Tag: دسمبر برسی

  • علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلال پوری: بلند پایہ مفکر اور فلسفی

    علی عباس جلالپوری کا ذکر پاکستان کے ایک بلند پایہ مفکر، فلسفی اور خرد افروزی پر مبنی کتابوں کے مصنّف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان کا وقیع علمی سرمایہ اُس تحقیقی کام پر مشتمل ہے جس میں تاریخ و فلسفہ، مذہب و معاشرت بہم نظر آتے ہیں۔

    پاکستانی معاشرے میں فکر و دانش کے موتی لٹانے والے جلال پوری ایک عالم فاضل، نہایت قابل اور وسیع المطالعہ شخصیت تھے جو تصنیف و تالیف کے ساتھ تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ علی عباس جلال پوری نے فارسی اور اردو دنوں زبانوں میں ایم اے کیا۔گورنمنٹ کالج، لاہور کے پروفیسر رہے۔ ان کا موضوع فلسفہ، تاریخِ فلسفہ، تاریخ اور مذہبیات رہا اور اردو زبان میں ان کے کئی مضامین اور چودہ سے زائد کتابیں شایع ہوئیں۔

    جلال پوری نے جس ماحول میں‌ آنکھ کھولی وہ اس بارے میں کہتے تھے: ”خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم و بیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچّوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ “ ہمایوں”، “زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھیں۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ ان میں، ایک ” داستان امیر حمزہ“ اور دوسری ” الف لیلیٰ، “ تھی۔”

    1914ء میں‌ پیدا ہونے والے علی عباس جلال پوری نے 1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے۔ 1934ء میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں‌ بی ٹی کا کورس کر کے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ جلال پوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز بھی رہے۔ 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ دورانِ ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا تھا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوگئے۔ بعد میں‌ فارسی میںایم اے فارسی میں کام یابی پر گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا۔ 1958ء میں جلال پوری نے فلسفے کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔

    6 دسمبر 1998ء کو وفات پانے والے علی عباس کو جلال پور شریف میں سپرد خاک کیا گیا۔

    محمد کاظم جو ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے اور قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر تھے انھوں نے اس نادرِ‌ روزگار شخصیت سے متعلق اپنی یادیں‌ اس طرح‌ بیان کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلال پوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

    علی عباس صاحب نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں‌ کے ساتھ کائنات اور انسان، خرد نامہ جلال پوری، رسوم اقوام، میرا بچپن اور لڑکپن، پریم کا پنچھی پنکھ پسارے(ناولٹ)، پنجابی محاورے اور سبد گل چیں مکمل کیں۔ یہ ان کی یادگار کتابیں‌ ہیں۔

  • فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    فنِ قوالی میں بے مثال عزیز میاں قوال کا تذکرہ

    پاکستان میں قوالی اور صوفیانہ کلام کے گائیکوں میں عزیز میاں نے لازوال شہرت اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ عزیز میاں ایک قابل، تعلیم یافتہ اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ایسے قوال تھے جو اپنے مخصوص انداز میں سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کے مداح پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔

    عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں کہ لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوئے۔

    عالمی شہرت یافتہ قوال عزیز میاں نے علّامہ اقبال، قتیل شفائی اور دیگر شعرا کے صوفیانہ کلام کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ گانے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ صوفیانہ کلام کے ساتھ خمریات اور عشقِ حقیقی پر مبنی اشعار کو عزیز میاں نے اپنی آواز میں جاودانی عطا کی اور کئی معروف اور غیر معروف شعرا کی شاعری کو زندگی بخشی۔

    عزیز میاں تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ شخص تھے۔ جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کرنے والے عزیز میاں فلسفہ میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ فلسفہ کے طالبِ علم ہی نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ مباحث میں حصّہ بھی لیتے اور دلیل و منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل میں پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک غیر مسلم بھی عزیز میاں کو سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔ عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔

    17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہونے والے عزیز میاں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اپنے منفرد اور والہانہ انداز کے سبب اپنی الگ پہچان بنائی۔ ان کی قوالیاں سننے والوں پر آج بھی وجد طاری کر دیتی ہیں۔ ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ عزیز میاں کی آواز میں کئی منقبتیں بھی سامعین میں بہت مقبول ہیں۔

    نعتیہ کلام کی بات کریں تو ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعت ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنی جاتی رہی ہے اور قلب و روح کی تسکین کا سامان کرتی ہے۔

