Tag: دسمبر انتقال

  • پروفیسر غفور احمد:‌ مثالی سیاست داں، بامروت اور وضع دار انسان

    پروفیسر غفور احمد پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ گنوانے سے قلم قاصر ہے۔ آج ملکی سیاست میں صادق اور امین، حق گو اور جرأتِ اظہار کے کسی خوگر کا تذکرہ کرنا ہو تو مشکل نظر آتا ہے، لیکن 2012ء تک پروفیسر غفور احمد جیسے مدبّر، قابل اور باصلاحیت سیاست داں ہمارے درمیان موجود تھے۔

    عہد ساز شاعر منیر نیازی بھی 26 دسمبر ہی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے جن کے ایک شعر کا مصرع ہے:

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے…

    پروفیسر غفور احمد بامروت، وضع دار، سراپا عجز و انکسار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے جو سیاست کو توفیقِ خداوندی اور خدمت سمجھتے تھے۔

    کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دنیا میں‌ آنکھ کھولی تو تاریخ 26 ہی تھی اور جب یہاں سے کوچ کیا تو ماہِ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔

    پروفیسر غفور احمد نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی رہے، دو مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے، سینیٹر بنے، 1973 کی آئین ساز کمیٹی کے رکن، 77 میں دوبارہ انتخابات کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ، وفاقی وزیر بھی رہے اور چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کے استاد بھی تھے۔ 1950ء سے 1956ء تک وہ اردو کالج میں کامرس اور معاشیات کے استاد رہے۔ سندھ یونیورسٹی کی سلیبس کمیٹی، سندھ یونیورسٹی بورڈ برائے کامرس اور کراچی یونیورسٹی سلیبس بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اپنی ایک مل کی ملازمت کے دوران لیبر یونین سے وابستگی کے دور میں مزدوروں کی بہبود کے لیے بڑا کام کیا جس کی پاداش میں مالکان نے انھیں ملازمت سے بر طرف کر دیا۔

    1950 میں جماعتِ اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور تاحیات یہ وابستگی برقرار رہی۔ 1958 میں انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے۔ بعد میں کراچی تنظیم کے امیر منتخب اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے۔ ایوب خان کے دور میں‌ گرفتار کیے گئے اور 9 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیرِ صنعت بن کر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمان داری کے ساتھ نبھائیں۔

    وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پُر آشوب دور میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ 1973 کا آئین تشکیل دینے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور مخالفین کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں‌ کام یاب رہے۔

    غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن ہمیشہ صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی ایک مثال بنی۔

  • دادا امیر حیدر خان: ایک انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما کا تذکرہ

    آج عظیم انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما دادا امیر حیدر خان کا یومِ‌ وفات ہے جو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے اور اس پلیٹ فارم سے انقلابی جدوجہد کرنے کی پاداش میں‌ کئی بار گرفتار ہوئے اور طرح طرح‌ کی صعوبتیں کیں۔ دادا امیر حیدر خان 26 دسمبر 1989ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    2 مارچ 1900ء کو ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے دادا امیر حیدر خان کا بچپن اور نوجوانی کے ایّام بڑی محرومیوں اور تنگی دیکھتے ہوئےگزرے جس نے انھیں‌ معاشرے کا باغی اور نظریات کا کھرا بنا دیا تھا۔ وہ نہایت کم عمری میں تلاش معاش میں گھر سے نکلے تھے اور 1914ء میں بمبئی میں برٹش مرچنٹ نیوی میں ملازم ہوگئے۔ بعد میں ان کی ملاقات غدر پارٹی کے جلا وطن راہ نمائوں سے ہوئی جس نے دادا امیر حیدر خان کو کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ بعد ازاں سوویت یونین چلے گئے جہاں ان کی فکر اور نظریات پختہ ہوئے۔

