Tag: دریائی گھوڑا

  • دریائی گھوڑا کون ہے؟ چڑیا گھر انتظامیہ 7 سال تک بے خبر رہی

    دریائی گھوڑا کون ہے؟ چڑیا گھر انتظامیہ 7 سال تک بے خبر رہی

    ٹوکیو : چڑیا گھر میں موجود ایک مادہ دریائی گھوڑے نے سات سال تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ وہ نر نہیں مادہ ہے۔

    جانوروں کی قسم یا نسل جو بھی ہو ماہرین حیوانیات کے لیے یہ سمجھنا کبھی مشکل نہیں ہوتا کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ لیکن جاپان کے ایک چڑیا گھر میں ایک دریائی گھوڑے سے متعلق جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ انتہائی چونکا دینے والا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کے مطابق جین چن نامی ایک دریائی گھوڑا جاپان کے چڑیا گھر میں گزشتہ سات سال سے موجود تھا۔

    اسے چڑیا گھر انتظامیہ کی نااہلی کہا جائے یا بھولا پن کے وہ اسے نر دریائی گھوڑا سمجھتی رہی، تاہم سات سال بعد ایک رپورٹ سامنے آنے کے بعد پتہ چلا کہ جین چن دراصل ایک مادہ دریائی گھوڑا ہے۔

    Hippo

    رپورٹ کے مطابق اس دریائی گھوڑے کو سال 2017 میں جاپان کے چڑیا گھر لایا گیا تھا، یہ میکسیکو کے افریقی سفاری سے پانچ سال کی عمر میں چڑیا گھر کے مکینوں میں شامل ہوا تھا تب وہ بچہ تھا۔

    اوساکا کے تینوجو چڑیا گھر نے جین چین نامی دریائی گھوڑے کی صنف کے متعلق اطلاع گزشتہ ہفتے اپنی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ کے ذریعے دی تھی۔

    چڑیا گھر عہدیداران کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی قسم کا شک نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس کو لانے والے ادارے کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق اور درآمد کے ساتھ آنے والی دستاویزات میں بھی اس کو نر قرار دیا گیا تھا اس لیے ہم نے اس پر کبھی شک نہیں کیا۔

    یہ انکشاف کیسے ہوا؟

    چڑیا گھر کے جانوروں رکھوالے نے اے ایف پی کو بتایا کہ 12 سال گزرنے کے باوجود جین چن نے کبھی بھی نر دریائی گھوڑے جیسا سلوک نہیں کیا اور نہ ہی نگراںی کرنے والوں کو اس کی کسی حرکت سے یہ اندازہ ہوسکا۔

    بعد ازاں شک پڑنے پر چڑیا گھر کی انتظامیہ نے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جس کے بعد انکشاف ہوا کہ جین چن دراصل نر نہیں ایک مادہ دریائی گھوڑا ہے۔

    چڑیا گھر انتظامیہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ جین چین کے نر ہونے کی بجائے مادہ ہونے پر اس کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

  • دوسالہ بچہ دریائی گھوڑے کے منہ سے زندہ نکل آیا

    دوسالہ بچہ دریائی گھوڑے کے منہ سے زندہ نکل آیا

    جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق افریقہ میں ایک ایسا واقعی پیش آیا جسے دیکھنے والے حیران رہ گئے، دیوہیکل جانور کے منہ کا نوالہ بننے والا موت کے منہ سے زندہ نکل آیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افریقی ملکی یوگنڈا میں جھیل ایڈورڈ کے کنارے کھیلنے والے سو سالہ بچے پر وہاں موجود دریائی گھوڑے نے حملہ کردیا اور اسے ہڑپ کرنے کیلئے جبڑوں میں جکڑ لیا۔

    دو سالہ بچہ اپنے گھر کے قریب اور جھیل کے کنارے سے تقریباً اس سے 800 گز دور تھا کہ اچانک دریائی گھوڑا تیزی سے جھیل سے باہر آیا اور اپنے جبڑے میں بچے کو دبوچ کر اسے نگلنا شروع کردیا۔

    یہ خوفناک منظر وہاں موجود ایک مقامی شخص نے بھی دیکھا جس نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اس پر پتھر برسانے شروع کردیئے جس سے دریائی گھوڑے گھبرا گیا۔

