Tag: دریافت

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے جہاں پر لوہے کے قطروں کی بارش ہوتی ہے اور اس کا درجہ حرارت4 ہزار 400 فارن ہائیٹ ہے۔

    حال ہی میں دریافت کیا گیا یہ سیارہ زمین سے 640 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کا نام واسپ ۔ 76 بی رکھا گیا ہے۔

    اس سیارے کو سوئٹزرلینڈ کی جنیوا یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے جنہوں نے چلی میں نصب یورپی سدرن اوبزرویٹری کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس کا مشاہدہ کیا۔

    جنیوا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کے مطابق دن میں اس سیارے کا درجہ حرارت 4 ہزار 400 فارن ہائیٹ (2 ہزار 426 سینٹی گریڈ) رہتا ہے جبکہ شام کے وقت یہاں بارش ہونے لگتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ بارش دھاتی ہوتی ہے۔

    تصوراتی خاکہ

    سیارہ دن اور رات میں انتہائی موسموں کا حامل ہے۔ یہ سیارہ اس رخ پر گردش کرتا رہتا ہے کہ اس کا ایک حصہ مستقل طور پر اپنے سورج کے سامنے رہتا ہے  نتیجتاً اس حصے پر قیامت خیز گرمی ہوتی ہے جو دھاتوں کو پگھلا دیتی ہے۔

    اس کے بعد ان پگھلی ہوئی دھاتوں کے قطرے اڑ کر سیارے کے دیگر نسبتاً ٹھنڈے حصوں پر گرتے ہیں۔

    دن کے وقت دھاتوں کے بخارات کی طرح اڑ جانے کے بعد شام کے وقت گرمی کم ہونے پر ان کے بادل بن جاتے ہیں اور پھر اس میں سے دھاتوں کے قطروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔

    یہاں چلنے والی ہوا کی رفتار 11 ہزار 784 میل فی گھنٹہ ہے۔ رات کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 18 سو فارن ہائیٹ (982 سینٹی گریڈ) ہوجاتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہاں دن اور رات کا صرف موسم ہی الگ نہیں بلکہ کیمسٹری بھی الگ ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے سیاروں کی دریافت سے ہمیں اپنی کائنات میں پائے جانے والے مختلف موسموں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

  • نایاب نسل کا بوڑھا کچھوا دریافت، عمر جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں!

    نایاب نسل کا بوڑھا کچھوا دریافت، عمر جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں!

    واشنگٹن: امریکی ریاست فلوریڈا کے جزیرے سے نایاب نسل کا 100 سالہ بوڑھا کچھوا دریافت ہوا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شہر فرنندینا میں جزیرے پر سوسال کا مادہ معمر کچھوا دیکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے مذکوہ نسل کے کچھوے ناپید ہوچکے ہیں جن کی چند ہی تعداد باقی ہے ایسے میں اس کچھوے کو حاصل کرنا ایک بڑی کامیابی ہے۔

    حیاتیات سے متعلق قائم کے گئے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اس خبر کی تصدیق کرنا قبل از وقت ہوگا جب تک معاملے کی تحقیق نہ کی جائے۔ دریافت ہونے والے نایاب نسل کے کچھوے کا سر غلابی رنگ کا ہے۔

    ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ جہاں ایک جانب جنگی اور نایاب جانور ناپید ہورہے ہیں ایسے میں مذکورہ دریافت جانوروں کے زندہ رہنے کے لیے ایک امید کی کرن ہے، یہ اس جزیرے پر حاصل کی گئی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

    چین میں نایاب نسل کے آخری مادہ کچھوے کی پراسرار موت

    انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث کئی جانور مررہے ہیں لیکن اب بھی ایسے طویل عمر پانے والے کچھوے موجود ہیں جو حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ ہیں۔

    خیال رہے کہ کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔

  • انسانی ہاتھوں سے بنا ’دنیا کا قدیم ترین‘ کنواں دریافت

    انسانی ہاتھوں سے بنا ’دنیا کا قدیم ترین‘ کنواں دریافت

    پراگ: یورپی ملک چیک ری پبلک میں 7 ہزار برس قدیم لکڑی سے بنا کنواں دریافت ہوا ہے جسے تاریخ کا قدیم ترین انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا کنواں قرار دیا جارہا ہے۔

    چیک ری پبلک میں دریافت ہونے والا یہ کنواں لکڑی سے تعمیر شدہ ہے اور اسے انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی لکڑی کی قدیم ترین تعمیر قرار دیا جارہا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق یہ 5 ہزار 255 قبل مسیح میں بنایا گیا یعنی اس کی عمر 7 ہزار 275 سال ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اس دور کی ایک غیر معمولی شے ہے کیونکہ اس وقت لوگ تعمیرات میں جدت پسند نہیں ہوئے تھے۔

