Tag: دسمبر برسی

  • قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان اداکار بھی تھے، اور اسکرپٹ رائٹر بھی اور ایسے اسکرپٹ رائٹر جن کے مکالمے بہت مقبول ہوئے۔ آج بولی وڈ کے ڈائیلاگ کنگ کہلانے والے قادر خان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکار اور اسکرپٹ رائٹر قادر نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور ڈھائی سو سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے۔ انھوں نے سنہ 1973 میں راجیش کھنہ کی فلم ‘داغ’ سے بولی وڈ میں اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں ہی شہرت حاصل کرلی تھی۔ بولی کی کام یاب ترین فلمیں جن میں خون پسینہ، لاوارث، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی شامل ہیں، ان فلموں کے مکالمے بہت مقبول ہوئے اور یہ قادر خان کے قلم سے نکلے تھے۔

    اداکار کی زندگی کے ابتدائی دور کی بات کی جائے تو افغانستان ان کا وطن تھا اور تین بھائیوں کی موت کے بعد قادر خان پیدا ہوئے، تب ان کے ماں باپ نے افغانستان سے انڈیا ہجرت کی۔ لیکن ماں باپ کی طلاق ہوگئی اور قادر خان نے سوتیلے باپ کے ساتھ غربت دیکھی۔ تعلیمی سلسلہ کسی طرح جاری رکھتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا اور گریجویشن کرکے ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔ اس عرصہ میں وہ اسکرپٹ لکھنے کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔ کالج میں ایک تھیٹر کے لیے قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام ملا اور ساتھ ہی ایک فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع بھی۔ یہ فلم 1972 میں ریلیز ہوئی اور نام تھا ‘جوانی دیوانی’ جو ہٹ ہوگئی۔ قادر خان کو مزید فلمیں ملنے لگیں۔ لیکن سنہ 1974 میں فلم ‘روٹی’ کے بعد قادر خان کی لکھی فلمیں اور ڈائیلاگ ہٹ ہونے لگے۔

    قادر خان 22 اکتوبر 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد عربی زبان کی تربیت کے لئے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود عربی سیکھی اور دینی کاموں‌ میں مشغول ہوگئے۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد زیادہ تر وقت ان کا کینیڈا میں بچوں کے ساتھ بیتا۔ اور کینیڈا ہی میں 31 دسمبر 2018ء کو وفات پائی۔

    سال 1977 میں قادر خان کی خون پسینہ اور پرورش جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں اور ان کی کام یابی کے بعد قادر خان کو اچھی فلموں کی پیشکشں شروع ہوگئی۔ ان فلموں میں مقدر کا سکندر، مسٹر نٹور لال، سہاگ، عبداللہ، دواور دو پانچ ، لوٹ مار، قربانی، یارانہ شامل تھیں۔قادر خان نے کامیڈی کردار اور بطور ولن بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا اور فلم انڈسٹری میں اپنی پہنچان بنائی۔ فلم قلی 1983ء میں ریلیز ہوئی تھی جو قادر خان کے کیریئر کی سپرہٹ فلموں میں سے ایک ہے۔ 1990 میں "باپ نمبری بیٹا دس نمبری، بھی ان کی اہم فلموں میں سے ایک ہے اور اس پر قادر خان کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • سعید ملک: فنِ موسیقی کے ایک ماہر کا تذکرہ

    سعید ملک: فنِ موسیقی کے ایک ماہر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کا امتیاز یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے صدیوں سے خوشی اور غم کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس فن کو ہر دور میں شاہانِ وقت کی سرپرسی بھی حاصل رہی اور کسی نہ کسی شکل میں ہر خاص و عام موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں کلاسیکی موسیقی نے فلموں میں بھی جگہ پائی اور اس فن کے ماہر اور اس کی باریکیاں سمجھنے والے بھی موجود تھے جن میں ایک نام سعید ملک کا بھی ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں‌ معیاری فلمیں بنا کرتی تھیں اور کلاسیکی موسیقی کا رجحان تھا، لیکن پھر وقت بدل گیا اور نئے آلاتِ موسیقی کے ساتھ جدید طرزِ گائیکی نے جہاں کئی ساز اور اصنافِ موسیقی کو ماضی کا حصّہ بنا دیا، وہیں اس فن کے ماہر بھی اپنی عمر پوری کرتے چلے گئے اور آج ان کی تصانیف بطور یادگار محفوظ رہ گئی ہیں۔ سعید ملک بھی اس دنیا میں نہیں رہے اور آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک مشہور ماہرِ‌ موسیقی اور ادیب بھی تھے۔ 30 دسمبر 2007ء کو سعید ملک دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے متعدد تصنیفات یادگار چھوڑ گئے۔ سعید ملک لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ماہر موسیقی سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں‌ فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں۔ وہ ادارے کی گورننگ کونسل کے رکن رہے۔ انھوں نے 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی پر مضامین اور کالم لکھے۔ سعید ملک نے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد اس فن سے متعلق مضامین لکھے جو اس فن کی باریکیاں اور موسیقی سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے ایک خزانہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ تحریریں اور کالم پاکستانی موسیقی کی تاریخ اور ایک مستند حوالہ ہیں۔

    سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔

  • اسلم اظہر: پی ٹی وی اور شعبۂ نشریات کا بڑا نام

    اسلم اظہر: پی ٹی وی اور شعبۂ نشریات کا بڑا نام

    پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ابتدائی دور کی باکمال شخصیات اور قابل و باصلاحیت فن کاروں‌ کی فہرست مرتب کی جائے تو اسلم اظہر کا نام سرفہرست رہے گا، جن کو پاکستان ٹیلی وژن کے بانیوں میں شمار کیا جاتا۔ اسلم اظہر نشریات کے شعبہ کی ایک مثالی شخصیت تھے جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں‌ کیا جاسکتا۔ جب بھی ملک میں ٹیلی وژن کے قیام اور اس کی ترقی کی بات کی جائے گی اسلم اظہر کا نام ضرور لیا جائے گا۔

    فنونِ لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ اسلم اظہر نے 1964 میں پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز کیا تھا اور اسے معیار و کمال کی انتہا تک لے گئے۔ اسلم اظہر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ پاکستان اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    اسلم اظہر 1932 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1954 میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد چٹاگانگ میں برما آئل کمپنی میں کچھ عرصہ نوکری کی۔ نوکری میں دل نہ لگا اور 1960 میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر کراچی چلے گئے۔ وہ زرخیز ذہن اور تخلیقی سوچ کے مالک تھے اور اس زمانے کے تھیٹر جیسے مقبول میڈیم کے علاوہ انھوں نے ہندوستان میں فلم سازی اور اس کی تیکنیک سیکھنے کی خواہش میں اس دنیا میں‌ قدم رکھا جب کہ وہ طالبِ‌ علم قانون کے رہے تھے۔ تاہم زمانۂ طالبِ علمی ہی میں‌ فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے اسلم اظہر جب کراچی لوٹے تو اپنے شوق اور دل چسپی کے میدان میں کام کرنے کا مصمم ارادہ کر چکے تھے، اور اس سلسلے میں آغاز فری لانسر کے طور پر کیا۔ انھیں محکمۂ اطلاعات کے لیے چند دستاویزی فلمیں بنانے کا موقع مل گیا۔ اسلم اظہر کو زیادہ لگاؤ تھیٹر سے تھا۔ اس لیے اپنے دوست فرید احمد کے ساتھ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی قائم کی اور اس کے تحت کئی ڈرامے پیش کیے۔ اسی دور میں اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ بھی کیا جو نسرین جان سے شادی کا تھا۔ ان سے اسلم اظہر کی ملاقات تھیٹر پر ہی ہوئی تھی اور دونوں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔

    سنہ 1964 میں حکومت نے جب ٹیلی وژن کی نشریات شروع کرنے کے لیے ایک جاپانی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تو اس کی جانب سے اسلم اظہر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ اب یہ کمپنی لاہور میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے لیے کام کرنے جارہی تھی۔ اسلم اظہر اس پروجیکٹ کا حصّہ بنے اور ان کی سربراہی اور نگرانی میں یہ منصوبہ کام یاب ہوا۔ بعد میں انھیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔

    اسلم اظہر بذاتِ خود نہایت منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ صدا کاری کا فن ان کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک تخلیق کار اور اختراع ساز بھی تھے جن کے زمانے میں نت نئے آئیڈیاز اور مختلف تجربات کیے گئے اور وہ کام یاب ہوئے۔

    1982-83 میں پی ٹی وی کی پہلی ایوارڈ تقریب اور متعدد شان دار اور طویل دورانیے کی نشریات کو اسلم اظہر کا تاریخی کارنامہ ہیں۔ 1970 کے انتخابات کی طویل ٹرانسمیشن بھی اسلم اظہر کی بدولت کام یاب ہوئی اور پی ٹی وی کے شان دار ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ اسلم اظہر نے بہترین کیمرہ مینز، اداکار، ڈیزائنرز، اور رائٹرز کے ساتھ لاہور کے اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بھی ٹی وی اسٹیشن قائم کیے۔ پاکستان کی تاریخ کے مایہ ناز فن کار انہی کے دور میں پروان چڑھے۔

