Tag: درخواست ضمانت

  • سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کی ضمانت منظور

    سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کی ضمانت منظور

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے سابق صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کی ضمانت قبل از گرفتاری کی عبوری درخواست منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے سندھ روشن پروگرام کے تحت سولر لائٹس کی تنصیب کے منصوبے کا ٹھیکہ دینے میں مبینہ کرپشن کے کیس میں درخواست ضمانت دائر کر رکھی تھی۔

    درخواست کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے کی، عدالت نے شرجیل میمن کی یکم جنوری تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) سے جواب طلب کرلیا۔

    عدالت نے شرجیل میمن کو 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دیا۔

    نیب کی مذکورہ انکوائری میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ 4 ملزمان اور 2 کمپنیاں 29 کروڑ روپے میں پلی بارگین کر چکی ہیں۔

    خیال رہے کہ شرجیل میمن اس سے قبل سرکاری خزانے سے پونے 6 ارب روپے کی خرد برد کے الزام پر بھی نیب کی زیر حراست رہ چکے ہیں۔

    شرجیل انعام میمن پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے الیکٹرونک میڈیا کو دیے جانے والے اشتہارات کی مد میں کی جانے والے کرپشن کے دوران خرد برد کی۔

  • آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت  سماعت کیلئے مقرر

    آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر کل سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت سماعت کیلئےمقرر کردی گئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کل سماعت کرے گا۔

    سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے فاروق ایچ نائیک پیروی کریں گے، پارک لین اورمنی لانڈرنگ اسیکنڈل میں ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    بعد ازاں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پررجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعتراضات لگادیے، جس میں کہا درخواست کے ساتھ منسلک میڈیکل رپورٹ کی کاپیاں آدھی کٹی ہوئی ہیں اور سابق صدراور فریال تالپور کےوکیل کورجسٹرارآفس میں طلب کرلیا گیا ہے۔

    دوسری جانب سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکی درخواستوں پرجانچ پڑتال کی گئی ، آصف زرداری اورفریال تالپورنےآج درخواستوں پرسماعت کی استدعاکررکھی تھی۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری

    مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی اسکینڈل کیس میں گرفتار مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایڈوکیٹ حیدر وحید عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل مفتاح اسماعیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کیس کے حتمی فیصلے تک ضمانت منظور کی جائے۔ مفتاح اسماعیل نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ سابق وزیرخزانہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی اسکینڈل کیس میں گرفتار مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔

    مفتاح اسماعیل نے ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا

    یاد رہے کہ ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم کو جولائی 2019 اور مفتاح اسماعیل کو 7 اگست کو گرفتار کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا سابق وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا جس میں وہ خود حصہ دار ہیں۔

  • نواز شریف کے بھتیجے  کی درخواستِ ضمانت پر  نیب کو نوٹس ، جواب طلب

    نواز شریف کے بھتیجے کی درخواستِ ضمانت پر نیب کو نوٹس ، جواب طلب

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر مل کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 دسمبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے چوہدری شوگر مل کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    یوسف عباس کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ شریف فیملی ایک کاروباری خاندان ہے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، نیب نے چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ انکوائری میں گرفتار کیا جبکہ چوہدری شوگر مل سمیت شریف فیملی کے دیگر بزنسز پر پانامہ جی آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ پیش کی ، جس میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    یوسف عباس کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب کی حراست میں 48 دن جسمانی ریمانڈ پر رہے لیکن شواہد پیش نہیں کیے گیے ، نیب نے 410 ملین کیمنی لانڈرنگ کا الزام لگایا جبکہ اس کا تمام ریکارڈ موجود ہے اور تمام رقم بینکنگ چینل سے پاکستان آئی اور اس ہر ٹیکس بھی دیا۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کے بھتیجے نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی

    وکیل کا کہنا تھا کہ نیب نے بے بنیاد الزامات لگائے لہذا عدالت درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے ، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے نیب سے 16 دسمبر کو جواب طلب کر لیا،درخواست میں چیرمین نیب، ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ 22 نومبر کو احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز چوہدری شوگرملزکیس میں ضمانت پر ہیں۔