    عزیز میاں ایران کے شہر تہران میں سرکاری سطح‌ پر ایک محفل میں مدعو تھے جہاں ان کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق ان کی تدفین ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    حکومتِ پاکستان نے عزیز میاں قوال کو 1989ء میں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    علم و ادب کے شیدا ہر دور میں پطرس بخاری کی تحریروں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ان کے قلم کی روانی، شگفتہ بیانی اور طرزِ تحریر کا انفرادیت کے قائل رہیں گے۔ آج پطرس کا یومِ وفات ہے۔

    ایک کتاب کے دیباچہ کی حسبِ ذیل سطریں پطرس کے زورِ‌ قلم اور محاورات کے برجستہ استعمال کی خوب صورت مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: "اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔”

    پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس بخاری کو ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے جو صرف انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے خود کو ایک صحافی اور بہترین صدا کار کے طور پر بھی منوایا۔ تخلیقی کاموں کے ساتھ ان کی اپنے شعبہ اور کام پر گرفت بھی قابلِ‌ ذکر ہے۔ وہ ریڈیو کے ماہرِ نشریات اور زبردست براڈ کاسٹر تھے۔ ریڈیو پر تخلیقی کام ہی نہیں، انھوں نے انتظامی امور اور تکنیکی معاملات کو بھی سنبھالا اور اپنی ٹیم سے خوب کام لیا۔

    پطرس بخاری ان ادیبوں اور مزاح نگاروں‌ میں سے ایک تھے جو ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کرتے ہیں کہ شائستہ طنز و مزاح‌ کیا ہوتا ہے اور شگفتہ نگاری کا مطلب کیا ہے۔ وہ اپنے دور کے باکمال اور بڑے ادیبوں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی پر مشتمل کہکشاں میں شامل تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے۔ اس کا اعتراف معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے یوں کیا، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    فن و ادب کا یہ بڑا نام ایک ماہرِ تعلیم اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی ممتاز ہوا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات بیش بہا ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کو عبور حاصل تھا اور انھوں نے انگریزی سے کئی کتابوں کے اردو تراجم کیے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پطرس نے فارسی، پشتو اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان بنا تو یہاں بھی ریڈیو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ انھیں انگریزی سے کیمبرج پہنچے کے بعد بڑا لگاؤ ہوگیا تھا اور عالمی ادب کا خوب مطالعہ کیا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ اکثر بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 میں پطرس نیویارک میں سرکاری کام کی غرض سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں 5 دسمبر کو اچانک ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ انھیں امریکہ ہی میں دفن کیا گیا۔

    بخاری صاحب کو خان لیاقت علی خاں نے بطور سفارت کار منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکہ میں انہی کو اپنے ساتھ بطور ترجمان لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری نے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دیے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع پطرس بخاری کی مقبول تحریروں‌ میں‌ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں شامل ہیں۔

    پطرس کتّے کے عنوان سے اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ہلالِ امتیاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں ہم ان کے ایک رفیقِ‌ کار عشرت رحمانی کی تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

  • بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل: فارسی ادب کی آبرو اور لازوال شہرت کے حامل شاعر کا تذکرہ

    بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔بیدل کی مدح اور ستائش کرنے والوں‌ میں اردو اور فارسی زبان کے کئی بڑے شعراء شامل ہیں جن میں دو نام علّامہ اقبال اور مرزا غالب کے لیے جاسکتے ہیں۔ فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بھی بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی اور شعرا نے ان کا طرز اپنایا۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد شعرائے ہند نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی اور ان کے کلام کی شرحیں اور شاعری پر مضامین رقم کیے گئے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا فخر اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ محققین کے مطابق ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    محققین نے ان کا یومِ وفات 5 دسمبر 1720ء لکھا ہے۔ بیدل نے اس زمانہ میں شہرت پائی جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔ اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا گیا۔

  • "نیلی چھتری” والے ظفر عمر کا تذکرہ

    "نیلی چھتری” والے ظفر عمر کا تذکرہ

    اردو زبان میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والوں میں‌ ظفر عمر کا نام اوّلین ناول نگار کے طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔تقسیمِ ہند سے قبل ان کے کئی جاسوسی ناول مقبول ہوئے۔ اس دور میں عالمی ادب سے تراجم کو بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا اور جاسوسی کہانیاں ہندوستان بھر میں مقبول تھیں اور جب ظفر عمر کا پہلا جاسوسی شایع ہوا تو قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔

    ظفر عمر نے 1916ء میں اپنا پہلا جاسوسی ناول بعنوان "نیلی چھتری” تحریر کیا تھا، جس کا مرکزی کردار ‘بہرام’ تھا۔ اس ناول کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بعد مصنّف نے ‘بہرام کی گرفتاری’، ‘چوروں کا کلب’ اور ‘لال کٹھور’ کے نام سے مزید جاسوسی ناول تحریر کیے۔ مشہور ناقد اور ادبی کالم نگار مشفق خواجہ کے مطابق ظفر عمر کے ناولوں کا آغاز اور واقعات کا ارتقاء ڈرامائی ہوتا ہے۔ وہ تاریخی اہمیت کے حامل شہروں میں مدفون خزانوں کو اپنے ناولوں کی بنیاد بناتے ہیں۔ واقعات کے بیان میں اختصار کے ساتھ، کہانی کے تذبذب، اتار چڑھاؤ، جرائم کا ڈرامائی بیان، قاری کی دل چسپی اور انہماک میں اضافہ کرتا ہے۔

    ناول نگار ظفر عمر 1884ء کو تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر میں پیدا ہوئے۔ ایم اے او علی گڑھ سے 1902ء میں گریجویشن میں اوّل آئے۔ وہ کالج کی فٹ بال ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔ ظفر عمر بعد میں نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے اور بیگم بھوپال کے بھی پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ وہ والئ بھوپال حمید اللہ خان کے اتالیق بھی تھے۔ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ظفر عمر محکمہ پولیس سے بطور سپرنٹنڈنٹ 1937ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی دختر بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی نامور مصنفہ اور افسانہ نگار تھیں۔

    جاسوسی ناول نیلی چھتری کی شہرت اور مقبولیت کے بعد ظفر عمر نے علی گڑھ میں اپنی کوٹھی کا نام بھی نیلی چھتری رکھ دیا تھا۔ ناول نگار نے انگریزی زبان میں ایک کتاب ” دی انڈین پولیس مین ” بھی تحریر کی تھی۔ ظفر عمر نے 4 دسمبر 1949ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • ششی کپور: ہندی سنیما کا وجیہ صورت اداکار

    ششی کپور: ہندی سنیما کا وجیہ صورت اداکار

    ششی کپور اپنے زمانے کے سب سے خوب صورت اداکار تھے جنھوں نے بولی وڈ کے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔ وہ ہندوستان کے معروف کپور خاندان کے فرد تھے جو اداکاری سے لے کر فلم سازی تک بے مثال رہا۔

    وجیہہ صورت ششی کپور کا بچپن کھیل کود کے ساتھ کپور خاندان کے فلم اسٹوڈیو میں فن اور فن کاروں کے درمیان گزرا اور انھوں نے بھی بطور اداکار فلم انڈسٹری میں نام و مقام پایا۔ سنہ 1965 میں ششی کپور کی دو فلمیں باکس آفس پر بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ ان میں ایک یش چوپڑا کی فلم ’وقت‘ اور دوسری سورج پرکاش کی رومانوی میوزیکل فلم ’جب جب پھول کھلے‘ تھی۔ ششی کپور کو ان فلموں نے شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ چالیس کی دہائی میں ششی کپور نے کئی فلموں میں بطور چائلڈ ایکٹر کام کیا تھا۔ ان میں 1948 کی فلم آگ اور 1951 کی مشہور فلم آوارہ شامل ہیں جن میں وہ راج کپور کے بچپن کا کردار ادا کرتے دکھائی دیے۔ 1965 سے 1976 کا عرصہ ان کا سنہرے دور ثابت ہوا اور ششی کپور نے جن فلموں میں کام کیا وہ زیادہ تر کام یاب ثابت ہوئیں۔

    اداکار ششی کپور کا نام پیدائش کے وقت بلبیر راج رکھا گیا لیکن بعد میں گھر والوں نے ان کو ششی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ وہ پرتھوی راج کپور کے بیٹے تھے جن کا ہندوستانی فلم انڈسٹری اور سنیما پر گہرا اثر تھا۔ ششی کپور 18 مارچ 1938 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ششی کپور نے لگ بھگ 61 فلموں میں بطور سولو ہیرو اور 116 فلموں میں مرکزی کردار نبھائے۔ تاہم انھوں نے زیادہ تر مسالہ فلمیں کیں۔ اداکار ششی کپور کو سنہ 2014 میں ’دادا صاحب پھالکے‘ ایوارڈ دیا گیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بولی وڈ کے اس معروف اداکار کو ’پدما بھوشن‘، کے علاوہ دو فلم فیئر ایوارڈ بھی ملے۔ ششی کپور 4 دسمبر 2017 کو چل بسے تھے۔

