Tag: دریافت

  • کئی سو سال قدیم زمرد کی کانیں دریافت

    کئی سو سال قدیم زمرد کی کانیں دریافت

    مصر میں 13 سے 14 سو سال قبل پرانی زمرد کی کانیں دریافت ہوئی ہیں جو رومیوں کے زیر استعمال رہی تھیں۔

    حال ہی میں ہونے والی دریافت سے علم ہوا کہ مصر کے مشرقی صحرا میں بحیرہ احمر کے قریب رومی زمرد کے لیے کان کنی کیا کرتے تھے، اس جگہ کو قدیم دور میں مونس سمیرگڈس اور رومی دور کے آخر میں رومی اس کو سکیٹ کہا کرتے تھے۔

    یہ جگہ رومی سلطنت میں واحد جگہ تھی جہاں زمرد پائے جاتے تھے۔

    تحقیق کے مطابق رومن آرمی براہ راست مصر کے زمرد کی کانوں میں ملوث ہوتی تھی۔

    بارسلونا کی ایک یونیورسٹی کے لیکچرر جون اولر کا کہنا تھا کہ رومن فوج کے وہاں ملوث ہونے کا مقصد صرف ان کو بچانا نہیں بلکہ ممکنہ طور پر ان کی تعمیر میں مدد بھی تھا۔

    چوتھی سے چھٹی صدی قبل مسیح میں رومی دور کے آخر میں کھودی جانے والی سطحوں سے یہ بھی سامنے آیا کہ کچھ عمارتیں مقبوضہ تھیں یا ممکنہ طور پر بلیمائز نے بنائی تھیں جو اس علاقے مین چوتھی صدی کے آخر میں آباد تھے۔

    تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ممکنہ طور پر بلیمائز نے زمرد کی کانوں کو چوتھی سے چھٹی صدی قبل مسیح کے درمیان سنبھالا اور تب تک کان کنی کی جب تک ان سرگرمیوں کا اختتام نہیں ہوا۔

  • زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    خلائی ماہرین نے حال ہی میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ایک کہکشاں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا گیا ہے جو خلائی غبار کے بادل کے اندر چھپا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل کی تفصیلی تصاویر چلی میں نصب یورپین سدرن مشاہدہ گاہ کی ٹیلی اسکوپ سے لی گئیں۔

    ماہرین نے مشاہدہ گاہ کا رخ کہکشاں میسر 77 کی جانب کیا جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، اس کہکشاں کے مرکز میں ماہرین کو ایک خلائی غبار کا موٹا چھلا ملا جس نے ایک بہت بڑے بلیک ہول کو چھپایا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل میں اس جگہ پر موجود یہ بلیک ہول دہائیوں سے ایک راز ہے، لیکن ماہرین کی ٹیم نے ٹیلی اسکوپ سے ملنے والی تفصیلی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے اس بادل میں مختلف مقامات پر درجہ حرارت کی پیمائش کی اور نقشہ بنایا۔

    ایکٹو گلیکٹک نیولائی کے نام سے جانے جانا والا بلیک ہول تیز روشنی کا سبب بنتا ہے جو کہکشاں میں موجود ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے۔ یہ کائنات کی سب سے روشن اور سب سے زیادہ پر اسرار اشیا ہیں جو کہکشاؤں کے بیچوں بیچ موجود ہیں۔

  • وہ فرعون جس کا مقبرہ کھولنے والے سب لوگ مارے گئے

    وہ فرعون جس کا مقبرہ کھولنے والے سب لوگ مارے گئے

    مصر میں کئی دہائیوں سے ہزاروں سال قدیم فراعین کے مقبروں کو کھولا جارہا ہے اور ان پر تحقیق کی جارہی ہے، تاہم ایک مقبرہ ایسا بھی ہے جسے کھولنے والے زیادہ تر افراد جان سے ہپاتھ دھو بیٹھے۔

    نومبر 1922 میں جب ایک فرعون مصر طوطن خامن کا مقبرہ کھولا گیا تو یہ تاریخ کو کھوجنے کے لیے ایک اہم پیش رفت تھی۔