    سنہ 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں ان کو پاکستان ٹیلی وژن تربیتی اکیڈمی کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کا وہ واحد دور تھا جب وہ ٹی وی سے منسلک نہیں رہے، تب وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے دستک تھیٹر گروپ کا آغاز کیا اور اپنے تھیٹر کے ذریعے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا شروع کی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔

    2015ء میں آج ہی کے دن اسلم اظہر انتقال کرگئے تھے۔

  • منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کا تذکرہ جنھیں‌ اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے

    منیر نیازی کی شاعری کسی طلسم خانۂ حیرت سے کم نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں‌ میں اپنے شعری اسلوب کی وجہ سے نمایاں‌ بھی ہوئے اور مقبول بھی۔ انھیں اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔

    اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے منیر نیازی کی آج برسی ہے۔ شاعر منیر نیازی نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور وہ کسی دبستان کے زیرِ اثر نظر نہیں‌ آتے بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کا ایک نیا جہاں متعارف کروایا اور اس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    منیر نیازی کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘ حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

  • شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    دنیا میں دو مرکزی طرز کا سنیما تخلیق ہوتا ہے، جس کو کمرشل اور آرٹ سنیما کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں وفات پانے والے بھارتی فلم ساز شیام بینیگل کا تعلق دوسری طرز کے سنیما سے ہے۔ وہ ایک بہت عمدہ اسکرپٹ نویس بھی تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں ہندوستانی سیاست، مسلم سماج، خواتین کی حالت زار اور معاشرتی بدصورتی کو بیان کیا۔ وہ ایک عمدہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ، ادب شناس، سنیما کی دنیا کے فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہنرمند تھے۔

    شیام بینگل نے سماج میں بہتری کے لیے اپنے حّصے کی شمع سنیما سازی کے ذریعے روشن کی۔ شیام بینگل ہم سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر ان کی فلمیں اور کہانیاں، برصغیر پاک و ہند کے منظر نامے پر، انہیں ایک محسن فلم ساز کے طور پر پیش کرتی رہیں گی۔ پاکستان اور اردو زبان کی طرف سے شیام بینگل کو خراج تحسین کرنے کے لیے یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

    زرخیز ذہن اور متوازی سنیما

    پوری دنیا میں آرٹ سینما جس کو پیررل سینما (متوازی فلمی صنعت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سینما میں کام کرنے والے فلم سازوں کو سب سے بڑی جس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، وہ فکری طور پر مضبوط ہونا ہے، جس طرح کوئی ادیب یا مصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ان فلم سازوں کو متوازی سنیما میں بہت شہرت اور مقبولیت ملی، جنہوں نے اپنے کام کو فکری بنیادوں پر استوار کیا۔ ہم اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بین الاقوامی سینما میں ایسے کئی مقبول نام دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اس روش کو اختیار کیا اور شان دار فلمیں دنیا کو دیں۔ ان فلم سازوں نے انسانی سوچ اور افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے، ان بین الاقوامی متوازی سینما کے فلم سازوں میں الفریڈ ہچکاک (اٹلی) فرانسز فورڈ کوپولا (امریکا)، آکیراکورو ساوا (جاپان)، مارٹن سیکورسیزی (امریکا)، فیڈریکو فیلینی (اٹلی) جیسے مہان فلم ساز شامل ہیں، جب کہ انڈیا سے بنگالی فلم ساز ستیا جیت رے، مرینال سین، ریتوک گھاتک جیسے ہیرے بھی متوازی سینما میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی بھی اسی قبیلے کے فلم ساز ہیں، جس سے شیام بینیگل کا تعلق تھا۔ یہ تمام فلم ساز فکری اساس رکھنے والے، حساس طبیعت کے مالک فلم ساز تھے، جنہوں نے انسانی کیفیات اور احساسات کو بڑے پردے پر ایسے پیش کیا، جس طرح کوئی ادیب کہانی لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے۔

    فلمی کہانیوں اور تخلیقی ادب کے مابین تعلق

    شیام بینیگل کی فلموں کی کہانیوں اور ادب کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ ادب کے بھی رسیا تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی بنیاد مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادب پر رکھی اور ساتھ ساتھ ادبی تحریکوں کے اثرات بھی فلمی دنیا میں منتقل کیے۔

    ان کی چند مقبول فلموں میں اس تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے اور مختلف ادبی تحاریک کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی فلم انکور جو 1974 میں ریلیز ہوئی، اس فلم کی کہانی تھامس ہارڈی جارج ایلیٹ کے کئی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے، خاص طورپر جس طرح اس میں انگریزی ادب میں وارد ہونے والی ادبی تحریک realism یعنی حقیقت پسندی کو برتا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی دیہی ہندوستان کے پس منظر میں جاگیردارانہ نظام کے جبر اور انسانی رشتوں کی زبوں حالی کی عکاسی کرتی ہے۔

