Tag: دریافت

  • زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے ہمارے نظام شمسی سے باہر زمین کے جیسی جسامت رکھنے والے 10 نئے سیارے دریافت کرلیے ہیں جن پر ممکنہ طور پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 10 سیارے اپنے اپنے سورجوں کے گرد اتنے ہی فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جتنے فاصلے پر ہماری زمین اپنے سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ ان سیاروں کو زندگی کے لیے قابل سیارہ بنا دیتا ہے۔

    ناسا کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ان سیاروں کی زمین پتھریلی ہے اور وہاں پانی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    یہ دریافت ناسا کی دوربین کیپلر کی بدولت عمل میں آئی جو اپنے مشن کے دوران کل 4 ہزار سے زائد سیارے دریافت کر چکی ہے۔ ان سیاروں کی تصدیق کیپلر کے علاوہ دوسری ٹیلی اسکوپس نے بھی کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کیپلر سے کی جانے والی تحقیق شاید اس سوال کا جواب دے سکے کہ ہماری کائنات میں زمین جیسے کتنے سیارے موجود ہیں؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل بھی ایک ایسا سیارہ دریافت کیا گیا تھا جو سورج سے بھی دو گنا زیادہ گرم ہے۔

    مزید پڑھیں: سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    یہ سیارہ جسامت میں ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری سے بھی بڑا تھا اور ماہرین کے مطابق اس کی فضا کا درجہ حرارت 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔

    اس سے چند ماہ قبل سائنس دانوں نے ہماری کائنات میں ایک نیا نظام شمسی بھی دریافت کیا تھا جس میں 7 سیارے ایک ستارے کے گرد محو گردش تھے۔

    ٹریپسٹ 1 نامی یہ نظام زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور ماہرین کے مطابق یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سائنس دانوں نے ہمارے نظام شمسی سے دور ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے بھی دوگنازیادہ گرم ہے۔

    زمین سے 650 نوری سال کے فاصلے پر واقع یہ سیارہ کیلٹ 9 سیارہ مشتری سے دگنی جسامت کا ہے جو اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کی گردش اپنے سورج کے گرد اس قدر تیز ہے کہ یہ ایک چکر صرف 2 دن میں مکمل کرلیتا ہے گویا یہاں کا ایک سال ہماری زمین کے 2 دن جتنا ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے میں دن کے اوقات میں درجہ حرات 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی عمر صرف 30 کروڑ سال ہے اور یہ جسامت میں ہمارے سورج سے بھی دوگنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سیارہ اپنے ستارے سے تقریباً جڑا ہوا ہے یعنی اس کا ایک ہی رخ عام طور پر اپنے سورج کی طرف رہتا ہے۔

    سیارے کی اپنی حرارت اور پھر اپنے سورج سے اس قدر قریب ہونے کے باعث سیارہ آہستہ ختم ہورہا ہے کیونکہ اس کا سورج بے تحاشہ تابکار شعاعیں خارج کر رہا ہے۔

    چونکہ سیارے کی فضا میں موجود گیس تابکاری سے پھٹ پھٹ کر خلا میں گم ہوتی جا رہی ہے لہٰذا بہت جلد یہ سیارہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

    سیارے کی موجودگی حیرت انگیز

    کیلٹ 9 سیارے کو سنہ 2014 میں دریافت کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی موجودگی اور ساخت اس قدر حیران کن تھی کہ سائنسدان اسے اپنی آنکھوں کا دھوکہ سمجھتے رہے اور مکمل تصدیق کے لیے انہیں 3 سال کا عرصہ لگا۔

    سائنسدانوں نے 3 سال تک اس سیارے کے بارے میں تحقیق کی اور ان کا کہنا ہے کہ اب یہ سیارہ اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گھر کے گیراج سے 140 سال قبل مدفون لاش برآمد

    گھر کے گیراج سے 140 سال قبل مدفون لاش برآمد

    امریکی شہر سان فرانسسکو کے علاقے سانتا کروز میں ایک گھر کے گیراج سے تعمیراتی کام کے دوران ایک 2 سالہ بچی کی لاش برآمد ہوئی جسے 140 سال قبل نہایت مہارت سے محفوظ کیا گیا تھا۔

    یہ لاش گزشتہ برس مئی میں برآمد کی گئی تھی تاہم اب اس پر طویل تحقیق اور سائنسی تجزیوں کے بعد ماہرین نے معلوم کرلیا کہ یہ لاش 2 سالہ ایڈتھ ہاورڈ کک کی ہے جو 13 اکتوبر سنہ 1876 میں وفات پا گئی تھی۔

    body-2

    اس لاش کو شناخت کرنے کے لیے ماہرین کی ٹیم نے 30 ہزار تدفینوں اور اموات کا ریکارڈ چیک کیا۔

