Tag: دریائے سندھ

  • دریائے سندھ سے آج 7 لاکھ کیوسک کا ریلا گزرنے کی وارننگ

    دریائے سندھ سے آج 7 لاکھ کیوسک کا ریلا گزرنے کی وارننگ

    تونسہ شریف: دریائے سندھ سے آج 7 لاکھ کیوسک کا ریلا گزرنے کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے وارننگ جاری کی ہے کہ آج 7 لاکھ کیوسک کا ریلا دریائے سندھ سے گزرے گا۔

    دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب سے دیہی علاقے زیر آب آ سکتے ہیں، محکمے نے لوگوں کو فوری محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت جاری کی ہے۔

    دریائے سندھ میں کوٹ مٹھن کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، نشیبی علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات جاری ہو گئی، رپورٹ کے مطابق اہل علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت بے نظیر شہید برج روڈ پر منتقل ہو رہے ہیں۔

    سیلاب ملک بھر میں مزید 119 زندگیاں نگل گیا، تعداد 1033 ہو گئی

    ادھر سندھ میں سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، بیراج پر پانی کی آمد 5 لاکھ 62 ہزار 200، اخراج 5 لاکھ 62 ہزار 200 کیوسک ہے۔

    گڈو بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، بیراج پر پانی کی آمد اور اخراج 4 لاکھ 85 ہزار 320 کیوسک ہے، کوٹری بیراج پر بھی درمیانے درجے کا سیلاب ہے، بیراج پر پانی کی آمد اور اخراج 3 لاکھ 34 ہزار 911 کیوسک ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گڈو بیراج میں پانی کی آمد میں آج مزید اضافہ ہوگا، جس سے دریائے سندھ کے اطراف کچے کا علاقہ مکمل متاثر ہو سکتا ہے۔

    دادو، فرید آباد کے قریب ایف پی بند میں 2 مقامات پر شگاف پڑنے سے بلوچستان سے آنے والا سیلابی ریلا 50 سے زائد دیہات میں داخل ہو گیا ہے، جس سے سیکڑوں افراد محصور ہو گئے، پاک فوج نے ریسکیو آپریشن میں 36 سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔

  • دریائے سندھ میں خاتون کی چھلانگ لگا کر خود کشی کی فوٹیج وائرل

    دریائے سندھ میں خاتون کی چھلانگ لگا کر خود کشی کی فوٹیج وائرل

    ڈی جی خان: ڈیرہ غازی خان میں ایک خاتون نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر دریائے سندھ میں ایک خاتون کی چھلانگ لگا کر خود کشی کی فوٹیج وائرل ہوئی ہے، جس میں نامعلوم خاتون کو دریا میں چھلانگ لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    خاتون نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر غازی گھاٹ پل سے دریا میں چھلانگ لگائی، ویڈیو کے مطابق خاتون کچھ دیر تک پل کے کنارے پر بیٹھی رہی اور چھلانگ لگانے کی ہمت جٹاتی رہی۔

    ایک راہگیر نے خاتون کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر دبے پاؤں دوڑ کر اسے پکڑ کر بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گیا۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ راہگیر نے جھپٹا مار کر جب خاتون کو پکڑنے کی کوشش کی تو عین اسی لمحے خاتون نیچے پانی میں کود گئی، اور شہری کے ہاتھ میں اس کا اسکارف ہی آیا۔

    ڈی جی خان کے ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن کیا جا رہا ہے۔

  • دریائے سندھ میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش  کیلئے پاک فوج کے کمانڈوز کا سرچ آپریشن شروع

    دریائے سندھ میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش کیلئے پاک فوج کے کمانڈوز کا سرچ آپریشن شروع

    صادق آباد:دریائے سندھ میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش کیلیے پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوزنے سرچ آپریشن شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماچھکہ کے قریب دریائے سندھ میں کشتی الٹنے کے معاملے پر دریا میں لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے پاک فوج کے کمانڈوز ماچھکہ پہنچ گئے۔

    ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان کا کہنا ہے کہ دریا میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش کیلئے پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوزنے سرچ آپریشن شروع کردیا ہے، گڈو بیراج سے لیکر گھوٹکی تک کے علاقے میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے۔

    انتظامیہ نے بتایا کہ پاک فوج کےاٹھارہ غوطہ خور اور ایس ایس جی کمانڈوز امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ انتالیس غوطہ خوروں سمیت چون اہلکاراور مقامی غوطہ خور شامل ہیں۔

    انتظامیہ کے مطابق ڈوبنےوالے افراد کی تلاش میں مدد کے لیے سندھ حکومت سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

    تیسرے روز ریسکیو آپریشن میں مزید مزید چار لاشیں نکال لی گئیں اور مرنے والوں کی تعداد اٹھائیس ہوگئی اور ڈوبنےوالے اکیس کی تلاش جاری ہے۔

    گذشتہ روز اندھیرے کے باعث دریائے سندھ میں جاری آپریشن روک دیا گیا۔

    یاد رہے دو روز قبل صادق آباد دریائے سندھ میں ماچکھہ کے قریب براتیوں سے بھری کشتی الٹ گئی تھی۔

  • دریائے سندھ کشتی حادثہ، 28 افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن دوبارہ شروع

    دریائے سندھ کشتی حادثہ، 28 افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن دوبارہ شروع

    صادق آباد: دریائے سندھ میں کشتی الٹنے کے حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 21 ہو گئی ہے، جب کہ آج منگل کو 28 افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق دریائے سندھ میں ماچھکہ کے قریب گزشتہ روز کشتی اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے الٹنے کا سانحہ پیش آیا تھا، جس میں 90 افراد دریا پار کرتے ہوئے ڈوب گئے تھے۔

    مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت 45 افراد کو زندہ نکال لیا تھا، جب کہ ریسکیو آپریشن میں 21 لاشیں بھی نکالی گئیں، تاہم رات کو اندھیرے اور خطرناک علاقے کے باعث ریسکیو آپریشن روک دیا گیا تھا، جو آج صبح پھر سے شروع کیا گیا ہے۔

    ریسکیو اہل کار 28 افراد کی تلاش کر رہے ہیں، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، کشتی میں باراتی سوار تھے، ماچھکہ میں دریا کنارے اب بھی سینکڑوں افراد اپنے پیاروں کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاگو ہیں۔

    ادھر لواحقین نے شکوہ کیا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ریلیف آپریشن سستی سے جاری ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ دریا میں پانی کے تیز بہاؤ کے باعث لا پتا افراد کی تلاش میں مشکل پیش آ رہی ہے، لیکن تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دریا میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش کا کام جاری ہے۔

  • ارسا کا کارنامہ، ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم کباڑی لے گیا

    ارسا کا کارنامہ، ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم کباڑی لے گیا

    سکھر: انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم ناکارہ بتا کر کباڑی کے حوالے کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائی پانی کی ناپ جدید طریقے سے کرنے کا سسٹم کباڑی کے حوالے کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ارب سے زائد خرچ کر کے لگایا گیا سسٹم کباڑ میں بیچ دیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق دریائے سندھ پر بیراجز پر جدید ٹیلی میٹری سسٹم لگایا گیا تھا، ارسا نے اس سسٹم کو ناکارہ دکھا کر کباڑی کے حوالے کر دیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کباڑی کو یہ جدید مشینری صرف ساڑھے 4 کروڑ روپے میں بیچی گئی، جس کے بعد اسے کباڑی اتار کر لے گیا۔

    دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کی زندگیوں کو خطرہ لاحق

    تونسہ، پنجند، گڈو، سکھر اور کوٹری بیراجز سے سسٹم کا سامان کباڑی لے گئے۔

    واضح رہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کے اعداد شمار پر ہمیشہ تنازع رہا ہے، اس تنازع کا واحد حل پانی کی مقدار کی ناپ جدید تریقے سے کرنے کی ضرورت ہے، اس سسٹم کو بحال کرنے کی بجائے کباڑ میں بدل دیا گیا۔

  • الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    وادیِ مہران میں قدیم دور سے تہذیب اور ثقافت کا سفر جاری ہے۔ یہاں صدیوں سے زندگی رواں دواں ہے اور وہ دریا بھی آج تک بہہ رہا ہے جسے تاریخ کے صفحات میں‌ ہندو، سندھو، سندھ، اٹک یا نیلاب کے نام سے پکارا گیا ہے۔

    دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں اسی دریا کے دونوں کناروں پر پروان چڑھیں۔ ہم اسے دریائے سندھ کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ صدیوں قبل سکندرِ اعظم اور ابنِ بطوطہ نے بھی اس دریا کی سیر کی تھی، لیکن الیگزینڈر برنس وہ انگریز جاسوس، محقق، تاریخ نویس اور سیّاح تھا جس نے علمی و تحقیقی مقصد کے لیے دریائے سندھ کی سیر کی اور اسے پہلی بار تحریری طور پر محفوظ کیا۔

    الیگزینڈر برنس ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا جسے ہندوستان کی تاریخ میں جاسوس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ کا باسی تھا۔ اس نے 1805ء میں ’مونٹروس‘ شہر میں آنکھ کھولی۔ الیگزینڈر برنس نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانی میں برطانوی کمپنی کی ملازمت اختیار کی اور اسے بمبئی بھیج دیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں ہندی زبان کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔

    وہ ذہین، قابل اور زبانیں‌ سیکھنے کا شوقین تھا۔ اس نے ہندوستان میں جلد فارسی سیکھ لی بلکہ اس پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کام یابی نے برنس کو عدالت میں فارسی سے دستاویز کا مترجم مقرر کروایا۔ کمپنی نے الیگزینڈر برنس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ’ڈپٹی اسسٹنٹ کوارٹر ماسٹر جنرل‘ کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس وقت وہ صرف 21 سال کا تھا۔ اسی زمانے میں‌ اس نے ہندی کے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔

    1831ء میں اس نے کمپنی کی جانب سے دریائے سندھ کے داخلی راستوں کا سروے مکمل کیا تھا۔ برنس نے اس کام کے لیے اس وقت کے تالپور حکم راں اور کمپنی سے دریائے سندھ میں سفر کرنے کی اجازت لی تھی۔ اس سروے کے دوران الیگزینڈر برنس نے بحیثیت تاریخ نویس بھی اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھا اور دریا کے بہاؤ کے بالکل اختتامی علاقوں کے نقشے بھی مرتب کیے۔ وہ اس سفر کو مکمل کر کے 1831ء میں لاہور پہنچا تھا اور بہت خوش تھا، کیوں کہ اس نے سرکاری کام ہی مکمل نہیں‌ کیا تھا بلکہ ایک تاریخی اور سیاحتی مقصد بھی پورا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی سروے رپورٹ جمع کروائی، جس میں سندھ سمیت پورے ہندوستان کی مکمل رپورٹ مع نقشہ جات شامل تھی۔ کہتے ہیں یہ رپورٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض پوری کرنے میں‌ بہت مددگار ثابت ہوئی۔

    اس کے ایک برس بعد وہ 1832ء اسے افغانستان کا مشن سونپا گیا جس میں اسے انتہائی خطرناک علاقوں کا سروے جو حقیقتاً‌ کمپنی کے لیے ”جاسوسی“ تھا، کا کام انجام دینا تھا۔ اسے محتاط اور غیر محسوس طریقے سے اپنا کام انجام دینے کے لیے تیّار کیا گیا تھا، کیوں کہ ان علاقوں میں کمپنی اور انگریزوں کے لیے بہت خطرہ تھا اور وہاں بغاوت کی فضا تھی۔

