Tag: دسمبر برسی

  • پطرس بخاری: ایک ہمہ جہت شخصیت

    پطرس بخاری: ایک ہمہ جہت شخصیت

    پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس، ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ان اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافی اور صدا کار کے ساتھ ریڈیو کے لیے ان کی خدمات ایک ماہر براڈ کاسٹر طور پر ناقابلِ فراموش ہیں۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری ماہرِ تعلیم اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    پطرس بخاری کے لیے حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جسے کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا

    آپ نے کبھی "کہانیوں کا کارخانہ” بھی سنا ہے۔ یہ الفاظ ایک بہت بڑے فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈوما کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ ڈوما نے پہلے ڈرامے لکھے، پھر کہانیاں لکھیں۔ کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہونی شروع ہوئیں تو اس نے خود لکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیبوں کو پیسے دے کر بھی لکھوانا شروع کیا۔ اسی لیے اس کو کہانیوں کا کارخانہ کہا گیا تھا۔

    آج اس فرانسیسی ادیب کا یومِ وفات ہے اور یہ تعارفی سطور اس کے مشہور ناول کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے لی گئی ہیں جو مسعود برکاتی صاحب نے لکھا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور فرانسیسی ناول لکھنے والے کو نصیب نہیں ہوئی۔ ڈوما نے پانچ سو کے قریب ناول لکھے۔ اس کی کئی کتابیں فرانس سے باہر بھی مشہور ہیں۔ کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے اور آج بھی ان کو پوری دنیا میں دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ڈوما نے تاریخ کو کہانی کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈوما کی چند کتابیں ”تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ڈوما نے اپنی کہانیوں سے خوب کمایا، مگر جب وہ 1870ء میں مرا تو اس کے پاس کچھ نہ تھا۔

    اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” خاص طور پر بہت مشہور ہے۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ یقین نہیں آتا، لیکن پڑھنے والا ہر وقت آگے کیا ہوا کو جاننے کے شوق میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ادیب کہا جاتا ہے جسے بعد میں دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔ اس نے 5 دسمبر 1870ء کو وفات پائی۔ الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک قصبہ میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لکھنے لکھانے کا شغف اپنایا اور ایک ڈرامہ نویس کے طور پر سفر شروع کیا۔ بعد کے برسوں میں اس نے جو کہانیاں‌ لکھیں وہ بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں اور ان کی دل چسپی کہانی کے انجام بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی کہانیاں‌ قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات کی وجہ سے اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    الیگزینڈر ڈوما کا باپ پہلا افریقی فرانسیسی جنرل تھا جس نے فرانس کی طرف سے مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور فوجی کارنامے سرانجام دیے۔ اس کی ماں افریقی تھی۔ بعد میں فرانس میں سیاسی صورت حال بدلی اور نپولین کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی تو وہاں‌ غلامی کا بھی دوبار رواج پڑا اور تعصب و نسلی منافرت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ نپولین ذاتی طور پر افریقوں کے سخت خلاف تھا اور چوں کہ ڈوما کا باپ ایک افریقی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس لیے اسے بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ مصنّف نے اپنے باپ کی ان تمام تکالیف کو اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ الیگزنڈر ڈیوما نے اپنے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مشکلات پر مضامین بھی لکھے۔ خود الیگزینڈر ڈوما کی زندگی پر مبنی ایک فلم متنازع قرار پائی۔ انیسویں صدی کے اس افریقی فرانسیسی مصنّف کے روپ میں اس فلم میں ایک گورے کو دکھایا گیا جس پر نسل پرستی کی بحث چھڑ گئی۔ یہ 2010ء کی بات ہے اور اس فلم کا نام ” لا ائیٹو ڈیوما” تھا۔ ڈوما کا کردار ایک معروف فرینچ اداکار جراد ڈیپارڈیو کو دیا گیا اور اس کے لیے اداکار کو اپنا جسم کالا کرنا پڑا جس پر کہا گیا کہ فرینچ فلم انڈسٹری نے انیسویں صدی کے ایک عظیم ناول نگار کو دانستہ طور نیچا دکھانے کے لیے ان پر مبنی فلم میں ایک سفید فام کا انتخاب کیا۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی فرینچ اور افریقی مشترکہ کردار کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔

    ڈوما فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر درجنوں فلمیں‌ بنائی‌ جاچکی ہیں‌۔

  • دیوین ورما: بولی وڈ‌ کے مقبول مزاحیہ اداکار کا تذکرہ

    دیوین ورما: بولی وڈ‌ کے مقبول مزاحیہ اداکار کا تذکرہ

    دیوین ورما ہندی سنیما میں مزاحیہ اداکار کے طور اس دور میں مقبول ہوئے جب فلمیں ہیرو کی دبنگ انٹری اور آئٹم سانگ یا مار دھاڑ کی محتاج نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان کی کام یابی کا انحصار جان دار کہانی اور شان دار اداکاری پر ہوتا تھا۔ دیوین ورما نے دہائیوں تک اپنی مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔ دیوین 2 دسمبر 2014 کو 78 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔

    دیوین ورما نے اپنی مزاحیہ اداکاری سے دیکھنے والوں کو اپنا پرستار بنا لیا تھا۔ وہ فلموں میں شائشتہ کردار نبھاتے ہوئے اپنے انداز اور برجستہ جملوں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ دیوین ورما نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور بھوجپوری فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب فلم ’انگور‘ تھی جو شیکسپیئر کے ڈرامے ’کامیڈ ی آف ایررز‘ پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں دیوین ورما نے بہادر کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ معروف نغمہ نگار اور فلم ساز گلزار کی ایک کام یاب فلم تھی۔ دیوین ورما کو اس فلم کے لیے بہترین کامیڈین کا اعزاز دیا گیا۔

    ’چور کے گھر کے چور‘ اور ’چوری میرا کام‘ وہ فلمیں تھیں جن میں دیوین ورما کی مزاحیہ اداکاری شائقین کو بہت بھائی اور انھیں بہترین کامیڈین کا فلم فيئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ دیوین ورما پونے میں سنہ 1937 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے سیاسیات اور سماجیات میں گریجویشن کیا۔ دیوین ورما کی شادی معروف اداکار اشوک کمار کی بیٹی روپا گنگولی سے ہوئی تھی۔

    اداکار دیوین ورما کی یادگار فلموں میں ’کھٹا میٹھا،‘ ’بے شرم‘، ’بھولا بھالا،‘ ’جدائی،‘ ’تھوڑی سی بے وفائی،‘ ’گول مال،‘ ’رنگ برنگیت‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    ایکٹنگ کے علاوہ دیوین ورما نے کئی فلمیں پروڈیوس بھی کیں جن میں ’دانا پانی،‘ ’بے شرم،‘ ’نادان‘ اور ’یقین‘ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض فلموں کی ہدایات بھی انھوں نے دیں۔

    دیوین ورما 1960 کی دہائی میں اداکار بننے کا خواب لے کر ممبئی گئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز 1961 میں یش چوپڑا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "دھرم پتر” سے ہوا۔ فلم باکس آفس پر کام یاب رہی لیکن دیوین ورما شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ سال 1963 میں اس اداکار کو بی آرچوپڑا کی فلم گمراہ میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن یہ بھی ان کی کام یابی کی بنیاد نہ بن سکی۔ اداکار کے فلمی کیریئر میں 1966 ایک اہم سال ثابت ہوا۔ اس سال دیور، بہاریں پھر بھی آئیں گی اور انوپما جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں دیوین ورما بطور اداکار مختلف انداز میں سامنے آئے اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بولی وڈ میں‌ اپنی جگہ بنائی۔

  • سلجوق حکم راں برکیاروق کا تذکرہ

    سلجوق حکم راں برکیاروق کا تذکرہ

    سلجوق خاندان اور اس سے وابستہ شخصیات کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ یہ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ سلجوق خاندان نے گیارہویں صدی عیسوی میں حکومت قائم کی تھی۔ اس خاندان سے رکن الدّین برکیاروق نے چوتھے حکم راں کی حیثیت سے شہرت پائی۔  