    مرزا حامد بیگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں‌ اس عظیم انقلابی لیڈر نے اپنے بارے میں‌ بتایا تھا، ہمارا تعلق پلندری تحصیل پونچھ، کشمیر سے ہے، ہمارے آبا و اجداد موسمِ گرما میں امرائے وقت کے گھروں میں چھت سے ٹنگے جھالر دار پنکھے کھینچا کرتے اور سُدھن کہلاتے تھے۔ تین مارچ 1900ء کو میرا جنم ہوا۔ میں ابھی پانچ برس کا تھا کہ والد صاحب فوت ہوگئے۔ ایک بہن اور ہم تین بھائی بے یار و مددگار۔ میری ماں کے ساتھ میرے سوتیلے چچا کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔

    وہ بتاتے ہیں، ایک روز کسی غلطی پر ماں نے بھی مارا تو میرا دل ٹوٹ گیا اور میں بغیر شلوار پہنے، ایک لمبے کرتے میں پشاور بھاگ گیا۔ مجھے خچر بس سروس، پشاور میں مزدوری کا کام مل گیا۔ پشاور سے کئی روز بعد گھر پلٹا تو ماں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ سوتیلے چچا نے مجھے مولوی محمد جی کے پاس الف لام میم پڑھنے پر لگا دیا۔ لیکن شاید مجھے مزید ٹھوکریں کھانا تھیں۔ ہمارے گھر سے گورنمنٹ پرائمری اسکول بیول، تحصیل گوجر خان آٹھ میل دور تھا۔ چچا نے سوچا وہاں ٹھیک رہے گا۔ سو مجھے بیول بھیج دیا گیا۔ وہاں، اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے مدرسین کے گھوڑوں کو پانی پلانے اور اسکول کی جھاڑو دینے کا کام سونپا۔ لیکن اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا۔ وہ یوں کہ اس کام کے بدلے مجھے کھانے کو روٹی اور سونے کو ہیڈ ماسٹر کے گھر کے ڈیوڑھی بھی میسر آگئی۔ جس میں مال مویشی بھی بندھے ہوتے۔ ایسے میں، میں خود حیران ہوں کہ تین جماعتیں کیوں کر پاس کر گیا۔

    ایک مرتبہ وہ حالات سے تنگ آکر بمبئی چلے گئے جب ان کی عمر تیرہ چودہ برس تھی۔ بمبئی کی بندرگاہ پر دخانی جہازوں پر روزی کا ذریعہ بن گیا۔ صبح سے شام ڈھلے تک کام اور صرف کام۔ بہت مشکل اور کڑے دن تھے اور پھر وہ ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر برطانیہ پہنچے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بیگار میں بھرتی کر کے لایا گیا ہے اور اب اس جبری مشقت کا معاوضہ صرف ایک پاﺅنڈ ملا کرے گا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کے عروج کا زمانہ تھا، لیکن 1916ء میں ان کو ساتھیوں سمیت تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر قید کر دیا گیا۔ برطانیہ میں زیرِ حراست رکھنے کے بعد سنگا پور لائے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین بمبئی پہنچے۔

    انھیں کئی بحری اسفار کرنے کا موقع ملا جس میں برطانیہ، ساﺅتھ افریقہ اور امریکا اور فرانس شامل ہیں یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم ختم ہوگئی۔ لیکن اس ساری اکھاڑ پچھاڑ اور اپنے وطن میں برطانوی سامراج کے کرتوت دیکھ کر دادا امیر حیدر خان میں ایک انقلابی روح بیدار ہوچکی تھی۔ انھوں نے سامراج دشمن، محبانِ وطن کی انقلابی جماعت ”غدر پارٹی“ کی رکنیت حاصل کر لی اور فروری 1921ء میں غدر پارٹی کے پمفلٹس اور ہینڈ بلز کے ساتھ ایک بحری جہاز کے ذریعے شنگھائی پہنچے۔ بعد میں ہندوستان میں سامراجی جبر شدید تر ہوجانے پر وہ ماسکو چلے گئے تھے۔ 1932ء میں واپسی پر گرفتار ہوئے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔

    تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں‌ کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے میں مصروف رہے۔ اس زمانے میں‌ ان کی زندگی کا بیش تر حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔

    امیر حیدر خان کی سوانح عمری Chains to Lose کے نام سے انگریزی میں اور دادا کے نام سے اردو میں شائع ہوچکی ہے۔