    ایک اور مشہور فلم بھومیکا 1977 میں ریلیز ہوئی، جس کی کہانی ہنسا واڈکر کے سوانحی ناول سنگتی ایکا سے ماخوذ تھی، جس میں ایک عورت کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مابین رکاوٹوں کی عکاسی کی گئی۔ یہ فلم ادبی تحریک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور فلم جنون جو 1978 میں ریلیز ہوئی، اس کے اسکرپٹ کی بنیاد رسکن بانڈ کا ناول اے فلائٹ آف پیجنز تھا۔ اس ناول میں اٹھارہ سو ستاون کے تناظر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا۔

    اسی طرز پر مزید چند فلموں کا احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کہانیوں پر بھی کافی ادبی چھاپ ہے، جیسا کہ 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم کلیوگ ہے، جس کی کہانی مہا بھارت سے ماخوذ ہے اور عہدِ جدید میں کارپوریٹ ثقافت کی اثر اندازی کو مخاطب کرتی ہے، جس میں سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت کے نظریات ہیں، جن کو ادب میں موضوع بنایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم منڈی جس کو غلام عباس کی مختصر کہانی سے اخذ کرکے فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا گیا۔ اس کہانی میں بھارتی نوکر شاہی اور دیہاتی ہندوستان میں ہونے والی کرپشن کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ عورت بطور طوائف اور دیگر رشتوں میں اس کی اہمیت کے تانے بانے کو بھی کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم تریکال گوا میں رہنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے، جس کو نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں جیمز جوائس کی کہانیوں کا نقش دکھائی دیتا ہے۔

    شیام بینیگل کی فلموں کا مزید جائزہ لیا جائے تو 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم زبیدہ کی کہانی، تخلیق کار اور ادیب خالد محمد کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ شاہی زندگی میں قید ایک عورت جو بغاوت پر آمادہ ہے، کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔

    ایک رومانوی المیے پر مبنی یہ فلم اپنے وقت کی خوبصورت اور یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور شیام بینیگل کے تخلیقی ذہن کی انتہا بھی ، جس کو دیکھتے ہوئے فلم بین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ اس کہانی کے پس منظر میں کہیں ہمیں برطانوی ادب کی برونٹے سسٹرز کے اثرات بھی مرتب ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

    2009 میں ریلیز شدہ فلم شاباش ابّا اردو کی معروف ہندوستانی ادیبہ جیلانی بانو کی تین کہانیوں سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان میں نوکر شاہی طبقے پر لطیف پیرائے میں طنز ہے۔ انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات پر بھی فلمیں بنائیں، جن میں بالخصوص مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور شیخ مجیب الرحمان سرفہرست ہیں جب کہ دستاویزی فلموں کے تناظر میں جواہر لعل نہرو اور ستیا جیت رے جیسی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ تمام طرز بیان ہمیں شیام بینیگل کے سنیما اور ان کی فکر اور دانش کی مکمل تفہیم دیتا ہے۔

    پسندیدہ کردار اور محبوب عورتیں

    شیام بینیگل کے ہاں صرف دلچسپی کردار اور کہانی تک محدود نہیں تھی، وہ اپنی فلموں میں کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ان کو ادا کرنے والے اداکار یا اداکارائیں کون ہوں گی، اگر ان کو محسوس ہوا کہ کوئی فن کار ان کے کرداروں کی نفسیات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی ان سے اچھی ہورہی ہے تو پھر وہ اس کے ساتھ باربار کام کرتے تھے، یہ معاملہ خاص طورپر اداکاراؤں کے لیے کئی بار ہوا، جیسا کہ سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نینا گپت اکی مثالیں سامنے ہیں۔ خاص طور پر اپنے کیریئر کی ابتدائی فلمیں صرف سمیتا پاٹیل کے ساتھ کیں اور سب ایک کے بعد ایک مقبول بھی ہوئیں۔ ان کی فلموں میں دیگر جو اداکارائیں شامل ہوئیں، ان میں ریکھا، نینا گپتا، ایلا ارون، لیلیٰ نائیڈو، فریدہ جلال، کیرن کھیر، سریکا سکری، راجیشوری سچدیو، نندیتا داس، کرشمہ کپور، لیلیتے ڈوبے، دیویادتا، امرتا راؤ، منیشا لامبا اور نصرت امروز تیشا اور نصرت فاریہ شامل ہیں۔