    سلجوق سلطنت کے بانی نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جن کے بیٹے برکیاروق تھے۔ وہ زبیدہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے سلطنت کو تقسیم کردیا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار نے ان کی طاقت اور اثر کم کر دیا تھا۔

    تاریخ کے ماہرین اور محققین برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کا اقتدار 1104ء میں ان کی وفات تک قائم رہا۔ تاریخ کی کتب میں ان کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

    ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور ان کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ مگر اس کے لیے برکیاروق کو خاندان میں مزاحمت اور بغاوت کا سر کچلتے ہوئے کئی سازشوں اور یورشوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو کچلنے کے بعد جب تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق نے مکمل طور پر سلطنت کو سنبھالا۔

    عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کیا اور خلعت سے نوازا۔ ان کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور سلطنت کے اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے ان کی حکم رانی کا اعلان کیا۔ برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کے سرداروں اور حکم رانوں کو اپنا مطیع اور تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو سنبھالتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر ان کا اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور امراء و سپاہ پر حاکمیت اور اثر برقرار رکھنا آسان نہیں رہا تھا جب کہ اسی عرصے میں ان کی والدہ زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑ گیا۔ بعد میں وہ واپس ہوئے تو اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط پر تمام ہوا۔ محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی پر ایک معاہدہ کر لیا۔

    سلطان برکیاروق کا دور لڑائیوں اور بغاوتیں فرو کرتے گزر گیا۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

  • دیو آنند: لاجواب اداکار، حیرت انگیز شخصیت

    دیو آنند: لاجواب اداکار، حیرت انگیز شخصیت

    دیو آنند صاف گو آدمی اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک بھی تھے۔ دیو آنند کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ زندگی کو گزارنے کے بجائے اسے جینے پر یقین رکھتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی دیو آنند کا انداز وہی تھا جس میں وہ پُرجوش اور زندگی سے پیار کرنے والے شخص نظر آتے ہیں۔ 

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں‌ دیو آنند کا کیریئر بطور اداکار پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دیو آنند اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ دیو آنند بولی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں اداکاری میں ایک ادارے کی حیثیت حاصل رہی۔ اپنے مخصوص انداز میں مکالموں کی ادائيگی کے لیے مشہور دیو آنند نے اداکاری کے علاوہ عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن بطور اداکار ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق کا قصہ یہ ہے کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جا رہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ جہاں اس حادثے کا خوب چرچا ہوا، وہیں اس حادثے کے بعد دونوں فن کاروں کی محبّت کا بھی شہرہ ہونے لگا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں دیو آنند کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ، پنجاب میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھردیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے کیا، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ یہ 1943ء کی بات ہے جب دیو آنند نوکری تلاش کرنے کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی روانہ ہوئے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا تھا۔ کچھ کوششوں کے بعد جب ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری ملی تو وہاں لگ گئے۔ تقریباً ایک سال تک یہ نوکری کی اور پھر اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو اداکاری کرنے کا موقع مل گیا۔  دیو آنند چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند کا فلمی دنیا میں ان کے شائقین کو وہ انداز بہت بھایا جس میں اداکار کچھ جھک کر، خاص طرح سے لہراتے ہوئے چلتے تھے، اور ان کی مخصوص آواز میں مکالمہ سماعتوں سے ٹکراتا تھا۔ اسی طرح ان کے ملبوس کا حصہ یعنی اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کو بہت بھاتی تھی۔