    الیگزینڈر برنس نے اس کام کے لیے بھیس بدل لیا اور افغان تاجر کا روپ میں روانہ ہوا۔ وہ فارسی اور چند مقامی زبانیں‌ جانتا تھا جس کے بعد اس نے حلیہ ہی نہیں عادات و اطوار بھی افغان شہری جیسی اپنا لیں۔ وہ اس کی مشق کرتا رہا اور اپنے اس سفر میں بنگالی فوج کے ایک سرجن ’سر جیمس جیراڈ‘ کو بھی شریک کرلیا۔ برنس کو اس وقت رنجیت سنگھ کی جانب سے فوجی دستے دیے گئے تھے جن کے ساتھ وہ پشاور، جلال آباد اور کابل سے ہوتے ہوئے، لکھنؤ اور بخارا تک جا پہنچا اور کام یابی سے اپنا کام انجام دیتے ہوئے بمبئی لوٹ آیا۔ اس پورے سفر کی سروے رپورٹ اور تمام تحقیقی کام ”دی نیویگیشن آف دی انڈس اینڈ جرنی بائی بلخ اینڈ بخارا“ کے نام سے کمپنی نے شایع کروایا اور اس کے فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تراجم بھی کرائے گئے۔

    برنس کے اس کام کی انگلستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی۔ اسے ہندوستان میں اہم فوجی ذمہ داریاں نبھانے کو دی گئیں اور اس نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔ لیکن اب وہ ایک جاسوس مشہور ہو چکا تھا اور افغانستان کے باغی گروہ موقع کی تلاش میں تھے جب اس سے بدلہ چکا سکیں۔ وہ کابل میں‌ رہائش پذیر تھا جہاں اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

    2 نومبر 1841ء کو باغی افغانوں نے کابل میں اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، اور الیگزینڈر برنس، اس کے اہلِ خانہ اور دیگر انگریز افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ برنس کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ یوں افغانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں‌ سے بدلہ لے لیا۔

    الیگزینڈر برنس کو اس وقت کے ہندوستان اور پورے خطّے میں انگریزوں کا جاسوس ہی لکھا اور کہا جاتا ہے، لیکن وہ پہلا تاریخ نویس ہے جس نے دریائے سندھ کی سیر کو تحریری شکل میں محفوظ کیا اور اس سے متعلق معلومات و حقائق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

  • کافر کوٹ کے کھنڈر

    کافر کوٹ کے کھنڈر

    دریائے سندھ کا بیش تر حصّہ پہاڑوں کے دامن میں ہے۔ ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دریائے سندھ کے کنارے قدیمی قلعے، عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 93 میل شمال کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر جو کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہے، واقع ہیں۔

    یہاں سے چند میل کے فاصلے پر دریائے کرم اور سندھ آپس میں ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافر کوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا۔ جس پہاڑ پر یہ کھنڈر ہیں، اس کے مشرق کی جانب آبی گزرگاہ ہے۔ آج کافر کوٹ کے تباہ شدہ کھنڈر کو نوکیلے تراشیدہ پتھروں اور خار دار جھاڑیوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

    پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثارِ قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔

    ان مندروں کی تعداد سات کے لگ بھگ ہے۔ خوب صورت تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیے گئے یہ مندر ماضی میں بہت شان دار تھے جو عظمتِ رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ قدیمی دور کے یہ محل اور مندر راجہ بل نے تعمیر کروائے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک قلعہ ’نند‘ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔

    سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملہ میں راجہ نند پال کو شکست دی تھی۔ قیاس یہی ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ کافر کوٹ کے قلعہ کے اندر پانی کا تالاب بھی تھا۔ بارش کا پانی تالاب میں اکٹھا ہو جاتا تھا۔ تالاب کے گرد و نواح پوجا پاٹ کے لیے مندر بھی تھے۔