    بالی ووڈ پر عنایات 

    شیام بینیگل نے سماجی قیود کی تاریکی میں جہاں اپنے حصے کی شمع روشن کی، وہاں کچھ ایسے چراغ بھی جلائے، جن کی روشنی سے ابھی تک معاشرہ منور ہے۔ جی ہاں، انہوں نے اننت ناگ جیسے اداکار اور شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ فلمی دنیا میں متعارف کروائی۔ دیگر فن کاروں میں سمیتا پاٹیل اور نینا گپتا جیسی اداکارہ کو مقبول اداکارائیں بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رجت کپور جیسے اداکاروں کے کیریئر کو استحکام دیا۔ ان کی فلموں میں کام کرنے والے اداکار آگے چل کر بڑے فن کار بنے اور انہوں نے بالی ووڈ کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں معاونت کی۔ انہی کی وجہ سے کمرشل سنیما میں بھی ادبی اور تخلیقی رنگ بھرے گئے اور بہت ساری اچھی کمرشل فلمیں، آرٹ سنیما میں کام کرنے والے ان اداکاروں کی وجہ سے بہترین ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے فیچر فلموں کے علاوہ، دستاویزی فلمیں، مختصر دورانیے کی فلمیں، ٹیلی وژن ڈراما سیریز بنائیں۔ وہ مستقبل میں معروف برطانوی شخصیت نور عنایت خان جس نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی جاسوس کے طور پر شہرت حاصل کی، ان کی زندگی پر فلم بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے بعد جب آرٹ سنیما زوال پذیر ہونا شروع ہوا، تو فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے خود کو چھوٹی اسکرین (ٹیلی وژن) تک محدود کر لیا مگر خود کو کمرشل سنیما کے حوالے نہیں کیا۔ بعد میں چند ایک فلمیں بنائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مرکزی سنیما سے دور ہو گئے۔وہ کہتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے، لیکن بالی ووڈ میں اب ہیرو ازم کو طاری کر لیا گیا ہے، جو فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنیما کی بے توقیری اور عمدہ موضوعات سے عاری فلمیں اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

    خراجِ تحسین 

    ہرچند کہ شیام بینیگل بھارت سے تعلق رکھنے والے فلم ساز تھے، لیکن انہوں نے جو بامعنی سنیما تخلیق کیا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت جہاں جہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے موجود تھے، وہ فیض یاب ہوئے۔ ایسے بے مثل فن کار، عمدہ فلم ساز اور حساس دل رکھنے والے اس ہنرمند کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دنیا کو سنیما کے ذریعے باشعور کیا اور دکھی دلوں کی آواز بنے۔

     

  • بشیر احمد: ایک ہمہ جہت شخصیت کا تذکرہ

    بشیر احمد: ایک ہمہ جہت شخصیت کا تذکرہ

    پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات کا تذکرہ کیا جائے تو احمد بشیر بھی ان میں شامل ہوں‌ گے۔ ناول اور افسانہ نگاری کے ساتھ خاص طور پر بطور خاکہ نگار انھوں نے اردو ادب کو یادگار تحریریں دی ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ ترقّی پسند ادب سے وابستہ اور ایک صحافی کے طور پر مشہور تھے۔

    معروف ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ خستہ حال اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ وہ ایک ایسے ادیب اور دانش وَر تھے، جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے امید اور روشن امکانات کے چراغ روشن رکھے۔‘‘

    1923ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے احمد بشیر کی ذاتی زندگی بھی انقلاب آفریں تھی۔ ان کا نام شیخ بشیر حسین رکھا، لیکن شاعری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو احمد بشیر کے نام سے متعارف کروانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول سے اوّلین تعلیمی مدارج طے کیے۔ اُن کے والد کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اور بطور ہیڈ ماسٹر سری نگر تبادلہ ہوا تو ان کا کنبہ کشمیر چلا گیا اور وہیں احمد بشیر نے بی اے کا امتحان جمّوں یونیورسٹی، سری نگر سے پاس کیا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں انھیں مطالعہ کا شوق کتب خانوں میں لیے جانے لگا اور خاص طور پر کالج کی لائبریری سے احمد بشیر نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں ترقّی پسند مصنّفین کی تحریروں نے احمد بشیر کو بہت متاثر کیا۔ اسی زمانہ میں احمد بشیر نے اپنی فکر و نظر کو نکھارنے کے ساتھ عملی زندگی میں غیر روایتی راستہ اپنانا شروع کردیا۔ بعد میں‌ کشمیر چھوڑنا پڑا اور ملازمت کے لیے دہلی چلے گئے، جہاں فوج کے ریکروٹمنٹ شعبہ سے منسلک ہوئے۔ بعد ازاں ان کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا اور وہاں 1944ء میں ان کی ملاقات ممتاز مفتی سے ہوئی۔ ان میں دوستی کا یہ تعلق تا حیات قائم رہا۔ پھر دونوں ہی لاہور آ گئے۔ یہاں ریڈیو اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا تھا اور احمد بشیر کو یہاں کئی ذی علم اور اہلِ قلم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کے درمیان رہتے ہوئے احمد بشیر کی تخلیقی صلاحیتیں خوب پروان چڑھیں۔ وہ ممتاز مفتی کے ساتھ فلم کے حوالے سے ہندوستان میں تھے کہ ہندو، مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور پھر تقسیم عمل میں آئی۔ یہ دونوں لاہور کے ہو رہے۔