    ماہرین نے شناخت کے لیے کئی افراد کے ڈی این اے کا ٹیسٹ بھی کیا جن کا ممکنہ طور پر اس لاش سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔

    بالآخر ماہرین اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور ایک  82 سالہ پیٹر کک نامی شخص کا ڈی این اے لاش کے ڈی این اے سے میچ کرگیا۔ پیٹر اس بچی کا پردادا تھا۔

    طویل تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جس مقام سے بچی کی لاش دریافت ہوئی، وہ مقام سنہ 1800 میں ایک قبرستان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

    body-1

    ایڈتھ کو بھی 140 سال قبل اس کی موت کے بعد یہیں پر اس جگہ دفن کیا گیا تھا جہاں اس کے خاندان کے دیگر افراد بھی دفن تھے۔

    تاہم سنہ 1900 کے اوائل میں ان تمام مدفون اجسام کو یہاں سے نکال کر دوسرے قبرستان میں منتقل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    ایڈتھ کی لاش ایک ہوا بند دھاتی تابوت میں رکھی گئی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کم سن بچی کی دوبارہ سے آخری رسومات ادا کی جائیں گی اور اسے پھر سے دفن کر دیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    برطانیہ کے علاقے اسٹیفورڈ شائر سے عہد آہن یعنی آئرن ایج کے زمانے کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت کر لیے گئے۔

    یہ دریافت دو ماہرین آثار قدیمہ مارک ہیمبلٹن اور جو کانیا نے کی۔ گلے کے گلوبند اور ہاتھوں میں پہنے جانے والے کنگن نما ان زیورات کی عمر ممکنہ طور پر ڈھائی ہزار سال قدیم ہے۔

    gold-5

    gold-6

    عہد آہن کے نوادرات پر مشتمل برطانوی میوزیم کی نگران ڈاکٹر فیئرلی کے مطابق یہ زیورات 400 سے 250 سال قبل مسیح میں تیار کیے گئے۔ ان کے مطابق یہ آئرن ایج کے بالکل ابتدائی زمانے میں تیار کیے گئے سونے کے زیورات ہیں۔

    gold-3

    gold-4

    gold-7

    ماہرین کے مطابق یہ برطانیہ میں عہد آہن کی سب سے قدیم دریافت ہے۔ اس دریافت سے برطانیہ میں اس دور کی تاریخ و تمدن کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔

    فی الحال ان زیورات کی مزید جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور بہت جلد اسے میوزیم میں عوام کے لیے پیش کردیا جائے گا۔

  • دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ماہرین فلکیات کی زمین کے جیسے قابل رہائش سیارے کی طویل تلاش رنگ لے آئی اور خلا میں زمین کے جیسے 7 سیارے دریافت کر لیے گئے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ساتوں سیارے لگ بھگ زمین ہی کی جسامت اور ہجم جیسے ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ پتھریلا ہے۔ یہ سیارے ایک ہی ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں، گویا یہ زمین کے نظام شمسی جیسا نیا نظام ہے۔

    discovery-2

    ماہرین نے اس نظام کو ٹریپسٹ 1 نظام کا نام دیا ہے۔ یہ زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔

    دریافت کے متعلق شائع ہونے والے مضمون کے مصنف بیلجیئم یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گلن کا کہنا ہے کہ جس ستارے کے گرد یہ سیارے گھوم رہے ہیں وہ ستارہ کافی چھوٹا (اسے بونا ستارہ کہا جاسکتا ہے) اور سرد ہے، جس کی وجہ سے صرف امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان سیاروں پر پانی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی بھی موجود ہو۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق اگر اس میں اوزون کے آثار ملتے ہیں تو یہ بات ان سیاروں پر زندگی کے آثار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدان اماؤری ٹرائیوڈ نے دریافت سے متعلق کہا کہ ہم نے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کی کھوج لگانے سے متعلق اہم قدم اٹھا لیا ہے۔

    ان کے خیال میں اب مزید کسی سیارے کی دریافت ضروری نہیں ہے، کیونکہ اب صحیح ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیارے دیگر سیاروں کی طرح ناقابل رہائش نکلتے ہیں تو یہ بہت مایوس کن بات ہوگی کہ کائنات میں صرف زمین ہی ایسا سیارہ ہو جو قابل رہائش ہو۔

    ماہر فلکیات کے مطابق ان سیاروں کا مشاہدہ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

  • چار ہزار سال پرانے آلو دریافت

    چار ہزار سال پرانے آلو دریافت

    اوٹاوا: کینیڈا کے ساحلی علاقے سے کھدائی کے دوران قدیم ترین آلو دریافت ہوئے ہیں۔ یہ آلو جن کی رنگت بالکل سیاہ ہوچکی ہے اور اب یہ کھانے کے قابل نہیں رہے، ماہرین کے مطابق 3 ہزار 8 سو سال قدیم ہیں۔