    بھارتی حکومت نے دیو آنند کو پدبھوشن اعزاز سے نوازا۔ انھیں دادا پھالکے اعزاز بھی دیا گیا۔ دیو آنند کو کئی فلم فئیر ایوارڈ بھی دیے گئے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے اور ان کی ایک فلم گائیڈ آسکر کے لیے نام زد ہوئی تھی۔ دیو آنند نے جو کردار ادا کیے ان پر اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔ اداکار کی مقبول ترین فلموں میں ’پیئنگ گیسٹ، بازی، جویل تھیف، سی آئی ڈی، جانی میرا نام، امیر غریب، ہرے راما ہرے کرشنا، ضدی اور ٹیکسی ڈرائیور‘ شامل ہیں۔

    1993ء میں دیو آنند کو فلم فئیر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا تھا۔
  • یومِ وفات: جواہر لال نہرو نے استاد دامن کو ‘آزادی کا شاعر’ کے لقب سے یاد کیا

    یومِ وفات: جواہر لال نہرو نے استاد دامن کو ‘آزادی کا شاعر’ کے لقب سے یاد کیا

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریبوں کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ کرتے اور مظلوم طبقے کی آواز بنے رہے۔ استاد دامن عوام کے شاعر تھے۔ پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر نے مشقت کی چکی میں پستے ہوئے اور اپنے حقوق سے محروم عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کو موضوع بنایا۔ حق گو اور جرات مند استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان ہی نہیں استاد دامن سرحد پار بھی استحصالی نظام اور سامراج مخالف نظموں کی وجہ سے مشہور تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو بھی استاد دامن سے متاثر تھے۔ نہرو نے استاد دامن کی نظمیں سنیں تو انھیں ’آزادی کا شاعر‘ کے لقب سے یاد کیا۔

    استاد دامن نے اپنی پنجابی شاعری میں جرأتِ اظہار کا جو راستہ اپنایا، وہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ فیض اور جالب کی طرح استاد دامن نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ اپنی نظموں سے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنا پنجابی کلام سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھتے تو حاضرین اور سامعین میں جوش و ولولہ پیدا ہو جاتا۔ ان کا کلام اس قدر اثر انگیز تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ان کا کلام سُننے والے رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے جو استاد دامن سے بہت مثاثر ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہونے کی دعوت دی تھی۔ استاد دامن کا جواب تھا کہ ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے۔ عالمی ادب پر ان کی گہری نظر رہی۔ مطالعہ اور کتب بینی نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے ملک کے عوام کی حالت دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ استاد دامن کے اسی مشاہدے اور تجربے نے اُن کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس نے ایک طرف انھیں عوام میں مقبول بنا دیا، اور دوسری طرف ان کے یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں کھب گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر دکان سے نکل کر کسی علمی اور ادبی مجلس میں یا مشاعرے میں جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت کے جذبے اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، لیکن پھر ان کی نظموں اور پنجابی شاعری میں سیاسی و سماجی شعور جھلکنے لگا اور وہ ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں۔ دوسری طرف تقسیمِ ہند کا واقعہ پیش آیا تو ان کے بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے پر مجبور ہو گئے۔ انھیں‌ اس کا بہت رنج تھا۔ استاد دامن تنگ دستی اور کئی مالی مسائل کا شکار بھی رہے اور مشکل حالات میں زندگی گزاری، لیکن وہ بہت خود دار تھے۔ استاد دامن نے اپنی شہرت اور مقبولیت یا تعلقات کا فائدہ نہیں اٹھایا اور کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    اپنے وقت کی قابل شخصیات اور مشاہیرِ ادب نے پنجابی استاد دامن کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔ عوامی شاعر استاد دامن لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • احتشام حسین: ممتاز نقّاد، شاعر اور ادیب

    احتشام حسین: ممتاز نقّاد، شاعر اور ادیب

    احتشام حسین ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ادیب، مارکسی نقاد، شاعر اور مترجم تھے۔ آج احتشام حسین کی برسی ہے۔ وہ یکم دسمبر 1972ء کو الہ آباد میں وفات پاگئے تھے۔