    محلّات اور فصیل کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بڑا مندر بائیں ہاتھ پر ہے، درمیان میں راستہ ہے جو بڑی عمارت کا حصّہ ہیں۔ جیل خانے کے آثار بھی ہیں۔ کافر کوٹ کے کھنڈرات کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں جب کہ مشرق کی طرف آبی گزرگاہ ہے۔

    ماضی میں قلعے یا حکم رانوں کے محل پہاڑوں پر تعمیر کیے جاتے تھے تاکہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں۔ کافر کوٹ کے مندروں کی چہار اطراف ماہر کاری گروں نے خوب صورت ڈیزائن بنائے ہیں۔ مورتیوں اور روشنی کے لیے طاقچے بھی بنائے گئے ہیں۔

    پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔ چار بڑے، تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کنجور کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں۔ موسم یا بارش کا اثر ان پتھروں پر نہیں ہوتا۔

    یہ مندر مخروطی شکل کے ہیں۔ ان کی بیرونی سطح کچھ زیادہ مزیّن ہے۔ یہ آرائش بہت پیچیدہ اور باریک ہے جس پر سورج مکھی کے پھول بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا ہے۔

    کافر کوٹ شہر کے اردگرد پتھر کی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو راجہ بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا۔ اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے۔

    (ایم زمان کھوکھر ایڈووکیٹ کے قلم سے)

  • مسلسل بارشوں سے دریائے سندھ بپھر گیا، اونچے درجے کا سیلاب ،سیکڑوں گھر زیر آب

    مسلسل بارشوں سے دریائے سندھ بپھر گیا، اونچے درجے کا سیلاب ،سیکڑوں گھر زیر آب

    سکھر : مسلسل بارشوں سے دریائے سندھ بپھر گیا، اونچے درجے کے سیلاب کے باعث سیکڑوں گھر زیر آب آگئے جبکہ درجنوں دیہات اور فصلیں ڈوب گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بارشوں کے بعد سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہے ، دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث کچے کے علاقے مکمل ڈوب گئے۔

    روہڑی اورپنوعاقل کے درمیان چالیس سے زائد گوٹھ زیرآب آنے سے ان کا زمینی رابطہ منقطع ہے اور لکھن گوٹھ، جاگیرانی گوٹھ،مبین شیخ، عزیز جتوئی اور دیگرگوٹھوں کے رہنے والے بے گھر ہوگئے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو نہ کرنے پر متاثرین پھنس گئے ہیں۔

    دادو مورو پل کے مقام پر دریائے سندھ کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، منہ زور ریلا کچے کے علاقے میں داخل ہوگیا، جس کے باعث گل محمد کوریجو،چھٹومستوئی،نبن جتوئی سمیت پچیس دیہات اورتیارفصلیں پانی کی نذرہوگئیں۔

    گدو بیراج پرپانی کا بہاؤ ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک ریکارڈکیاگیا، محکمہ انہارکے مطابق پنجاب سے پانی کا بڑا ریلہ گدو بیراج کی جانب بڑھ رہا ہے، آئندہ چوبیس گھنٹے میں گدو بیراج پراونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے۔

    متاثرین سیلاب کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نےلوگوں کو باہر نکالنے کا کوئی انتظام نہیں کیا, ہماری فصلیں گھروں کاسامان اور مکان ڈوب گئے ہیں۔

    دوسری جانب دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، گڈو بیراج پر اونچے جبکہ سکھر بیراج پر درمیانے درجے کاسیلاب ہے۔

    فلڈ کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ 12 گھنٹےمیں گڈو بیراج پر 33 ہزار کیوسک اور سکھر بیراج پر 13 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا جبکہ گڈو بیراج پر پانی کی آمد548104 ، اخراج 520086 کیوسک اور سکھربیراج پرپانی کی آمد440208، اخراج 401888 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