    دریائی گھوڑے نے 2 سالہ بچے کو نگلنے کے بعد زندہ اگل دیا

    جس کے بعد دریائی گھوڑا جو اس بچے کو آدھا اپنے حلق میں لے جا چکا تھا جھیل میں لے ےجانے کے بجائے بچے کو دوبارہ باہر اگل دیا اور پھر جھیل میں واپس چلا گیا۔

    اس حوالے سے مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی دریائی گھوڑے نے جھیل سے باہر اتنی دور آکر کسی پر حملہ کیا ہو۔

    رپورٹ کے مطابق دریائی گھوڑے کے حملے سے بچہ شدید زخمی ہوگیا تھا تاہم اسے فوری طور پر طبی امداد کے لیے مقامی اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی حالت کو خطرے سے باہر بتایا ہے۔

  • دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    Hippo (ہیپو) کو ہم دریائی گھوڑا کہتے ہیں۔ اس جانور کا پورا نام hippopotamus ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے دریا میں رہنے والا گھوڑا۔ یہ برّاعظم افریقا میں‌ پایا جاتا ہے جہاں دریا، ندی، نالے، تالاب اور جوہڑ اس کا مسکن ہیں۔

    اس جانور کی بڑی تعداد برّاعظم افریقا کے ملک زیمبیا میں (40 ہزار) اور دوسرے نمبر پر تنزانیہ (20 ہزار) رہتی ہے۔ یہ افریقا کے علاوہ کسی اور برّاعظم میں نہیں پائے جاتے۔

    کسی دریائی گھوڑے کا وزن 1500 سے 4500 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ نر کی بہ نسبت مادہ کا وزن چند سو کلو کم ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھاری بھرکم وجود انھیں پانی کے اندر تیز لہروں میں اپنی جگہ جمے رہنے میں‌ مدد دیتا ہے۔ یہ تیرتے نہیں ہیں بلکہ پانی میں اچھل کود کرتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں۔ وزنی اور بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ انسان سے تیز دوڑ سکتے ہیں۔

    قدرت نے ان کا جسم پانی میں رہنے کے لیے خاص طرح ڈیزائن کیا ہے۔ یہ پانی سے باہر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے، ان کی کھال خشک ہو کر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے جسم سے سرخ رنگ کا مادّہ نکلتا ہے۔ یہ ان میں قدرتی طور پر پایا جانے والا Sun Screen Lotion ہے جو انھیں دھوپ سے بچاتا ہے اور جراثیم کُش کے طور پر کام کرتا ہے۔

    اگر آپ غور کریں تو اس کی ناک، آنکھیں اور کان ایک سیدھ میں نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیپو پانی میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنا پورا منہ بھی باہر کم ہی نکالتا ہے اور صرف سَر کا اوپری حصّہ باہر رکھتا ہے اس کا باقی دھڑ پانی کے اندر ہوتا ہے اور یوں اس کی جلد دھوپ وغیرہ سے بچی رہتی ہے۔ پانی کے اندر یہ اپنے ناک کے نتھنے اور کان بند کر لیتا ہے۔ اس کی آنکھ میں اضافی حفاظتی جھلّی ہوتی ہے جو اسے پانی میں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

    ہیپو کے منہ میں 38 سے 44 دانت ہوتے ہیں۔ اس کے دانتوں کی بناوٹ بھی خاص ہوتی ہے جیساکہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے والے سیدھے دانت کسی بھی چیز کو توڑنے میں‌ مددگار ہیں جب کہ جبڑوں کے کناروں پر سینگ جیسے دوسرے لمبے دانت (Canine) چیر پھاڑ کرنے کے کام آتے ہیں۔ منہ کی پچھلی جانب ڈاڑھیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہونٹوں سے گھاس توڑتے ہیں اور اسے ڈاڑھوں سے پیستے ہیں۔

    افریقا کے گرم ممالک کا یہ جانور سارا دن پانی میں گزارتا ہے اور رات کے وقت گھاس چرنے کے لیے باہر نکلتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ریٹینا کے پیچھے ایک Tapetum Lucidum نامی ایک تہ ہوتی ہے جس کی مدد سے یہ رات کے وقت بھی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے کتّے، بلّی وغیرہ کی آنکھوں کو رات میں چمکتے ہوئے دیکھا ہو گا، یہ اسی تہ کی وجہ سے ہے۔

