Tag: دریائے سندھ

  • دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب، چیف انجینئرز کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت

    دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب، چیف انجینئرز کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت

    بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے، آج سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلابی ریلہ گزرے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ آبپاشی سندھ کا کہنا ہے کہ گڈو بیراج پر گزشتہ روز4 لاکھ کیوسک سے زائد پانی داخل ہوا ہے جب کہ آج سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلابی ریلہ گزرے گا۔

    محکمہ آبپاشی سندھ نے بتایا کہ محکمہ آبپاشی سندھ نے پانچوں چیف انجینئرز کو مراسلہ ارسال کر دیا ہے کہ اونچے درجے کے سیلاب کی آمد کے بعد ہنگامی اقدامات کریں۔

    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے بندوں کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کریں، خصوصی اقدامات کرتے ہوئے گشت میں اضافہ کیا جائے، مشینری اور آلات تیار رکھے جائیں۔

    مراسلے کے متن کے مطابق رات کی تاریکی میں اہم مقامات پر روشنی کا انتظام کیا جائے، دریائے سندھ کے بندوں پر جا کر عارضی دفتر بنائیں، کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی،

    دریائے سندھ میں درمیانے درجے کے سیلاب سے مزید 20 دیہات زیر آب آگئے ہیں جب کہ قادر پور کے کچے میں گاؤں جان محمد واسو سمیت کئی دیہاتوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

    گاؤں گھنور چاچڑ اور نور لکھن کے مقام پر لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے، متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد پھنسے ہوئے ہیں، پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے تاحال اقدامات شروع ہی نہ ہوسکے۔

  • دریائے سندھ پر بننے والے گھوٹکی، کندھ کوٹ پل کی سیکیورٹی ایف سی کے حوالے

    دریائے سندھ پر بننے والے گھوٹکی، کندھ کوٹ پل کی سیکیورٹی ایف سی کے حوالے

    کراچی: دریائے سندھ پر بننے والے گھوٹکی، کندھ کوٹ پل کی سیکیورٹی ایف سی کے حوالے کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری محکمہ داخلہ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں گھوٹکی کندھ کوٹ پل کی سیکیورٹی فرنٹیئر کانسٹیبلری کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ گھوٹکی، کندھ کوٹ پل کی لمبائی 12 کلو میٹر ہے، اور ابھی 8 کلومیٹر کی تعمیر باقی ہے، کچے کی صورت حال کے پیش نظر پولیس اور رینجرز کے ساتھ ایف سی کی تعیناتی بھی ناگزیر ہے۔

    بتایا گیا کہ پل پر کام کرنے والے 3 مزدوروں کو ڈاکوؤں نے اغوا کر لیا تھا، جس پر پراجیکٹ ڈائریکٹر نے سیکیورٹی کے بغیر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا، اجلاس میں پل کی سیکیورٹی کے لیے ایف سی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔

  • دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ

    دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ

    ملک کے بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور بھارت کی جانب سے پنجاب کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    ملک کے بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور بھارت کی جانب سے پنجاب کے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے محکمہ آبپاشی کی جانب سے دریائے  سندھ میں پانی کی آمد و اخراج کے اعداد شمار جاری کردیئے گئے۔

    سکھر بیراج کے کنٹرول روم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق آج  تربیلا ڈیم میں پانی  کی لیول 1514.77 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔

    تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 1 لاکھ 76 ہزار 700 کیوسک اور اخراج 1 لاکھ 80 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا  کابل ندی میں پانی کی بہاؤ 45 ہزار 700 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    کالاباغ بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 23 ہزار 225 کیوسک اور اخراج 2 لاکھ 15 ہزار 225 کیوسک ریکارڈ کیا گیا چشما بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 28 ہزار 519 کیوسک اور اخراج 2لاکھ 10 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

