Tag: دریائے نیل

  • سیلفی کے جنون میں چار افراد دریائے نیل میں ڈوب گئے

    سیلفی کے جنون میں چار افراد دریائے نیل میں ڈوب گئے

    مصر کی کمشنری بنی سویف میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا، ایک ہی خاندان کے چارافراد جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں شامل تھیں سیلفی بنانے کے جنون میں دریائے نیل میں ڈوب گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصر کی ریسکیو فورسز نے 6 دن کی تلاش کے بعد چاروں افراد کی نعشوں کو دریا سے باہر نکال لیا۔

    رپورٹس کے مطابق افسوسناک واقعے میں ہلاک ہونے والے اپنے عزیزوں کی شادی میں شرکت کرنے کمشنری کے گاؤں ’صالح فرید‘ پہنچے تھے جہاں وہ دریائے نیل کی سیر کرنے کے لئے پہنچ گئے تھے۔

    15 سالہ ریھام ممدوح سالم اپنے تین رشتے داروں کے ساتھ دریائے نیل کے کنارے کھڑے ہو کر سیلفی بنا رہی تھی کہ اچانک اس کا پیر پھسل گیا اور وہ دریا میں گر گئی۔

    دوسری لڑکی بھی اس کے ساتھ ہی دریا میں گر گئی، جسے بچانے کے لیے دوسرے دو افراد نے کوشش کی گئی مگر وہ بھی دریائے نیل میں ڈوب گئے۔

    رپورٹس کے مطابق افسوسناک واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں 15 سالہ ریھام، 15 سالہ دعا ربیع اور محمد ربیع سالم جبکہ ان کا چوتھا کزن 17 سالہ محمود عید سالم شامل ہے۔

    اس سے قبل کیریبین میں پیش آئے افسوسناک واقعے میں 55 سالہ کینیڈین خاتون شارک کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش میں اپنے دونوں ہاتھ گنوا بیٹھیں، واقعہ اُس وقت پیش آیا جب وہ ترک اور کیکوس جزائر کے درمیان تھامسن کوو بیچ کے پانی میں موجود تھیں۔

    مبینہ طور پر خاتون کا ایک ہاتھ کلائی سے کٹ گیا جبکہ دوسرا بازو کے بیچ میں سے۔ ساتھی انہیں فوری باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے اور علاج کیلیے میڈیکل سینٹر منتقل کیا جہاں ان کی حالت مستحکم ہے۔

    شکر گڑھ: 3 بہن بھائی دریائے راوی میں ڈوب کر جاں بحق

    حکام نے بتایا کہ حملہ کرنے والی شارک کی لمبائی تقریباً 6 فٹ ہے، یہ طے ہے کہ خاتون سیاح نے اس کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کی تھی۔

  • مسافر وین دریائے نیل میں گر گئی، 10ہلاک، متعدد لاپتہ

    مسافر وین دریائے نیل میں گر گئی، 10ہلاک، متعدد لاپتہ

    شمالی افریقی ملک مصر میں خواتین مزدوروں کی وین دریائے نیل میں گرنے سے 10 خواتین لقمہ اجل بن گئیں جبکہ 4 لاپتہ ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق قاہرہ سے مصری وزارت صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 8 خواتین اور بس ڈرائیور کو دریا سے زندہ ریسکیو کرلیا گیا۔

    مصری وزارت صحت کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی وین میں 22 خواتین مزدور سوار تھیں جو فروٹس پراسیسنگ زون میں امور انجام دیتی تھیں۔

    اس سے قبل افریقی ملک جبوتی میں پناہ کے متلاشیوں کی کشتی الٹنے سے بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    روس کے نان اسٹریٹیجک نیوکلیئر ہتھیار تیار، عملی مشقیں شروع

    اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی کے مطابق ہارن آف افریقی ملک جبوتی کے ساحل پر پناہ کے متلاشیوں سے بھری کشتی الٹنے سے کم از کم 16 افراد ہلاک اور 28 لاپتہ ہیں۔

  • دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا تاریخی اہمیت کا حامل دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    آئیں آج اس عظیم دریا کے بارے میں کچھ حیران کن حقائق جانتے ہیں۔

    6 ہزار 6 سو 70 کلو میٹر کے فاصلے پر محیط یہ دریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں۔

    ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے، دریائی گھوڑے اور مگر مچھ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کی سب سے بڑی دلدل تقریباً 700 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔

    یہ گھاس اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

    دریائے نیل کے سارے معاون دریا حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہری کھائی میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔

    خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

    خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار آتے ہیں، یہ تقریباً 6 مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

    سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔

    اس بند سے آبپاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔

    اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50، 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

    قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔

    دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا، اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی تھی اور اس کا سال بھر کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔

    اسی ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے اور فصلوں کے لیے فائندہ مند ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

    دریائے نیل کے آغاز کا مقام جاننے کے لیے پہلی بار سترہویں صدی میں کوشش کی گئی۔ تحقیق اور سفر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی نہ چل سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں سے گزرتا ہے۔

    دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔

    اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک سنہ 1857 میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔

    ایک مقام پر برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریائے نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ یوگنڈا کا دارالحکومت کمپلا اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

    وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (حنوط شدہ لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ قاہرہ کا عجائب گھر بھی منفرد مقام ہے۔

    دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو سائنس نے تسلیم کرلیا

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو سائنس نے تسلیم کرلیا

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے تقریباً 15 سو سال قبل بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے آنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی معجزوں سے نوازا تھا۔

    ان کا ایک معجزہ دریائے نیل کا 2 حصوں میں منقسم ہوجانا بھی تھا۔ مصر کے حکمران، فرعون وقت رعمیسس نے جب حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی حد کردی تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے ماننے والوں کو مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔

    حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے بہت سے افراد مصر چھوڑنے کے لیے دریائے نیل کے کنارے پہنچے۔ فرعون بھی تخت و طاقت کے نشے میں چور کسی بدمست ہاتھی کی طرح انہیں مار ڈالنے کے لیے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے سروں پر جا کھڑا ہوا۔

    اس وقت شدید طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور دریائے نیل بپھرا ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ سخت پریشان تھے کہ فرعون سے بچنے کے لیے دوسری طرف کیسے جایا جائے۔ تب ہی خدا نے اپنا معجزہ دکھایا اور دریائے نیل کے پانی کو دیوار کی صورت دو حصوں میں تقسیم کردیا۔

    دریائے نیل کے منقسم ہوجانے کا منظر ۔ ایک مصور کی نظر سے

    دریا کے بیچ ایک خشک راستہ ابھر آیا اور حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے ماننے والے اس راستے سے باآسانی گزر کر دوسری جانب چلے گئے۔ فرعون نے بھی یہ راستہ دیکھا تو اپنی فوج کو اسی راستے پر اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔

    جب فرعون اور اس کی فوج دریا کے بیچ میں پہنچی تو اللہ کے حکم سے پانی واپس اپنی جگہ آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچوں بیچ غرق آب ہوگیا۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش آج تک عقل رکھنے والوں کے لیے نشان عبرت ہے۔


    جدید سائنس کی توجیہہ

    جدید سائنس نے بھی اس معجزے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے خالصتاً فطری عمل قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق بحری سائنس کے ماہرین اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ انتہائی تیز رفتار ہوائیں اتنی طاقت رکھتی ہیں کہ دریا یا سمندر کے کسی مخصوص حصے سے پانی کو اڑا کر اس جگہ کو بالکل خشک بناسکتی ہیں، اور یہ جگہ دریا کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کو اس تحقیق کی سند اس وقت ملی جب تاریخی موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق سنہ 1882 میں ایسے ہی ایک طوفان نے دریائے نیل کو ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم کردیا اور بیچ میں ایک خشک راستہ ابھر آیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سمندر کا پانی ’لاپتہ‘ ہوگیا

    طوفان کی شدت کم ہونے کے بعد پانی واپس اپنی جگہ پر آگیا تھا۔

    ایسا ہی ایک اور واقعہ گزشتہ برس جزائر کیریبیئن میں بھی دیکھنے میں آیا جب طوفان ارما نے جزائر کیریبیئن میں بہاماس کے علاقے میں موجود سمندر بالکل خشک کردیا اور سمندر کی تہہ ایک راستے کی صورت نمودار ہوگئی۔

    یہاں طوفان کی شدت سے سمندر کا پانی اڑ گیا اور سمندر کا مذکورہ حصہ خشک دکھائی دینے لگا، تاہم طوفان کے گزر جانے کے بعد سمندر اپنی معمول کی حالت پر واپس آگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا دریائے نیل تاریخی اہمیت کا حامل دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا بھی موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی زد میں ہے اور اس کی وجہ سے دریائے نیل میں شدید اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوچکا ہے۔ کبھی اس میں اتنا زیادہ پانی ہوتا ہے کہ یہ سیلاب کی صورت باہر آجاتا ہے، اور کبھی اتنا کم کہ خشک سالی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    ہر سال دریا کے اوسط بہاؤ میں 10 سے 15 فیصد اضافہ یا کمی ہوجاتی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ معیار بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب ہر سال تغیر گزشتہ برس سے کہیں زیادہ مختلف ہوتا ہے۔

