Tag: دریافت

  • ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘، مزید 2 کروڑ 60 لاکھ کہکشائیں دریافت، حیرت انگیز ویڈیو

    ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘، مزید 2 کروڑ 60 لاکھ کہکشائیں دریافت، حیرت انگیز ویڈیو

    سائنسدانوں نے مزید 2 کروڑ کہکشائیں دریافت کر لیں یورپین اسپیس ایجنسی نے اسپیس ٹیلی اسکوپ یوکلیڈ سے لیا گیا پہلا ڈیٹا جاری کر دیا۔

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ سائنسدانوں کی کائنات کی کھوج رنگ لے آئی اور مزید کروڑوں نئی کہکشائیں دریافت کر لی گئی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیاکے مطابق یورپین اسپیس ایجنسی نے اسپیس ٹیلی اسکوپ یوکلیڈ سے لی گئی تصاویر اور پہلا سروے ڈیٹا جاری کر دیا ہے۔

    اس ویڈیو سروے میں مزید کروڑوں کہکشائیں دریافت کی گئی ہیں۔ ای ایس اے کے مطابق یوکلیڈ مشن میں آسمان کے 3 حصوں کے گہرے مشاہدے میں 2 کروڑ 60 لاکھ کہکشائیں دریافت کی گئیں۔

    ای ایس اے نے دریافت ہونے والی کہکشاوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی جاری کی ہیں، جنہیں دیکھنے والے حیران رہ گئے۔

    یورپین اسپیس ایجنسی کے مطابق کہکشاؤں کی نئی دریافت محض شروعات ہے، یوکلڈ مشن مکمل ہونے پر کہکشاؤں کا ایک کیٹلاگ بھی تیار ہو گا۔

     

  • سندھ میں دریافت ہونے والے گیس کے نئے ذخائر کی تفصیلات

    سندھ میں دریافت ہونے والے گیس کے نئے ذخائر کی تفصیلات

    کراچی: سندھ کے ضلع خیر پور میں گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے جس کی تفصیلات پاکستان اسٹاک ایکسچیبج کو موصول ہوگئی۔

    کمپنی نے خط میں لکھا کہ خیر پور ساون ساوتھ بلاک میں کنویں کی کھدائی فروری میں شروع ہوئی تھی، ساون بلاک میں گیس ذخائر تلاش کیلئے اکھیرو 1 کنویں کی کھدائی 12442 فٹ گہری ہوئی۔

    آئل اینڈ گیس ڈویلمپنٹ کمپنی (او جی ڈی سی ایل) نے خط میں لکھا کہ اکھیرو 1 کنویں سے یومیہ 10 ملین اسٹینڈرڈ کیوبک فٹ گیس حاصل ہوئی، کنوئیں میں گیس کا پریشر 4 ہزار پاؤنڈ پر اسکوائر انچ ہے۔

    اوجی ڈی سی ایل، گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیوٹ، سندھ انرجی ہولڈنگ، یونائیٹڈ انرجی لمیٹڈ کمپنیوں نے گیس ذخائر تلاش کیے۔

    کمپنی نے خط میں لکھا کہ ہائیڈرو کاربن گیس ذخائر کی دریافت ملکی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • ’سعودیہ: ہزاروں سال قدیم اشیاء دریافت‘

    ’سعودیہ: ہزاروں سال قدیم اشیاء دریافت‘

    کہتے ہیں کہ یہ دنیا کروڑوں سال قدیم ہے، لیکن بعض تاریخی عمارات اور آثار ایسے بھی ہیں جو آج بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، سعودی ماہرین آثار قدیمہ ہزاروں سال پرانی اشیاء کی دریافت میں مصروف ہیں، ایسے میں انہوں نے حائل کے علاقے میں ایک نیا شہر دریافت کیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے محکمہ آثار قدیمہ نے حائل کے جنوبی علاقے میں جبل عراف کے قریب کھدائی کے دوران ایک ہزار سال پرانا شہر دریافت کیا ہے۔