    اس مقبرے کو کھولنے والی ٹیم 17 افراد پر مشتمل تھی، جن میں سے 15 افراد اگلے 6 سال کے اندر اندر ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اترتے چلے گئے، ان تمام افراد کی موت غیر طبعی تھی۔

    جب یہ ٹیم طوطن خامن کے مقبرے کو کھولنے جارہی تھی تو مقبرے کے داخلی دروازے پر ایک عبارت دیکھی گئی تھی۔

    اس وقت تک قدیم مصری زبان کو پڑھا نہیں جاسکا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد جب ماہرین اس زبان کو پڑھنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے اس عبارت کی تشریح کی۔

    اس مقبرے پر لکھا تھا کہ جو سوئے ہوئے فرعون کو جگائے گا وہ مارا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون کو جگانے والے 15 افراد کی موت اسی بددعا کا نتیجہ تھی۔

    طوطن خانم کے اس مقبرے میں 5 ہزار سے زائد اشیا موجود تھیں، سونے کے مجسموں اور زیورات، سجے ہوئے ڈبوں اور کشتیوں کے علاوہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے کے روٹی اور گوشت کے ٹکڑے، دالیں اور کھجوریں وغیرہ بھی شامل تھیں۔

    طوطن خامن کے مقبرے کے چاروں کونوں میں خواتین کے مجسمے بھی موجود تھے، ان میں دیوی آئسس کا مجسمہ بھی شامل تھا۔

  • عمان میں 4 ہزار سال پرانی دریافت

    عمان میں 4 ہزار سال پرانی دریافت

    مسقط: عمان میں 4 ہزار سال پرانا بورڈ گیم دریافت ہوگیا، یہ بورڈ گیم عمان میں برونز ایج سے تعلق رکھتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے عمان میں 4 ہزار سال پرانا بورڈ گیم دریافت کیا ہے۔

    بورڈ گیم عمان میں برونز ایج سے تعلق رکھتا ہے، یہ دریافت پولینڈ میں وارسا کی یونیورسٹی کے سینٹر آف میڈیٹرینین آرکیالوجی اور عمان کی وزارت برائے ورثہ و سیاحت نے کی ہے۔

    عمان اور پولینڈ کے اس مشترکہ پروجیکٹ کا مقصد شمالی عمان میں الحجر نامی پہاڑی سلسلوں میں قدیم انسانی آباد کاری کی چھان بین کرنا ہے۔

    ماہرین سنہ 2015 سے اس خطے کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اب تک متعدد دریافتیں ہوچکی ہیں جن میں سے اکثر دریافتیں قبل مسیح سے تعلق رکھتی ہیں۔

    وارسا کی یونیورسٹی کی پریس ریلیز کے مطابق ابھی ٹیموں کی توجہ کانسی کے دور کی باقیات پر ہے جن میں سے ایک دریافت مذکورہ بالا بورڈ گیم کی ہے۔

  • اٹک اور لورالائی میں تیل اور گیس کی دریافت کے لیے لائسنس جاری

    اٹک اور لورالائی میں تیل اور گیس کی دریافت کے لیے لائسنس جاری

    اسلام آباد: صوبہ پنجاب اور بلوچستان کے شہروں اٹک اور لورا لائی میں تیل اور گیس کی دریافت کے لیے لائسنس جاری کردیے گئے، وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ہر کنویں کی دریافت کے علاقے میں سالانہ 30 ہزار ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کے لائسنس کی اجرا کی تقریب ہوئی، تقریب میں وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر کی موجودگی میں معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

    پیٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 2 کنوؤں کی دریافت کے لیے لائسنس جاری کر دیے گئے۔ اٹک اور لورالائی میں تیل اور گیس کی دریافت کے لیے لائسنس جاری کیے گئے۔

    وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہر کنویں کی دریافت کے علاقے میں سالانہ 30 ہزار ڈالر فلاحی کام پر خرچ ہوں گے، ذخائر کی دریافت میں کامیابی کی صورت میں قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملکی معدنی وسائل کی دریافت کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں، اگلے چند ماہ میں آف شور ایکسپلوریشن لائسنسز کا اجرا بھی کیا جائے گا۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت گیس کی درآمد کے لیے نئے ٹرمینلز پر کام کر رہی ہے، مقامی گیس کی دریافت پر بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے۔

  • کمر درد کا حیران کن علاج دریافت

    کمر درد کا حیران کن علاج دریافت

    برطانوی اور امریکی سائنسدانوں نے بہت کم فریکوینسی والی بجلی کے معمولی جھٹکوں سے کمر کا شدید درد ختم کرنے میں اتنی غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے کہ وہ خود بھی حیران ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین کی نگرانی میں یہ تجربات ایسے 20 مریضوں پر کیے گئے جن کی کمر کے نچلے حصے میں پچھلے کئی سال سے شدید درد تھا، جو بعض مریضوں میں کمر سے شروع ہو کر کولہوں اور ٹانگوں تک پہنچ رہا تھا۔

    مستقل دوائیں کھانے اور کمر کی سرجری کروانے کے بعد بھی ان مریضوں کے درد میں کچھ خاص افاقہ نہیں ہورہا تھا۔

    یہی تجربات اس سے پہلے چوہوں پر کیے گئے تھے جن سے انکشاف ہوا تھا کہ اگر کمر کے نچلے حصے میں، ریڑھ کی ہڈی کے ارد گرد الیکٹروڈز لگا کر ان میں سے بہت کم تعدد والی بجلی (الٹرا لو فریکوینسی الیکٹرک کرنٹ) گزاری جائے تو کمر کے درد میں بہت کمی کی جا سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ الٹرا لو فریکوینسی میں 300 ہرٹز سے 3 ہزار ہرٹز والی برقی مقناطیسی لہریں شامل ہوتی ہیں۔

    انسانی آزمائشوں کے دوران مریضوں کی کمر میں، معمولی آپریشن کے بعد، ریڑھ کی ہڈی کے قریب دو چھوٹے چھوٹے برقیرے نصب کر دیے گئے جن میں سے روزانہ تھوڑی دیر تک بہت کم فریکوینسی پر معمولی سی بجلی گزاری گئی۔

    بجلی گزرنے پر ریڑھ کی ہڈی میں موجود اعصاب سے درد کے سگنل دماغ تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور یوں ان مریضوں میں کمر کا درد بہت کم ہوگیا۔

    تقریباً دو ماہ تک جاری رہنے والے ان تجربات میں 90 فیصد مریضوں کی کمر کا درد اوسطاً 80 فیصد کم ہوگیا جبکہ ان میں سے بھی چند مریضوں کا کہنا تھا کہ انہیں کمر کا درد بالکل بھی محسوس نہیں ہوا۔

    15 دنوں تک یہ عمل روزانہ دوہرا کر روک دیا گیا، جس کے بعد تمام مریضوں میں کمر کا درد بھی بتدریج بڑھنے لگا؛ اور بالآخر 23 ویں روز تک ان کی کیفیت ویسی ہی ہوگئی کہ جیسی علاج شروع ہونے سے پہلے تھی۔

    اس تحقیق کے بارے میں دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یا تو یہ کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہے یا پھر کچھ ایسا نیا دریافت کرلیا گیا ہے جو مستقبل میں کمر کے درد کا منفرد اور مؤثر علاج ثابت ہوگا۔

  • انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت

    بین الاقوامی ماہرین نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جو اب سے 10 سال بعد ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں سب سے بڑا دمدار ستارہ (کومٹ) دریافت ہوا ہے جو 100 سے 200 کلومیٹر وسیع ہے اور یہ سنہ 2031 میں ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزرے گا۔

    یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے پروفیسر گیری برنسٹائن اور ان کے پی ایچ ڈی شاگرد پیڈرو برنارڈینیلائی نے مشترکہ طور پر اسے دریافت کیا ہے اور اسی بنا پر اسے برنسٹائن برنارڈینیلائی دمدار ستارے کا نام دیا گیا ہے۔