     تونسا بیراج پر پانی کی آمد 1 لاکھ 84 ہزار 469 کیوسک اور اخراج 1 لاکھ 66 ہزار 469 کیوسک ریکارڈ کیا گیا منگلا ڈیم کی سطح 1205.65 فٹ ریکارڈ کی گئی۔

    اعداد و شمار کے مطابق منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 51 ہزار 272 کیوسک اور اخراج 10  ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تریموہ کے مقام پر پانی کی آمد 34 ہزار 402 کیوسک اور اخراج 21002 کیوسک ریکارڈ کیا گیا پنجند کے مقام پر پانی کی آمد 55193 کیوسک اور اخراج 39953 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق  گڈو بیراج پر پانی کی آمد 1 لاکھ 79 ہزار 22  کیوسک اور اخراج 1 لکھا 39ہزار 98 کیوسک ریکارڈ کیا گیا سکھر بیراج پر پانی کی آمد 1 لاکھ 33 ہزار 4 کیوسک اور اخراج 77 ہزار 304 کیوسک ریکارڈ کیا گیا کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 76 ہزار 158 کیوسک اور 33 ہزار 843 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

  • دریائے سندھ سے سونا نکالے جانے کا انکشاف

    دریائے سندھ سے سونا نکالے جانے کا انکشاف

    اسلام آباد : چیئرمین نورعالم خان کی زیرصدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں دریائے سندھ سے غیر قانونی طور پر سونا نکالے جانے کا انکشاف سامنے آیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین نورعالم خان کی زیرصدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں نورعالم خان نے انکشاف کیا کہ پنجاب اور کے پی کے درمیان اٹک کے مقام پر دریا سے سونا نکالا جا رہا ہے۔

    پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پنجاب اور کے پی حکومت کو سونا نکالنے والوں کو روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بلامعاوضہ یابغیر لیز سونا نکالنے کی اجازت نہ دی جائے۔

    نور عالم خان کا کہنا تھا کہ اٹک کی مقامی انتظامیہ سے کہوں گا غیر قانونی سرگرمیوں کو روکیں، دریا سے مشینوں کے ذریعے سونا نکالا جارہاہے، لیز پر سونا نکالنے کی اجازت سے یہ رقم قومی خزانے میں آئے گی۔

    خیال رہےسال 2019 میں سوشل میڈیا پر وادی حسن گلگت بلتستان کے ایک شہری کی ویڈیو وائرل ہوئی جو روزانہ کی بنیاد پر بہتے دریا سے سونا جمع کرتا تھا۔

  • دریائے سندھ سے 2 لاشیں برآمد، ایمبولینس نہ ملنے پر مال گاڑی میں اسپتال منتقل

    دریائے سندھ سے 2 لاشیں برآمد، ایمبولینس نہ ملنے پر مال گاڑی میں اسپتال منتقل

    سکھر: صوبہ سندھ کے شہر مورو میں دریائے سندھ سے دو لاشیں برآمد ہوئی ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ ایمبولینس نہ ملنے پر لاشوں کو مال گاڑی میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ مورو کے قریب دریائے سندھ سے 2 افراد کی لاشیں ملی ہیں، لاشوں کی شناخت شریف چانڈیو اور اکرم کھوسو کے نام سے ہوئی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ایمبولینس نہ ملنے پر لاشوں کو مال گاڑی میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں افراد کوریجہ برادری کے کسان بتائے جارہے ہیں، کوریجہ برادری کے 2 گروپوں میں زمینی تنازعے پر پہلے بھی ایک شخص قتل ہو چکا ہے۔

  • دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا

    دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا

    اسلام آباد: داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سائٹ پر دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی سائٹ پر دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا، جس کے بعد عارضی ڈیم پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں۔

    ترجمان واپڈا کے مطابق عارضی ڈیم مکمل ہونے پر داسو پراجیکٹ کے مین ڈیم کی تعمیر شروع ہو جائے گی، پراجیکٹ کی زیر تعمیر دوسری ڈائیورشن ٹنل بھی اپریل کے وسط تک مکمل ہو جائے گی۔

