Tag: دریائے سندھ

  • ٹھٹھہ، دریائے سندھ میں ڈوب کر 7 بچے جاں بحق

    ٹھٹھہ، دریائے سندھ میں ڈوب کر 7 بچے جاں بحق

    ٹھٹھہ: سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے علاقے جھرک کے قریب دریائے سندھ میں ڈوب کر 7 بچے جاں بحق ہوگئے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ٹھٹھہ کے علاقے جھرک کے قریب دیائے سندھ میں 7 بچے ڈوب کر جاں بحق ہوگئے، پولیس کا کہنا ہے کہ گاؤں دائم کے رہائشی بچے دریائے سندھ میں نہا رہے تھے۔

    پولیس کے مطابق جاں بحق بچوں کی عمریں 5 سے 9 سال کے درمیان ہیں، بچوں کی لاشیں رورل ہیلتھ سینٹر جھرک منتقل کردی گئی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والوں بچوں میں کونج، عامر، بینظیر، رفیق، بشیرا اور دیگر شامل ہیں، مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کی لاشیں دریا سے نکالیں۔

    مزید پڑھیں: ٹھٹھہ، 3 خواتین اور 2 بچے دریائے سندھ میں ڈوب کر جاں بحق

    وزیراعلیٰ سندھ بچوں کے دریا میں ڈوبنے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر حیدر آباد سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سید مراد علی شاہ نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ کس کی غفلت تھی؟ اس بارے میں جلد مطلع کیا جائے۔

    وزراعلیٰ سندھ نے ہدایات دی ہیں کہ بچوں کے والدین کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا جائے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں گھوڑا باری کے ساحلی گاؤں حاجی اسماعیل جت کے رہائشی تین خواتین سمیت 2 بچے دریائے سندھ میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ رواں سال فروری میں بلوچستان کے ضلع بولان میں ندی میں نہاتے ہوئے دو سگے بھائی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے، ڈوبنے والے افراد کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔

  • "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    سندھ کے مختلف شہروں کے اضلاع اور تعلقہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حد بندیاں ہوتی رہی ہیں اور ان علاقوں کی انتظامی لحاظ سے حیثیت بدلتی رہی ہے- کبھی کسی علاقے کو آبادی اور وسائل کی وجہ سے ضلع کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی قصبہ ضلعی ہیڈ کوارٹر اور کبھی سب ڈویژن اور تعلقہ بن جاتا ہے-

    الغرض سیاسی اور انتظامی امور چلانے کے لیے علاقوں کی حدود اور حیثیت تبدیل کی جاتی رہتی ہے، لیکن یہ تقسیم کبھی شہروں اور قدیم علاقوں کے نام اور ان کی شناخت پر اثر انداز نہیں ہوتی- اس تمہید کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ میر پور خاص سندھ کا وہ شہر ہے جو پھلوں کے بادشاہ آم کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور "ڈگری” اسی میر پور خاص کا ایک چھوٹا شہر ہے-

    کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے اس ہزاروں نفوس پر مشتمل شہر کا یہ نام کیسے پڑا؟

    ڈگری اس شہر کی رہائشی ایک غریب اور بہادر خاتون کے نام سے منسوب علاقہ ہے-

    سندھی زبان میں ڈگھو اور ڈگھی کسی طویل القامت انسان کے لیے بولا جاتا ہے-

    ڈگری کا علاقہ ایک ایسی خاتون کے نام سے مشہور ہوا جو طویل القامت تھیں- انھیں مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کے نام سے پکارتے اور جانتے تھے-

    مذکورہ خاتون اس زمانے میں سندھ کے حکم راں سرفراز کلہوڑو سے منسوب "سرفراز واہ” کے گھاٹ پر کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    دریا میں کشتی چلانے والے اور ماہی گیروں یا مسافروں کو آمدورفت کی سہولت دینے والوں کو میر بحر بھی کہا جاتا ہے- مائی ڈگھی بھی میر بحر برادری سے تعلق رکھتی تھیں-

    اس زمانے میں اس علاقے کے سارے ہی لوگ مائی ڈگھی کو جانتے تھے- آبادی بہت کم تھی اور اکثر کشتی میں سفر کے دوران مقامی لوگوں کا مائی ڈگھی سے واسطہ پڑ ہی جاتا تھا-

    مائی ڈگھی نے اس زمانے میں ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے گروہ کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا- ڈاکوؤں کے خلاف کوشش اور دلیری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں خوب شہرت ملی اور اس علاقے کی پہچان ہی بن گئیں- بعد میں یہ ڈگری کہلایا اور آج تک اس کی یہ شناخت قائم ہے-

