Tag: دسمبر برسی

  • الطاف حسین حالی: اردو زبان و ادب کا محسن

    الطاف حسین حالی: اردو زبان و ادب کا محسن

    پانی پت کی ایک گنجان بستی میں صوفی بو علی شاہ قلندر کی درگاہ ہے۔ یہ علاقہ پچ رنگا اچار کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس درگاہ کے پھاٹک کی بائیں جانب مولانا الطاف حسین حالی کی قبر ہے۔ وہی الطاف حسین حالی جو مرزا غالب کے شاگرد تھے اور یادگارِ غالب ان کی تصنیف کردہ ایک نہایت معتبر اور مقبول سوانح عمری ہے۔

    مرزا غالب کے کئی شاگردوں میں حالی کا نام اس لیے زیادہ مشہور ہوا کیوں کہ وہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ تنقید نگار بھی تھے۔ ان کی کتاب ‘یادگارِ غالب’ نے جس طرح مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعرانہ عظمت اور ان کی شخصیت کا تعار‌ف کرایا اس نے حالی کی کتاب کو کلاسک کا درجہ دے دیا۔ آج الطاف حسین حالی کا یومِ وفات ہے۔ حالی 1914 میں آج ہی کے دن پانی پت میں انتقال کرگئے تھے۔

    حالی نے صرف تنقید ہی نہیں لکھی بلکہ اپنی شاعری سے اردو ادب کی مختلف جہات اور رجحانات کا بھی اضافہ کیا جسے بعد میں آنے والوں نے اپنایا اور ان میں بلاشبہ اقبال، جوش، فیض احمد فیض اور ان جیسے دوسرے بڑے شاعر شامل ہیں۔

    خواجہ الطاف حسین حالی کو اردو ادب کا پہلا مصلح اور محسن بھی کہا جاتا ہے۔ حالی نے اس زمانے میں ادبی اور معاشرتی سطح پر بدلتے ہوئے رجحانات اور زندگی کے تقاضوں کو محسوس کیا اور ادب و معاشرت کو ان سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نظم و نثر کے ذریعے کوشش کی۔ ان کی تین سوانح عمریوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں فن اور شخصیت کے ساتھ تنقید کا رنگ بھی شامل ہے اور "حیاتِ سعدی، "یادگارِ غالب” اور "حیاتِ جاوید” اسی سے مملو ہیں۔ حالی کی ایک کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری” اردو میں باقاعدہ تنقید کی بنیاد رکھنے والی ایسی کتاب ہے جو اس فن کے اصول بھی بتاتی ہے اور شاعری کے معیار پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

    الطاف حسین حالی ایک مصلح قوم بھی تھے۔ ان کی مسدس ( مثنوی مدؔ و جزرِ اسلام) ایک مقبول کتاب ہے جو میں وہ قوم کی زبوں حالی کا نوحہ سناتے ہیں۔ مسدس نے ہندوستان میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی اس کی مثال شاذ ہی ملے گی۔

    الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر لگ بھگ نو سال تھی جب والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش اور تربیت ان کے بڑے بھائی نے پدرانہ شفقت سے کی۔ حالی نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی اور قرآن حفظ کیا۔ 17 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے بعد ان کو روزگار کی فکر لاحق ہوئی تو دہلی آ گئے۔ حالی کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پانی پت اور دہلی میں انھوں نے کسی فارسی، عربی، فلسفہ و منطق اور حدیث و تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ادب میں اپنے ذوق و شوق اور مطالعہ کی بدولت کمال حاصل کیا۔ دہلی کے قیام کے دوران مرزا غالب کے قریب ہوگئے۔ اس کے بعد وہ خود بھی شعر کہنے لگے۔ 1857 کے ہنگاموں میں حالی کو دہلی چھوڑ کر پانی پت واپس جانا پڑا۔ کئی سال بے روزگاری اور پھر شیفتہ نے انھیں اپنے بچّوں کا اتالیق رکھ لیا اور حالی کی شاعرانہ ذہن سازی میں شیفتہ کی صحبت کا بھی بڑا دخل رہا۔ شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے۔ پھر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس ہو گئے اور اس عرصہ میں ان کی کتابیں بھی شایع ہوتی رہیں جن میں‌ "مقدمۂ شعر و شاعری” نے جدید تنقید کی بنیاد رکھی۔ نثر میں "حیاتِ جاوید” 1901ء میں شائع ہونے والی سر سیّد کی وہ سوانح عمری ہے جسے ایک دستاویز بلکہ مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔ 1887ء میں 75 روپے ماہوار وظیفہ پانے لگے اور ملازمت سے مستعفی ہو کر پانی پت چلے گئے۔ 1904ء میں حکومت نے انھیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔ حالی کو دائمی نزلہ لاحق تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس پر قابو پانے کے لیے افیون استعمال کی جاسکتی ہے اور حالی نے بھی یہ کیا، لیکن فائدہ کے بجائے نقصان ہوا۔ ان کی بصارت بھی دھیرے دھیرے زائل ہوتی گئی اور جسمانی پیچیدگیاں لاحق ہوئیں۔

    حالی نے عورتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کے لیے بہت کچھ لکھا۔ ان میں "مناجاتِ بیوہ” اور "چپ کی داد” مشہور ہیں۔ شاعری میں حالی نے غزلوں، نظموں اور مثنویوں کے علاوہ قطعات، رباعیات اور قصائد بھی لکھے۔

  • سعید ملک: ایک ماہرِ فنِ موسیقی کا تذکرہ

    سعید ملک: ایک ماہرِ فنِ موسیقی کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اسے صدیوں سے بلند مقام اور شاہانِ وقت کی سرپرسی حاصل رہی ہے۔ موسیقی اور گائیکی ہر خاص و عام میں‌ یکساں‌ مقبول اور یہ فن ترقی کرتا اور فروغ پاتا رہا ہے۔ ہندوستان میں بالخصوص مغلیہ عہد میں کئی موسیقاروں نے شاہی دربار میں جگہ پائی اور نام و مقام پایا۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں‌ کلاسیکی موسیقی کا عروج تھا، لیکن اس کے بعد نئے آلاتِ موسیقی، جدید رجحانات اور طرزِ گائیکی کے سبب جہاں‌ کئی ساز اور اصنافِ موسیقی ماضی کا حصّہ بن گئیں، وہیں اس فن کے ماہر بھی اپنی عمر پوری کرتے چلے گئے اور فنِ موسیقی پر تحریر کردہ ان کی کتب بھی فراموش کردی گئیں۔

    آج سعید ملک کا یومِ وفات ہے، جو ایک مشہور ماہرِ‌ موسیقی اور ادیب بھی تھے۔ 30 دسمبر 2007ء کو سعید ملک دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ سعید ملک نے فن موسیقی پر متعدد تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں‌ فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں اور اس کی گورننگ کونسل کے رکن رہے۔ انھوں نے 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی پر مضامین اور کالم لکھے۔ انھوں‌ نے بڑی محنت اور تحقیق کے ساتھ اس فن سے متعلق معلومات اور کئی باریکیاں باذوق قارئین اور موسیقی سیکھنے اور سمجھنے والوں تک پہنچائیں۔ ان کے یہ کالم پاکستان میں موسیقی کی تاریخ پر ایک مستند حوالہ بھی ہیں۔

    سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔

  • پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    اردو کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی موت کے بعد ان کا کلیات ‘‘ماہِ تمام’’ کے نام سے مداحوں تک پہنچا تھا۔ اس سے قبل پروین شاکر کے مجموعہ ہائے کلام ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے نام سے منظرِ‌عام پر آچکے تھے۔

    پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی ہار دی تھی۔ آج اردو کی اس مقبول شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں پروین شاکر کو ان کے رومانوی اشعار کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو نسائی جذبات کے عصری شعور کے ساتھ اظہار کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو اس شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پاکستان اور دنیا بھر میں موجود اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں مقبول پروین شاکر کو اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ اشعار ان کے کتبے پر درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    لُٹی محفلوں کی دھول اور عبرت سرائے دہر میں عہد ساز شاعر منیر نیازی کا تذکرہ