  • منیر نیازی: وہ شاعر جس کے تخیل نے طلسم خانۂ حیرت تشکیل دیا

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کے اشعار سے ایک خواب ناک ماحول جنم لیتا ہے جس میں‌ داخل ہونے والا گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے طرزِ بیان اور اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور کسی دبستان کا اثر بھی قبول نہیں کیا بلکہ ایک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    12 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی سلور اسکرین کے مشہور ولن الیاس کاشمیری نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب اداکار تھے جنھیں پنجابی فلموں میں ان کے کرداروں کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    فلم نگری سے دور ہو جانے کے بعد مدّت ہوئی الیاس کاشمیری گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں اپنی ماضی کی زندگی پر پچھتاوا تھا۔ وہ اپنی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کو فلمی دنیا سے اپنی وابستگی اور رنگینیوں کا نتیجہ سمجھتے تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس کام یاب اداکار نے 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ مجموعی طور پر 547 فلموں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    یہ 1946ء کی بات ہے جب دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے۔ وہاں انھیں فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہجرت کرکے الیاس کاشمیری لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں ہیں۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    اپنے وقت کے اس نام ور اداکار کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ان کا گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    فلمی اداکارہ بیگم پارہ نے 1951 ء میں‌ لائف میگزین کے لیے ‘بولڈ’ فوٹو شوٹ کروایا تھا۔ اپنی ‘بیہودہ’ تصاویر پر سماج میں انھیں اپنی مخالفت اور لعن طعن برداشت کرنا پڑا۔ یہ نیم برہنہ فوٹو شوٹ تھا۔ بیگم پارہ کی اس بے باکی کا ہندی سنیما میں بھی خوب چرچا ہوا اور پھر وہ پردۂ سیمیں سے دور ہو گئیں۔

    بیگم پارہ 1926ء میں جہلم میں پیدا ہوئی تھیں، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کا خاندان علی گڑھ سے تعلق رکھتا تھا، لیکن بیگم پارہ کا بچپن اور عمر کا ایک بڑا حصّہ ریاست بیکانیر میں گزرا جہاں ان کے والد بغرضِ ملازمت قیام پذیر تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی بیگم پارہ بعد میں‌ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں اور چالیس اور پچاس کی دہائی میں نام کمایا۔ اس زمانے میں بیگم پارہ کو ‘گلیمر گرل’ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

    انھوں نے اپنے بچپن اور ابتدائی عمر میں نظم و ضبط اور ایک ایسا ماحول دیکھا جس میں اصولوں اور اقدار کو بھی اہمیت دی جاتی تھی، لیکن بیگم پارہ نے اپنی زندگی کو اپنے ہی ڈھب سے گزارا اور آزاد خیال نہیں بلکہ اس دور میں خود کو ‘لبرل’ ثابت کیا۔

    بیگم پارہ کے بارے میں یہاں ہم ایک تحریر نقل کررہے ہیں، جو کتاب ‘ہندی سنیما میں مسلم اداکارائیں’ سے لی گئی ہے، جس کے مصنّف غیاث الرحمٰن ہیں۔

    "ہندی فلموں کی اداکاراؤں میں اہم اور دل چسپ نام ہے جن کا اصل نام زبیدہ الحق تھا۔ بیگم پارہ فلمی دنیا میں آنے کے لیے سماج سے ٹکرائیں اور آخر عمر تک اسی دنیا میں رہیں۔”

    "انہوں نے نرم و گرم سارے دور دیکھے اور گردشِ ایّام کے انہیں مراحل کو طے کرتی ہوئیں وہ 2008 کے دسمبر کی ایک سرد تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔”

    "بیگم پارہ اپنے انتقال سے 82 سال قبل جہلم (پنجاب، پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احسان الحق کا شمار اپنے زمانے کے معزز و محترم اشخاص میں ہوتا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔”