  • اسکردو حادثے میں 28 افراد جاں بحق ہوئے: ڈپٹی کمشنر

    اسکردو حادثے میں 28 افراد جاں بحق ہوئے: ڈپٹی کمشنر

    اسکردو: ڈپٹی کمشنر اسکردو کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز دریائے سندھ میں گرنے والی کوچ میں 28 افراد سوار تھے، حادثے میں تمام 28 افراد جاں بحق ہوئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ڈپٹی کمشنر اسکردو خرم پرویز کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کوچ میں اٹھائیس افراد سوار تھے، جن میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے علاوہ 3 کم سن بچے اور 23 بڑی عمر کے مسافر شامل تھے۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ سفری چالان میں 3 کم سن بچوں کے نام درج نہیں کیے گئے تھے جن کا لواحقین کے ذریعے پتا چلا ہے۔

    اسکردو حادثہ ، جاں بحق ہونے والوں میں معروف کوہ پیما شبیرحسین سدپارہ  بھی شامل

    ڈپٹی کمشنر اسکردو کے مطابق آج صبح دریا برد ہونے والے مزید 2 مسافروں کی لاشیں نکالی گئی ہیں، اب تک 15 افراد کی لاشیں دریا سے نکالی جا چکی ہیں جب کہ 13 لا پتا مسافروں کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ 13 مسافروں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں روانہ کر دی گئیں ہیں۔

    خیال رہے کہ ریسکیو آپریشن میں ریسکیو 1122، سول انتظامیہ، پولیس اور پاک فوج کے جوان شریک ہیں۔

    اس حادثے میں جہاں ایک طرف 28 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں وہاں معروف کوہ پیما شبیر حسین سدپارہ بھی جاں بحق ہوئے ہیں، وہ اس بد قسمت کوچ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ راولپنڈی سے اسکردو جا رہے تھے، اسسٹنٹ کمشنر روندو غلام مرتضٰی نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ اسسٹنٹ کمشنر کا حادثے سے متعلق کہنا تھا کہ کوچ یولبو کے مقام پر موڑ کاٹتے ہوئے بلندی سے دریا میں جا گری تھی۔

  • دریائے سندھ میں گدو کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے: این ڈی ایم اے

    دریائے سندھ میں گدو کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے: این ڈی ایم اے

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے کہا ہے کہ دریائے سندھ میں گدو کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان این ڈی ایم اے نے بتایا ہے کہ گدو کے مقام پر دریائے سندھ میں درمیانے درجے کا سیلاب آیا ہے، 1613 افراد کو متبادل جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ اوکاڑہ ضلعی انتظامیہ نے 900 افراد کو متبادل محفوظ مقام پر منتقل کیا، تمام ملکی دریاؤں اور ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ خطرے کے نشان سے نیچے ہے۔

    دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ والا پر پانی کا لیول 19.30 فٹ، بہاؤ 60340 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، گنڈا سنگھ والا پر پانی کے بہاؤ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  آبی جارحیت: دریائے ستلج کے اطراف 18 دیہات زیر آب، 3 دیہات شدید متاثر

    ترجمان این ڈی ایم اے نے بتایا کہ دریاؤں کے اطراف قصور میں 18 دیہات متاثر ہوئے، ضلعی انتظامیہ قصور نے متاثرہ دیہات سے 1220 افراد کو ریسکیو کیا، 3 دیہات بھکی ونڈ، چندرہ سنگھ اور گھاٹی کلنجر مکمل زیر آب ہیں۔

    ادھر پی ڈی ایم اے نے کہا تھا کہ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، دریائے ستلج میں ہریکے کے مقام سے ایک لاکھ 9 ہزار 319 کیوسک پانی گزر رہا ہے۔

    ترجمان کے مطابق امدادی ٹیموں نے ایک ہزار 575 افراد کو ریسکیو کیا، 1728 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، قصور میں 9، پاکپتن میں 9 جب کہ وہاڑی میں 7 امدادی کیمپس قایم کیے گئے۔

    واضح رہے کہ پاکستان نے آبی جارحیت پر بھارت سے شدید احتجاج کیا تھا، اس سلسلے میں اٹارنی جنرل انور منصور کہتے ہیں بھارت کی آبی جارحیت پر پاکستان نے ورلڈ بینک جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، تیاری شروع کر دی ہے، بہت جلد ایکشن لیا جائے گا۔