    ششی کپور نے اپنے والد پرتھوی راج کپور کے ساتھ سنہ 1953 سے 1960 تک پرتھوی تھیٹر میں کام کیا۔ اسی زمانے میں وہ جینیفر کینڈل کی محبت میں گرفتار ہوئے اور شادی انجام پائی۔ لیکن گھر والے پہلے اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اداکار اپنی کتاب ’پرتھوی والا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں جینیفر کو اپنے والدین کے پاس نہیں بلکہ شمی کپور اور گیتا بالی کے پاس لے گیا۔ وہ ہمیں اپنی کار اور کچھ پیسے دیتے تاکہ ہم ڈرائیو پر جا سکیں، اکٹھے کھا پی سکیں۔ بعد میں میرے کہنے پر شمی نے ہمارے والدین سے ہمارے بارے میں بات کی۔ ان کے سمجھانے کے بعد ہی انھوں نے بڑی مشکل سے ہمارے رشتے کو قبول کیا۔‘سنہ 1984 میں جینیفر کپور کا انتقال ہو گیا اور ششی کپور میں جینے کی امنگ جیسے دم توڑ گئی۔ ان کا وزن تیزی سے بڑھا اور ان کے گھٹنوں نے جواب دے دیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں ششی کپور کی یاداشت بھی انتہائی کمزور ہو گئی تھی۔

  • صاحب زادہ عبدالقیوم: سرحد کے سرسیّد اور اسلامیہ کالج کے بانی کا تذکرہ

    صاحب زادہ عبدالقیوم: سرحد کے سرسیّد اور اسلامیہ کالج کے بانی کا تذکرہ

    ممتاز ماہرِ تعلیم اور عوام میں صوبہ سرحد کے سرسّید مشہور ہونے والے صاحب زادہ عبدالقیوم خان 4 دسمبر 1937ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    صاحب زادہ عبدالقیوم خان 1864ء میں ضلع صوابی کے ایک گاؤں ٹوپی کے مشہور لودھی پشتون خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبدالرؤف تھا جب کہ ان کی والدہ گاؤں کوٹھا کے ایک عالم فاضل شخصیت حضرت صاحب کی بیٹی تھیں۔

    نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کا ایک حجرہ بھی آج ان کی یادگار کے طور پر اہمیت کا حامل ہے جہاں علمی مجالس اور سیاسی بیٹھک ہوا کرتی تھی، یہ قدیم حجرہ ایک شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور اس دور کی کئی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات یہاں آتی رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حجرہ 1890 میں‌ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس حجرے سے ملحق ایک مسجد 1930 میں تعمیر ہوئی تھی جہاں صاحبزادہ عبدالقیوم اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ دفن ہیں۔اسلامیہ کالج کے طالب علم اور اساتذہ آج بھی صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے مدفن پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔

    تقسیمِ ہند سے قبل اس دور کے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جہاں مسلمان اکابرین اور سیاسی و سماجی راہ نما حصولِ تعلیم پر زور دے رہے تھے، وہیں صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے بھی سرحد کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا اور پشاور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی جسے آج جامعہ کا درجہ حاصل ہے۔ صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی کوششیں‌ جاری رہیں‌ اور 1912ء میں انھوں نے اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔

    تقسیم سے قبل صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہندوستان کی مرکزی مجلسِ قانون ساز کے رکن رہے اور 1930 ء سے 1932ء کے دوران لندن میں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ برطانوی راج میں اس وقت کی حکومت نے صاحب زادہ عبدالقیوم خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خان بہادر، نواب اور سَر کے خطابات کے علاوہ قیصرِ ہند گولڈ میڈل بھی دیا۔ وہ صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔

  • ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    افضال احمد نے ساٹھ کی دہائی کے آواخر میں ٹیلی ویژن اور فلمی پردے پر اپنی عمدہ پرفارمنس، ڈائیلاگ ڈیلیوری کے منفرد انداز اور رعب دار آواز کی بدولت دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ آنے والے برسوں میں ان کی پہچان ایک باکمال اور پُراعتماد فن کار کے طور پر بنی۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اپنی پرفارمنس سے یادگار بنا دیا۔ آج افضال احمد کی برسی ہے۔