    "بیگم پارہ نے جب فلمی دنیا میں جانے کا فیصلہ کیا تو کافی شور شرابا ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں فلمی اداکاراؤں کا پیشہ شرفا کے لیے شایانِ شان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لیے جب ایک معروف جج کی بیٹی کے فلمی دنیا میں داخلے کی خبر آئی تو لوگوں نے اس کو کافی بڑا اسکینڈل بنا دیا۔ خود بیگم پارہ کے والد بھی فکرمند ہوئے مگر چونکہ گھر والوں کو احساس تھا کہ بیگم کو اس کے ارادوں سے باز رکھنا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے ہلکے پھلکے احتجاج پر اکتفا کیا اور اس کے راستے میں بھی حائل نہ ہوئے۔”

    "بیگم پارہ کی پہلی فلم 1944 میں آئی۔ پربھات پروڈکشن کی اس فلم کا نام "چاند” تھا۔ چاند کے بعد تو بیگم پارہ کی فلموں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئیں۔ چھمیا، شالیمار (1946)، دنیا ایک سرائے، لٹیرا، مہندی، نیل کمل اور زنجیر (1947) ، جھرنا، شہناز اور سہاگ رات (1948)، دادا (1949)، مہربانی (1950)، لیلی مجنوں اور نیا گھر (1953)، آدمی (1957) اور دوستانہ (1956) ان کی اہم فلمیں رہیں۔”

    "بیگم پارہ کی شادی ناصر خان سے ہوئی جو خود ایک فلمی اداکار اور شہرۂ آفاق سپر اسٹار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ ناصر خان کچھ دنوں تک ساتھ نبھانے کے بعد موت کے بہانے بیگم پارہ کو داغِ مفارقت دے گئے اور اس طرح بیگم ایک مرتبہ پھر اکیلی پڑ گئیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان بھی گئی تھیں۔”

    "فلموں سے بیگم پارہ کا جذباتی رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود انہوں نے 2007 میں فلم "سانوریا” (رنبیر کپور اور سونم کپور کی اولین فلم) میں کام کرنے کے لیے ہامی بھر لی۔ چونکہ وہ بہت لاغر ہو چکی تھیں لہذا بدقت تمام وہیل چیئر پر بیٹھ کر سیٹ پر آتیں اور دن بھر شوٹنگ میں مشغول رہتیں۔”

    "اخیر عمر میں وہ اپنے ایّامِ شباب کو شدت سے یاد کرتی تھیں اور ان باتوں کا تذکرہ کرتیں کہ انہوں نے کس طرح کی تنقید اور برائی کو خاطر میں لائے بنا ہمیشہ وہ کیا جو انہوں نے چاہا۔ دسمبر 2008 میں ممبئی میں بیگم پارہ انتقال کر گئیں۔”

  • وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    مشہور ہے کہ جونسن نے ’’تواریخِ راسلس‘‘ صرف ایک ہفتے میں قلم برداشتہ لکھا۔ اس ناول کی تخلیق کا پس منظر توجہ طلب اور غم آگیں‌ بھی ہے۔ کہتے ہیں یہ ناول اس نے اپنی ماں کے کفن دفن اور چھوٹے موٹے قرضے اتارنے کے لیے لکھا تھا۔

    سیموئل جونسن ایک انگریز ادیب اور لغت نویس تھا جسے ادب میں اس کی تنقیدی بصیرت اور نکتہ سنجی کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے، لیکن وہ ایسا ناول نگار تھا جو افسانوی تخیل سے دور رہا۔ یہاں‌ ہم جونسن کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں وہ افسانوی رنگ نہ ہونے کے سبب بالخصوص ناول نگار کے افکار اور حقائق پر مبنی مباحث کی وجہ سے بظاہر روکھا پھیکا نظر آتا ہے۔ اس پر تنقید بھی کی گئی ہے، لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تواریخِ راسلس کا پلاٹ خوب گٹھا ہوا ہے۔ اس کی نثر متانت آمیز ہے اور اس میں افکار کی صراحت قابلِ توجہ ہے۔

    ہفتے بھر میں‌ ایک ناول لکھ کر ناشر کے حوالے کر دینے سے متعلق انگریزی ادب کے ناقدین قیاس کرتے ہیں کہ کہانی کا پلاٹ یا اس کا کوئی ہیولا ضرور جونسن کے ذہن میں پہلے سے رہا ہو گا۔