    سنہ 2031 میں یہ زمین سے قریب ہوگا جسے دیکھنے کےلیے صرف ایک دوربین درکار ہوگی، حالانکہ جتنے دمدار ستارے ہم دیکھ چکے ہیں یہ ان سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔

    یہ دیو نما دمدار ستارہ نظام شمسی سے باہر لاکھوں کروڑوں برس سے زیرِ گردش ہے اسی لیے یہ زمین سے دریافت ہونے والا بعید ترین دمدارستارہ بھی ہے جس کی قربت پر اسے دیکھتے ہوئے نظام شمسی اور کائنات کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    چلی میں واقع سیرو ٹولولو انٹر امریکن رصد گاہ پر نصب چار میٹر قطر کی دوربین سے اسے دریافت کیا گیا ہے۔ اس دوربین پر ڈارک انرجی کیمرہ بھی نصب ہے۔ اس دوربین سے حاصل شدہ 6 سالہ ڈیٹا کا صبر آزما تجزیہ کرکے یہ دمدار ستارہ دریافت کیا گیا ہے۔

    اس چھ سالہ ڈیٹا کو چھاننے کےلیے یونیورسٹی آف الی نوائے کے سپر کمپیوٹنگ مرکز سے مدد لی گئی، اس دوران ایک ہی فلکیاتی جسم کو 32 مرتبہ دیکھا گیا اور وہ یہی دمدار ستارہ تھا۔

    دمدار ستارے کیا ہوتے ہیں؟

    دمدار ستارے گرد و غبار اور برف کے گولے ہوتے ہیں۔ جب یہ سورج کی سمت سفر کرتے ہیں تو ان کی برف پگھل کر طویل دم کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اسی مناسبت سے انہیں دمدار ستارے کہا جاتا ہے۔

    یہ بھی نظام شمسی کے ساتھ ہی تشکیل پاتے ہیں لیکن بعد میں ان کے انتہائی طویل اور بیضوی مداروں سے یہ نظام شمسی کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔

    دمدار ستارے کا سب سے اہم حصہ مرکزہ یا نیوکلیئس ہوتا ہے جو قدرے ٹھوس برف، گرد و غبار اور گیس وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کی دمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں میل لمبی ہوسکتی ہیں۔

  • دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی گلہری دریافت

    ماہرین نے پہلی بار دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کرلیا ہے، یہ اڑنے والی گلہری ہے اور اسے پہلی بار ہمالیہ کے دامن میں دیکھا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی سائنس دانوں نے ہمالیہ کے دامن میں دنیا کا نایاب ترین ممالیہ جانور دریافت کیا ہے۔ یہ ایک اڑن گلہری ہے جو ایک میٹر سے زیادہ لمبی ہوتی ہے اور اس کا وزن 2.5 کلو ہوتا ہے۔

    سائنس دان اسے تقریباً 130 سالوں سے جانتے ہیں، لیکن پہلے سمجھا جاتا تھا کہ اس کی واحد انتہائی نایاب قسم پاکستان کی دور دراز وادیوں میں ہی رہتی ہے، لیکن اب آسٹریلیا اور چین کے محققین نے اس اڑن گلہری کی دو مزید اقسام کا پتہ چلایا ہے، جن کے بارے میں سائنس کو پہلے علم نہیں تھا۔

    آسٹریلین میوزیم کے اہم سائنس دان پروفیسر کرسٹوفر ہیلگن اور ریسرچ ایسوسی ایٹ اسٹیفن جیکسن کی یہ دریافت پیر کو زولوجیکل جرنل آف لینن سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔

    اون رکھنے والی اس اڑتی گلہری کے عجائب گھر میں موجود نمونوں سے حاصل کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے اور اب تک کی گئی عملی مہمات کا ڈیٹا استعمال کر کے ان کی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ یہ بڑی اور روئیں دار گلہریاں تین علیحدہ مقامات پر مختلف اقسام کی آبادیاں بنا چکی ہیں، جن میں سے دو اقسام بالکل نئی ہیں۔

