Tag: درخشاں تھانہ

  • تھانے میں ملزم کی موت، پولیس سابق ایس پی نیئرالحق کو تلاش کرنے میں ناکام

    تھانے میں ملزم کی موت، پولیس سابق ایس پی نیئرالحق کو تلاش کرنے میں ناکام

    کراچی: درخشاں تھانے میں ملزم معیز کی ہلاکت کے کیس میں تفتیشی پولیس سابق ایس پی نیئرالحق کو تلاش کرنے میں ناکام ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق تفتیشی پولیس کی جانب سے ملزم معیز کی ہلاکت کے کیس پر ایف آئی اے سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔ نیئرالحق کا نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے کیلئے درخواست دے دی گئی ہے۔ نیئرالحق کے بیرون ملک جانے کے شواہد نہیں ملے۔

    ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ نیئرالحق کا نام پروویژنل لسٹ میں بھی ڈالا گیا ہے، نیئرالحق کی آخری ٹریول ہسٹری جنوری کی ہے جب وہ کراچی واپس آئے۔

    ذرائع کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ نیئرالحق کے گھر اور فلیٹ کے باہر تفتیشی پولیس نے نوٹسز بھی لگا دیے ہیں۔

    واضح رہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے ڈی آئی جی ویسٹ عرفان علی بلوچ کو درخشاں پولیس کی حراست میں معیز نامی ملزم کی موت کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

    اے آئی جی کراچی عمران یعقوب نے ہدایت کی تھی کہ معاملے کے اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔ اے آئی جی نے کہا تھا کہ انکوائری افسر کراچی رینج کے کسی بھی دوسرے افسر سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔

    معاملے کی جامع انکوائری کر کے 3 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جس کی روشنی میں مزید محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    مجسٹریٹ نے ملزم کی گرفتاری اور مبینہ تشدد سے متعلق تفصیلات حاصل کر لی ہیں، اور زیر حراست ایس ایچ او، ہیڈ محرر اور ڈیوٹی افسر سے بیانات لیے۔

    مجسٹریٹ کی جانب سے معطل ہونے والے ایس پی نیئر کے محافظوں اور اسکواڈ اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

  • درخشاں تھانے میں ہلاک ملزم کے بارے میں نیا انکشاف، سابق ایس پی کلفٹن کو بچانے کی کوششیں

    درخشاں تھانے میں ہلاک ملزم کے بارے میں نیا انکشاف، سابق ایس پی کلفٹن کو بچانے کی کوششیں

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ڈی ایچ اے کے درخشاں تھانے کے لاک اپ میں ہلاک ملزم معیز نسیم کے بارے میں نیا انکشاف ہوا ہے، ملزم کئی برسوں سے ذہنی مرض میں مبتلا رہا، جب کہ دوسری طرف اس کیس کے مرکزی کردار سابق ایس پی کلفٹن نیئر کو بچانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق درخشاں تھانے میں ہلاک ملزم کئی سالوں سے ذہنی مرض میں مبتلا رہا، متوفی معیز 6 سال تک نفسیاتی اسپتال میں زیر علاج رہا ہے، معلوم ہوا کہ ایس پی کلفٹن نیئر کی ٹیم نے پہلے بیٹے اور پھر باپ کو حراست میں لیا تھا، بیٹے کو تو اسپیشل انویسٹیگیشن یونٹ کے حوالے کیا گیا تاہم باپ کو نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

    ایس پی کلفٹن نیئر جو اس کیس کے مرکزی کردار ہیں

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شہریوں کی شکایت پر پیسوں کی ریکوری کے لیے لاک اپ میں ملزم معیز نسیم پر بدترین تشدد کیا گیا، متوفی کے خلاف فراڈ اور دھوکا دہی کے کئی مقدمات درج تھے، جب کہ پولیس نے باپ اور بیٹے کو بھتہ خوری کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔

    درخشاں تھانے میں ملزم کی موت کیسے ہوئی؟ پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ کی الگ الگ تحقیقات

    ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ایس پی کلفٹن نیئر کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جب کہ ایس ایچ او درخشاں اور ہیڈ محرر کو گرفتار کر کے لاک اپ کیا گیا ہے، اور ایس ایچ او ساحل کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا، واضح رہے کہ درخشاں اور ساحل تھانے ایک ہی عمارت میں قائم ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے کئی پولیس افسران اور اہلکاروں کے بیانات لے لیے گئے ہیں، ڈی آئی جی ویسٹ کو 3 روز میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    پولیس سرجن کی رپورٹ

    دوسری طرف اسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمیّہ نے معیز کی موت کو گزشتہ روز غیر طبعی قرار دیا تھا، ایم ایل او کے مطابق معیز نسیم پر بدترین تشدد کیا گیا، متوفی کے جسم پر چوٹوں اور تشدد کے جا بجا نشانات تھے۔