  • نوازشریف کے بھتیجے نے ہائی کورٹ میں  درخواست ضمانت دائر کر دی

    نوازشریف کے بھتیجے نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی

    لاہور: چوہدری شوگر مل کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی۔ عدالت میں دائر درخواست میں چیرمین نیب، ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شریف فیملی ایک کاروباری خاندان ہے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، نیب نے چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ انکوائری میں گرفتار کیا جبکہ چوہدری شوگر مل سمیت شریف فیملی کے دیگر کاروبار پر پاناما جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    یوسف عباس کے مطابق نیب کی حراست میں 48 دن جسمانی ریمانڈ پر رہا لیکن شواہد پیش نہیں کیے گیے، نیب نے 410 ملین کیمنی لانڈرنگ کا الزام لگایا جبکہ اس کا تمام ریکارڈ موجود ہے، تمام رقم بینکنگ چینل سے پاکستان آئی اور اس پر ٹیکس بھی دیا۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب نے بے بنیاد الزامات لگائے، لہذا عدالت درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے۔

    چوہدری شوگر ملز کیس ، نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    یاد رہے کہ 22 نومبر کو احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی

    رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران اے این ایف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے رانا ثنا اللہ کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی۔ رانا ثنا اللہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے پرمنشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمے کو مشکوک ثابت کرتی ہے، ایف آئی آر میں 21 کلوگرام ہیروئن اسمگلنگ کا لکھا گیا، بعد میں منشیات کا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا۔

    رانا ثنا اللہ نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ گرفتاری سے قبل گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا، بے بنیاد مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ منشیات اسمگلنگ کے مقدمے میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

    بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے اے این ایف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت کیس کا 2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری

    یاد رہے کہ رواں ماہ 9 نومبر کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جو مواد پیش کیا گیا اس سے رانا ثنا اللہ کا جرم سے بظاہر واسطہ نظر آتا ہے، ایسی کوئی وجہ نہیں جس کی بنیاد پر فوری ان کو ضمانت دی جائے۔

  • کمسن بچی سے زیادتی کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد

    کمسن بچی سے زیادتی کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 4 سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کردی، ملزم کی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 4 سالہ بچی کے بیان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 4 سالہ بچی سے زیادتی کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

    جسٹس سردار طارق نے دریافت کیا کہ ملزم کی شناخت پریڈ کیوں نہیں کی گئی، اے جی اسلام آباد نے بتایا کہ ملزم نامزد ہونے کی وجہ سے شناخت پریڈ نہیں کی گئی۔

    ملزم کی وکیل تہمینہ محب اللہ نے کہا کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے، کیس میں مزید ڈی این ایز کی تفصیلات نہیں دی گئیں، 4 سالہ بچی کے بیان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا درخواست واپس لی جائے ورنہ ٹرائل پر اثر ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کردی۔

    خیال رہے کہ ملزم عباس عرف چیکو پر 4 سالہ بچی سے زیادتی کا الزام تھا، ملزم کے خلاف تھانہ بارہ کہو میں مقدمہ درج ہوا تھا۔

    اس سے 2 روز قبل ہی راولپنڈی سے بچوں سے زیادتی اور لائیو ویڈیو چلانے والے عالمی گینگ کے سرغنہ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم سہیل ایاز عرف علی بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے پر برطانیہ میں بھی سزا کاٹ چکا ہے، ملزم کو برطانوی حکومت نے اسی جرم میں بے دخل کیا تھا۔

    سی پی او فیصل رانا کے مطابق ملزم اٹلی میں بھی بچوں سے زیادتی کے مقدمات میں ٹرائل بھگت چکا ہے جس کے بعد اٹلی سے بھی ملزم کو بے دخل کیا گیا۔ یہاں تھانہ روات کی حدود میں ملزم نے محنت کش بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور بچے سے زیادتی کی ویڈیو بھی بنائی۔