  • سکھر: دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچے تاحال نہ مل سکے

    سکھر: دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچے تاحال نہ مل سکے

    سکھر : دریائے سندھ کے قریب لاپتہ ہونے والے چھ بچوں کو تلاش نہیں کیا جا سکا، بچوں کے کپڑے دریائے سندھ کے کنارے سے مل گئے، نہاتے ہوئے بچوں کے دریا میں ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر کے رہائشی چھ بچے جمعہ کی شام کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکلے تھے، جن کا تاحال پتہ نہیں چل سکا، والدین اور اہل محلہ نے لاکھ ڈھونڈا لیکن سکھر کے چھ بچوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔

    کوئنز روڈ پر حماد پلازہ کے رہائشی چھے بچے جمعہ کی شام ہنستے کھیلتے گھر سے نکلے تھے، گیارہ سے سولہ سال کے بچے محلے میں کرکٹ کھیلنے کے بعد کھیل کا سامان قریبی دکان پر رکھ کر دور نکل گئے۔

    لاپتہ بچوں کی عمریں گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہیں۔ پوری رات اور دن بھر کی مسسل تلاش کے باوجود بچے نہیں ملے،16سالہ محمد قاسم ،14 سالہ محمد انس،13سالہ احتشام اور گیارہ گیارہ سال کے احسان، عاصم اور حماد کی گمشدگی کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کرا دی گئی۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    ایک محلے دار بچے کی نشاندہی پر دریائے سندھ کے کنارے زیرو پوائنٹ سے بچوں کے کپڑے اور جوتے مل گئے، پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچے زیرو پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے، دوسری جانب ریسکیو ٹیموں کو پانی کے تیز بہاؤ کے سبب دریا میں سرچ آپریشن کے دوران مشکلات درپیش ہیں۔

  • چلاس: شکدآباد کے قریب مسافر جیپ کھائی میں گر گئی، 7 افراد جاں بحق

    چلاس: شکدآباد کے قریب مسافر جیپ کھائی میں گر گئی، 7 افراد جاں بحق

    چلاس: گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں شکدآباد کے قریب مسافر جیپ کھائی میں گرنے سے 7 افراد جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق چلاس میں شکدآباد کے قریب گاڑی کھائی میں گر گئی، جس کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے، مرنے والوں کی لاشیں دریا سے نکال لی گئیں۔

    جیپ میں 21 افراد سوار تھے، حادثے میں ریسکیو کیے گئے افراد کی تعداد 14 ہو گئی ہے، تاہم 2 افراد تا حال لاپتا ہیں، ڈی پی او چلاس کا کہنا ہے کہ بچائے گئے افراد میں سے 3 زخمی ہیں۔

    چلاس پولیس کا کہنا ہے کہ دریا میں ڈوبنے والے 2 افراد کی تلاش جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسلام آباد، پنڈی، گرد و نواح میں موسلا دھار بارش، مانسرہ میں طوفان، چلاس میں برف باری

    بتایا گیا ہے کہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ڈرائیور گاڑی پر قابو کھو بیٹھا تھا، حادثے کے بعد ریسکیو 1122 اور مقامی لوگوں نے جائے وقوع پہنچ کر ڈوبے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کیا۔

    حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو چلاس کے ضلعی اسپتال میں طبی امداد کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ چلاس میں دیامر کے پہاڑی علاقوں میں دس دن قبل موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، جب کہ ہلکی ہلکی برف باری بھی ہو رہی ہے، دیامر میں بارشوں کے باعث طغیانی کا خدشہ در پیش ہے۔

  • دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

    مٹیاری : دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے،چھ افراد کی لاشیں  نکال لی گئیں، ڈوبنے والوں میں خواتین اور بچےبھی شامل ہیں، گورنر سندھ اور بلاول بھٹو نے ہلاک افراد کےخاندانوں سے اظہار تعزیت کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں کشتی الٹنے سے14افراد ڈوب گئے، اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت 6 افراد کی لاشیں نکال لیں ہیں جب کہ 8 افراد کی تلاش جاری ہے، ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کے ہمراہ آپریشن کررہے ہیں تاہم رات کے اندھیرے کے باعث امدادی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق انڑپور کے قریب دریائے سندھ میں کشتی ڈوبنے سے 6 افراد جاں بحق جب کہ 8افراد تاحال لاپتا ہیں، دریا سے برآمد ہونے والی لاشوں میں2خواتین بھی شامل ہیں۔

    حادثہ مٹیاری ضلع کی حدود میں ہوا، کشتی مٹیاری سے جامشورو ضلع کے علاقے دڑا ماچھی آ رہی تھی اور اس میں خواتین و بچوں سمیت 14مسافر سوار تھے، تیزہواﺅں اور خراب موسم کے باعث کشتی ڈوب گئی اور اس میں سوار افراد لاپتا ہوگئے۔