    اشفاق احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’اچے برج لاہور دے‘‘ ہو یا منو بھائی کا ’’جزیرہ‘‘ افضال احمد نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک ٹی وی اور فلم کی دنیا میں‌ کام کیا۔ دو دسمبر 2022ء کو افضال احمد لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا پورا نام سید افضال احمد تھا۔ پرکشش شخصیت کے مالک افضال احمد جھنگ کے ایک صاحبِ ثروت گھرانے کے فرد تھے۔ ان کی تعلیم ایچی سن سے ہوئی۔ ٹی وی ڈراموں کے بعد انھیں فلموں کی آفر ہوگئی جن میں اردو، پنجابی اور پشتو فلمیں شامل ہیں۔ فلموں میں کام ملنے کی ایک وجہ افضال احمد کی دل کش شخصیت اور سرخ وسپید رنگت کے ساتھ ان کی بھاری آواز اور مکالمہ ادا کرنے کی وہ صلاحیت بھی تھی جس نے فلم سازوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ افضال احمد نے فلموں میں بطور ہیرو، ولن اور سائڈ ہیرو کے کردار ادا کیے۔

    اداکار افضال احمد نہایت قابل اور باصلاحیت بھی تھے اور فن سے محبت کرنے والے بھی۔ انھوں نے پاکستان میں تھیٹر کو فروغ دینے اور جدید تھیٹر کو روشناس کرانے کے لیے بہت کام کیا۔ وہ پاکستان میں تھیٹر کی ترقی و ترویج کے لیے کوششیں‌ کرنے والے چند بڑے فن کاروں میں سے ایک ہیں۔

    نام ور ڈرامہ نگار، شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد لکھتے ہیں، عابد علی، محبوب عالم اور سہیل اصغر کے بعد افضال احمد وہ چوتھا اداکار تھا جس نے میرے تین سے زیادہ سیریلز میں ہمیشہ یاد رہ جانے والے کردار ادا کیے۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ایک اپاہج کی سی زندگی گزار رہا تھا لیکن جن لوگوں نے اس کو ساٹھ کی دہائی کے آخر سے لے کر اس کے برین ہیمرج کے درمیانی تقریباً 35 برسوں میں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر جھنڈے گاڑتے دیکھا ہے، ان کے لیے وہ کسی بھی طرح ایک سپر اسٹار سے کم نہ تھا۔

    امجد اسلام امجد آگے لکھتے ہیں، اس کا سرخ و سفید رنگ جس کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا، متاثر کن شخصیت اور بارعب آواز اس کی ایسی پہچان تھی جس کا کوئی مماثل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ خاندانی طور پر مضبوط معاشی پس منظر کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج میں ایک طرح کا اعتماد شامل تھا مگر اسے غرور کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہر محفل میں فوراً گھل مل جاتا تھا اور خاص طور پر جونیئر اور معاشی طور پر کمزور فن کاروں کے لیے اس کے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا البتہ سیٹ پر ساتھی اداکاروں کے لیے اس کی شرارت پسند طبیعت سے نباہ مشکل ہو جاتا تھا۔ اپنے کام اور رول کے تقاضوں کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔

    فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی قوتِ گویائی بھی جاتی رہی تھی اور افضال احمد معذوری کے باعث وہیل چیئر پر تھے۔ اداکار کی مشہور فلموں میں شعلے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، عشق نچاوے گلی گلی اور دیگر شامل ہیں۔

  • نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی حسین اور خوب صورت چہروں نے اس اعتماد کے ساتھ بھی قدم رکھا کہ آج نہیں تو کل وہ ضرور کام یاب ہوں گے اور فلمی ہیرو یا ہیروئن کے طور پر مستقبل میں نام بنا لیں گے۔ بلاشبہ یہ خوب صورت اور باصلاحیت فن کار بھی تھے، اور فلم سازوں نے انھیں موقع بھی دیا، لیکن ان کی فلمیں بری طرح پِٹ گئیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان نئے فن کاروں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر بات کی جائے اداکاراؤں کی تو ان میں بعض خوب صورت چہرے ایسے بھی تھے، جو فلمی دنیا میں کام یاب تو رہے لیکن یہ کام یابی انھیں ثانوی کرداروں یا سائیڈ ہیروئن کے کردار سے آگے نہ لے جاسکی۔