    فیصل رانا کے مطابق ملزم نے پاکستان میں 30 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا، ملزم برطانیہ میں بچوں کے تحفظ کے ادارے میں ملازمت کرتا تھا۔

  • العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

    العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

    اسلام آباد :اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کرلی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا 8 ہفتے کیلئے معطل کردی اور 20لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق ،جسٹس محسن اخترکیانی پرمشتمل ڈویژن بینچ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت اور سزا معطلی پر سماعت کررہا ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، نوازشریف کےوکیل ہائی کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ نیب وکیل، میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹرز بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    دوران سماعت وکیل حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا وزیراعلیٰ کو بلانے پر آئینی،قانونی پیچیدگیاں تھیں، اس کے باوجود بھی وزیراعلیٰ پنجاب پیش ہوئے، وزیراعلیٰ پنجاب عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے کہا میں خود بھی وکیل ہوں، ایک سال میں 8 جیلوں کے دورےکئے، 8ہزار قیدیوں کو فائدہ پہنچاہے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، جس پر جسٹس عامرفاروق نے کہا کیس سے متعلق آگاہ کریں، جیل میں قیدیوں کیلئےکیااقدامات ہیں، قانون میں ہے،مریض قیدی کا خیال  رکھاجاناچاہیئے، کچھ چیزیں ہیں جوتوجہ طلب ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تودرخواست دائر کر دی ، بہت سے بیمار قیدی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے، کوئی کینسر اور کوئی دوسری کسی مہلک بیماری سے، تمام قیدیوں کے لئے راہ دکھانا چاہتے ہیں۔

    عثمان بزدار نے کہا میں جہاں جاتا ہوں جیلوں کا وزٹ کرتا ہوں، میں پہلا وزیراعلیٰ ہوں جس نے 8 جیلوں کا دورہ کیا، مریض قیدیوں سے متعلق بھی بھرپور توجہ ہے، ہم جیل ریفارمز کی پوری کوشش کر رہے ہیں، یہ کیس ہم سےمتعلقہ نہیں ہے، نواز شریف صرف ہماری حراست میں ہیں اور ان کا خیال رکھنے کیلئے  بھرپور اقدامات کئے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم پیکج لا رہے ہیں جس میں چیزیں دنوں میں گراؤنڈ پر آئیں گی، جس پر عدالت نے استفسار کیا خواجہ صاحب آپ اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں، عثمان بزدار نے مزید کہا کہ جیل کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہی، میں پہلا وزیر اعلیٰ ہوں جو جیل میں جا رہاہوں تو جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جیلوں میں نہیں بلکہ جیلوں کا وزٹ کرنےجارہےہیں۔

    جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کو جانے کی اجازت دے دی۔

    سماعت میں نواز شریف کے میڈیکل بورڈ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ، ڈاکٹرزکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کو دل اورگردوں کا عارضہ ہے اور ان  کو پلیٹ لیٹس کا مسئلہ ہے، ہماری کوشش ہے نواز شریف کی بیماریوں کا علاج کریں۔

    عدالت نےایڈووکیٹ جنرل طارق محمودکو روسٹرم پر طلب کر لیا، ڈاکٹرز نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نےنواز شریف کےبون میروٹیسٹ کی سفارش کی، نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، وہ متعددبیماریوں کے شکار ہیں۔

    جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا یعنی ایک چیز کا علاج کیا جائے تو دوسرا مسئلہ ہوجاتاہے، دوسرے کا علاج کیاجائےتوپہلےکا مسئلہ ہو جاتا ہے ، کیا اس طرح کہا جا سکتا ہے، میڈیکل ٹیم نے بتایا جی ایسا ہی ہے ایک کا علاج کیا جائے تو دوسرا ایشوہوجاتا ہے۔

    نواز شریف کےذاتی معالج ڈاکٹر عدنان عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ نواز شریف کی حالت بہت تشویشناک ہے، پلیٹ لٹس بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگربڑھ نہیں رہے، نواز شریف کو ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے، ان کی جان کو ابھی تک شدیدخطرہ ہے۔

    ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ ابھی تک معلوم نہیں پلیٹ لٹس کیوں کم ہوئے، جب تک بیماری کا پتہ نہ چل جائے علاج نہیں ہو سکتا، ہومیوگلوبن سے نواز شریف  کا  بلڈپریشر ،شوگربڑھ گیا، 20 سال سے نواز شریف کا ڈاکٹر ہوں ، مگر ان کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی، نواز شریف زندگی کی جنگ لڑ رہے  ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کےذاتی معالج کو بیٹھنے کا کہا، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو انجائنہ کی تکلیف ہے، جس پر ایم ایس سروسز اسپتال نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پلیٹ لٹس دوبارہ 30ہزارکرناپڑے، ڈاکٹرز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ طبیعت بہتر ہو۔

    ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو جان بچانے کی ادویات دی گئیں، بورڈ نے کل فیصلہ کیا ہے پورے جسم کااسکین کیا جائے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا پلیٹ لیٹس بڑھانے کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا، اسٹیرائڈزلگانے سےہارٹ اٹیک کے چانس بڑھ جاتے ہیں، مریض کو 24اور 25 کی رات مائنر ہارٹ  اٹیک ہوا، اس وقت مریض کی حالت بہت خراب ہے، نواز شریف کا دل پمپ نہیں کر رہا اور ان کے گردے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کوعلاج سے فرق نہیں پڑرہا، سروسزاسپتال میں نواز شریف کی بیماریوں کےٹیسٹ دستیاب نہیں، ان کی زندگی کو خطرہ ہے، 26 اکتوبر کی رپورٹ میں کہا گیا مریض کا دل پمپ نہیں کررہا، دل پمپ نہ ہونےکی وجہ سے گردوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے، نواز شریف کو علاج اور رحم کی ضرورت  ہے۔

    نواز شریف کے وکیل نے کہا علاج کرانا اور سہولت بنیادی حقوق میں شامل ہے، ہم نواز شریف کی علاج سے مطمئن نہیں ہیں، ان کی میڈیکل رپورٹس نے سب کچھ بتادیا، سروسز اسپتال میں کارڈیک مشین ہی نہیں ہے اور گردوں کے چیک اپ کیلئے دوسرے اسپتال جانا پڑتاہے۔

    میڈیکل بورڈ تو خود کچھ نہیں کر پا رہا، جب کوئی نتیجہ نہیں نکل رہاتومطلب غیرتسلی بخش علاج ہورہا ہے ، سروسز اسپتال میں کارڈیک یونٹ نہیں ہے، سروسز  اسپتال میں سب علاج ایک چھت تلے نہیں، جب ایک بندہ رہے گا ہی نہیں تو سزا کس کو دیں گے۔

    جسٹس محسن کیانی نے خواجہ حارث سے استفسار کیا ابھی تک کے علاج سےمطمئن ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نواز شریف کےعلاج سے  مطمئن نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہےپھانسی کامجرم بھی بیمار ہوتوعلاج کرایاجائے، یہ ہارڈ شپ کا کیس ہےہی نہیں۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کو مصنوعی طورپربڑھایا جا رہا ہے، یہ صورتحال میں نواز شریف کی جان کیلئےخطرہ ہے، ان کی  حالت بدستور خراب سےخراب ہوتی جارہی ہے، جان اللہ کے ہاتھ میں ہے مگرعلاج کرانا ضروری ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ تو خواجہ حارث کا کہنا تھا ریاست کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، زندگی بچانےکی ادویات دیتے ہیں تو اس کے بھی مضراثرات ہوتے ہیں۔

    جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ضمانت دیں اور وہ ایک ماہ میں صحت مندہوجائیں توکیاہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا اس صورت میں ضمانت منسوخی کی درخواست دائرکی جا سکتی ہے، جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ فیصلہ ایک اتھارٹی نے کرنا ہے، عدالت یا حکومت دونوں میں سے ایک نے فیصلہ کرنا ہے، تو خواجہ حارث کا کہنا تھا نوازشریف کاعلاج ایسے اسپتال سے کرانا ہے جہاں تمام ٹیسٹ ہو سکیں۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر وہ کبھی سزا کاٹنے کے قابل ہوگئے تو پھر کیاہوگا، کیا پھر سزا  کو ایسےہی چھوڑ دیا جائے گا، آرٹیکل 401کے تحت ایگزیکٹو خود ایسے کام کیوں نہیں کرتا، کیا اس میں کوئی رکاوٹ ہے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آئے اور دلائل میں کہا سپریم کورٹ نےعلاج کیلئے6ہفتےسزامعطل کی تھی اور سزامعطلی پر کچھ  پیرامیٹرزطےکئےتھے، جس پر جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس بیمار قیدی کیلئے اختیارات موجود ہیں تو جہانزیب بھروانا نے بتایا
    قیدیوں  کے علاج کے لئے قوانین موجودہیں۔

    جہانزیب بھروانہ نے طبی بنیادپرضمانت کاسپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا ہم طبی معاملات کے ماہر نہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا عدالت کو ایک چیز بتائیں، کوٹ لکھپت اور اڈیالہ جیل پنجاب ہیں، ان دونوں جیلوں کے قیدیوں کافیصلہ کون کرے گا۔

    نیب نے نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کردی اور کہا نواز شریف کاعلاج بہترین ڈاکٹرز کررہےہیں، نیب کیس میں سزا پر426 لاگو نہیں ہوتا، جس پر جسٹس  عامرفاروق کا کہنا تھا کہ 401 کے اختیارات پرعملدرآمدکراناوفاق ،صوبائی حکومت کا کام ہے ، تو جہانزیب بھروانہ نے کہا دونوں کے پاس احتیارات  ہیں۔

    عدالت نے کہا اسلام آباد میں سزا پانیوالا قیدی جیل جائے تو کسٹڈی کون ریگولیٹ کرےگا؟ اڈیالہ جیل اورکوٹ لکھپت دونوں ہی پنجاب میں ہیں، نیب ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا نواز شریف کےبیرون ملک جانے پر اعتراض ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ انھوں نےملک سےباہرجانےکی توبات ہی نہیں کی، ایک چھت تلے تمام سہولتیں مہیاکرنے کی استدعاہے، جسٹس عامرفاروق نے بھی کہا کہ لاہورنیب کورٹ کسی کوسزا دیتی ہےتوصوبائی کےپاس اختیارجاتاہے، اسلام آبادمیں وفاق کےاپنےجیل نہیں وہ عملدرآمد کیلئے پنجاب جاتی ہے۔

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کےرول بتائیں، اسلام آباد کے قیدیوں پر ایسی صورت میں فیصلہ کون کرتا ہے؟ جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا صوبائی حکومت ہی اسلام آباد کے قیدیوں پربھی فیصلہ کرتی ہے، اسلام آباد میں جیل نہ ہی جیل قوانین ہیں۔

    نیب نے نواز شریف کی ضمانت پر بیرون ملک علاج کی مخالفت کر دی۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا اسلام آباد سے سزا ہو تو رہائی کا اختیار وفاق کو یا صوبے کو،اےجی اسلام آبادطارق محمود نے بتایا رہائی کےاختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں، تو جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ جب نوازشریف حراست میں تھےتواس وقت وزیراعلیٰ نے ڈائریکشن دی تھی۔

    نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے دلائل میں جیل سپرنٹنڈنٹ کوقیدیوں کےحقوق سےمتعلق اختیارات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے  بتایا ایسانہیں ہوناچاہیےایک ڈاکٹرقیدی کی رپورٹ بنائے، ایسی رپورٹ پرجیل سپرنٹنڈنٹ اس کورہاکردے، عدالت کواس سےالگ نہیں کرناچاہیے۔

    جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ قانون کی اپنی منشاہے، ایگزیکٹواپنےاختیارات کااستعمال نہیں کرتی، وکیل خواجہ حارث جواب الجواب دلائل میں کہا کہ میں  صرف نواز شریف کی صحت کیلئے پریشان ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا صرف علاج کیلئےنوازشریف کومحدودمدت کےلئےضمانت دی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ کا ٹائم فریم آپ کے سامنے ہے، جس پر
    جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر ہم آپ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹائم فریم کیا ہوگا، عدالت کی ہرپہلو پر نظر ہے، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا عدالت میرٹ  پر فیصلہ دے۔

    جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ اپیل زیرسماعت ہے اگر دلائل ہوتے تو اپیل پربھی فیصلہ ہوجاتا، ابھی تک جج بلیک میلنگ کیس پربھی سماعت مکمل نہ ہوسکی، نیب نے نوازشریف کی مستقل ضمانت کی مخالفت کردی۔

    جسٹس عامر نے کہا المیہ یہی ہے، جس کو اختیار ملا ہے، وہ استعمال ہی نہیں کرتا، کام کرنے کے لیے دوسرےادارےکاکندھا استعمال کرناروایت بن گئی ہے، جس پر نیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نےعلاج کے لیے محدودمدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار بنایا ، نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت ہے درخواست ضمانت کو التوا میں رکھا جائے۔

    نیب کا مزید کہنا تھا کہ چھ ہفتوں تک نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں، عدالت نے نیب سے استفسار کیا ہفتے کو انسانی بنیاد پر ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا بیان دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کو اپنی مرضی سے علاج کرانے کی اجازت دی جائے،آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا ہم آپ کو الزام نہیں دےرہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ جب معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو ایگزیکٹو کوئی آرڈرنہیں دے سکتی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا آپ کہہ رہےہیں ایگزیکٹو آرڈر سےفرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا ، تو خواجہ حارث نے کہا العزیزیہ ریفرنس میں سزاکالعدم قرار دینے کی اپیل بھی زیرسماعت ہے۔

    خواجہ حارث نےبھارتی سپریم کورٹ کیس کے حوالے کی کاپی عدالت کو دی اور کہا عدالت کا صوابدید ہے کہ وہ نوازشریف کوضمانت پررہا کرے، جسٹس عامر  فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کےپاس آرٹیکل 199کےتحت اختیارات توہیں لیکن آرٹیکل401کوبھی دیکھنا ہے۔

    جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کیا اپیل کےفیصلےسےپہلےصدر مملکت سزا معاف کرسکتےہیں؟ خواجہ حارث نے کہا صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں، روایت یہ ہےکہ پہلے تمام فورمز پراپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

    جسٹس محسن کیانی نے کہا نیب کے سوا ابھی تک وفاق،صوبائی حکومت کامؤقف واضح نہیں، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4آپشنز ہیں، معاملہ ایگزیکٹوکوبھیجیں، نیب تجویز پرٹائم فریم کیلئےسزا معطل کریں، آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کر دیں، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ، ڈاکٹرز صرف کوشش ہی کرتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوزکو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہماری مخالف سیاسی حکومت کو بھجوانا مناسب نہیں ہوگا، جس پر
    جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ہم کسی پرائم منسٹرکےاسٹیٹمنٹ پرنہیں جارہے، کسی نے193نہیں پڑھا تو کسی نے 401 نہیں پڑھا، ہم نے صرف قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

    خواجہ حارث نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے سے پہلے ٹی وی پرسیاسی مخالفین بیان دےرہےہیں، جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا تھا کہ کوئی کچھ بھی بولے ہم نےصرف قانون دیکھناہے، وزیراعظم کے بیان پرنہیں جارہے،فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے۔

    جسٹس محسن اختر نے کہا وزیراعظم،وزیراعلیٰ پورےملک،صوبےکےہوتےہیں، کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پریہ بیان دیا؟خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لاافسرہیں، سب چینلز نےان کا بیان نشرکیا، عدالت کے پاس آئے ہیں ، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کردیں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گیی ، ملک میں تاثر بنا دیا گیاہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ  ہو گا، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے لعن طعن ہی ہونا ہے، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، ہم درخواست پر آپ  کے فیصلےکااحترام کریں گے۔

    جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث کو مشورہ دیا آپ کو چاہیے متعلقہ فورمز پر جائیں، کچھ نہیں ہوتا تو ہمارے پاس آئیں، خواجہ حارث نے کہا جو اسمبلی میں  ہاتھ نہیں ملاتے، ایسی حکومت سے کیا امید کرتے۔

