Tag: دسترخوان

  • مزے دار کوئلہ دم چکن بنانے ترکیب

    مزے دار کوئلہ دم چکن بنانے ترکیب

    چکن سے بنے لذیذ پکوان رمضان المبارک میں دسترخوان کی زینت بنیں تو افطار ڈنر کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے، آج ہم آپ کو مزے دار کوئلہ دم چکن بنانے کی ترکیب بتا رہے ہیں۔

    اجزا

    چکن: ایک کلو

    دہی: آدھا کلو

    لہسن پیسٹ: ایک چمچ

    ادرک پیسٹ: ایک چمچ

    نمک: حسب ذائقہ

    چکن کے ٹکڑوں کو مندرجہ بالا اجزا میں میرینیڈ کر لیں۔

    دھنیا: بھنا اور کوٹا ہوا

    مزیدار ایرانی کڑاہی بنانے کی ترکیب

    کالی مرچ: کوٹی ہوئی (پسی ہوئی نہیں) ایک چمچ

    سفید تل کا پاؤڈر: ایک چمچ

    زیرہ: بھنا ہوا ایک چمچ

    ساس: صرف خوش بو کے لیے

    کریم: دو چمچ

    ترکیب

    ایک برتن میں چکن کو تھوڑے سے تیل کے ساتھ پکا لیں، یہاں تک کہ چکن کے پیس تھوڑے سے براؤن ہو جائیں۔

    کوئلے کا دم صرف 30 سیکنڈ تک لگائیں، اس سے زیادہ ہوگا تو ذائقہ خراب ہو سکتا ہے۔

    اب ایک پاؤ سے تھوڑا کم دہی لیں، دو ہری مرچوں کے ساتھ اسے بلینڈ کر لیں، پھر اس میں ایک چمچ بھنا اور کوٹا ہوا دھنیا ڈالیں، ایک کھانے کا چمچ کالی مرچ کوٹی ہوئی ڈالیں، ایک ایک چمچ سفید تل کا اور زیرہ کا پاؤڈر ملا لیں، اور اس میں خوش بو کے لیے ذرا سا ساس ملا لیں۔

    اب ان اجزا کو اچھی طرح مکس کر لیں، اور پھر اسے چکن میں ڈال دیں، اور مزید 5 منٹ تک پکا لیں۔

    اب مزے دار کوئلہ دم چکن تیار ہے، آپ اسے روٹی کے ساتھ بھی کھا سکتے ہیں اور چاول کے ساتھ بھی۔

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • وزیراعظم کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کوکھانا فراہم کرنیکی ہدایت

    وزیراعظم کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کوکھانا فراہم کرنیکی ہدایت

    اسلام آباد: شہراقتدارمیں وزیراعظم نوازشریف کی دسترخوان کی بساط بچھاکر دھرنے کے شرکا کوکھانے فراہم کرنے کی ہدایت کردی ۔ سیاست سیاست ہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ آزادی مارچ کی ہو یا دسترخوان کی۔ وزیراعظم نوازشریف نےرات بھر بارش میں بھیگتے پی ٹی آئی دھرنے میں شریک ہم وطنوں کوطعام کی پیشکش کرڈالی جو اپنی اعلٰی قیادت کی بے رخی کا شکار ناشتے سے بھی محروم نظر آئے۔

    شہر اقتدارمیں وزیراعظم کی ہدایت کے بعد ممبر قومی اسمبلی طارق فضل اور اشرف گجرطعام کا بندوبست کرنے میں مصروف ہوگئے۔کھانے میں کیا ہوگا!کیا نہیں ۔اس بات سے ہٹ کر ن لیگ نے مخالف محاذ کو اپنا نے کی کوشش کی ہے۔ میاں صاحب نے ایسے وقت کھانے کی چال چلی جب دھرنے کی اعلیٰ قیادت شرکاء میں موجود نہیں۔

    ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بعض کارکنان کپتان کے ٹیم کو چھوڑکر جانے پر خوش نظر نہیں آتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے بھیجا جانےوالاکھانا کھا یا جائے گا یا ن لیگ دسترخوان کی سیاست پر پی ٹی آئی کارکنان کو اپنا بنالے گی۔