کرتے ہیں۔

    تاہم آج ہم کو ایسے شہروں کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو نہایت سرسبز ہیں اور ان کا زیادہ تر حصہ درختوں پر مشتمل ہے۔


    ایمسٹر ڈیم

    یورپی ملک نیدر لینڈز کے دارالحکومت ایمسٹر ڈیم کا 20.6 فیصد حصہ جنگلات اور درختوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کی حکومت نے اس سبزے میں اضافے کے لیے صرف سنہ 2015 میں 34 لاکھ ڈالرز خرچ کیے۔


    جنیوا

    سوئٹزر لینڈ کا شہر جنیوا سرسبز پارکس کا شہر کہلایا جاتا ہے جس کا 21.4 فیصد رقبہ سبزے پر مشتمل ہے۔


    فرینکفرٹ

    جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کا 21.5 فیصد حصہ درختوں اور جنگلات پر مشتمل ہے۔


    سیکریمنٹو

    امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سیکریمنٹو میں دا ٹری فاؤنڈیشن نامی تنظیم اسے شہری جنگل بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اب تک شہر کے 23.6 فیصد حصے پر درخت اگائے جاچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    یہاں کے خشک موسم کی وجہ سے اکثر و بیشتر جنگلات میں آگ بھی لگ جاتی ہے جو جانی و مالی نقصان کا سبب بنتی ہے۔


    جوہانسبرگ

    جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کا بھی 23.6 فیصد سبزے پر مشتمل ہے۔ پورا شہر 60 لاکھ درختوں سے ہرا بھرا ہے۔


    ڈربن

    جنوبی افریقہ کا ایک اور شہر ڈربن بھی اپنے رقبے کا 23.7 فیصد حصہ سبزے کے لیے مختص کر چکا ہے۔

    یہاں کی آبادی بھی مختصر سی ہے لہٰذا ایک تحقیق کے مطابق اگر اس شہر کے سبز رقبے کو لوگوں کی ملکیت میں دیا جائے تو ہر شخص کے حصے میں 187 اسکوائر میٹر سبز رقبہ آئے گا۔


    کیمبرج

    امریکی ریاست میساچوسٹس کا شہر کیمبرج 25.3 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ یہاں موجود ایک آئی ٹری کمپنی گوگل میپس کے ذریعے درختوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔


    وین کور

    کینیڈا کے شہر وین کور کا 25.9 فیصد حصہ سبزے پر محیط ہے۔ یہاں کی مقامی حکومت چاہتی ہے سنہ 2020 تک جب یہاں کے لوگ چہل قدمی کے لیے نکلیں تو ہر 5 منٹ کے فاصلے پر انہیں سبزہ نظر آئے۔


    سڈنی

    آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 400 پارکس کے علاوہ مختلف مقامات پر 188 ایکڑ کے سبزے کے ساتھ 25.9 فیصد حصہ رقبہ سبزے پر مشتمل ہے۔


    سنگاپور

    پہلے نمبر پر سنگاپور ہے جہاں کا 29.3 فیصد رقبہ سر سبز اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ سنہ 2030 تک یہاں کی 85 فیصد آبادی سرسبز و شاداب مقامات پر رہنے لگے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو کاٹے جانے کے خلاف اسلام آباد کے شہری خصوصاً خواتین ریڈ زون میں جمع ہوگئیں اور درختوں کی کٹائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ درختوں کی کٹائی کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’مجھے کیوں کاٹا‘ کا ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو بے دردی سے کاٹ دیا گیا جس کے خلاف خواتین بڑی تعداد میں ریڈ زون میں جمع ہوگئیں۔

    مظاہرین میں سماجی کارکنان، مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام شہری بھی شامل تھے۔

    احتجاج سے قبل تمام مظاہرین اسلام آباد پریس کلب میں جمع ہوئے اور دارالحکومت میں ہونے والی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھرپور احتجاج کا عزم ظاہر کیا۔

    پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور ماہر ماحولیات اور سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم نے بھی شرکت کی۔

    احتجاج کے دوران خواتین نے ٹوٹے درختوں کی جگہ باقی رہ جانی والی جھاڑیوں کو تھام کر افسوس کا ظہار کیا۔

    باقی رہ جانے والے درختوں پر سرخ ربن کے ساتھ مختلف کارڈز بھی منسلک کیے گئے جن پر لکھا تھا، ’انہوں نے اسلام آباد کو گنجا کر ڈالا‘، ’میں تو انسان دوست ہوں مجھے کیوں کاٹا‘۔

    اس احتجاجی مہم کا نام ’ایمبسی روڈ کے درختوں کی فریاد ۔ مجھے کیوں کاٹا‘ رکھا گیا جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بے حد مقبول ہوگیا اور نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے درختوں کی کٹائی کے خلاف برہمی کا اظہار کیا۔

    دارالحکومت کی خواتین کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی درختوں کو بے دردی سے کاٹے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گی، اور انہیں امید ہے کہ مرد حضرات بھی ان کا ساتھ دیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بلاول بھٹو کی راہ میں آنے والا درخت کاٹ دیا گیا

    بلاول بھٹو کی راہ میں آنے والا درخت کاٹ دیا گیا

    حیدر آباد: سانحہ کارساز کی دسویں برسی کے موقع پر صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسے کی تیاریاں جاری ہیں، تیاریوں کے دوران بلاول بھٹو کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ایک قدیم ترین درخت کو کاٹ دیا گیا۔

    سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مختلف تصاویر اور پوسٹس کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں کی حیدر آباد آمد کے موقع پر جگہ جگہ خیر مقدمی بینرز اور بورڈز آویزاں کیے جارہے ہیں۔

    ایسے ہی ایک بورڈ کی تنصیب کے لیے سومرا گوٹھ کے قریب واقع وادھو وا کے علاقے میں ایک قدیم اور تناور درخت کو بغیر سوچے سمجھے کلہاڑیوں کے وار سے کاٹ دیا گیا جس کے بعد اب یہاں بلاول بھٹو کے لیے خیر مقدمی بینر آویزاں کیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق یہاں درختوں کی پوری قطار تھی تاہم بورڈ لگانے کے لیے اس مخصوص درخت کو کاٹنا ضروری سمجھا گیا اور اسے وہاں سے اکھاڑ دیا گیا۔

    تصاویر بشکریہ: ماجد صدیقی ۔ فیس بک

    یاد رہے کہ صوبہ سندھ کے شہر کراچی اور حیدرآباد تقریباً نصف سال تک شدید، غیر معمولی گرمی اور ہیٹ ویوز کا سامنا کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی عدم موجودگی ہے جنہیں بے دریغ کاٹ دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں عام پایا جانے والا یہ درخت بے شمار بیماریوں کا علاج

    سنہ 2015 میں کراچی میں پڑنے والی قیامت خیز ہیٹ ویو نے 15 سو کے قریب افراد کی جان لے لی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