    عدالت نے نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، بعد ازاں نوازشریف کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر سماعت 25نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو تحریری جواب جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت منظور کرلی اور سزا 8ہفتے کیلئے معطل کرتے ہوئے نوازشریف کو 20 ، 20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا اور کہا 8ہفتے تک علاج مکمل نہ ہوتو صوبائی حکومت سے رابطہ کریں۔

    جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پرمشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔

    گزشتہ سماعت پرحکومت کی طرف سے خاطرخواہ جواب نہ ملنے پر وزیراعلیٰ کوطلب کیا گیا تھا ، وزیراعلیٰ طبی بنیادوں پر نوازشریف کی ضمانت سے متعلق  عدالت کی معاونت کریں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ کو بھی ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کے لیئے نیب نے دو رکنی ٹیم تشکیل دی، چیئرمین نیب کی جانب سے دو ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرلز  کو ذمہ داری سونپ دی گئی ، نیئر رضوی اور جہانزیب بھروانہ عدالت میں چیئرمین نیب کی نمائندگی کریں گے۔

    سماعت میں عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کی تھی اور کہا تھا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نے نہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں۔

    بعد ازاں  نیب نے نوازشریف کی ضمانت پر رضامندی ظاہر کی تھی اور عدالت نے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے  ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے  رہی ہیں۔

    خیال رہے لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملزکیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

  • نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    اسلام آباد: نوازشریف کے وکلا نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں خواجہ حارث نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    نوازشریف کے وکیل نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو دل کا دورہ پڑنے کے خطرات ہیں، نواشریف کو گزشتہ روز انجائنا کا مسلسل شدید درد ہوا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نوازشریف کی حالت تشویش ناک ہے۔ نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست پر آج ہی سماعت کی جائے۔

    نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر سماعت منگل تک ملتوی کر دی تھی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نوازشریف اس وقت جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹرز سے ملک میں یا ملک سے باہر علاج کرائیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے میں ڈاکٹرز بہترین ججز ہیں انہوں نے کہا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں واضح طور پر بتانا ہوگا کہ کیا پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق علاج معالجے کی سہولیات موجود ہیں اور کیا نوازشریف کی جان کو یہاں کوئی خطرہ ہےِ؟۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہورہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کی تھی ۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے، جیل میں رہتے ہوئے علاج ممکن نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہوتا ہے۔

  • منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت مسترد

    منشیات برآمدگی کیس: رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت مسترد

    لاہور: عدالت نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد منشیات کی خصوصی عداتل کے جج نے منشیات برآمدگی کیس میں رانا ثنا اللہ سمیت پانچ شریک ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران رانا ثنا اللہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اپنے اسٹاف کے ہمراہ لاہور کا سفر کررہے تھے، ایک گاڑی پروٹوکول کی تھی اور ایک رانا ثنا اللہ کی گاڑی تھی۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ ان کے موکل نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا، رانا ثنا اللہ کو سیاسی بنیادوں پر اے این ایف نے گرفتار کیا۔

    اے این ایف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے دلائل میں وکلا نے ساری سیاسی باتیں کی ہیں، لگ رہا تھا عدالتی کارروائی نہیں کوئی جلسہ ہے، اس کیس کے 14 میموز ہیں جنہیں لکھنے میں ایک گھنٹے سے زائد کا وقت لگتا ہے، مقدمے کے اندراج میں تاخیر والی بات درست نہیں ہے۔

    اے این ایف کے وکیل نے کہا کہ ایک ایک سیکنڈ کا حساب دے سکتے ہیں، ملزموں کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں لہذا عدالت ضمانت خارج کرے۔

    عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر رانا ثنااللہ کی ضمانت خارج جبکہ پانچ شریک ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    واضح رہے انسداد منشیات فورس نے رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد سےلاہورجاتے ہوئےموٹر وے سے حراست میں لیا تھا ، راناثنااللہ کی گاڑی سے بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