    جرنل سائنس کے تازہ ترین شمارے میں شائع کردہ مضمون کے مطابق یہ آلو ہزاروں سال قبل رہنے والے افراد کی زراعت اور باغبانی کا ثبوت ہیں۔

    potato-2

    ماہرین کے مطابق جس دور میں یہ آلو اگائے گئے اس وقت یہاں کاٹز نامی قدیم قبیلہ آباد تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان آلوؤں کا یہاں سے ملنا ظاہر کرتا ہے کہ اس دور میں یہاں آباد لوگ بحر الکاہل کے پانی سے زراعت اور باغبانی کیا کرتے تھے۔

    ملنے والے آلو جو کسی زمانے میں گہرے رنگ کے بھورے ہوا کرتے تھے، اب بالکل سیاہ ہوچکے ہیں البتہ ان کے اندر موجود نشاستہ یا کاربو ہائیڈریٹس اب بھی برقرار ہے۔

  • یونان میں پہاڑ پر قائم شہر کے کھنڈرات دریافت

    یونان میں پہاڑ پر قائم شہر کے کھنڈرات دریافت

    ایتھنز: یونانی ماہرین نے وسطی یونان میں ایک قدیم شہر دریافت کیا ہے جو کسی زمانے میں ایک پہاڑ پر آباد تھا۔

    سوئیڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی کی ایتھنز میں موجود شاخ کے ماہرین آثار قدیمہ نے وسطی یونان میں پہاڑ پر ایک قدیم شہر کے کھنڈرات دریافت کیے ہے۔ یہ کھنڈرات دارالحکومت ایتھنز سے 5 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہیں۔

    یہ کھنڈرات یونان کے اسٹرونگ یلو وونی پہاڑ کے اوپر اور اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر مختلف تاریخی ادوار میں قائم رہا۔ ان کے مطابق کسی پہاڑ اور اس کے قریب کسی شہر کا آباد ہونا تاریخ میں ایک غیر معمولی بات ہے۔

    مزید پڑھیں: وادی سندھ کی تہذیب 2,500 سال سے بھی قدیم

    اتفاقیہ ہونے والی اس دریافت (کے پروجیکٹ) کے سربراہ روبن رونلنڈ کا کہنا ہے کہ اس پہاڑی میں بے شمار اسرار چھپے ہوئے ہیں۔ کھنڈرات میں بلند مینار، دیواریں اور شہر کے دروازے شامل ہیں جو پہاڑ کی چوٹی اور اس کے ڈھلانوں پر موجود ہیں اور بہت کم مقامات ایسے ہیں جو براہ راست زمین پر موجود ہوں۔

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق انہوں نے شہر میں سڑکوں کے نشانات کا بھی مشاہدہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑا شہر تھا۔ انہیں وہاں سے قدیم برتن اور سکے بھی ملے ہیں جس سے وہ اس درست وقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب یہ شہر آباد تھا۔

    city-2

    ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شہر حضرت عیسیٰ کی آمد سے 3 یا 4 صدی پرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس شہر کی بربادی کی وجہ یہاں رومنوں کے حملے اور فتوحات ہوں جس نے اس شہر کو ویران کردیا ہو۔

    اس شہر کی دریافت کے بعد ماہرین کو یقین ہے کہ یہ اس دور کی یونانی تاریخ کو مزید سمجھنے میں مدد دے گی۔

  • فلم ہیری پوٹر میں دکھائی جانے والی ٹوپی جیسی مکڑی دریافت

    فلم ہیری پوٹر میں دکھائی جانے والی ٹوپی جیسی مکڑی دریافت

    ممبئی: بھارتی سائنسدانوں نے مکڑی کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو حیرت انگیز طور پر ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر میں دکھائی جانے والی ٹوپی کی شکل جیسی ہے۔ ماہرین نے اس مکڑی کا نام ٹوپی کے مالک گوڈرک گریفنڈر کے نام پر رکھ دیا ہے۔

    اس مکڑی کی دریافت جنوب مغربی بھارت کے پہاڑوں میں کیے جانے والے ایک سروے کے دوران ہوئی۔ سروے میں شامل سائنس دان جاوید احمد نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ جب انہوں نے اس مکڑی کو دیکھا تو ان سمیت تمام لوگ حیرت سے چیخ اٹھے، ’ارے یہ تو بالکل ہیری پوٹر کی ٹوپی جیسی مکڑی ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ یہ حیرت انگیز طور پر اس سے بے حد مشابہہ تھی۔

    harry-potter-2

    جاوید اور ان کی ٹیم نے فیصلہ کیا تھا کہ مکڑی پر تحقیق کے بعد اگر یہ کوئی نئی قسم کی مکڑی ثابت ہوگئی تو وہ اس کا نام فلم میں دکھائے جانے والے ٹوپی کے مالک کے نام پر ہی رکھیں گے۔