    پولیس سرجن نے بتایا کہ معیز نسیم کے تمام جسم پر زخموں کے نشان پائے گئے، اور موت طبعی وجہ سے نہیں ہوئی، کیمیائی تجزیے، ڈی این اے اور ہسٹوپیتھالوجی کے لیے تمام سیمپلز لے لیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ کراچی میں 15 اپریل کو درخشاں تھانے کے لاک اپ میں شہری معیز نسیم کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت درخشاں تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق مقدمے میں ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری اور ہیڈ محرر مفصل احمد لغاری کو نامزد کیا گیا ہے اور دونوں گرفتار ہیں، معیز نسیم کو ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم کی کسٹڈی انویسٹی گیشن کو دی جانی تھی، پولیس حکام نے کہا کہ ملزم کو تفتیشی حکام کے حوالے نہیں کیا گیا اور حبس بیجا میں رکھا گیا، اور پیر کے روز ملزم تھانے کے لاپ اپ میں ہلاک ہو گیا۔

  • درخشاں تھانے میں ملزم کی موت کیسے ہوئی؟ پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ کی الگ الگ تحقیقات

    درخشاں تھانے میں ملزم کی موت کیسے ہوئی؟ پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ کی الگ الگ تحقیقات

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ڈی ایچ اے میں درخشاں تھانے کے لاک اپ میں ایک ملزم کی موت پر حکام حرکت میں آ گئے ہیں، موت کی وجہ جاننے اور ذمہ دار کا تعین کرنے کے لیے محکمہ پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ نے الگ الگ تحقیقات شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے ڈی آئی جی ویسٹ عرفان علی بلوچ کو درخشاں پولیس کی حراست میں معیز نامی ملزم کی موت کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اے آئی جی کراچی عمران یعقوب نے ہدایت کی ہے کہ معاملے کے اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔

    اے آئی جی نے کہا انکوائری افسر کراچی رینج کے کسی بھی دوسرے افسر سے مدد حاصل کر سکتا ہے، معاملے کی جامع انکوائری کر کے 3 روز میں رپورٹ پیش کی جائے، جس کی روشنی میں مزید محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    دوسری طرف علاقہ مجسٹریٹ نے رات گئے تھانے پہنچ کر تفصیلات حاصل کیں، مجسٹریٹ نے ملزم کی گرفتاری اور مبینہ تشدد سے متعلق تفصیلات حاصل کیں، اور زیر حراست ایس ایچ او، ہیڈ محرر اور ڈیوٹی افسر سے بیانات لیے، مجسٹریٹ نے معطل ہونے والے ایس پی نیئر کے محافظوں اور اسکواڈ اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔

    پولیس بیان کے مطابق ملزم معیز کی لاش کا پوسٹ مارٹم مجسٹریٹ کی نگرانی میں مکمل کیا جائے گا، جس کے بعد لاش ورثا کے حوالے کی جائے گی، ذرائع جناح اسپتال نے کہا ہے کہ لاش پر تشدد اور اندرونی چوٹوں کے نشانات ملے ہیں، پوسٹ مارٹم کے بعد حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ کراچی میں درخشاں تھانے کے لاک اپ میں شہری معیز نسیم کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درخشاں تھانے میں درج کیا گیا، مقدمہ قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق مقدمے میں ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری اور ہیڈ محرر مفصل احمد لغاری کو نامزد کیا گیا ہے، گرفتار شہری ایک مقدمے میں گرفتار تھا اور ملزم کی کسٹڈی انویسٹی گیشن کو دی جانی تھی، پولیس حکام نے کہا کہ گرفتار ملزم کو تفتیشی حکام کے حوالے نہیں کیا گیا اور حبس بیجا میں رکھا گیا، گرفتار ملزم نامعلوم وجوہ کی بنا پر تھانے کے لاپ اپ میں ہلاک ہو گیا۔

  • مرید عباس کے قاتل عاطف زمان نے لوگوں سے پیسے لے رکھے تھے: اہلیہ مرید

    مرید عباس کے قاتل عاطف زمان نے لوگوں سے پیسے لے رکھے تھے: اہلیہ مرید

    کراچی: نجی ٹی وی چینل کے اینکر مرید عباس کی اہلیہ نے کہا ہے کہ انھیں پورا یقین ہے مرید عباس کو عاطف زمان نے مارا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ٹی وی اینکر مرید عباس کی اہلیہ نے کہا ہے کہ عاطف زمان ٹائر کا بزنس کرتا ہے، اس نے لوگوں سے پیسے لے رکھے تھے۔

    اہلیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے سرمایہ کاری کر رکھی تھی، وہ بندہ پیسے نہیں دے رہا تھا، عاطف زمان کسی کے بھی پیسے نہیں دے رہا تھا، ڈرامے کر رہا تھا، عاطف زمان ہی نے فون کر کے مرید کو بلایا تھا۔

    ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ عاطف زمان کا گھر خیابان نشاط میں ہے، پولیس کے پہنچنے پر اس نے خود کو گولی ماری، جسے شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی: فائرنگ کے واقعات میں نجی چینل کے اینکر سمیت پانچ افراد جاں بحق

    پولیس کے مطابق اینکر مرید عباس کو گولی مارنے والے ملزم نے خود کو بھی گولی ماری، ملزم عاطف نے موقع سے فرار ہو کر گھر جا کر خود پر گولی چلائی۔