    انہیں تبت کی اونی اڑن گلہری اور چینی صوبہ یونان کی اونی اڑن گلہری کے نام دیے گئے ہیں۔

    پروفیسر ہیلگن کہتے ہیں کہ یہ دریافت ماہرینِ حیوانات کو نئی سائنس بلکہ نئے ممالیہ جانوروں کی طرف لے جائے گی، یہ دنیا کی سب سے بڑی گلہریاں ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کو سنہ 2021 میں سائنسی نام دیا جا رہا ہے۔

    نرم رواں رکھنے والی گلہریوں کی یہ نئی اقسام جینیاتی اور جسمانی اعتبار سے دوسری گلہریوں سے کافی مختلف ہیں۔ پھر یہ دنیا کی چھت پر رہتی ہیں یعنی ہمالیہ کے دامن اور تبت کی سطح مرتفع پر۔

    ڈاکٹر جیکسن کے مطابق یہ گلہریاں 4 ہزار 800 میٹرز کی بلندی پر رہتی ہیں، یہ ماؤنٹ ایورسٹ کی آدھی بلندی بنتی ہے، جہاں زیادہ تر علاقہ انسانی آبادی سے خالی ہے اور بہت کم جانور یہاں آباد ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک میٹر لمبی ریشمی رواں رکھنے والی یہ گلہری دنیا میں سب سے بڑی ہے۔ یہ رات کو جاگنے والا جانور ہے اور اس کی لومڑی جیسی لمبی دم ہے۔

    چین میں ان اونی اڑن گلہریوں کی آبادی کے حوالے سے شبہات تو پہلے سے موجود تھے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ مشرقی ہمالیہ کے خطے میں جو یونانی اونی اڑن گلہری دریافت ہوئی ہے، وہ عالمی حیاتی تنوع کے تین مقامات کا سنگم ہے، ہمالیہ، جنوب مغربی چین کے پہاڑ اور ہند برما۔

    دوسری نئی قسم، تبتی اونی اڑن گلہری، جنوبی سطح مرتفع تبت میں پائی جاتی ہے جو چین کے علاقے تبت اور بھارتی ریاست سکم کے درمیان ہے۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ تبتی اونی اڑن گلہری اب بھی چین، بھارت اور بھوٹان کے اونچے مقامات پر ہوگی۔ اس گلہری کی تینوں اقسام ان مقامات سے اوپر ہی رہتی ہیں جہاں درخت اگ سکتے ہیں یعنی 24 سو میٹر سے اوپر۔

    ڈاکٹر جیکسن نے کہا کہ ابھی بہت سی معلومات موجود نہیں ہیں، لیکن دانت بہت ہی خاص ہوتے ہیں اور یہ صنوبر کے باریک پتوں سے خوراک حاصل کرتی ہیں، جو ایک غیر معمولی خوراک ہے۔

    یہ دور دراز علاقوں میں رہتی ہیں اور ان کی تمام ہی اقسام شکار، اپنے قدرتی مساکن سے محروم ہونے اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے مسائل سے دو چار ہیں۔

  • کویت میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    کویت میں تیل کے نئے ذخائر دریافت

    کویت سٹی: کویت کے وزیر تیل و بجلی نے تیل کی نئی فیلڈز دریافت ہونے کا اعلان کیا ہے، اس کے ساتھ پرانی آئل فیلڈز میں بھی توسیع کا اعلان کیا ہے۔

    کویتی میڈیا کے مطابق وزیر تیل و بجلی اور پانی ڈاکٹر محمد الفارس نے کویت آئل کمپنی کے ذریعے ملک کے مختلف خطوں کی جراسک لیرز میں تیل کی 2 نئی فیلڈز کی دریافت کے انکشافات کے علاوہ فیلڈ کی ترقیاتی کارروائیوں کے حصے کے طور پر بڑی برقان فیلڈ کے شمالی حصے میں توسیع کا بھی اعلان کیا ہے۔

    وزیر کا کہنا تھا کہ پہلی دریافت حومہ فیلڈ میں کی گئی جو کویت کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے جس پر حال ہی میں ایک تھری ڈائمینشنل تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سروے کیا گیا تھا۔