  • دریائے سندھ میں شدید سیلاب کا خدشہ،  الرٹ جاری

    دریائے سندھ میں شدید سیلاب کا خدشہ، الرٹ جاری

    سکھر: فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے دریائے سندھ میں شدید سیلاب کا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا سیلاب سے کچے کے علاقے مکمل طور پر زیر آب آسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے دریائے سندھ میں شدید سیلاب کا خدشے کے پیش نظر الرٹ جاری کردیا، فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کا کہنا ہے کہ گدو کے مقام پر کل اور سکھر بیراج کے مقام پر بدھ کو انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے، جس سے کچے کے علاقے مکمل طور پر زیر آب آسکتے ہیں۔

    فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے کچے کے علاقے کے عوام کی جان ومال کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت جاری کی ہے اور کہا گدو بیراج کے مقام پر دریائے سندھ پر پانی کا بہاؤ پانچ لاکھ کیوسک ہے اور پانی کی آمد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق سکھر بیراج پر پانی کی آمد چار لاکھ بیس ہزار کیوسک ہے اس وقت درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور پانی کا بہاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

    تونسہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ چار لاکھ چھپن ہزار کیوسک ہو گیا، تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ ایک لاکھ اسی ہزار کیوسک ہے جبکہ منگلا ڈیم کے مقام پر پانی کا بہاؤ پچھہتر ہزار کیوسک اور ہیڈ مرالہ پر دریائے چناب اور نوشہرہ پردریائے کابل میں پانی کابہاؤمعمول کے مطابق ہے۔

    دوسری جانب محکمہ موسمیات اورآبپاشی کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئیں ، گڈوبیراج پر کل کے بجائے آج ہی اونچےدرجے کا سیلاب آگیا، پیش گوئی کی گئی تھی کے8ستمبرکواونچےدرجےکاسیلاب ہوگا۔

    گڈوبیراج پر پانی کی آمد5لاکھ523کیوسک،اخراج4لاکھ77ہزار5 کیوسک ریکارڈ کی گئی جبکہ سکھربیراج پرپانی کی آمد4 لاکھ 20ہزار 125کیوسک اور اخراج3لاکھ86ہزار630 کیوسک ہے۔

  • دیامیر بھاشا ڈیم، وزیر اعظم کا اہم فیصلہ

    دیامیر بھاشا ڈیم، وزیر اعظم کا اہم فیصلہ

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے پن بجلی کے منصوبے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا جائزہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذخائر آب کی تعمیر کے ذریعے پانی اور توانائی میں خود کفالت کی جانب پیش قدمی کے سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان آج دیامیر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی مقام کا دورہ کریں گے۔

    وزیر اعظم دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیراتی کام کی رفتار اور اس کے معیار کا جائزہ لیں گے، آبی ذخائر کی ترقی سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمولیت وزیر اعظم کا ویژن ہے، وزیر اعظم کا خواب ہے کہ پاکستان خود 50 ہزار میگا واٹ تک بجلی پیدا کرے۔

    دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم دنیا کا سب سے بڑا آر سی سی ہوگا، دیامیر بھاشا ڈیم 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے کام آئے گا، ڈیم میں ذخیرہ پانی میں سے 64 لاکھ ایکڑ استعمال میں لایا جا سکے گا۔

    دیامربھاشا ڈیم کی ری سیٹلمنٹ کیلئے 30ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں،اسدعمر

    ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کے پانی ذخیرہ کی صلاحیت 30 سے بڑھ کر 48 دن ہو جائے گی، اس ڈیم سے سالانہ 18 ارب 10 کروڑ یونٹس سستی ترین بجلی بھی میسر آئے گی، دیامیر بھاشا ڈیم 30 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے کے لیے پانی فراہم کرے گا۔

    ڈیم مجموعی طور پر 4500 میگا واٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا حامل ہے، ڈیم سے بجلی پیدا کر کے تیل کی مد میں سالانہ 2.48 ارب ڈالرز کی بچت ہوگی۔