    ناول کی کہانی
    اس ناول کا مرکزی کردار حبشہ کا ایک شہزادہ ہے۔ وہ اور اس کے دیگر بہن بھائی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے، لیکن ایک وقت آیا جب راسلس اس عیش و عشرت اور تن آسانی کی زندگی سے بیزار ہو گیا۔ شہزادے کا معلّم اس سے افسردگی کا سبب دریافت کرتا ہے اور اُسے سمجھاتا ہے کہ تم اس خوش حالی اور عیش و عشرت سے محض اس لیے اکتا گئے ہو کہ تم نے دنیا کے رنج اور مصائب نہیں دیکھے، ورنہ تمھیں اس عیش کی قدر ہوتی۔ تب، شہزادہ دنیا کے رنج اور مصیبتیں دیکھنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر سیر کے لیے نکل جاتا ہے۔ ناول میں‌ بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ شہزادہ اپنی سیاحت کے دوران لوگوں سے باہمی میل جول رکھتا ہے اور لوگوں سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مسائل کو سمجھتا ہے اور اپنے خیالات اور مشاہدات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ متعدد لوگوں سے ملتا ہے۔ بادشاہوں، امیروں، غریبوں اور مختلف پیشہ ور افراد سے ملاقات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا، کوئی بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ دراصل اس کردار کے ذریعے جونسن نے ناول میں زندگی اور مسائل پر اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ ناول میں اس طرح کے مباحث کئی مقام پر آتے ہیں، جس سے یہ روکھا پھیکا معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ جونسن کی اُفتادِ طبع کی عکاسی کرتا ہے جس میں‌ وہ نکتہ سنج اور صاحبِ فکر نظر آتا ہے۔ ناول نگار نے افسانہ طرازی سے دور رہتے ہوئے معلومات اور حقائق کو اہمیت دی ہے۔

    ناول کی تخلیق کا درد انگیز پس منظر
    کہتے ہیں ناول نگار نے اپنی ماں کی وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور زندگی میں ان پر واجبُ الادا رقم چکانے کے لیے ایک ناشر سے رجوع کیا اور سو پاؤنڈ کے عوض صرف ایک ہفتے میں ”تواریخِ راسلس” لکھ کر کے اس کے سپرد کر دیا۔ یہ ناول غیرمعمولی طور پر بہت مقبول ہوا اور اس کے فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور ڈچ زبان میں تراجم شایع ہوئے۔

    جونسن کے حالاتِ زندگی اور علمی و ادبی کارنامے
    سیموئل جانسن وسطی انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے لیچفیلڈ میں 1709ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی عمر میں اس کے والدین کو معلوم ہوا کہ ان کی اولاد کی بینائی کم زور ہے۔ اس کا باپ ایک تاجر تھا، تاہم اس کا خاندانی رتبہ اونچا نہ تھا اور حسب نسب میں وہ جونسن کی ماں سے کم تھا۔ اُس نے پڑھ لکھ کر ایک دکان کھول لی تھی جس میں وہ کتابیں اور دوائیں فروخت کرتا تھا۔ جونسن کی ماں اپنے خاندان اور نام و نسب پر فخر کرتی تھی اور اپنے شوہر کو ہمیشہ حقیر اور خود سے کم تر جانتی تھی۔ اسی باعث ان کی آپس میں نہیں‌ بنتی تھی۔

    جونسن کی یادداشت بچپن سے ہی قابلِ رشک تھی جس کا اظہار وہ اکثر اس خوبی سے کرتا کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا۔ اپنی اس غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے وہ اپنے علاقے میں بہت مشہور ہوا اور اسے دعوتوں میں بلایا جانے لگا۔ اسٹیشنری کے سامان اور دکان پر موجود کتابوں سے وہ شروع ہی خاصا مانوس تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے ایک اسکول میں بہ طور مدرس خدمات انجام دیں، لیکن پھر اس کا دل نہ لگا اور اس نے ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کی پہلی کتاب ایک پرتگیزی پادری کے فرانسیسی سفرنامے کا انگریزی ترجمہ تھا۔ اس ترجمے کا اُسے پانچ گنا معاوضہ ملا۔ بعد میں وہ تلاشِ معاش کی غرض سے لندن پہنچا اور وہاں ایک رسالے ”جنٹل مینز میگزین” میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس کی آمد کے بعد رسالے کی مانگ اور مقبولیت تو بڑھ گئی لیکن وہ رسالے کے مالک اور مدیر کی خصاصت کی وجہ سے مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکا۔