    سعودی محکمہ آثار قدیمہ کی بہترین کاوشوں اور جرمن انسٹی ٹیوٹ میکس بلانک کے تعاون کے باعث حائل کے علاقے میں ماضی کے فن اور معاشی سرگرمیوں کی عکاسی کرنے والے نوادرات کو دریافت کیا گیا ہے۔

    سائنسی جریدے‘پالس ون’میں شائع ہونے والی دریافت کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ قدیم پتھر کے زمانے میں اس مقام پر بڑی تعداد میں بنی نوع انسان آباد تھے۔

    ایس پی اے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جبل عراف سعودی عرب کے صحرائے النفود کے جنوب میں اور جبہ میں حائل شہر کے شمالی نخلستان میں واقع ہے۔ یہ وہاں جھیل کے دائرے میں آتا ہے جو جدید ہجری دور سے تعلق رکھتا ہے۔

    اس مقام سے پتھروں سے بنے ہوئے درجنوں اوزار اور برتن بھی دریافت کئے گئے ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں بڑی تعداد میں انسان موجود تھے۔

    جبل اعراف ایک چٹان کی پناہ گاہ اور ایک کھلی جگہ پر مشتمل ہے جس میں ہولوسین کے وسط سے لے کر موجودہ دور تک آباد کاری کے آثار موجود ہیں۔

    سعودی محکمہ آثار قدیمہ اور جرمن انسٹی ٹیوٹ میکس بلینک گرین جزیرہ نما عرب میں ایک منصوبے پرمل کر اپنے امور انجام دے رہے ہیں،یہ ماہرین ایک طویل عرصے سے پتھر کے زمانے کی باقیات اور آثار قدیمہ پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    اس سائنسی ٹیم کی اگر بات کی جائے تو اس میں سعودی عرب، برطانیہ، اٹلی،آسٹریلیا اور امریکہ کے اسکالرز اور ماہرین شامل ہیں۔

    اس سے قبل ماہرین آثار قدیمہ کو سعودی عرب میں صحرائے نفوذ کی جنوبی سرحد کے قریب چٹانوں پر اونٹوں کے ہزاروں سال قدیم نقوش ملے تھے۔

    صحرائی چٹانوں پر منقش جنگلی اونٹوں کے پانچ نقوش دریافت کئے گئے تھے، اونٹوں کی یہ نسل اب معدوم ہوچکی ہے، جو سعودیہ میں ہزاروں برس قبل موجود تھی۔

    سامنے آنے والے نقوش کو دیکھ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جانوروں کی افزائش نسل کے دورانیہ یعنی نومبر سے مارچ کے درمیان کا وقت ہو سکتا ہے جن دنوں جانوروں میں افزائش نسل کا سیزن ہوتا ہے۔

  • سعودی طالبہ نے اہم طبی دریافت کرلی

    سعودی طالبہ نے اہم طبی دریافت کرلی

    کینبرا: سعودی طالبہ نے آسٹریلیا میں ایک اہم طبی دریافت کرتے ہوئے ایسے جین کا پتہ لگایا ہے جو جگر کی بیماری سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

    العربیہ نیٹ کے مطابق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی میں طائف یونیورسٹی کی طالبہ جواہر الحارثی نے ایک نایاب طبی دریافت کی ہے، یہ دریافت فیٹی لیور کی بیماری کے خطرے کو روکتی ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں کرونا کی پیچیدگیوں سے بھی بچاتی ہے۔

    تحقیقی مطالعے میں ایسے عوامل کو دریافت کیا گیا ہے جو فیٹی لیور کی بیماری کی پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا باعث بنتے ہیں۔

    ان عوامل پر مزید عمل کر کے ان بیماریوں کے لیے جدید علاج تیار کرنے کا امکان بڑھ گیا ہے، جواہر الحارثی نے اپنی نایاب تحقیقی دریافت کو سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع کروایا ہے۔