    اس دور میں لوگ سادے مکان بناتے تھے جبکہ وہ چکنی مٹی سے مختلف اشیا بنانے کے ماہر تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس دور اور اس علاقے کی اپنی نوعیت کی واحد دریافت ہے۔

    کنویں کے یہ آثار سنہ 2018 میں ایک موٹر وے کی تعمیر کے دوران سامنے آئے تھے، یہ زمین سے 5 فٹ گہرائی میں واقع تھے۔ بعد ازاں اس پر تحقیقی کام مکمل کر کے اب جاری کیا گیا۔

  • ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ دریافت

    ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ دریافت

    مصر کے معروف مجسمے ابو الہول سے ملتا جلتا ایک اور مجسمہ برآمد ہوا ہے، یہ مجسمہ کوم اللولی کے مقام پر ملا ہے۔

    آثار قدیمہ کے مصری کمیشن کے مطابق ایک تاریخی مقام سے ابو الہول کی شکل سے مشابہہ شاہی مجسمہ برآمد ہوا ہے۔ وسطی مصر میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل جمال السمسطاوی کا کہنا ہے، ’ملنے والا مجسمہ گرینائڈ کا ہے۔ اسٹینڈ کے ساتھ اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور عرض 55 سینٹی میٹر کا ہے‘۔

    ان کے مطابق مجسمے کے چہرے کے نقوش واضح ہیں۔

    مصری آثار قدیمہ کے ماہرین کو اسی مقام سے مختلف شکل اور سائز کے مٹی کے برتن، سنگ مرمر کا ایک پیالہ اور معبود ’بس‘ سے متعلق کئی اشیا بھی ملی ہیں۔

    مذکورہ علاقے میں کھدائی اور تلاش کا مزید کام جاری ہے، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ علاقہ مزید نوادرات سے مالا مال ہوگا۔

    مصری ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ 3 برسوں کے دوران توانا الجبل کے علاقے میں ممیز کی وادی بھی دریافت ہوئی ہے۔

    یہاں کئی قبرستان اور میتیں دفن کرنے کے لیے کنویں بھی ملے ہیں، ان میں سنگی اور لکڑی کے تابوت رکھے ہوئے تھے۔ تابوتوں میں ممیز محفوظ حالت میں موجود ہیں۔

    خیال رہے کہ مصر کے آثار قدیمہ میں ابو الہول کا مجسمہ بہت مشہور اور قدیم ہے۔

    ابو الہول کا مجسمہ

    ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، خوف کا باپ۔ اس مجسمے کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔

  • مصر میں تین ہزار سال پرانے تابوت دریافت

    مصر میں تین ہزار سال پرانے تابوت دریافت

    قاہرہ: دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کی جانے والی مصری تہذیب سے ماہرین نے کم سے کم 100 سال بعد پہلی بار بہت بڑی تعداد میں انتہائی اچھی حالت میں 3 ہزار سال پرانے تابوت دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مصری ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کے کنارے واقع شہر اقصر کے قریب الاساسیف نامی علاقے سے 3 ہزار سال پرانے مرد، خواتین وبچوں کے تابوت اصل حالت میں دریافت کیے گئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مصری آثار قدیمہ نے چند دن قبل 30 تابوتوں کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن سے متعلق حکام نے 20 اکتوبر کو تفصیلات جاری کیں۔

    مصری وزارت آثار قدیمہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق دریافت کیے گئے 30 تابوت قدیم مصری تہذیب کے مذہبی پادریوں کے خاندان کے افراد کے ہیں۔

    آثار قدیمہ کے وزیر خالد العنانی کے مطابق دریافت کیے گئے تابوتوں کو دریائے نیل کے کنارے واقع شہر کے اس علاقے سے دریافت کیا گیا جہاں سے ماضی میں بھی قدیم تہذیب کے تابوت اور دیگر چیزیں دریافت ہوتی رہی ہیں۔

    تابوت میں 30 گھنٹے گزاریں، 600 ڈالر انعام پائیں

    دریافت کیے گئے تابوت مٹی میں دفن تھے اور ماہرین نے محض 3 سے 4 فٹ کی کھدائی کے بعد انہیں دریافت کیا۔ وزارت آثار قدیمہ کی جانب سے دریافت کیے گئے تابوتوں کی ٹوئٹر پر جاری کی گئی تصاویر دیکھ کر اندازا ہوتا ہے کہ تابوت انتہائی اچھی حالت میں ہے۔