    خبر ملتے ہی مقامی افراد اور پولیس کی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں اور مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت 6 افراد کی لاشیں نکال لیں جب کہ 8 افراد کی تلاش جاری ہے۔پولیس کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کے ہمراہ آپریشن کررہے ہیں تاہم رات کے اندھیرے کے باعث امدادی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    دوسری جانب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے دریائے سندھ میں کشتی الٹنےسے ہونے والی اموات پراظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اندوہناک حادثے کی خبر میرے لیے باعث صدمہ ہے، انہوں نے ہدایات جاری کی کہ ریسکیو آپریشن کیلئے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائےجائیں۔

    علاوہ ازیں گورنرسندھ عمران اسماعیل نے بھی حادثےمیں ہلاک افراد کےخاندانوں سےاظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرجامشورو کو امدادی کارروائیاں تیز کرنےکی ہدایت دی ہیں ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو ہرممکن مددفراہم کی جائے۔

  • دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    ڈی آئی خان: ڈیرہ اسمعیل خان کے شہریوں نے دریائے سندھ کو صاف کرنے کے عزم روایتی ثقافتی طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے دریا کو پھولوں سے خراج تحسین پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق موسم بہار کی آمد کے موقع پر جب ہر طرف رنگوں اور خوشیوں کی بہار نظر آتی ہے ۔ وہیں ڈی آئی خان میں دریائے سندھ کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے پھولوں کا خراج پیش کیا جاتا ہے ۔انتظامیہ نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا۔

    انتظامیہ کی اسی بے حسی کے خلاف یہ منفرد اور دلچسپ احتجاج ہر سال موسم بہار کی آمد کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی دریائے سندھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دریا میں پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔

    ہر سال کی طرح اب کی بار بھی ثقافتی وادبی تنظیم سپت سندھو سلہاڑ کے زیر اہتمام چیت بہار میلہ جسے عرف عام میں پھولوں والا میلہ بھی کہا جاتا ہے کا انعقاد کیاگیا۔جس میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان’ضلع ٹانک اور ضلع بھکر کے علاوہ سرائیکی وسیب کے دیگر شہروں سے بھی عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

    میلے کے شرکاء ریلی کی صورت میں امامیہ گیٹ پر اکھٹے ہوئے اور ڈھول کی تھاپ پر سرائیکی جھمر کا رقص پیش کرتے ہوئے اپنے روایتی راستے محکمہ موسمیات روڈ سے ہوتے ہوئے دریا ئے سند ھ کے کنارے پر پہنچے تو وہاں پر پہلے سے موجود شہریوں نے ریلی کا استقبال کیا۔جس کے بعدعاطف شہید پارک کے قریب دریا میں پھول بہا کر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دریا کے پانی کو کسی صورت گدلا نہیں ہونے دیں گے۔پانی میں ہی انسانوں کی بقاء اس لئے ہم دریا کی بقاء کی جنگ اپنی آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔

    تقریب میں شرکت کرنیوالے ملک علی آصف سیال نے بتایا کہ شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا ہے ۔گل پاشی کی تقریب کے بعد تمام شرکاء عاطف قیوم شہید پارک میں اکھٹے ہوئے جس سے پنڈال مرد وخواتین سے کچھا کھچ بھر گیا۔

    دریائے سندھ میں گل پوشی کے بعد عاطف قیوم شہید پارک میں سپت سندھو سلہاڑ کی پررونق تقریب سعید اختر سیال کی صدارت میں منعقد ہوئی۔جس میں سعید اختر سیال اور قیصر انور’ملک علی آصف سیال’سید حفیظ گیلانی’سلیم شہزادنے خطاب کیا اور دریا میں پھولوں بہانے کے اغراض ومقاصد اور پانی کی آلودگی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    ڈاکٹر نعمان لطیف سدوزئی اور محمد عرفان مغل نے بطور مہمان خصوصی شرکاء سے خطاب کیا جبکہ اعجاز قریشی اور آفتاب احمد اعوان نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دئیے۔اس موقع پر شرکاء کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری دنیا آبی وسائل کی بقاء جنگ لڑ رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے دریائے سندھ کے پانی کو محفوظ اور شفاف رکھنے کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے جس کی وجہ سے آج جہاں پانی ہر طرف پانی کی قلت کاسامنا ہے وہاں پانی کو آلودہ کیا جارہا ہے اور آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بقاء بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔

    لاکھوں کی کثیر آبادی والے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا سارا فضلہ دریا میں براہ راست گر رہا ہے جس کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں رہا تو دوسری طرف فلٹریشن پلانٹ نصب نہ ہونے کی وجہ سے عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے۔موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور وبائیں پھوٹنے کاخدشہ بھی درپیش ہے۔شرکاء نے کہا کہ شومئی قسمت کہ زمانوں پہلے ہمارے اجداد دریاکے کنارے پر آباد ہوئے اور ہمیشہ اس دریا سے محبت وعقیدت کااظہار کیا لیکن آج دریا کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

    شرکاء کا کہنا تھا کہ مقامی ڈیرے وال ہر سال 23 مارچ کو دریا پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے خاموش اورپرامن احتجاج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ شہر بھر کی گندگی کو پانی میں نہ انڈیلا نہ جائے ا ور جامعہ منصوبے وحکمت عملی سے شہر سے باہر نکاسی کے گندے پانی کو نکالا جائے تاکہ شہری تعفن زدہ پانی پینے سے محفوظ رہیں۔تاہم ہنگامی بنیادوں پر حکومت فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کو یقینی بنائے اور شہر میں پلاسٹک کے شاپر پر پابندی عائد کی جائے تاکہ دریا میں جمع ہونے والی گندگی کی روک تھام میں مدد مل سکے اور دریائی پانی آلودہ ہونے سے بچ سکے۔

    سپت سندھو سلہاڑ کے زیر انتظام اس میلے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی جبکہ شعراء نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرائیکی میں اپنا کلام پیش کرکے حاضرین کے دل موہ لئے۔اس کے علاوہ دھرتی ڈیرہ اسماعیل خان کے سپوت اور سرائیکی وسیب کے شہرازے لوک فنکار امجد نواز کارلو نے بھی اپنے فن کا جادو جگایا جس پر حاضرین جھومنے پر مجبور ہوگئے۔

  • دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی

    دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی

    خیرپور: دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن نہر میں پھنس گئی جسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کم ہونے کے باعث ڈولفن فیض گنج کی پندھریو نہر میں 3 روز سے پھنسی ہوئی ہے۔

    مقامی افراد کی جانب سے انڈس ڈولفن انچارج کو اطلاع دے دی گئی تاہم ابھی تک ڈولفن کو ریسکیو نہیں کیا گیا۔ انچارج کا مؤقف ہے کہ جب تک نہر کا پانی کم نہیں ہوگا ڈولفن کو ریسکیو نہیں کر سکتے۔

    واضح رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔

    dolphin-2

    یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

    نایاب نسل کی نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

    راستہ بھولنے اور دیگر وجوہات کے باعث اس ڈولفن کو اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آتی جارہی ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دریائے سندھ میں 1 ہزار 8 سو 16 ڈولفنز موجود ہیں۔

  • دریائے سندھ میں پانی کی خطرناک قلت ہوگئی، فصلیں متاثر، کاشتکار پریشان

    دریائے سندھ میں پانی کی خطرناک قلت ہوگئی، فصلیں متاثر، کاشتکار پریشان

    سکھر : دریائے سندھ میں پانی کی قلت کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا، سکھر میں گندم سمیت مختلف فصلیں اگانے میں کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ،پانی کی یہ قلت ربیع کے موسم میں مزید بڑھ جائے گی جس کے باعث گندم سمیت کئی فصلیں اگانے کے لیے کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.

    موجودہ دنوں میں پانی کی قلت کا سبب بالائی علاقوں میں بارشیں نہ ہونا اور برف کا نہ پگھلنا ہے، زراعت کے لیے پانی کی فراہمی متاثر ہونے کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں جامشورو، ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈوالہیار حیدرآباد، اور ٹنڈو محمد خان کی فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ ہے.

    پانی کی اہمیت کو سمجھنا ہمارے لئیے انتہائی ضروری ہے ،بڑے ڈیم نہ ہونے سے ہر سال پانی ضائع ہوجاتا ہے جس پورے ملک کو انتہائی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے سندھ کے کنارے وسیع پیمانے پر شجر کاری مہم

    دریائے سندھ صوبہ پنجاب سے گذرتا ہوا مٹھن کوٹ کے مقام پر صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے، یہاں سے ٹھٹھہ تک دریائے سندھ کے چوڑائی بہت زیادہ اور گہرائی کم اور بہاؤ میں سستی آجاتی ہے۔ یہ ٹھٹھہ کے مقام پر بحیرہ عرب میں داخل ہوجاتا ہے۔