    ڈرلنگ کے بعد پتہ چلا کہ اس فیلڈ کا رقبہ 70 مربع کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کی پیداواری صلاحیت روزانہ 14 سو 52 بیرل ہلکے تیل کی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس دریافت کو بہت معاشی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس نے کویت کے مغربی اور شمال مغربی حصوں میں واقع ان بڑے علاقوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو کویت آئل کمپنی کے 2 ہزار 40 اسٹریٹجک منصوبے کے مطابق تیل کے ذخائر اور پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں براہ راست حصہ ڈالتے ہیں۔

    کویتی وزیر کے مطابق 2 نئی دریافتوں سے ملک کے شمالی حصے میں اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی ہے کیونکہ ان علاقوں کی دریافت پہلے نہیں کی گئی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ بڑی برقان فیلڈ کے شمال وراہ، مودود اور برقان کے ذخیروں میں بھی روایتی تیل دریافت کیا گیا ہے کیونکہ اس فیلڈ کی یومیہ حد کا تعین کرنے کے لیے گزشتہ برس 2020 میں کھودے گئے کئی کنوؤں سے تیل تجارتی مقدار میں بہہ رہا تھا، اس کی 2000 بیرل سے زائد کی پیداواری شرح تھی جو کہ مزید ذخائر شامل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

    وزیر کا کہنا تھا کہ نتائج کویت آئل کمپنی کو آسان اور کم لاگت کے ذخائر تک رسائی فراہم کرتے ہیں جو ممالک اور تیل کمپنیوں کے مابین اپنے مسابقتی فائدے کو برقرار رکھنے کے لیے کمپنی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیداوار کی مقدار میں اضافہ کرنے کے لیے کمپنی دریافت شدہ فیلڈ میں نئے کنویں کھودے گی۔

    الفارس نے سال 2020 میں کویت آئل کمپنی کی ان تینوں دریافتوں کے حصول میں کامیابی کی تعریف کی، انہوں نے کویت کے ایک روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے کویت آئل کمپنی کی تلاش اور ترقیاتی کاموں میں لچک اور واضح عزم کو نوٹ کرتے ہوئے تاریک ترین حالات میں تیل کے شعبے کی صلاحیت پر بھی زور دیا۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم دریافت

    کرونا وائرس کی نئی قسم دریافت

    سنگاپور: سنگاپور میں محققین نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو معمولی انفیکشن کا سبب بنتی ہے۔

    دی لانسیٹ میڈیکل جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم سے متاثرہ مریضوں کے بہتر طبی نتائج برآمد ہوئے ہیں،ان مریضوں میں آکسیجن کی کمی اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت نسبتاََ کم پائی گئی ہے۔

    سنگاپور میں کرونا کی نئی قسم سے متعلق تحقیق میں میں این سی آئی ڈی، ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول سمیت مختلف اداروں کے محققین شامل تھے۔

    نئی تحقیق کے حوالے سے ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول کے گیون اسمتھ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس میں جنیاتی تبدیلی نے مریضوں میں بیماری کی شدت کو کم کیا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق میں سامنے آنے والے نتائج سے ویکسین بنانے اور کرونا سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے میں مدد ملے گی۔

    نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے سینیئر ڈاکٹر اور بین الاقوامی سوسائٹی برائے متعدد امراض کے صدر پال ٹیمبیا کا غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وائرس کا زیادہ متعدی لیکن کم جان لیوا ہونا اچھی بات ہے۔

    ڈاکٹر ٹیمبیا کا کہنا تھا کہ یہ وائرس کے حق میں ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے لیکن انہیں مارے نہیں کیونکہ وائرس کا کھانے اور رہائش کے لیے انحصار اپنے میزبان یا متاثرہ جسم پر ہوتا ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والا کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا، سنگار پور میں وائرس پر قابو پانے سے پہلے ہی یہ ایک شخص سے دوسرے شخص کے ذریعے پھیل گیا تھا۔