    ستّر کی دہائی کی ایک اداکارہ ’’نمو‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے جس نے پاکستانی فلمی صنعت میں شہرت تو حاصل کی، مگر ثانوی نوعیت کے کرداروں اور سائیڈ ہیروئن کے طور پر ہی اسے دیکھا جاسکا۔

    یہ نورین بٹ تھی جو 3 اگست 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئی، نورین بٹ کے والد شہزادہ محمود متحدہ ہندوستان کے ایک ایسے اداکار اور مصنّف تھے جنھیں راج پال کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد شہزادہ محمود کراچی آگئے اور بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔ نورین بٹ کو فلم میں کام کرنے کا شوق والد کی وجہ سے ہوا اور وہ قسمت آزمانے کے لیے نگار خانوں کے چکر لگانے لگی۔ موقع ملا تو نورین بٹ نے اسکرین ٹیسٹ دیے، مگر مسترد کر دی گئی۔ حالاںکہ نورین بڑی بڑی آنکھوں والی اور تیکھے نقوش کی لڑکی تھی، مگر فلم سازوں اسے کام دینے کو تیار نہیں تھے۔ نمو مسلسل قسمت آزماتی رہی اور پھر شباب پروڈکشنز کی فلم ‘فسانہ دل’ میں اسے اداکار ندیم کے مدِمقابل نِمو کا نام دے کر بہ طور ہیروئن کاسٹ کر لیا گیا۔ اداکارہ نورین کو یہ نام شباب کیرانوی نے دیا تھا اور اس فلم میں سائن کرتے وقت شباب کیرانوی نے یہ شرط رکھی تھی کہ نمو پانچ سال تک کسی اور فلم ساز کی فلم میں کام نہیں کرے گی۔ یہ بات نمو کو پسند نہ آئی اور اس نے شباب کیرانوی کو انکار کردیا جس کا نتیجہ کاسٹ سے اسے الگ کیے جانے کی صورت میں نکلا۔ بعد میں نمو کی جگہ دیبا بیگم کو اس فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔

    یہ ایک بڑی بات تھی کہ وہ لڑکی جسے ابھی انڈسٹری میں کوئی کام نہیں دے رہا اور شباب کیرانوی جیسے بڑے فلم ساز کی آفر کو اس نے یوں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، تو دوسرے فلم ساز بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بظاہر تو نمو نے اپنے پیروں پر گویا کلہاڑی مار لی تھی لیکن اس کی یہ جرأت ایک چانس بن گئی۔ فلم ساز اور ہدایت کر اسلم ڈار نے اسے اپنی فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ میں کاسٹ کرلیا۔ سخی لٹیرا میں اداکارہ نے بہ طور سائیڈ ہیروئن کام کرکے شائقین کی توجہ حاصل کرلیا۔ یہ کام یاب فلم 1971ء میں پیش کی گئی۔ فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ کے بعد اسلم ڈار کی سسپنس سے بھرپور فلم ’’مجرم کون‘‘ میں نِمو کو ایک اہم کردار میں پیش کیا گیا۔ یہ فلم اگست 1971ء میں کراچی کے ریگل سنیما میں نمائش پذیر ہوئی۔ وہ اسلم ڈار کی فلموں سے شہرت پانے لگی۔ اداکار سلطان راہی کو بامِ عروج پر پہنچانے والی فلم بشیرا تھی۔ اس میں اداکارہ نِمو کو سلطان راہی کی لڑاکا بیوی کا کردار نہایت عمدگی سے نبھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اردو فلم زرق خان میں نمو نے زبردست اداکاری کی۔ 1974ء میں اسلم ڈار کی رومانوی نغماتی اردو فلم ’’دل لگی‘‘ میں اداکارہ شبنم، ندیم، نیر سلطانہ اور دیگر بڑے ناموں کے درمیان اداکارہ نِمو نے بھی اپنی برجستہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ اس فلم میں نمو نے اپنی بڑی بڑی اور گہری آنکھوں سے خوب کام لیا کہ جب جب یہ کردار خاموش رہتا تو فلم بینوں کو اس کی آنکھیں بولتی دکھائی دیتیں‌۔