    سعودی طالبہ جواہر الحارثی نے وضاحت کی کہ یہ نایاب طبی دریافت فیٹی لیور کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں میں کرونا کی پیچیدگیوں کو کم کرتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے مطالعے کے دوران اہم جینز کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، ان جینز کی کمی جسم کے افعال میں شدید خرابی پیدا کرتی ہے اور سوزش والی سائٹو کائنز کی بڑھتی ہوئی شرح سے مدافعتی سرگرمی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ میں کام کرنے والی ٹیم کے ساتھ ایک ایسی ترمیم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں جو خلیے میں جین کو اس کی معمول کی سطح پر بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

    یہ دریافت مذکورہ بالا بیماریوں کے علاج میں ایک بڑی چھلانگ ثابت ہوگی، یہ ایک نئی طبی کامیابی ہے۔

    خاص طور پر چونکہ فیٹی لیور کی بیماری دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام بیماریوں میں سے ایک ہے اور دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو متاثر کر رہی ہے، اس لیے بھی یہ دریافت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک بھی ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں فیٹی لیور کی شرح زیادہ ہے۔

    جواہر الحارثی نے مزید کہا کہ میں نے جو تحقیق کی تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کرونا کے ساتھ فیٹی لیور کے مریضوں میں اموات میں اضافے کی وجہ جینیاتی عنصر ہے، کیونکہ وائرس میں انسان کے جینیاتی میک اپ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں بیماری کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور فیٹی لیور کے مریضوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔

  • اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    دنیا کے عجائبات میں شامل اہرام مصر کے سب سے بڑے ہرم گیزہ میں نئی دریافت ہوئی ہے جس سے اس ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل گیا۔

    صدیوں پرانے اہرام مصر ہمیشہ سے لوگوں اور سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے، ہزاروں سال پرانے اہرام مصر کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے اور اس کو جاننے کے لیے مسلسل تحقیقی کام ہوتا رہتا ہے۔

    گیزہ کا عظیم ہرم عرصے سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور دہائیوں سے ماہرین اس کے اندر کھوج کرتے رہے ہیں۔

    اب مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے گیزہ کے عظیم ہرم میں ایک حیرت انگیز دریافت کا اعلان کیا گیا ہے، حکام کے مطابق ہرم کے مرکزی داخلی راستے کے پیچھے چھپی 9 میٹر طویل راہداری کو دریافت کیا گیا ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ اس دریافت سے گیزہ کے عظیم ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل جائے گا۔

    یہ دریافت سکین پیرامڈز نامی سائنسی پراجیکٹ کے دوران ہوئی جس کے لیے 2015 سے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ہرم کے اندرونی حصوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ یہ نامکمل راہداری ممکنہ طور پر مرکزی داخلی راستے پر ہرم کے اسٹرکچر کے وزن کا دباؤ کم کرنے کے لیے تعمیر ہوئی یا یہ کسی ایسے چیمبر کی جانب جاتی ہوگی جو اب تک دریافت نہیں ہوسکا۔

    خیال رہے کہ گیزہ کا عظیم ہرم زمانہ قدیم کے 7 عجائبات میں شامل واحد عجوبہ ہے جو اب بھی دنیا میں موجود ہے اور اسے نئے 7 عجائبات عالم کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔

    اسے 2560 قبل میسح میں فرعون خوفو کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • 142 سال قدیم جینز دریافت، آج بھی پہننے کے قابل

    142 سال قدیم جینز دریافت، آج بھی پہننے کے قابل

    امریکا میں ایک غار سے 142 سال قدیم جینز کی پینٹ دریافت کرلی گئی، ماہرین کا کہنا ہے کہ معمولی رفو گری کے بعد اسے دوبارہ پہننے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق مغربی امریکا میں ایک غار سے دریافت یہ جینز سنہ 1880 کی تیار شدہ ہے۔

    اس نایاب جینز کو زیپ اسٹیونسن نامی شخص نے 87 ہزار 400 امریکی ڈالرز (لگ بھگ 1 کروڑ 90 لاکھ پاکستانی روپے) میں خریدا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Denim Doctors (@denimdoctors)

    جینز کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس وقت کی یہ جینز ہے اس وقت کی بنائی گئی چند ایک جینز ہی اس وقت دستیاب ہیں۔