    مصری حکام کے مطابق دریافت کیے جانے والے تابوتوں میں مرد و خواتین سمیت بچوں کے تابوت بھی شامل ہیں اور ان تابوتوں پر قدیم مصری تہذیب کی نقش نگاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔

    مصر میں گزشتہ 100 سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تابوت دریافت ہوئے ہیں، اس سے قبل 19 ویں صدی میں مصر سے تابوت دریافت ہوئے تھے۔

    بیسویں صدی میں مصر میں اتنی بڑی تعداد میں تابوت دریافت نہیں ہوئے، تاہم گزشتہ صدی میں تاریخی مقبرے، مجسمے، شہر اور کھنڈرات دریافت کیے گئے۔ مصری حکام کے مطابق دریافت کیے گئے 30 تابوتوں کو ا?ئندہ سال کے ا?غاز تک قدیم مصری تہذیب کے بنائے گئے عجائب گھر منتقل کیا جائے گا۔

  • ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ماہرین نے ڈائنوسار کے زمانے میں موجود سب سے بڑے پرندے کی رکازیات دریافت کرلیں، یہ پرندہ ایک ہوائی جہاز جتنا ہے۔

    یہ پٹیرو سارس (ڈائنو سار کے زمانے کے وہ رینگنے والے جانوار جو اڑ سکتے تھے) کی نئی قسم ہے جو اب سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی۔

    اس سے قبل ’کوئٹزالکوٹلس‘ کو اب تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا پرندہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اب اس نئی دریافت نے ماہرین کو حیران کردیا ہے۔

    کرائیو ڈریکن بوریس نامی یہ پرندہ آج کے ہوائی جہاز جتنی جسامت رکھتا ہے، اس کے پروں کا پھیلاؤ 10 میٹر تھا جبکہ اس کا وزن ڈھائی سو کلو تھا۔

    7 کروڑ 70 لاکھ سال قبل فضاؤں میں اڑنے والا یہ پرندہ گوشت خور تھا اور یہ چھپکلیاں، چھوٹے ممالیہ جانور حتیٰ کہ ڈائنو سار کے بچے بھی کھا لیتا تھا۔

    اس پرندے کی دریافت 30 سال قبل البرٹا کینیڈا میں ہوئی تھی تاہم اس وقت اس کی درجہ بندی غلط کی گئی تھی۔ اب اس کی بغور جانچ کے بعد علم ہوسکا ہے کہ یہ قدیم پرندوں کی نئی قسم ہے جو آج سے قبل سامنے نہیں آئی۔

    لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق پرندہ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے اس قابل تھا کہ وہ سمندر پار دور دراز علاقوں میں بھی جاسکتا تھا، تاہم اس نے مخصوص جگہوں کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔

    ماہرین نے اس دریافت کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے دوسرے جانوروں کی دریافت بھی سامنے آسکتی ہے۔

  • پیرو میں دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائے گئے 227 بچوں کی قدیم قبریں دریافت

    پیرو میں دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائے گئے 227 بچوں کی قدیم قبریں دریافت

    لیما:جنوبی امریکی ملک پیرو میں چیموز دیوتاؤں کے لیے بھینٹ چڑھائے جانے والے بچوں کی قدیم اجتماعی قبریں دریافت ہوگئیں، رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ قبریں کم از کم 500 سال پرانی ہیں جن میں سے 227 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم امریکا کے جنوب میں واقع ملک پیرو کے دارالحکومت لیما کے ساحلی علاقے ہونیچوکو میں 227 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی عمریں 5 سے 14 برس تھیں،آثار قدیمہ ماہرین کے مطابق دریافت کی گئی قبریں کم از کم 500 سال پرانی ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس پیرو کے دو مختلف مقامات پر مجموعی طور پر 200 بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں،ماہرین نے بتایا تھا کہ جب کھدائی کی گئی تو بعض بچوں کی لاشوں کے بال اور کھال موجود تھی۔

    اس حوالے سے ماہرینِ آثار قدیمہ نے بتایا کہ بچوں کو برسات کے موسم میں قتل کیا گیا اور دفن کرتے وقت ان کے چہرے سمندر کی جانب موڑ دیے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کو چیموز کے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھینٹ چڑھایا گیا تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان بچوں کو کس سال قتل کیا گیا۔

    واضح رہے کہ چیموز کے باشندے پیرو کے شمالی ساحلی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور خطے کی انتہائی طاقتور ثقافت کے حامل ہیں۔