    احتشام حسین 21 اپریل 1912ء کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1936ء میں الہ آباد سے ایم اے کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر ہوگئے۔ بعد میں الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کا ادب سفر نظریاتی حوالے سے ترقی پسند تحریک سے جڑا رہا۔ ان کے تنقیدی مضامین اور تخلیقی کاموں پر مشتمل متعدد کتب اشاعت پذیر ہوئیں۔

    اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کے فن اور ان کے نظریات پر اپنے وقت کے معروف ادیب، شاعر اور نقاد ڈاکٹر شارب ردولوی نے طویل  مضمون رقم کیا تھا جو نیا دور، لکھنؤ کے شمارے میں احتشام حسین کی وفات کے بعد شایع ہوا تھا۔ اس مضمون سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ 

    اردوتنقید کی اسی روایت کو جس کا پودا حالی نے لگایا تھا احتشام حسین نے آگے بڑھایا اور اسے ایک فن کی صورت دی۔

    ادب کی تفہیم، پرکھ اور تنقید کے سلسلے میں جس نظریے نے سب سے زیادہ مقبولیت اور اعتبار حاصل کیا وہ ادب کا سماجی نظریہ تھا۔ اردو میں اس نطریے کو سب سے زیادہ تقویت احتشام حسین کی تحریروں سے ملی، انہوں نے پچھلے تیس سال میں اپنی نظریاتی تنقید اور عملی تنقید دونوں میں پورے خلوص کے ساتھ اس نظریے کو برتا ہے۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب و تنقید کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ ان کی شخصیت خود ایک مکتب فکر کی ہوگئی ہے۔

    احتشام حسین اردو تنقید کا ذہن تھے۔ جو فکر اور فلسفیانہ گہرائی انہوں نے تنقید کو دی اس سے اردو تنقید کا دامن یکسر خالی تھا۔ انہوں نے اس کو فلسفیانہ فکر اور فن کی معراج پر پہنچایا۔ وہ اردو کے پہلے نقاد تھے جنہوں نے سماجی نقطہ نظر اردو میں سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی اور سماجی نقطہ نظر کو انتہا پسندی اور افراط و تفریط کے الزام سے بچایا۔ وہ لوگ جو ادب کے سماجی نظریے کو نہیں مانتے وہ ہوسکتا ہے کہ ان کے بعض نظریات سے اختلاف کریں، لیکن جس طرح انہوں نے ادب کو ایک وسیع فنی، جمالیاتی اور سماجی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔

    احتشام حسین بنیادی طور پر سماجی نظریات کے ماننے والے ہیں اور ادب کو اس کے گرد و پیش اور ماحول کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ ادب میں حسن، دلکشی اور جاذبیت، اس کا تاثر اور قبول سب اسے سماج سے ملتا ہے۔ فن کار جس سماج میں رہتا ہے اسی سے اپنی تخلیق کا مواد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "ادیب کے تخلیقی کارنامے ان حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں جو سماج میں پائی جاتی ہیں۔”

    اس اقتباس سے ان کے ادبی نظریے کی بڑی حد تک وضاحت ہوجاتی ہے۔ ادب کے اس نظریے پر انہوں نے سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی۔ اصول تنقید یا نظریاتی تنقید کے سلسلے میں ان کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے۔ لیکن تنقیدی نظریات کو مرتب کرنے اور نظریاتی تنقید کا ایک راستہ بنانے کے سلسلے میں انہوں نے اتنے مضامین لکھے ہیں کہ اگر انہیں یکجا کردیاجائے تو کسی مبسوط تصنیف سے کہیں زیادہ اہم ہوں گے۔ ان کا تنقیدی نظریہ فلسفیانہ ہونے کے باجود بہت سلجھا ہوا ہے۔ احتشام حسین کی تنقیدوں میں شاعرانہ انداز بیان خوبصورت گڑھی ہوئی ترکیبیں، بے مقصد تراشے ہوئے جملے اور تشبیہ و استعارات کی زبان نہیں ملتی بلکہ سادگی ،وضاحت، قطعیت ، اور ایک جچا تلا طرز بیان ان کے اسلوب کی خصوصیت ہے۔ احتشام حسین سے پہلے تنقید تشریح، توضیح، موازنہ، فن کاری کا مطالعہ سب تھی۔ لیکن فلسفیانہ عمل نہ تھی۔ تنقید کو جس سنجیدگی ، توازن اور جس فلفسیانہ نقطہ نگاہ کی ضرور ت تھی، وہ اسے احتشام حسین ہی نے دیا جس کے بانی اور پیش رو سب ہی کچھ وہی تھے۔