    ہیپو خطرناک اور انتہائی غصیلا جانور ہے۔ افریقا کے جنگلات میں شیر، تیندوے، چیتے بھی ہیں، ہاتھی گینڈے اور مگرمچھ جیسی مخلوق بھی، لیکن افریقا میں سب سے زیادہ انسانی جانیں اسی جانور کے حملے میں‌ ضایع ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقا میں پانچ سو سے زائد انسان ہیپو کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جو مچھر اور سانپ کو چھوڑ کر کسی بھی ایسے جانور کے حملے میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ تعداد ہے۔ افریقا میں لوگ دریائوں ندیوں پر مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں اور یہیں یہ جانور ان کو اپنا شکار کرلیتا ہے۔

    ہیپو سات منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ یہ اکثر خطرہ محسوس کرنے پر کشتیوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے جانور بھی ان سے دور ہی رہتے ہیں، کیوں‌ کہ یہ کسی بھی وقت کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور زیادہ تر اکٹّھے رہتے ہیں۔ ان کے دانت دو فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنا بڑا سا جبڑا کھول کر یکبارگی میں زندگی سے محروم کرسکتے ہیں۔ ان کے جبڑے میں اتنی طاقت ہوتی ہے جو دس فٹ کے کسی مگر مچھ کو دو لخت کرنے کے لیے کافی ہے۔

    یہ آپس میں‌ بھی بھڑ جاتے ہیں‌ اور خاص طور پر افزائشِ نسل کے لیے مادہ ہیپو کو رجھانے اور ملاپ کے لیے ان میں زبردست لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مشہور ہے کہ نر ہیپو اکثر نومولود ہیپو کو مار ڈالتا ہے۔ مادہ ہیپو دو سال میں ایک بچہ پیدا کرتی ہے۔

    قدرت کے کارخانے میں‌ کوئی چیز نکّمی اور ناکارہ نہیں‌ بلکہ ہر جانور کوئی نہ کوئی ایسا کام یا افعال انجام دیتا ہے جن سے دوسری مخلوق بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ دریائی گھوڑا بھی ایک ایسی ہی مخلوق ہے جو قدرت کے اس نظام کا توازن برقرار رکھنے میں‌ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دریائوں میں حرکت کرتے ہوئے یہ جانور اپنے بھاری پیروں سے لمبی نالیاں یا ایسے راستے بناتا چلا جاتا ہے جس سے گزر کر پانی قریبی زمین کو سیراب کرنے لگتا ہے اور وہاں طرح طرح کا سبزہ اور گھاس اگتی ہے۔ اس طرح دوسرے جانوروں اور پرندوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے۔

    دریائی گھوڑے کا دوسرا اہم کام نباتات کو پھلنے پھولنے میں‌ مدد دینا ہے اور زرخیزی پھیلانا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ جانور روزانہ تقریباً پچاس کلو گھاس کھاتے ہیں اور بڑی مقدار میں گوبر مختلف پودوں، جھاڑیوں اور پانی میں پھینکتے ہیں۔ وہ یہ عمل اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے فصل پر اسپرے کیا جاتا ہے اور یوں نباتات کی افزائش اور نشوونما ہوتی ہے۔

    دریائی گھوڑے کا سامنا ہونے پر آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک طرف کھڑا ہوکر آپ کو اپنا قد کاٹھ دکھا کر ڈرانے کی کوشش کرے گا، اگر آپ اس سے دور نہ ہوئے تو اپنا منہ پورا کھول دے گا جو ایک سخت تنبیہ ہے کہ مجھ سے دور ہوجائو اور زیادہ خطرہ محسوس کرنے پر اگلے لمحے حملہ آور بھی ہوسکتا ہے۔

    یاد رکھیں یہ انسان سے تیز تقریباً 45 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پانی میں ہیں تو مخالف سمت بھاگیں، کیوں کہ عام طور پر دریائی گھوڑا پانی میں اپنے ٹھکانوں سے 5 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں‌ جاتا اور اگر خشکی پر اس جانور سے سامنا ہوگیا ہے تو جھاڑیوں، پتھروں کے پیچھے چھپتے ہوئے زگ زیگ بھاگیں اور اس سے فاصلہ بڑھاتے چلے جائیں۔