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کا کلام ایک خواب ناک ماحول کو جنم دیتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ منیر نیازی کے طرزِ بیان اور شعری اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    اردو ادب میں منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر مانا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور ان کی شاعری کسی دبستان کے اثر سے مغلوب نہیں‌ بلکہ وہ اپنی شاعری سے ایک نئے دبستان کی طرح ڈالنے والے ایسے شاعر ہیں جس کی تقلید کرنے کی کوشش ان کے بعد آنے والوں نے کی ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے یہ مشہور اشعار دیکھیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
    عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت وہ کتاب تھی جس کے بارے میں مصنّف باری علیگ لکھتے ہیں کہ پہلے ایڈیشن کا طرزِ تحریر یک طرفہ اور طریقِ تنقید منتقامانہ تھا، اس کے باوجود اس کی مقبولیت کی وجہ یہی تھی کہ لوگ انگریز سے نفرت اور کمپنی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن 1945ء میں آیا تھا۔ آج بھی باری علیگ کی اس کتاب کی اہمیت برقرار ہے۔

    باری علیگ کو اردو دنیا ایک ترقی پسند دانش وَر، مؤرخ، نقاد اور صحافی کی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔ 1949ء میں باری علیگ آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی کتاب ’ کمپنی کی حکومت‘ منفرد انداز کی تاریخ نگاری میں ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ سعادت حسن منٹو جیسے مشہور ادیب باری علیگ کو اپنا راہ نما اور استاد تسلیم کرتے تھے۔ 1933ء میں جب منٹو بارہویں جماعت کے طالبِ علم تھے تو ان کی ملاقات اشتراکی ادیب باری علیگ سے ہوئی تھی جو ان دنوں روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر تھے۔ منٹو کی ذہنی پرداخت میں باری علیگ کا بڑا حصّہ ہے۔

    یہ باری صاحب ہی تھے جن کی ہدایت پر منٹو نے وکٹر ہیوگو کے انگریزی ترجمے ’دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈیمنڈ‘ کو اُردو کے قالب میں ڈھالا اور بعد میں آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’ ویرا‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ باری علیگ کے دیگر خورد معاصرین نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا اور ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    باری علیگ 1906ء کو برطانوی ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام باری تھا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور دیگر طالبِ علموں کی طرح اسی درس گاہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ علیگ کا لاحقہ جوڑا۔ باری علیگ کی تصانیف میں تاریخ کا مطالعہ، انقلابِ فرانس، کارل مارکس، مشین اور مزدور اور دیگر کتب شامل ہیں۔

    حالاتِ حاضرہ اور سیاسی امور پر اخبارات کے لیے مضمون نویسی سے باری علیگ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا۔ بعد میں اخبار مساوات کی ادارت سنبھالی۔ یہاں انھوں نے معیاری صحافت کی۔ باری‌ صاحب کی دل چسپی کے موضوع تاریخ اور معاشیات تھے۔ اپنی اوّلین دو کتابوں میں انھوں نے فرانس کے انقلاب، ہندوستان میں انگریزوں کی آمد، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قیام اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ باری علیگ کی دیگر کتابوں میں‌ اسلامی تاریخ و تہذیب، عالمی تاریخ، تاریخِ اسلام بھی شامل ہیں۔ باری علیگ نے مارکسی فلسفے پر چند کتابچے بھی تحریر کیے۔

    باری علیگ جوانی میں لاہور شہر میں وفات پاگئے تھے۔

  • اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار کو بہ طور اداکار خوب شہرت ملی، لیکن انھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کی اور فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر کام کیا اشوک کمار کو متعدد فلمی ایوارڈز دیے گئے۔ اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بولی وڈ اداکار اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا اور ہر میڈیم کے ناظرین کو اپنی پرفارمنس سے متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