    اس میں شک نہیں کہ احتشام حسین نے اردو تنقید کو پہلی بار فلسفیانہ انداز نظر، سماجی بصیرت اور واضح انداز بیان دیا۔ ان کے اسلوب میں تازگی ، قطعیت صفائی اور تنقیدی جرات ہے۔ انہوں نے اپنے حکیمانہ انداز و فلسفیانہ ذہن، عملی گہرائی اور وضاحت سے اردو تنقید کو جمالیاتی ، نفسیاتی اور خالص فنی تشریح اور توضیح کے دائرے سے نکال کر سائنٹفک بنایا جس کے پیش نظر بجا طور پر انہیں اردو میں جدید سائنٹفک تنقید کا بانی اور صحت مند ادبی اقدار کا علمبردار کہہ سکتے ہیں۔

  • پروفیسر رئیس علوی: معروف علمی و ادبی شخصیت

    پروفیسر رئیس علوی: معروف علمی و ادبی شخصیت

    آج پاکستان کی ممتاز علمی اور ادبی شخصیت پروفیسر رئیس علوی کی برسی ہے۔ پاکستان میں انھیں ایک ماہرِ تعلیم، شاعر، ادیب اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ رئیس علوی یکم دسمبر 2021ء کو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں انتقال کر گئے تھے۔

    پروفیسر رئیس علوی نے تعلیم کے شعبے میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ وہ ای ڈی او تعلیم، رجسٹرار جامعہ کراچی، ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم رہے۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا اور چند ماہ سے اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔

    لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی 7 مئی 1946ء کو ہیدا ہوئے۔ میٹرک اور ایف اے لکھنؤ سے کیا۔ 1961ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ بی اے کراچی کے نیشنل کالج سے 1963ء میں جب کہ اردو کے مضمون میں ایم اے کی سند کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں حاصل کی۔ وہ سراج الدولہ کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ رئیس علوی کا شمار ان علمی شخصیات میں ہوتا ہے جنھیں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں بھی اردو پڑھانے کا موقع دیا گیا۔ وہ وہاں پروفیسر رہے۔ وطن واپسی پر سندھ کے محکمہ تعلیم کے انتظامی امور سنبھالے اور دوسرے عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد کراچی کی شہری حکومت نے انھیں محکمۂ تعلیم کی سربراہی سونپ دی۔

    2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی، اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی یو پی نے اردو زبان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر رئیس علوی کو ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ فیض احمد فیض کے بعد دوسرے پاکستانی ہیں جنھیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ پروفیسر علوی نے 2010ء میں نیوزی لینڈ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اردو ہندی کلچرل ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ کا نہ صرف خاکہ پیش کیا بلکہ ایسوسی ایشن کے قیام کے بعد اس کے سرپرست اعلیٰ بھی مقرر ہوئے۔ انھیں مختلف سیمیناروں، علمی و ادبی مذاکروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ پروفیسر صاحب سمجھتے تھے کہ چین، فرانس اور روس نے اپنی زبان کو ترقی دی، اسے سرکاری اور قومی سطح پر اپنایا اور فروغ دیا، اسی طرح پاکستان میں بھی حکومت کو اردو زبان کی سرپرستی اور اس کے فروغ کے لیے مثالی کام کرنا چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس علوی نے ادبی و تعلیمی موضوعات پر بہت سے مضامین اور مقالات لکھے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں ان کا شعری مجموعہ ’’صدا ابھرتی ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر علوی نے جاپانی ادب و زبان پر 5 کتابیں تصنیف کیں۔ وہ جاپانی زبان پر عبور رکھتے تھے اور پاکستان اور جاپان کے علمی و ادبی حلقوں میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پروفیسر رئیس علوی نے جاپانی زبان سے متعدد کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کے تراجم میں بارہویں صدی کے مشہور جاپانی شاعر سئی گیو کے دیوان کا ترجمہ ’’چاند کے رنگ‘‘ اور دوسرا مینوشو کا ترجمہ شامل ہے۔ ’’گل صد برگ‘‘ وہ قدیم جاپانی ترین کلیات ہے جس کا تین جلدوں پر مشتمل ترجمہ کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ اس کے علاوہ جاپان کے عظیم شاعر اور ہائیکو کے سرخیل جناب متسواوبشو کے ایک سدا بہار سفر نامہ کا ترجمہ ’’اندرون شمال کا تنگ راستہ‘‘ کے نام سے پروفیسر رئیس علوی کی کاوش ہے۔