    اس جانور کی اوسط عمر 50 برس ہوسکتی ہے۔

  • شکاری شیرنی کو لینے کے دینے پڑ گئے

    شکاری شیرنی کو لینے کے دینے پڑ گئے

    آپ نے یہ کہاوت یقیناً سنی ہوگی کہ اتنا ہی کھانا چاہیئے جتنا ہضم کیا جاسکے، اس کہاوت پر عمل کرنا یقیناً کسی بھی انسان کو بہت سی پریشانیوں اور شرمندگی سے بچا سکتا ہے۔

    تاہم یہ شیرنی اس محاورے سے ناواقف نظر آتی ہے تب ہی یہ اپنے سے دوگنے دریائی گھوڑے پر حملہ کر بیٹھی۔

    گوکہ شیر کا مختلف جانوروں پر حملہ کر کے انہیں شکار کرلینا عام بات ہے مگر یہ دریائی گھوڑ نہایت چالاک معلوم ہوتا ہے، تب ہی شیرنی کے حملے سے قبل ہی وہ اچانک پلٹا اور اس نے شیرنی پر حملہ کردیا۔

    ہپو نے شیرنی کی گردن پکڑ لی مگر شیرنی نے بھرپور دفاع کر کے اس کے حملے کو ناکام بنایا اور اس کے بعد اپنی زندگی بچا کر بھاگ گئی۔

    دریائی گھوڑے پر اس ناکام حملے کے بعد یقیناً یہ شیرنی آئندہ دیکھ بھال کر شکار کرے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بہادر دریائی گھوڑوں نے مگر مچھ کے منہ سے اس کا نوالہ چھین لیا

    بہادر دریائی گھوڑوں نے مگر مچھ کے منہ سے اس کا نوالہ چھین لیا

    گو کہ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، لیکن جانور، جانور ہونے کے باوجود محبت، ’انسانیت‘ اور ہمدردی کی ایسی مثالیں قائم کر جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    حال ہی میں یوٹیوب پر اپ لوڈ کی جانے والی ایک ویڈیو نے سب کی توجہ حاصل کرلی جس میں 2 دریائی گھوڑے نہایت بہادرانہ انداز میں ایک جانور کو مگر مچھ کے خطرناک جبڑوں سے چھڑا رہے ہیں۔

    افریقہ میں پایا جانے والا بکری اور بھیڑ کی نسل کا ایک جانور وائلڈ بیسٹ اس وقت مگر مچھ کے شکنجے میں آگیا جب وہ دریا سے پانی پی رہا تھا۔ مگر مچھ نے مضبوطی سے اس کی ٹانگ اپنے خوفناک جبڑوں میں جکڑ لی۔

    گو کہ وہاں زیبروں اور وائلڈ بیسٹس کا اچھا خاصا جھنڈ موجود تھا مگر انہوں نے اس جھگڑے میں اپنی ٹانگ پھنسانے سے گریز کیا اور آرام سے گھاس چرتے رہے۔

    بے بس جانور کئی منٹوں تک پوری قوت سے مگر مچھ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا، اور قریب تھا کہ وہ ناکام ہوجاتا، کہ اچانک کہیں سے 2 دریائی گھوڑے نمودار ہوئے۔

    انہوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً اس جانور کی مدد کے لیے دوڑے۔ ایک دریائی گھوڑے نے مگر مچھ کے اوپر چھلانگ لگائی جس سے بالآخر اس نے وائلڈ بیسٹ کی ٹانگ چھوڑ دی۔

    دو جثیم دریائی گھوڑوں کو اپنے مدمقابل دیکھ کر مگر مچھ نے بھی واپس پانی میں جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور سطح آب سے غائب ہوگیا۔

    بے چارہ وائلڈ بیسٹ پانی سے دور جا کر لیٹ گیا اور گہرے سانس لینے لگا جبکہ دریائی گھوڑے بھی خوشی سے اسے دیکھنے لگے۔

    یوٹیوب پر اس انوکھی ویڈیو کو اب تک 20 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