    جینز کے ٹیگ پر لکھا ہے، ’یہ قسم سفید فام ورکرز کی تیار کردہ ہے‘، یہ اس وقت جینز کمپنی کی ٹیگ لائن تھی جب سنہ 1882 میں پاس کیے گئے ایک ایکٹ کے تحت چینی شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    ماہرین کے مطابق چند معمولی رفو گریوں اور مرمت کے بعد اس جینز کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

  • بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ڈائنو سار کا نہایت نایاب انڈہ دریافت کیا گیا جس کی خاص بات یہ ہے کہ انڈے کے اندر انڈہ موجود ہے۔

    بھارت کی دہلی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی یہ دریافت نہایت نایاب اور اہم ہے اور آج سے پہلے اس نوعیت کی دریافت نہیں کی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انڈے کی مدد سے ڈائنو سارز کے تولیدی نظام کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی، یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ آیا ان کا تولیدی نظام کچھوؤں اور چھپکلیوں جیسا ہے یا مگر مچھ اور پرندوں جیسا۔

    دوسری جانب چند روز قبل ڈائنو سارز کی انتہائی نایاب قسم اور ٹرائنو سارز ریکس سے بھی بڑے سپائنو سارز کے کچھ ڈھانچے برطانوی علاقے آئزل آف وائٹ سے دریافت ہوئے ہیں۔

    مگر مچھ سے ملتے جلتے ڈھانچے جیسے لیکن حجم میں انتہائی بڑے سپائنو سارز ڈائنو سارز سے کئی گنا بڑے اور طاقت ور ہوتے ہیں۔

    سائنسی جریدے پیئر جے لائف اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ملنے والے یہ نئے ڈھانچے 125 ملین برس پرانے ہیں۔

    برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے وابستہ اور اس مطالعاتی ٹیم کے قائد کرِس بیکر کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا جانور تھا جس کی قامت 10 میٹر سے بھی زیادہ تھی، ہم نے اس کی جہتیں ناپی ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ میں دریافت ہونے والے یہ آج تک کا سب سے بڑا شکاری جانور ہو۔

  • پلاسٹک کھانے والا کیڑا دریافت

    پلاسٹک کھانے والا کیڑا دریافت

    پلاسٹک کی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے، ہماری زمین اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا کیڑا دریافت کیا ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سائنس جریدے مائیکرو بیال جینو مکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے ماہرین نے کیڑے کے لاروا کی ایک ایسی نوع دریافت کی ہے جو پلاسٹک کو رغبت سے کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    سائنس دانوں نے اس لاروے کو زوفو باس موریو کا نام دیا ہے، عموماً اسے سپر ورمز کے نام سے جانا جاتا ہے، سپر ورمز کی بابت ریسرچرز کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں انقلابی مدد مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بھونرے کے لاروے میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی آنتوں میں موجود انزائم کی مدد سے پلاسٹک کو ہضم کر سکتا ہے، اور اس کی یہی خاصیت پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں نمایاں پیش رفت ثابت ہوگی۔

    تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر کرس رنکی کا کہنا ہے کہ سپر ورمز ری سائیکلنگ کے مختصر پلانٹ کی طرح ہے جو اپنے منہ میں پولیسٹرین (پلاسٹک کے بنیادی جز) کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے آنتوں میں موجود بیکٹریا کی خوراک بنا دیتا ہے۔

    اس تحقیق میں ریسرچرز نے ان سپر ورمز کو 3 گروپوں میں تقسیم کیا اور انہیں 3 ہفتے تک مختلف غذائیں دی، حیرت انگیز طور پر صرف پولیسٹرین کھانے والے سپر ورمز کے وزن میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سپر ورمز کی آنتوں میں پولیسٹرین اور اسٹائرین کو تحلیل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور یہ دونوں کمیکل فوڈ کنٹینرز، انسولیشن اور کاروں کے اسپیئر پارٹس کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    ریسرچرز کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے لیے سپر ورمز کے بڑے فارم بطور ری سائیکلنگ پلانٹ لگانے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم اس سارے مرحلے میں سب سے زیادہ مؤثر خامرے کی شناخت کر کے اسے بڑے پیمانے پر ری سائیکلنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، اس انزائم کی مدد سے پلاسٹک کو میکانکی طریقہ کار سے ٹکٹروں میں تقسیم کیا جا سکے گا۔

  • کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    برطانیہ میں تعمیراتی کام کے دوران آثار قدیمہ ظاہر ہوگئے جس نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    برطانوی جزائر آؤٹر ہیبرائڈز میں آبی انجینیئرز کی جانب سے نئے پائپوں کی تنصیب کے لیے کی گئی کھدائی میں قرون وسطیٰ کی ایک نایاب جگہ دریافت ہوئی ہے۔

    یہ جگہ، جس کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ 500 سال قبل بھیڑوں کو پالنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، لوئس کے جزیرے میں گریس کے قریب اسکاٹش ملازمین نے دریافت کی۔

    جگہ سے گڑھے، پتھر کی چیزیں اور کچھ 100 ٹکڑے برتنوں کے ساتھ کوڈ اور ہیڈوک نامی مچھلیوں اور دیگر غیر شناخت شدہ جانوروں کی بڑی ہڈیاں دریافت ہوئیں۔

    اس جگہ کی تاریخ کا تعین چودہویں اور سولہویں صدی کے درمیان کیا جارہا ہے۔

    یہ عرصہ اس دور پر محیط ہے جب ان جزائر پر حکمرانی کرنے والے لارڈز کی سلطنت اختتام کو پہنچی اور جان مکڈونلڈ دوم کی آبائی زمینیں اور خطابات اسکاٹ لینڈ کے جیمز چہارم کی جانب سے 1493 میں ضبط کر لیے گئے۔

    ماہر آثار قدیمہ الیسٹیئر ریس کا کہنا تھا کہ دریافتوں نے جزیرے پر گزارے گئے دور کے متعلق سمجھنے میں مدد دی۔

    ریس نے کہا کہ ہمارے پاس مغربی جزائر کے متعلق قرون وسطی کے بہت قلیل شواہد تھے، ایک وجہ عمارتوں کی ساخت ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعد کے بلیک ہاؤس بستیوں نے ابتدائی شواہد کو مبہم کردیا ہو۔

  • مشتری جیسا سیارہ دریافت

    مشتری جیسا سیارہ دریافت

    فلکیاتی ماہرین نے زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر بالکل مشتری جیسے سیارے کو دریافت کیا ہے، اس سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارے کے گرد سیارے کو گردش کرتے دیکھا گیا ہے جو بالکل مشتری کے جیسا ہے۔

    اس سیارے کی نشان دہی ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ سے کی گئی ہے۔

    مانچسٹر کے ماہرینِ فلکیات کے مطابق نظام شمسی کے باہر موجود K2-2016-BLG-0005Lb نامی سیارہ وزن اور اپنے مرکزی ستارے سے فاصلے کے اعتبار سے تقریبآ مشتری سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ سیارہ اپنے مرکزی ستارے سے تقریباً 42 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے جبکہ مشتری سورج سے 46.2 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔

    دوسری جانب سیارے کا وزن مشتری کی نسبت 1.1 گُا زیادہ ہے جبکہ جس ستارے کے گرد یہ گھومتا ہے اس کا وزن ہمارے سورج کے 60 فیصد تک ہے۔

    یہ سیارہ اور اس کا ستارہ سیگٹیریس ستاروں کی جھرمٹ مین موجود ہیں جو گلیکٹک سینٹر کے اطراف کا علاقہ گھیرتا ہے، یہ ہماری ملکی وے کہکشاں کے محور کا مرکز ہے۔

    یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف مانچسٹر کے جوڈریل بینک سینٹر کے آسٹرو فزکس کے ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے کی گئی۔

    جوڈریل بینک کے ڈاکٹر ایمن کرنس کے مطابق سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