Tag: درپن کی برسی

  • پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1980ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے درپن نے بڑے پردے پر ہیرو کے طور پر کام یابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کیریکٹر اور سپورٹنگ رول بھی ادا کیے۔

    درپن 1928ء کو اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عشرت عباس تھا اور فلم نگری میں انھوں نے درپن کے نام سے پہچان بنائی اور شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارت کی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ پاکستان واپسی پر درپن نے کئی کام یاب فلموں میں کام کیا، جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    بطور ہیرو ان کی آخری کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    درپن نے بہترین اداکار کے زمرے میں دو نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔ اداکاری کے علاوہ انھوں نے خود کو فلم ساز کے طور پر بھی آزمایا اور بالم، گلفام، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے فلمیں بنائیں۔

    وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلموں‌ کے مشہور اداکار درپن کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں‌ کے مشہور اداکار درپن کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے مشہور اداکار درپن کی برسی ہے۔ وہ 8 نومبر 1980ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔

    درپن کا اصل نام سید عشرت عباس تھا۔ وہ 1928ء میں یو پی میں پیدا ہوئے۔ درپن کے فلمی سفر کا آغاز "امانت” سے ہوا۔ اس فلم کے بعد انھیں‌ پنجابی فلم بِلو میں کام کرنے کا موقع ملا جس کے بعد وہ بمبئی چلے گئے۔ درپن نے ممبئی میں‌ چند فلموں میں‌ کام کیا، لیکن جلد ہی لاہور واپس آگئے۔ یہاں فلم "باپ کا گناہ” سے دوبارہ انڈسٹری میں قدم رکھا اور 1959ء میں ان کی ایک فلم "ساتھی” نمائش پزیر ہوئی جس میں اس وقت کے مشہور ادکاروں‌ نیلو، طالش، حسنہ اور نذیر نے بھی کام کیا تھا۔ درپن کی یہ فلم بہت مقبول ہوئی اور اس کے بعد ان کی کام یابیوں‌ کا سفر شروع ہوگیا۔

    رات کے راہی، سہیلی، انسان بدلتا ہے، دلہن، باجی، اک تیرا سہارا، شکوہ، آنچل اور نائلہ جیسی فلموں‌ نے درپن کو شائقین میں‌ مقبول بنایا۔ انھوں‌ نے اردو زبان میں 57 فلمیں، پنجابی کی 8 اور پشتو زبان میں‌ بننے والی دو فلموں میں بھی کام کیا۔

    درپن نے بہترین اداکار کے زمرے میں دو نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ درپن نے خود کو فلم ساز کے طور پر بھی آزمایا اور بالم، گلفام، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے فلمیں بنائیں۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس نام ور اداکار کو لاہور کے مسلم ٹائون کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