    اداکارہ نمو نے اپنے کیریئر میں 113 فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ اردو کے علاوہ نمو نے پنجابی اور چند پشتو فلموں میں بھی اداکاری کی۔ نمو نے زیادہ تر ثانوی اور سیکنڈ ہیروئن کے رول کیے اور انھیں اکثر ماڈرن اور گلیمر کرداروں میں پسند کیا گیا۔ 1977ء میں ہدایت کار نذرُ الاسلام کی بلاک بسٹر اردو فلم ’’آئینہ‘‘ میں اداکارہ نمو نے ایک نہایت ماڈرن اور ہائی سوسائٹی کی عورت کا رول کیا تھا جس کا شوہر تاش اور شراب کی محفلوں میں اسے ساتھ رکھتا ہے۔ اداکارہ نمو نے چاہت، ننھا فرشتہ، فرض اور مامتا، شیریں فرہاد، نیک پروین، سنگم، پیار کا وعدہ، آواز، قربانی، دو دل اور دیگر فلموں‌ میں کام کرکے شہرت پائی۔ اس کی پنجابی فلموں میں حشر نشر، کل کل میرا ناں، ڈنکا، دادا، انتقام دی اگ، خون دا دریا، شرابی، بابل صدقے تیرے، ہتھکڑی، میڈم باوری شامل ہیں۔

    اداکارہ نے فلمی دنیا میں نام بنانے کے بعد شادی کی تھی لیکن ان کے مطابق وہ خود غرض اور لالچی شخص تھا جس سے انھوں نے علیحدگی حاصل کر لی تھی۔ بعد میں‌ دوسری شادی کرکے وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئیں۔ 16 دسمبر 2010ء کو نورین بٹ المعروف نمو لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

  • یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    گزشتہ ایک صدی کے دوران سائنسی ایجادات کی بدولت داستان گوئی، نوٹنکی، کہانی یا کھیل کو عام لوگوں کی دل چسپی اور تفریح‌ کے لیے پیش کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا اور برصغیر کی بات کی جائے تو سنیما اسکرین نے فن اور ثقافت کی دنیا میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ پاکستانی سنیما کو دیکھیں‌ تو اس کے عروج کے زمانے میں پاکستان میں‌ فلمی صحافت اور تاریخ قلم بند کرنے کا بھی آغاز ہوا۔

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ بھی روزناموں میں فلمی دنیا کی خبریں، اشتہارات، فلمی صنعت سے متعلق مختلف اعلانات وغیرہ شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی فلمی پرچے بازار میں آتے اور بہت سے فلمی جرائد بک اسٹالوں پر پہنچتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جس میں پاکستان کے واحد فلمی مؤرخ کے طور پر یٰسین گوریجہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گوریجہ صاحب نے 26 دسمبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔ یٰسین گوریجہ کی مرتب کردہ فلمی تاریخ اور ان کے لکھے ہوئے فلمی ستاروں‌ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ شخصیات کی باتیں یادیں، کہانیاں اور ذاتی زندگی کے کئی دل چسپ، رنگین اور بعض سنگین مگر یادگار واقعات اور قصّے بھی مستند مانے جاتے ہیں۔

    معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار لکھتے ہیں‌ کہ فلمی صحافت سے اُن (گوریجہ) کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اُن کا دائرۂ کار ایکٹرسوں کے اسکینڈل تلاش کرنے یا کسی ہیرو کے تازہ ترین معاشقے کا کھوج لگانے سے بالکل مختلف تھا اور وہ فلمی دنیا کے ایک ایسے وقائع نگار بن گئے تھے جِن کے لکھے ہوئے روزنامچے مستقبل کے فلمی مورّخ کے لیے مستند اور موقّر ترین مواد فراہم کریں گے۔

    یٰسین گوریجہ نے 1966 میں پاکستان کی فلمی ڈائری مرتب کرنا شروع کی تھی جو ایک قسم کی Year Book ہوتی تھی اور اس میں یہاں کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص اور ادارے کا نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہوتا تھا۔ سال بھر کے دوران بننے والی فلموں کی فہرست اور ہر فلم کی ضروری تفصیل بھی اُس میں درج ہوتی تھی۔ اس کی سالانہ اشاعت میں کئی بار رخنہ بھی پڑا لیکن زود یا بدیر اس کا نیا ایڈیشن ضرور شائع ہو جاتا تھا۔