    ”جامع انگریزی لغت” جانسن کا نمایاں علمی کام ہے۔ اس کی مرتب کردہ لغت کے لیے اسے بڑے ناشروں نے تین سال کی مدت کے لیے ایک ہزار پانچ سو پچھتّر پاؤنڈ معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم یہ کام طوالت کے باعث آٹھ سال میں‌ مکمل ہوسکا اور زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ جونسن کی اس لغت سے پہلے اس پائے کی لغت انگریزی زبان میں موجود نہ تھی۔ یہاں سے جونسن کی شہرت کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔ یہ اعلیٰ درجے کا علمی کام تھا جس پر آکسفورڈ نے جونسن کو سند بھی دی تھی۔

    والدہ سے جدائی کے 19 برس اور وفات
    1759ء میں جونسن کو جب اپنی ماں کی شدید علالت کی اطلاع ملی تھی تو وہ غربت اور تنگ دستی سے لڑرہا تھا۔ پچھلے انیس برس میں اس نے لندن سے گھر لوٹ کر اپنی ماں کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اور اسی جدائی میں وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلی گئی۔ جونسن دکھی تھا اور تبھی تواریخِ راسلس تخلیق کیا۔

    1762ء میں جونسن کی مالی مشکلات میں خاطر خواہ فرق پڑا اور اس کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت نے اسے پینشن کی پیش کش کی۔ انگریزی کی لغت کے علاوہ جونسن نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا ایک ایڈیشن بھی مرتب کیا تھا جسے مستند مانا جاتا ہے۔ اس نے سوانح اور تنقید بھی لکھی جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔

    انگریزی زبان کے اس ادیب اور لغت نویس کا انتقال 1784ء میں ہوا۔

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • نیلسن منڈیلا: امن اور مساوات کے عظیم پرچارک اور ہردل عزیز راہ نما

    نیلسن منڈیلا: امن اور مساوات کے عظیم پرچارک اور ہردل عزیز راہ نما

    نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران صعوبتیں‌ اٹھانے اور فتح حاصل کرنے والے نیلسن منڈیلا دنیا کے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں۔ انھیں امید کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ جنوبی افریقا کے ہر دل عزیز سیاست دان اور عوامی راہ نما تھے۔

    جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا نے 2013ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ دنیا بھر میں امن و مساوات کے اس پرچارک کو متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا تھا، انھیں کئی اعزازی ڈگریاں دی گئیں، اور کئی ممالک میں‌ سڑکوں، چوراہوں، اور قابلِ ذکر عمارتوں کو ان کے نام سے موسوم کیا گیا۔

    نیلسن منڈیلا جنوبی افریقا میں 1918ء میں تھیمبو قبیلے میں پیدا ہوئے جس کی اکثریت ایک چھوٹے سے گاؤں میں آباد ہے۔ ان کی زبان کوسا تھی۔ منڈیلا کا نام رولیہلا ہلا تھا، لیکن ان کے ایک استاد نے انھیں‌ انگریزی زبان میں‌ ’نیلسن‘ نام دے دیا اور وہ اسی سے پہچانے گئے۔

    وہ نو برس کے تھے جب والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کے زمانے میں‌ افریقا نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بدترین ملک مشہور تھا۔ امتیازی سلوک اور ناانصافی و غیر جمہوری روایات پر مبنی قوانین نے سیاہ فاموں کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ نیلسن منڈیلا نے 1943ء میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) میں شمولیت اختیار کرلی اور بعد میں اے این سی یوتھ لیگ کے بانی اور صدر بنے۔