    ترجمان واپڈا کا کہنا ہے کہ ہائی فلو سیزن کے دوران دریائے سندھ کا پانی دونوں ڈائیورشن ٹنل سے گزرے گا۔

    ترجمان نے کہا 4 ہزار 320 میگا واٹ کا داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دو مراحل میں مکمل کیا جا رہا ہے، منصوبے کے پہلے مرحلے سے بجلی کی پیداوار 2026 میں شیڈول ہے۔

  • دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کو ہلاک کرنے پہ 5 سال قید کی سزا

    کراچی: صوبہ سندھ کے شہر سکھر کی مقامی عدالت نے دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کو ہلاک کرنے والے ملزم کو، 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر کی سیشن عدالت میں محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے دائر کردہ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    سنہ 2021 میں منور میرانی نامی شخص کے جال میں نایاب بلائنڈ ڈولفن پھنس کر مر گئی تھی جس کے بعد وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزم منور میرانی کو قید اور جرمانے کی سزا سنا دی، ملزم کو بلائنڈ ڈولفن مارنے کے جرم میں 5 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔ یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

    راستہ بھولنے اور دیگر خطرات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی کے باعث عالمی ادارہ تحفظ فطرت (آئی یو سی این) نے اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا ہے۔

    ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں کیمیائی مادوں اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، ڈولفن کا مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، میٹھے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہونا اور گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے ڈولفن کا شکار اس کی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    کراچی: دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان ہو گئی ہے، سیلابی پانی کی وجہ سے مختلف اقسام کی مچھلیوں کی آمد نے ان کے روزگار کو بحال کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں ٹھٹھہ، سجاول، ٹنڈو حافظ شاہ، کیٹی بندر کے ماہی گیروں کے روزگار میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    دریائے سندھ کے سیلابی پانی کے ساتھ مخلتف اقسام کی مچھلیوں کی آمد سے ماہی گیروں کے لیے مچھلی کا شکار وافر مقدار میں دستیاب ہو گیا ہے۔

    گزشتہ ایک دہائی سے دریائے سندھ کا پانی سمندر سے کافی پیچھے رہ جانے، اور سمندر کا پانی اوپر آنے سے ماہر گیر بے روزگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    3 ہزار کلو میٹر سے زائد سفر طے کر کے سیلابی ریلا سمندر میں شامل ہونا شروع

    ذرائع محکمہ فشریز کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ملنے سے کیٹی بندر اور اطراف کی ساحلی پٹی، کریکس اور کھاڑیوں میں جھینگے اور مچھلی افزائش میں اضافہ ہوگا۔

  • دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے کا امکان، اضافی نفری تعینات

    دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے کا امکان، اضافی نفری تعینات

    لاہور : دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے کے پیش نظر نشیبی علاقوں میں اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے کا امکان ہے ، سیلابی ریلے کے پیش نظر آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کی ہدایت پرنشیبی علاقوں میں اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔

    ایڈیشنل آئی جی ساؤتھ پنجاب کی جانب سے سیلابی صورتحال اور امدادی کارروائیوں کی مسلسل مانیٹرنگ جاری ہے۔

    آر پی او ڈی جی خان کی ہدایات پر دریائے سندھ سے ملحقہ علاقوں میں پولیس ٹیمیں متحرک ہیں اور پولیس کے جوان سیلاب زدہ علاقوں میں دن رات متاثرین کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔

    پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی جی خان ریجن میں 1731 جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ، ڈی جی خان ریجن میں 14 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

    ترجمان کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں سے6 ہزار سے زائد مویشیوں کو ریسکیو کیا گیا اور سیلاب زدگان میں 17 ہزار سے زائد امدادی سامان کے پیکٹ تقسیم کیے گئے۔

    ڈی جی خان ریجن میں پولیس کی جانب سے 27 امدادی کیمپ بھی قائم کئے گئے ہیں۔