    اشوک کمار کو دو مرتبہ بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے اور 1999ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • سوبھوگیان چندانی: کمیونسٹ راہ نما، ایک عہد ساز شخصیت

    سوبھوگیان چندانی: کمیونسٹ راہ نما، ایک عہد ساز شخصیت

    ممتاز کمیونسٹ راہ نما، اور مارکسی سیاست دان سوبھوگیان چندانی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ ان کا شمار برصغیر کے سینئر کمیونسٹ راہ نماؤں میں‌ ہوتا تھا جنھیں پاکستان میں اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں اور دورِ آمریت میں‌ معتوب ہوئے۔ بوقتِ مرگ ان کی عمر 95 سال تھی۔

    سوبھو گیان چندانی کا پیدائشی نام سوبھ راج تھا۔ لیکن وہ سوبھوگیان چندانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ 3 مئی 1920ء کو موہن جو دڑو سے چند کلومیٹر دور ’’گوٹھ بِندی‘‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے نظریات، فکر و فن اور سیاسی و عوامی جدوجہد کا احاطہ کرتی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سوبھوگیان چندانی کا خاندان سکھ مت کے بانی گرو نانک کا ماننے والا تھا۔ سوبھوگیان چندانی کا عقیدہ اور اعتقاد انسان دوستی، مظلوم کی حمایت اور جابر کو للکارنے پر مبنی تھا۔ سوبھوگیان چندانی کی پوری زندگی غریب اور محروم طبقات کے حقوق کی لڑائی، جاگیر داروں، سرمایہ داروں کے خلاف آواز بلند کرنے اور آمروں کو للکارتے ہوئے گزری۔

    انھوں نے لاڑکانہ سے میٹرک پاس کیا اور پھر رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے شانتی نکیتن میں داخلہ لے لیا۔ اس بارے میں انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1930 میں ٹیگور کو خط لکھا کہ ’میں ایک محنتی اور ایمان دار لڑکا ہوں، آپ کے ادارے میں تعلیم کا خواہش مند ہوں، لیکن آپ کے پری ایڈمشن ٹیسٹ میں حصہ نہیں لے سکتا۔ چند روز بعد اس خط کا جواب آگیا اور بغیر انٹرویو ادارے میں داخلہ مل گیا۔‘وہاں‌ آرٹ کے علاوہ کلچرل فلاسفی کے طالبِ علم رہے۔ اس ادارے میں تعلیم اور وہاں‌ تربیت کے بارے میں سوبھو گیان چند کہتے تھے کہ انھوں نے ’کبھی جھوٹ نہیں بولا، کبھی الکوحل کا استعمال نہیں کیا اور خواتین کو بری نظر سے نہیں دیکھا۔‘

    کمیونسٹ فکر اور فلسفے سے متاثر ہونے والے سوبھو نے 1942 میں سیاست میں قدم رکھا اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اگلے ہی سال پٹنہ میں کمیونسٹ پارٹی کی اسٹوڈنٹس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں بشمول ان کے سندھ سے دو درجن کے قریب نوجوان شریک ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فن اور ادب کی دنیا پر بھی کمیونسٹ اور ترقی پسند فکر کے حامل اہلِ قلم چھائے ہوئے تھے اور آزادی کی جدوجہد بھی زوروں پر تھی۔ ہر طرف جلسے، مظاہرے ہو رہے تھے اور ہندوستان میں سیاسی اور سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے زمانے میں وہ سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ طلباء کا زور تھا کہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے، لیکن کمیونسٹ پارٹی کی ہدایت تھی کہ انگریز حکومت کو زیادہ تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سوویت یونین کا ساتھ دے رہی ہے۔ انہی انقلاب آفریں دنوں میں‌ ہٹلر سے جنگ کی وجہ سے مرکزی کمیونسٹ پارٹی نے برطانیہ کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ مگر سوبھو گیان چندانی اور ان کے ساتھیوں نے اس کی مخالفت کی اور اس وقت گاندھی کی برطانیہ کے خلاف جدوجہد کا حصّہ بن گئے۔ اس وقت تک سوبھو کی فکر خاصی پختہ ہوچکی تھی اور وہ نہایت پُرجوش اور فیصلہ ساز کارکن مشہور تھے۔ وہ کراچی میں ریلوے اور کئی دوسرے اداروں کی مزدور یونینوں کے سرکردہ راہ نما تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد کامریڈ سوبھو اور ان جیسے نہایت مخلص اور بے داغ کردار کی مالک شخصیات نے ہر قسم کی شہرت اور عہدوں‌ کو چھوڑ کر کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہنا پسند کیا۔ وہ فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، میجر اسحاق، شرافت علی، عزیز سلام بخاری اور حیدر بخش جتوئی جیسے نام وَر کمیونسٹوں اور ہاری تحریک کے راہ نماؤں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔

    پاکستان میں بعد میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی اور کمیونسٹ قیادت پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا اور کارکن بھی ٹوٹتے چلے گئے اور جب آمریت کی تاریکی میں مکر و فریب کی سیاست نے رنگ جمایات تو کامریڈ سوبھو کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں۔ ان کے ایک انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو انھیں ایک موقع پر جی ایم سید نے مشورہ دیا تھاکہ ’سوبھو یہاں سے بھاگ جاؤ اب یہ زمین تمہارے لیے محفوظ نہیں۔‘ لیکن کامریڈ سوبھو نے کہا کہ ’میں کیوں یہاں سے جاؤں یہ میری دھرتی ہے، میں دھرتی کا بیٹا ہوں۔ 1947 کے وقت بھی نہیں گیا تو اب کیوں جاؤں۔‘ کامریڈ سوبھو کو ایوب کے دور میں گرفتار کیا گیا۔ انھیں عام آدمی سے محبت، اس کے حقوق کی فکر، اور اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے شاہی قلعے میں عقوبت خانے میں قید بھگتنا پڑی، لیکن جبر اور تشدد ان کو اپنا مسلک چھوڑنے پر مجبور نہیں‌ کرسکا۔

    لاڑکانہ سے تعلق اور سندھی ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کو سوبھو گیان چندانی ڈکٹیٹر قرار دیتے تھے۔ سنہ 1988 کے انتخابات میں وہ اقلیتی نشست پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں‌ نے پاکستان میں‌ کمیونسٹ نظریات کی سیاست جاری رکھی اور روایتی سیاست کا حصّہ نہیں‌ رہے۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کا عظیم شاعر

    فارسی زبان کے عظیم شاعر عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ بڑا مقام و مرتبہ اور لازوال شہرت حاصل ہوئی۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی مگر ان کی وفات کے بعد شعراء‌ نے ان کا انداز اپنانے کو اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ 1644ء میں بیدل نے عظیم آباد، پٹنہ میں آنکھ کھولی اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔

    5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • ناشاد و ناکارہ پھرنے والے مجازؔ کا تذکرہ!

    ناشاد و ناکارہ پھرنے والے مجازؔ کا تذکرہ!

    بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مجاز اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور نوجوانوں میں ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔ اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ مجاز تھے تو معمولی شکل و صورت کے لیکن ان کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور بالخصوص لڑکیاں‌ ان کی دیوانی تھیں۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کا جنون اور رومان اس سے “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظمیں لکھواتا رہا۔ مجاز کو ان کی نظموں‌ کے طفیل بے پناہ شہرت ملی۔

    اردو کا یہ ممتاز شاعر 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوا تھا۔ ان کا اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا اور دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کے مدیر ہوگئے۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ مجاز نے 5 دسمبر 1955ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا تھا۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    یہ وہ نظم تھی جس نے ہندوستان بھر میں‌ نوجوانوں کو ان کا پرستار بنا دیا۔کالج کے لڑکے اور لڑکیاں‌ مجاز کو گنگناتے۔ ان کی نظمیں یاد کر کے ایک دوسرے کو سناتے۔ مجاز چین سے جی نہ سکے۔ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار ہوگئے اور یہی ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