    احمد بشیر کا صحافت میں پہلا پڑاؤ ’’اِمروز‘‘ تھا۔ یہاں اُن کی ملاقات مولانا چراغ حسن حسرت سے ہوئی اور انہیں احمد بشیر کی بے باکی، صاف گوئی اور ہم درد طبیعت بہت پسند آئی۔ احمد بشیر نے بھی انھیں استاد کا درجہ دیا۔ چراغ حسن حسرت جب کراچی آئے، تو احمد بشیر کو بھی ساتھ لیتے آئے، جہاں انھوں نے ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور مشکل وقت دیکھنے کے بعد احمد بشیر نے پبلک سروس کمیشن کا انٹرویو دے کر انفارمیشن آفیسر کی مستقل ملازمت حاصل کرلی۔ بعد ازاں ان کو ایک قانون کے تحت ایک محکمے میں بھیج دیا گیا جس کے توسّط سے احمد بشیر کو ’’امریکن ایڈ پروگرام‘‘ کے تحت امریکا میں فلم میکنگ کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان لوٹے تو اپنی فلم ’’نیلا پربت‘‘ بنائی لیکن وہ ناکام ثابت ہوئی۔ 1965ء میں احمد بشیر کراچی سے لاہور چلے گئے، اور بعد ازاں ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر انچارج کے طور پر اس پرچے سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے ادبی تخلیقات میں ’’جو مِلے تھے راستے میں‘‘ (خاکے)، ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ (مضامین کا مجموعہ)، ’’ڈانسنگ وِد وُلوز‘‘(انگریزی کالمز کا مجموعہ)، ’’دِل بھٹکے گا ‘‘(ناول)، ’’خطوں میں خوش بُو‘‘ (مکاتیب)، ’’خون کی لکیر‘‘ اور ’’دل بھٹکے گا‘‘ (ناول) یادگار چھوڑے۔ ان کی دو بیٹیاں مصنّفہ جب کہ بشریٰ انصاری پاکستان کی مقبول ترین فن کار ہیں۔

    25 دسمبر 2004ء کو احمد بشیر لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

  • ہیرلڈ پنٹر: اعلیٰ پائے کا شاعر، نثر نگار اور سیاسی ناقد

    ہیرلڈ پنٹر: اعلیٰ پائے کا شاعر، نثر نگار اور سیاسی ناقد

    ہیرلڈ پنٹر نے جنگ اور ہر طرح‌ جبر و تشدد کی مخالف کی اور اقتدار کے لیے سیاست اور دوسری قوموں پر عالمی قوتوں کے جبر کی حرکیات بیان کرتے ہوئے ان کے بڑے ناقد مشہور ہوئے۔ ہیرلڈ پنٹر نوبل انعام یافتہ اور بیسویں صدی کےعظیم ڈرامہ نگار اور شاعر تھے۔

    2002ء میں کینسر کی تشخیص کے بعد ہیرلڈ پنٹر 24 دسمبر 2008ء کو چل بسے تھے۔ ہیرلڈ پنٹر نے سرد جنگ میں سرمایہ دار بلاک کی مخالفت کی۔ 1991ء اور پھر 2003ء میں عراق پر لشکر کشی کی مذمت کی۔ انھوں نے یوگو سلاویہ میں نیٹو کی بمباری اور 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے پر کڑی تنقید کی۔ ہیرلڈ پنٹر کا مؤقف تھا کہ لکھنے والا اپنے منصب سے اس وقت انصاف کرسکے گا جب وہ اپنے معاشرے اور اپنے گروہ میں موجود ناانصافی پر آواز اٹھانے کی جرأت کرے۔

    مصنّف اور شاعر ہیرلڈ پنٹر کی معرکہ آرا تخلیقات میں ہوم کمنگ، بِیٹریل، دی کیئر ٹیکر، اور برتھ ڈے پارٹی شامل ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ہیرلڈ پنٹر نے نوجوانی میں شاعری کا آغاز کیا وار بعد میں اداکاری، ہدایت کاری، اسکرین رائٹنگ میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ اُنھوں نے سیاست اور اقتدار کو اپنی فکری اور تنقیدی بصیرت سے اس طرح لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ ان کی تحریروں کی بدولت عام آدمی پر فکر اور سوچ کے نئے در کھلتے گئے۔ ہیرلڈ پنٹر کو انسانی حقوق اور وقار کے علم بردار کے طور پر دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔

    ہیرلڈ پنٹر نے نثر نگاری میں اپنے اسلوب کی وہ دھاک بٹھائی کہ آج اگر اُن کی تحریر کا خاص انداز کسی بھی ملکی یا غیرملکی شاعر اور ڈرامہ نگار کے ہاں جھلکتا ہے تو ادبی ناقدین اسے پنٹریسک اسٹائل (Pinteresque) کہتے ہیں اور یہ اصطلاح آکسفورڈ ڈکشنری میں بطور اسمِ توصیف شامل ہے۔ یہ خاص انداز دراصل ہیرلڈ پنٹر کے کرداروں کی مکالمہ کی ادائیگی کے درمیان میں لمبی خاموشی ہے۔ ہیرلڈ پنٹر نے تیس سے زائد ڈرامے لکھے ہیں۔

    ہیرلڈ پنٹر سیاسی سوچ کے حامل نثر نگار اور شاعر تھے جو اپنی زندگی کے آخری عشرے میں بالخصوص اپنی سیاسی تحریروں کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز رہے۔ وہ برطانیہ میں لندن کے علاقے ہیکنی میں 1930ء میں پیدا ہوئے۔ پنٹر روشن فکر اور بائیں بازو کی سوچ رکھتے تھے جن کو امریکہ اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے بڑے نقادوں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ہیرلڈ پنٹر نے عراق پر دو بڑے اتحادیوں امریکہ اور برطانیہ کی چڑھائی کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ انھیں جب 2005ء میں نوبل پرائز دیا گیا تو اپنی تقریر میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر بش اور ٹونی بلیئر پر عالمی عدالتِ انصاف میں جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔

    ہیرلڈ پنٹر نہ صرف اعلیٰ پائے کے شاعر تھے بلکہ شاعری اور نثر نگاری کے ساتھ انھوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ ہیرالڈ پنٹر کو بعد از مرگ خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں معروف اہلِ قلم ہی نہیں اہم حکومتی شخصیات اورسیاست دان بھی شامل تھے۔

  • اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی پاکستان ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری کے ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بہت کم عرصہ میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اسکرین پر کئی یادگار کردار نبھائے۔ اظہار قاضی کو امیتابھ بچن کا ہم شکل کہا جاتا تھا۔ خوب رو اور باکمال اداکار اظہار قاضی 23 دسمبر 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    اپنے وقت کے اس مقبول اداکار کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ انھوں‌ نے کراچی میں 15 ستمبر 1959ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں‌ سے حاجی عبداللہ ہارون سیکنڈری اسکول سے پاس کیا۔ اظہار قاضی نے ایس ایم کالج سے اوّل پوزیشن میں گریجویشن کی اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ انھوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ وہ پاکستان اسٹیل ملز میں ایڈمن منیجر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ اظہار قاضی کی اچانک موت نے شوبز انڈسٹری اور ملک بھر میں ان کے مداحوں کو سوگوار کردیا۔ وہ ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    ٹی وی پر ممتاز ڈرامہ نویس بجیا نے اظہار قاضی کو سب سے پہلے ایک کردار سونپا تھا اور پھر اظہار قاضی فلموں میں بطور ہیرو بھی نظر آنے لگے۔ انھیں چند مختصر دورانیے کے ڈراموں میں کام کرنے کے بعد ڈراما سیریل ’’انا‘‘ میں کردار دیا گیا اور اسی کردار کی بدولت اظہار قاضی نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔

    80 کی دہائی میں ٹی وی کی اسکرین سے سفر شروع کرنے والے اظہار قاضی نے دائرہ، تھکن، گردش جیسے ڈراموں میں‌ کام کیا اور پھر ہدایت کار نذر شباب نے انھیں اپنی فلم روبی میں سائن کرلیا۔ یہ فلم 1986ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب رہی جس کے بعد اظہار قاضی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھتے گئے۔ اسی سال اظہار قاضی کی ہدایت کار جان محمد کے ساتھ پہلی فلم بنکاک کے چور بھی ریلیز ہوئی۔ 1987ء میں وہ فلم لو اِن نیپال میں دکھائی دیے۔ اور یہی وہ سال ہے جب اداکار اظہار قاضی نے پہلی پنجابی فلم دُلاری میں کام کیا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ 2002ء میں اظہار قاضی کی پنجابی فلم بالی جٹی ریلیز ہوئی اور یہ بھی خوب کام یاب رہی۔ 2004ء میں اظہار قاضی کی واحد فلم دامن اور چنگاری ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔

    اظہار قاضی نے اداکاری کے ساتھ گلوکاری کے شعبہ میں بھی خود کو آزمایا۔ ان کی 2 آڈیو کیسٹس بھی ریلیز ہوئیں۔ لیکن انھیں اس میدان میں زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ اظہار قاضی نے پچاس سے زائد فلموں میں مرکزی اور معاون اداکار کے طور پر کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں عالمی جاسوس، سر کٹا انسان، گھائل اور خزانہ کے نام بھی شامل ہیں۔