    نیلسن منڈیلا نے وکالت پڑھی اور اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر 1952ء میں جوہانسبرگ میں دفتر لے کر پریکٹس شروع کردی۔ بعد میں انھوں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے خلاف سفید فام افراد پر مشتمل جماعت نیشنل پارٹی کے وضع کردہ نظام کے خلاف مہم شروع کی اور سیاہ فام اکثریت کے استحصال کے راستے میں مزاحم ہوئے۔

    1956ء میں منڈیلا اور ان کے ساتھی کارکنوں پر غداری کا مقدمہ چلا، لیکن 4 سال بعد الزامات خارج کر دیے گئے۔ تاہم ملک میں سیاہ فام اکثریت کے لیے رہائش اور روزگار سے متعلق ایک نیا بدنیتی پر مبنی قانون بنایا گیا جس نے نیسلن منڈیلا کو ایک بار پھر میدان میں نکلنے پر مجبور کردیا۔ اے این سی کو 1960ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا اور منڈیلا روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی برس ملک کی نسل پرست حکومت کے خلاف سیاہ فام اکثریت اس وقت سخت مشتعل ہوگئی جب پولیس نے 69 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ تمام سیاہ فام تھے۔

    اس بدترین واقعے نے نیلسن منڈیلا کی پُرامن مزاحمت کو بھی جارحیت اور بغاوت کی طرف دھکیل دیا اور اے این سی کے نائب صدر کی حیثیت سے انھوں نے ملکی معیشت کے نظام کو بکھیر کر رکھ دینے کی مہم چلا دی۔ اس پر منڈیلا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انھیں پُرتشدد اور حکومت کا باغی قرار دیا گیا۔

    نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقا میں نسل پرست سفید فام حکم رانوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنی جوانی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ انھیں 1964 میں معیشت کو سبوتاژ اور عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے بعد عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ وہ فروری 1990ء میں رہا ہوئے تھے۔

    اس دوران سیاہ فام نوجوانوں کی اکثریت جو اپنے قائد کی آواز پر حکومت کے خلاف متحد ہوچکے تھی، نے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی اور بین الاقوامی برادری کا دباؤ بھی بڑھتا گیا اور جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    اسی کے بعد منڈیلا کی رہائی عمل میں آئی اور وہاں ایک نئی اور مخلوط النسل جمہوریت کے قیام کے لیے بات چیت کا آغاز ہوا۔

    نسل پرستی اور عدم مساوات کے خلاف طویل جدوجہد پر 1993ء میں منڈیلا کو امن کا نوبل انعام دیا گیا اور اگلے ہی سال بھاری اکثریت سے وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔

    اپنے حقوق کے حصول کے لیے طویل اور نہایت تھکا دینے والے لڑائی کے بعد وہ ناتوانی اور امراض‌ کا شکار ہوتے چلے گئے اور 2004ء کے بعد سے عوامی مصروفیات کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ پھیپھڑوں کے انفیکشن سے متاثر تھے۔

    نیلسن منڈیلا کو ان کے وطن میں بابائے جمہوریت تسلیم کیا گیا اور مقامی لوگ انھیں احترام سے ’مادیبا‘ پکارتے ہیں۔

    نیلسن منڈیلا نے جنگ زدہ علاقوں میں قیامِ امن کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور ملک میں صحّت اور دنیا بھر میں‌ مخصوص امراض کی روک تھام اور علاج کے لیے بھی ان کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔

    1992ء میں‌ نیلسن منڈیلا پاکستان آئے تھے اور کراچی میں بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی تھی۔ انھوں نے اس موقع پر حکومت اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا اور اپنی تقریر کے اختتام پر اردو میں‌ ‘خدا حافظ’ کہا تھا۔

    وہ ایک ایسے لیڈر تھے جنھوں نے مسلسل جدوجہد کے زمانے اور بعد میں بھی اپنے مخالفین ہی نہیں اپنے قریبی ساتھیوں کی نکتہ چینی اور کڑی تنقید کو بھی برداشت کیا۔ بلاشبہ انھوں نے ایک تلخ اور سخت زندگی گزاری، لیکن ہر موقع پر درگزر اور تحمّل کا مظاہرہ کرتے رہے۔