Tag: درخواستوں کی سماعت

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل

    سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل

    لاہور : سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل ہوگیا، جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں نیا بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل ہوگیا، جس کے بعد جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں نیا بنچ کیس کی سماعت کرے گا، بنچ کے دوسرے رکن جسٹس شہباز رضوی ہوں گے۔

    [bs-quote quote=”جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں نیا بنچ کیس کی سماعت کرے گا
    ” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اس سے پہلے جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ درخواست پر سماعت کر رہا تھا۔

    درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے 3 جنوری کو نئی جے آئی ٹی بنائی گئی ہے، قوانین کے تحت ایک وقوعہ کی تحقیقات کیلئے دوسری جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی۔

    دائر درخواست میں مزید کہا گیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے، نئی جے آئی ٹی کی تحقیقات سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل تاخیر کا شکار ہو جائے گا، سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم نہیں دیا۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دے کر اسے کام سے روکا جائے۔

    مزید پڑھیں : محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی

    یاد رہے 19 نومبر 2018 کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کے لیے 5رکنی لارجر بنچ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا اور 5 دسمبر کو حکومت کی جانب سے کیس میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کی یقین دہانی کرانے پر سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی تھی۔

    بعد ازاں 3 جنوری 2019 کو محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی ،جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ آئی جی موٹر ویز اے ڈی خواجہ ہیں۔

    واضح رہے جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جامع منہاج القرآن کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

  • فوجی عدالتوں نے چھ دہشت گردوں کوموت کی سزا سنادی ، آئی ایس پی آر

    فوجی عدالتوں نے چھ دہشت گردوں کوموت کی سزا سنادی ، آئی ایس پی آر

    اسلام آباد: دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے حال میں قائم کردہ فوجی عدالتوں نے سنگین جرائم میں ملوث سات دہشت گردوں کوسزائیں سنا دی گئیں ہیں۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ٹوئٹ کے مطابق تمام سات دہشت گردوں کو سنگین دہشت گردی بشمول بے گناہ انسانوں کو ذبح کرنے ، خودکش حملوں ، اغوا برائے تاوان اور جان و مال کو نقصان پہنچانے کے جرائم ثابت ہونے پر فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں۔

     پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ دو ہزار پندرہ کے تحت ان دہشت ردوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے جس کے بعد نور سعید، حیدر علی، مراد خان، عنایت اللہ، اسرار الدین اور قاری زاہر کو سزائے موت جبکہ عباس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

     

     پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاوٴں کی توثیق کردی ہے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے تمام ملزمان کو اپنی سزاوٴں کے خلاف ایک اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

  • اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کی سماعت آج

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کی سماعت آج

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج ہوگی، چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ سماعت کرے گا۔

    لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے وفاق اور چاروں صوبوں سے جواب طلب کیا تھا، کے پی کے حکومت نے اپنا جواب جمع کروادیا ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔

    فوجی عدالتیں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی تناظر میں مقدمات کے جلد فیصلوں اور گواہوں کی حفاظت کے پیش نظر قائم کی گئی ہے۔

    جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام نہیں بلکہ ایک عارضی نظام ہے، جو اسی ترمیم کے تحت دو سال میں خود ہی ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اسے آئین یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم قرار دینا درست نہیں لہذا فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔

    پاکستان بار نے آج ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام پر یومِ سیاہ منانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    سپریم کورٹ: اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔

    اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن کی سماعت ہوئی، عدالت عظمیٰ نے وفاق اور چاروں صوبوں سے پندرہ روز میں تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔

    جسٹس گلزار نے لاہور بار کے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کی پارٹی بھی اس ترمیم میں شریک تھی، جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں ہائی کورٹ بار کے وکیل کی حیثیت سے موجود ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل میں شرکت نہیں کی۔

    واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار و دیگر کی جانب سے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ میں جسٹس گلزار اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔

    عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

    عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں لاہور بار کے حامد خان کا کہنا تھا کہ پٹیشن کی آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کا کام شروع کرنا مناسب نہیں ہوگا، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کے تحفظ میں ناکام رہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ آئین میں غیر آئینی ترمیم کی گئی ہے۔

  • سپریم کورٹ:دھرنوں کے خلاف حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد

    سپریم کورٹ:دھرنوں کے خلاف حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نےدھرنوں کے خلاف حکم جاری کرنے کی درخواست مسترد کردی، عدالت نےغیرآئینی اقدام سے متعلق کیس میں تحریک انصاف سے کل تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔

    سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام اوردھرنوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے کی۔ اعلیٰ عدالت کے نوٹس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان پیش ہوئے جبکہ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سےکوئی وکیل حاضر نہیں ہوا۔

    اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عوامی تحریک کے ورکرز نے شاہراہ بلاک کر رکھی ہے، ان کی تقریر بھی اشتعال انگیز ہے، اُنہیں روکا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے حکم جاری نہیں کریں گے، یہ معاملات ہینڈل کرنا حکومت کا کام ہے۔

    چیف جسٹس ناصر الملک نے حامد خان سے کہا کہ آپ کےجو بھی سیاسی مطالبات ہے، ہمارا اس سےکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم اس میں مداخلت کریں گے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ اپنے مطالبات سے بیشک ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں لیکن شاہراہ دستور سے چند فٹ پیچھے ہٹ جائیں تاکہ آمد و رفت کا راستہ کھل جائے۔

    جس پر حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے شاہراہ دستور پر راستہ روکا ہے نہ ہی کسی شخص کو کسی بھی عمارت میں آنے جانے سے روکا جارہا ہے، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کا موقف قابل ستائش ہے لیکن اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنائیں، اعلیٰ عدالت نے تحریک انصاف سےتحریری جواب طلب اور پی اے ٹی کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