    بعض اوقات اس کے بہاؤ میں 50 فیصد کمی یا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    ماہرین کے مطابق اس کا انحصار اس علاقے میں ہونے والی بارشوں پر ہے کہ وہاں کتنی بارشیں ہوئیں، تاہم اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ دریا یا سمندر کے اوپر بننے والے بادلوں کا انحصار بھی دریا یا سمندر کے پانی پر ہی ہوتا ہے، کہ وہ کس نوعیت کے بادل تشکیل دے رہا ہے۔

    تحقیق میں شامل میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے، ’یہ کوئی تحقیقاتی جائزہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہو رہی ہے۔ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوگیا ہے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2015 میں جب ایل نینو شروع ہوا تو کم بارشوں کی وجہ سے دریائے نیل میں پانی کی مقدار کم ہوگئی جس سے مصر میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

    ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس بار ایل نینو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک جاری رہا۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    اس کے بعد سنہ 2016 میں جب (کمزور) لانینا شروع ہوا تو نیل میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا جس سے دریا بپھر گیا اور اس کے سیلابی پانی نے کروڑوں ڈالر کا نقصان اور 26 افراد کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

    لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    دریائے نیل ہمیشہ سے کئی سیاسی تنازعات کا مرکز بھی رہا ہے لیکن اس کی مہربانیاں قدیم دور سے لے کر اب تک جاری ہیں۔ تاہم اب موجودہ حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دریا مزید کب تک مہربان رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دریائے نیل میں ڈوبنے والے 3 پاکستانیوں کی میتیں لاہور پہنچا دی گئیں

    دریائے نیل میں ڈوبنے والے 3 پاکستانیوں کی میتیں لاہور پہنچا دی گئیں

    لاہور: ایک ہفتے قبل مصر میں دریائے نیل کی سیر کے دوران کشتی کو حادثہ پیش آنے پر ایک ہی خاندان کے4 افراد ڈوب کرجاں بحق ہوگئے تھے،چاروں افراد پاکستانی تھے جن کی لاشیں آج لاہور ایئر پورٹ پہنچا دی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین خاندان کے دس افراد عید کے دن تفریح کے غرض سے دریائے نیل کی سیرکے لیے نکلے تھے کہ کشتی دریا میں بنے پل کے ایک ستون سے ٹکرا گئی اور توازن برقرار نہ رکھ سکی جس کے باعث کشتی میں سوار 10 افراد دریا میں جا گرے۔

    تفصیلات جاننے کے لیے کلک کیجیے: دریائے نیل میں کشتی ڈوبنے سے 4 پاکستانی جاں بحق

    امدادی ٹیم نے بروقت پہنچ کر 10 میں سے 6 افراد کو بآحفاظت نکال لیا تا ہم غوطہ خور دیگر 4 افراد کو بچانے میں ناکام رہے،ہلاک ہونے والوں میں خآندان کے سربراہ فیصل آفاق خان اُن کی اہلیہ ثناء عروج اور بیٹی آمنہ شامل ہیں جب کہ ایک اور بیٹی رومیسا کی لاش تاحال نہیں مل سکی ہے۔

    تینوں افراد کی میتوں کو آج لاہور ایئر ہورٹ پہنچا دیا گیا ہے جہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئےاہل خانہ کا کہنا ہے کہ فیصل آفاق خان کئی برسوں سے ملازمت کی غرض سے مصر میں مقیم تھے،اہل خانہ نے میتیں تدفین کے لیے اپنے ہمراہ لے گئے۔

  • مصر:دریائے نیل میں 2کشتیاں آپس میں ٹکرا گئیں، 15افراد جاں بحق

    مصر:دریائے نیل میں 2کشتیاں آپس میں ٹکرا گئیں، 15افراد جاں بحق

    قاہرہ: مصر کے دریائے نیل میں دو کشتیاں آپس میں ٹکرا گئیں ، حادثے میں پندرہ افراد ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔

    پولیس حکام کے مطابق دریائے نیل میں ایک چھوٹی مسافر کشتی مال بردار بحری جہاز سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں کم از کم پندرہ افراد ڈوب گئے،  واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیوں اداروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر امدادی سرگرمیاں شروع کردی ۔

    پولیس نے حادثے کے بعد مال بردار بحری جہاز کے کپتان اور نائب کپتان کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش کا کام تاحال جاری ہے۔