  • قدیر غوری: فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں مستند فلمی ہدایت کار تسلیم کرلیا گیا

    قدیر غوری: فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں مستند فلمی ہدایت کار تسلیم کرلیا گیا

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کو جو بڑے فن کار میسر آئے اور اداکاری سے موسیقی اور فلم سازی کے مختلف شعبوں‌ تک نام و پہچان بنائی، ان میں‌ قدیر غوری بھی شامل ہیں۔ قدیر غوری ایک انتہائی قابل اور تجربہ کار فلمی ہدایت کار تھے جو اصل شہرت اور ستائش امریکی فلم بھوانی جنکشن کے لیے غیرملکی ڈائریکٹر کے فرسٹ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرکے ملی تھی۔

    قدیر غوری تقسیم سے قبل ممبئی میں معروف ہدایت کار اور مصنّف منشی دل کے معاون تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب قدیر غوری نے امریکی فلم کے معاون ہدایت کار کے طور پر کام کیا تو انھیں مستند ہدایت کار کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ فلم کے لیے شان دار کارکردگی پر ہالی وڈ کے مذکورہ فلم ڈائریکٹر نے قدیر غوری کو تعریفی سند بھی دی تھی۔

    پاکستان کے اس مشہور فلمی ہدایت کار کی آج برسی ہے۔ وہ 22 دسمبر 2008ء وفات پاگئے تھے۔ قدیر غوری کو موسیقی اور فلم سازی میں‌ شروع ہی سے دل چسپی تھی اور اسی دنیا میں انھوں نے اپنے فن و کمال کی بدولت پہچان بنائی۔ 4 مئی 1924ء کو گجرات میں پیدا ہونے والے قدیر غوری نے استاد فیاض خان سے موسیقی اور منشی دل سے ہدایت کاری سیکھی تھی۔

    1955ء میں فلم بھوانی جنکشن کے بعد انھیں‌ فلم انڈسٹری میں‌ خوب کام ملا اور قدیر غوری کی ہدایت کاری میں جو فلمیں بنیں ان میں ناجی، غالب، دو راستے، موسیقار، دامن، جانِ آرزو، انسان، دنیا گول ہے، نیکی بدی اور گلیاں دے غنڈے شامل ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار نے فلم دامن پر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ انھوں نے جہاں سیٹ پر اپنی مہارت اور کمال دکھایا، وہیں‌ نئے آرٹسٹوں کو فلم اور ہدایت کاری سکھانے کی غرض سے ایک کتاب بھی لکھی اور اس میں‌ فلم سازی کی تکنیک اور مہارت و مسائل کا ذکر کیا۔ قدیر غوری لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    اردو زبان و ادب میں پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی کو ان کی تصنیف اردو تنقید کا ارتقاء نے بے مثال شہرت دی، لیکن یہی ایک کتاب نہیں بلکہ متعدد اصنافِ ادب میں ان کی کتابیں‌ ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ وہ نقاد بھی تھے، جیّد محقق، خاکہ نویس اور سفر نامہ نگار بھی۔ لیکن ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے اور انھیں صفِ اوّل کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آج ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے اور اس مناسبت سے ہم ان پر بھیّا کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی شخصیت ہم پر کھلتی ہے۔ "وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ ان کی نیکی، ہمدردی، خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے۔ دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔ آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلۂ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔ وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلو عریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۴۴ء کا دور تھا۔”

    ڈاکٹر صاحب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے پر پاکستان آئے تھے اور یہاں‌ لاہور میں‌ اورینٹل کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ گیارہ سال یہاں گزارنے کے بعد ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان ان کے سامنے آئے۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔ ۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے اور ۱۹۸۰ء میں ان کی ملازمت ختم ہوئی۔

    ان کا سنہ پیدائش 14 اگست 1920ء تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خاندانی نام عبادت یار خان رکھا گیا اور اردو ادب میں انھوں نے عبادت بریلوی کے نام سے پہچان بنائی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب عبادت بریلوی کو ادب کا شوق ہوا تو مطالعہ شروع کیا اور پھر تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ انھیں کئی بڑے ادیبوں اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے علمی و تحقیقی کام شروع کرنے والے عبادت بریلوی کی تصانیف میں غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید’ کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے جن میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے علاوہ ان کی ایک آپ بیتی بعنوان یادِ عہدِ رفتہ شامل ہیں۔ یہ کتابیں عبادت بریلوی کی کئی سال کی محنت، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہیں اور انھیں اردو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

    ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1998ء کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