    ایس ایس پی ساؤتھ کا کہنا ہے کہ مرید عباس پر فائرنگ کرنے والا اس کا جاننے والا تھا، فائرنگ چائے کے ہوٹل پر بیٹھے افراد پر کی گئی۔

    پولیس کا واقعے کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیفنس اور خیابان بخاری میں فائرنگ کے الگ الگ واقعات ہوئے، فائرنگ کے ایک واقعے میں اینکر مرید عباس جاں بحق ہوئے جب کہ دوسرے میں ڈیفنس میں خضر نامی شخص جاں بحق ہوا۔

  • کراچی: درخشاں تھانے پرعدالتی بیلف کا چھاپا، 3 خواتین، بچی بازیاب

    کراچی: درخشاں تھانے پرعدالتی بیلف کا چھاپا، 3 خواتین، بچی بازیاب

    کراچی: شہر قائد کے علاقے درخشاں میں تھانے پر عدالتی بیلف نے چھاپا مار کر 3 خواتین اور ایک بچی کو بازیاب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق عدالتی بیلف نے کراچی کے درخشاں تھانے پر چھاپا مار کر زیر حراست خواتین اور بچی کو بازیاب کر لیا، جنھیں گزشتہ دو روز سے بند کیا گیا تھا۔

    وکیل کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچی کو 4 جولائی سے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔

    وکیل نے کہا کہ گرفتاری کے 24 گھنٹے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا لیکن نہیں کیا گیا، دوسری طرف خاتون نے الزام لگایا ہے کہ انھیں تھانے میں ہراساں کیا گیا۔

    بازیاب کرائی گئی خاتون کا کہنا تھا کہ پولیس نے تھانے میں دو روز بند رکھ کر انھیں ہراساں کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  زیادہ تر پولیس اہل کار رات کوڈکیتی کرتے ہیں، جسٹس گلزار

    متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ 4 جولائی سے انھیں تھانے میں حبس بے جا میں رکھا گیا، اور جھوٹے کیس میں زیر حراست رکھا گیا۔

    خیال رہے کہ چند دن قبل سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے بھی محکمہ پولیس پر سخت تنقید کرتے ہوئے پولیسنگ سسٹم کو ناکام قرار دے دیا تھا۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ زیادہ تر پولیس اہل کار رات کو ڈکیتی کرتے ہیں، جب کہ سرکاری افسران دفاتر میں بیٹھ کر حرام کھا رہے ہیں، پولیس بھارتی تنخواہیں لے کر بھی 2 نمبریاں کرتی ہے۔

  • کراچی: پولیس اہل کاروں کے سامنے مدعی کے ہاتھوں نامزد ملزم قتل

    کراچی: پولیس اہل کاروں کے سامنے مدعی کے ہاتھوں نامزد ملزم قتل

    کراچی: شہرِ قائد کے علاقے نیو ٹاؤن میں پولیس اہل کاروں کے سامنے مدعی نے گولیاں مار کر نامزد ملزم کو قتل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس اہل کاروں کی شدید غفلت کے باعث کراچی میں ایک اور شخص کی جان چلی گئی، نیوٹاؤن میں سہیل نامی مدعی نے نامزد ملزم منور پر پولیس اہل کاروں کی موجودگی میں گولیاں مار دیں۔

    [bs-quote quote=”ایڈیشنل ایس ایچ او درخشاں سمیت 4 اہل کاروں کو نیوٹاؤن پولیس نے حراست میں لے لیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایڈیشنل ایس ایچ او درخشاں سمیت 4 اہل کاروں کو نیوٹاؤن پولیس نے حراست میں لے لیا۔ قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی۔

    ترجمان ڈی آئی جی ایسٹ زون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سہیل کو موقع پر ہی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، ملزم سہیل درخشاں تھانے کی پولیس کے ہمراہ آیا تھا۔

    پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ملزم سہیل کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا، درخشاں پولیس کے خلاف مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بھی درج ہوگا۔

    قبل ازیں کراچی کے علاقے نیو ٹاؤن، شرف آباد میں پولیس موبائل میں بیٹھ کر عدالتی حکم پر ملزم کی نشان دہی کے لیے آنے والے مدعی سہیل نے تین اہل کاروں کے سامنے ملزم منور کو چار گولیاں مار کر قتل کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایم کیو ایم کا وزیراعظم سے کراچی کی بگڑتی صورتحال پر نوٹس لینے کا مطالبہ

    ملزم منور کے بھائی نے اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منور پولیس کی غفلت کے باعث جان سے گیا ہے، میں پولیس سے بار بار کہہ رہا تھا کہ منور کو اٹھا کر اسپتال لے چلیں لیکن وہ اپنی دوستیاں بڑھانے میں لگے تھے اور اسپتال لے جانے کی بجائے منور کو تھانے لے کر گئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سہیل نے درخشاں تھانے میں بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں مقتول منور سمیت متعدد افراد نامزد کیے گئے تھے، تاہم بیٹیوں نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ وہ والد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں، وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی تھیں، عدالت نے بھی ملزم سہیل کے مقدمے کو غلط قرار دے دیا تھا۔