    اس حوالے سے بتایا گیا کہ چیموز باشندوں نے 1200 سے 1400 کے درمیانی عرصے میں مقبولیت حاصل کی اور انکائی باشندوں پر قبضہ کرلیا جس کے بعد اسپین نے حملہ کرکے خطے کو فتح کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چیموز چاند کو خدا مانتے تھے اور اسے شی پکارتے تھے جبکہ انکائی کے باشندے سورج کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھےعلاوہ ازیں ماہر آثار قدیم کے مطابق کھدائی کا عمل جاری ہے تاہم مزید قبریں دریافت ہوسکتی ہیں۔

  • انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں کچھ روز قبل انسانی قد کے نصف ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی تھیں، اب وہیں سے ایک ایسے پینگوئن کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جو انسان جتنا قد رکھتا تھا۔

    شمالی کنٹربری میں واقع ایک مقام سے دریافت ہونے والی ان باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قدیم پینگوئن کی قامت 1.6 میٹر یعنی 5 فٹ 3 انچ تھی جبکہ اس کا وزن 80 کلو گرام تک ہوتا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ پینگوئن ساڑھے 6 کروڑ سے ساڑھے 5 کروڑ سال قبل کے درمیانی عرصے میں زمین پر موجود تھے۔

    اس پرندے کو مونسٹر پینگوئن کا نام دیا گیا ہے اور اسے نیوزی لینڈ کے معدوم ہوجانے والے قوی الجثہ جانداروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس میں پہلے سے ہی طوطے، عقاب، چمگادڑ اور کچھ اقسام کے پودے
    شامل ہیں۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن اب تک معلوم تمام پینگوئن کی اقسام میں سب سے بڑے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق قدیم زمانوں میں پینگوئن کی جسامت عموماً بڑی ہوا کرتی تھی، موجودہ پینگوئن میں سب سے طویل القامت کنگ پینگوئن ہوتا ہے جس کی قامت 1.2 میٹر ہوتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بڑے پینگوئن کیوں معدوم ہوئے، شاید آبی جانوروں کی تعداد میں اضافے سے ان کے لیے مسابقت بڑھ گئی تھی۔

    اس وقت جائنٹ کچھوے اور شارکس وغیرہ کا بھی ارتقا ہونا شروع ہوگیا تھا۔

    مونسٹر پینگوئن کی یہ باقیات گزشتہ سال دریافت کی گئی تھیں اور اس کی جانچ کی جارہی تھی۔

    یاد رہے کہ بڑھتے ہوئے موسمی تغیرات کے باعث پینگوئن کی نسل کو معدومی کے خطرات لاحق ہیں، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی ہیں جس کا قد انسانی قد کے نصف ہے، طوطوں میں یہ سب سے طویل القامت طوطا خیال کیا جارہا ہے۔

    بائیولوجی لیٹرز نامی رسالے میں حال ہی میں شائع کیے جانے والے تحقیقی مقالے کے مطابق نو دریافت شدہ طوطے کی قامت کا اندازہ اس کے پنجوں کی ہڈیوں سے لگایا گیا۔ طوطے کا قد تقریباً ایک میٹر یعنی 37 انچ ہے۔

    اس کا وزن 7 کلو گرام یعنی 15.5 پاؤنڈز ہے اور دیگر پرندوں کے برعکس یہ ممکنہ طور پر گوشت خور تھا۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ اڑتا بھی ہو مگر ہم فی الحال اس نظریے پر مزید تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ اڑتا نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    اس طوطے کی باقیات کو سنہ 2008 میں پہلی بار دریافت کیا گیا تھا تاہم اس وقت اس کے بارے میں زیادہ تحقیقات نہیں کی گئیں۔ پروفیسر اسکو فیلڈ کے مطابق ہمارے خیال میں یہ کسی عقاب کی باقیات ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ طوطا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے اس طوطے کی قامت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام ہرکولیس ان ایکسپیکٹیٹس رکھا ہے۔

    طوطے کی باقیات نیوزی لینڈ کے جنوبی حصے میں سینٹ باتھنز کے علاقے سے دریافت ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ رکازیات کے حوالے سے خاصا زرخیز ہے اور یہاں سے ملنے والی باقیات لگ بھگ ڈھائی کروڑ سال سے لے کر 50 لاکھ سال تک قدیم ہیں۔

    پروفیسر اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس علاقے میں گزشتہ 20 سال سے کھدائیاں کر رہے ہیں اور اب تک کافی غیر متوقع دریافتیں کی جاچکی ہیں جبکہ امکان ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی ہی انوکھی دریافتیں سامنے آئیں گی۔

    گزشتہ برس اس علاقے سے ایک طویل القامت چمگاڈر کی باقیات بھی دریافت کی گئی تھیں، یہ چمگاڈر جسامت میں جدید چمگاڈر سے 3 گنا بڑی تھی اور اس کا وزن 40 گرام تھا۔