    تحقیقی مقالے کی اشاعت کے بعد جاوید احمد نے ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کو بھی ٹوئٹر پر اس بات سے مطلع کیا۔ جے کے رولنگ نے اس پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جاوید اور ان کی ٹیم کو مبارک باد دی۔

    واضح رہے کہ فلم ہیری پوٹر سیریز ایک تخیلاتی جادوئی اسکول کی کہانی ہے جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے۔ سیریز کا ایک اور حصہ ’فنٹاسٹک بیسٹس اینڈ ویئر ٹو فائنڈ دیم‘ حال ہی میں ریلیز کیا گیا ہے جو اس سیریز کا پریکوئل ہے۔

  • امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    میامی: امریکی سائنس دانوں نے ایک نئے دریافت شدہ کیڑے کو امریکی صدر بارک اوباما کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نام سے منسوب کردیا۔

    کیچوے کی شکل کا یہ چپٹا کیڑا ملائیشیا میں پایا گیا اور کچھوؤں میں مختلف اقسام کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ اس کا نام امریکی صدر بارک اوباما کے نام پر کوائنڈ بارکٹریما اوبامئی رکھا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: کئی عشروں بعد نئی اینٹی بائیوٹک دریافت

    یہ دریافت امریکی ریاست انڈیانا کے سینٹ میری کالج میں پروفیسر تھامس پلیٹ کی جانب سے کی گئی۔ وہ ایک طویل عرصہ سے کچھوؤں کی مختلف بیماریوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ کیڑا اپنے میزبان کے جسم پر حملہ آور ہونے تک سخت جدوجہد کرتا ہے جبکہ اسے شکار کے مدافعتی نظام کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    obama

    ان کے مطابق وہ اس سے قبل بھی کئی دریافتوں کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھ چکے ہیں جنہوں نے انہیں متاثر کیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت انسانوں میں پھیلنے والی بیماری سسٹوسومائسس کے علاج کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی جو کچھوؤں اور گھونگے وغیرہ جیسے جانداروں سے تعلق کے باعث ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: انسان کو جرم پر اکسانے والا جین دریافت

    نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق کچھوؤں کی افزائش میں اضافہ کے لیے بھی معاون ثابت ہوگی جنہیں غیر قانونی تجارت اور رہائش گاہوں میں کمی کے باعث معدومی کا خدشہ لاحق ہے۔

    کچھوے کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیئے تفصیلی رپورٹ

  • پاکستانی ماہرین کی ذہنی معذوری پیدا کرنے والے جینز کی دریافت

    پاکستانی ماہرین کی ذہنی معذوری پیدا کرنے والے جینز کی دریافت

    اسلام آباد: پاکستانی طبی محققین نے 30 ایسے جینز کی دریافت کی ہے جو ذہنی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت ذہنی امراض کے علاج میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔

    یہ دریافت شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے 12 پروفیسرز نے نیدر لینڈز اور امریکی ماہرین کے ساتھ مل کر کی ہے۔ یہ تحقیق اور دریافت غیر ملکی سائنسی و طبی جریدوں میں بھی شائع ہوچکی ہے۔

    ماہرین اس تحقیق پر گزشتہ 5 برسوں سے کام کر رہے تھے۔

    szbmu
    ڈاکٹر جاوید اکرم

    تحقیق میں شامل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خاندان میں شادی کے باعث ذہنی معذوری کی شرح دیگر دنیا سے نسبتاً بلند ہے۔ ’خاندانوں میں آپس میں شادیاں مختلف جینیاتی و ذہنی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کا ارادہ ہے کہ حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ شادی سے قبل چند جینیاتی ٹیسٹوں کو ضروری بنائیں اور اس کو قانون کو حصہ بنائیں تاکہ نئی آنے والی نسلوں کو مختلف ذہنی امراض سے بچایا جاسکے اور ان کی پیدائش سے قبل ان امراض کی روک تھام یا ان کا علاج کیا جاسکے۔

    واضح رہے کہ جسمانی و ذہنی معذوری پیدا کرنے والے یہ جین کچھ خاندانوں میں پائے جاتے ہیں اور اگر اس خاندان کے کسی فرد کی شادی ایسے ہی جین رکھنے والے کسی شخص سے کی جائے تو پیدا ہونے والے بچوں میں مخلتف امراض جیسے اندھا پن، بہرا پن اور ذہنی معذوری کا 100 فیصد خطرہ موجود ہوتا ہے۔