    کچھ عرصہ بعد یٰسین گوریجہ نے 1947 سے لے کر تاحال بننے والی تمام فلموں کی تفصیل جمع کر لی اور اسے اپنی ڈائریکٹری میں شائع کیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں انھوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے بننے والی فلموں کی تفصیل بھی اکھٹی کر لی اور اس طرح ڈائریکٹری کے موجودہ ایڈیشن میں 1913 میں بننے والی ہندوستان کی اوّلین فلم سے لیکر 1947 تک بننے والی تمام انڈین فلموں کی تفصیل درج ہے جب کہ 1947 کے بعد صرف پاکستانی فلموں کا احوال ہے جو کہ دسمبر 2002 تک چلتا ہے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں‌، اس ڈائریکٹری کے علاوہ یٰسین گوریجہ نے ہفت روزہ نگار میں اپنی فلمی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو بعد میں کتابی شکل میں ڈھل گیا اور ’لکشمی چوک‘ کے نام سے میّسر ہے۔ اس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات درج ہیں جوکہ مُصنّف نے چشم دید صورت میں رقم کیے ہیں۔ نورجہاں کی زندگی اور فن پر اُن کی کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فلمی حلقوں سے باہر بھی داد وصول کر چکی ہے۔

    یٰسین گوریجہ یقیناً پاکستان کی چلتی پھرتی فلمی تاریخ تھے۔ آخری عمر تک حافظہ اتنا شان دار تھا کہ کسی بھی پرانی فلم کا سنِ تکمیل یا کاسٹ کی تفصیل وہ زبانی بتا دیتے تھے۔ اُن کے پاس پرانی فلمی تصویروں اور پوسٹروں کا بہت بڑا خزانہ تھا۔ پچھلے برس (غالباً زندگی کے آخری سال میں) جاپان سے ایک ٹیم آئی جو پوسٹروں کے فن پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی تھی۔ یٰسین گوریجہ کے دفتر میں نایاب پوسٹروں کا ڈھیر دیکھ کر وہ سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ٹیم کی لیڈر خاتون نے گوریجہ مرحوم سے اجازت لی کہ اُن کی کتاب ’لکشمی چوک‘ کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور باہر کی دنیا کو یہاں کی گم نام فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا جائے۔

    یٰسین گوریجہ 1926ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 برس کے تھے جب قیامِ‌ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ یٰسین گوریجہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے کچھ حصّے سامنے آئے اس میں تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خودنوشت کا مواد بھی اکٹھا کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے۔ ڈائری میں ایک جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان کی نظر میں تقسیم سے پہلے معاشرہ کیسا تھا اور بٹوارے کے بعد نفرت اور دوریوں کو وہ کیسا دیکھتے ہیں:

    ’آج کے دور میں جب کہ ہندوؤں کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور یہ محض اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہے ورنہ میں نے جو بیس سال ہندوؤں میں گزارے۔ آریہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ زیادہ تر دوست ہندو اور سکھ لڑکے ہی تھے، لیکن کسی قسم کا بغض یا نفرت کا جذبہ نہ تھا۔ اوم پرکاش میرا کلاس فیلو تھا۔ خالص پنڈت اور برہمن گھرانہ۔ لیکن میں ہر وقت ان کے گھر کھیلتا کودتا رہتا۔ بالکل بھائیوں جیسا پیار۔ لچھمن داس، گوبندرام، جیوتی پرکاش، رام پرکاش، جگدیش چندر، گوردیال سنگھ اب کتنے نام دہرائے جائیں۔ ان کے گھروں میں آنا جانا۔ ان کے ماں باپ بھی ہمیں اولاد کی طرح سمجھتے‘۔ٰ

    یٰسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کو ان کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کی فلموں کا مفصل احوال اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر اہم شخص کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں۔ ابتدائی ایڈیشنوں میں 1948 کے بعد کی تمام پاکستانی فلموں کا مختصر احوال اور بعد میں ماضی کی طرف 1931 تک یعنی اوّلین متکّلم فلم سے لے کر دورِ جدید تک تمام پاکستانی فلموں کا بنیادی ڈیٹا اس میں شامل کر لیا گیا۔

    پاکستانی سنیما کے اس واحد وقائع نگار کا بہت سا کام ان کی زندگی میں شایع نہ ہوسکا لیکن گوریجہ صاحب کے جانشین طفیل اختر صاحب نے ان کی متعدد کتابیں تدوین اور ترتیب کے عمل سے گزار کر شایع کروائی ہیں۔ پاکستانی سنیما کی پچاس سالہ تاریخ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جسے مصنّف نے دس دس برس کے پانچ ادوار میں تقسیم کیا تھا اور 1947 سے 1997 پر محیط عرصہ ہے۔