  • پتھر کی سرگذشت

    پتھر کی سرگذشت

    شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی۔

    گزرتی ہوئی گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جدا کردیا۔ اس پتھر نے دل میں سوچا۔’’ مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالات میں نہیں رہنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ جا کر رہوں۔‘‘

    ایک لڑکا آیا اور اس پتھر کو اٹھا کرلے گیا۔ پتھر نے دل میں خیال کیا۔’’ میں نے سفر کرنا چاہا تو سفر بھی نصیب ہوگیا، صرف آہنی ارادہ کی ضرورت تھی۔‘‘ لڑکے نے پتھر کو ایک گھر کی جانب پھینک دیا۔

    پتھر نے خیال کیا ’’میں نے ہوا میں اڑنا چاہا تھا۔ یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ صرف ارادہ کی دیر تھی۔ پتھر کھٹ سے کھڑکی کے شیشہ پر لگا۔

    شیشہ یہ کہہ کر چکنا چور ہوگیا۔’’بدمعاش! ایسا کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ تم نے بہت اچھا کیا۔ جو میرے راستے سے ہٹ گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے راستے میں حائل ہوں۔‘‘ ہر ایک چیز میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ میرا اصول ہے۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے پتھر ایک نرم بستر پر جا پڑا۔ پتھر نے بستر پر پڑے ہوئے خیال کیا۔’’ میں نے کافی سفر کیا ہے اب ذرا دو گھڑی آرام تو کروں۔‘‘

    ایک نوکر آیا اور اس نے پتھر کو بستر پر سے اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا۔ سڑک پر گرتے ہی پتھر نے اپنے ہم جنسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو! خدا تمہیں سلامت رکھے۔ میں ابھی ابھی ایک عالی شان عمارت سے ہو کر آرہا ہوں لیکن اس کی شان و شوکت مجھے بالکل متاثر نہ کرسکی۔ میرا دل تم لوگوں سے ملاقات کے لیے بیتاب تھا۔ چنانچہ اب میں واپس آگیا ہوں۔‘‘

    (روس کے مشہور شاعر اور ادیب فیودور سلوگب کی کہانی، جو علامت اور تمثیل نگاری کے لیے مشہور تھے)

  • اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    فارسی کی کہاوت ہے ہَر کمالے را زوال اور اس عبرت سرا میں عروج و زوال کی ان گنت داستانیں، بلندی اور پستی کی بے شمار کہانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اگر بات کریں‌ فلم انڈسٹری کی تو کئی پری چہرہ آئے گئے اور ان کا پُرشباب دور نہایت شان دار طریقے سے تمام ہوا، لیکن ان میں‌ چند ایسے ستارے بھی تھے جنھیں یا تو زمانہ سازی نہ آئی یا پھر وہ وقت کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے۔ اے شاہ شکار پوری بھی ایسا ہی نام ہے جنھیں فراموش کردیا گیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا کے ابتدائی دس، پندرہ برسوں میں تین مزاحیہ اداکاروں نے خوب نام کمایا اور یہ وہ کامیڈین تھے جنھیں فلموں کی کام یابی کی ضمانت تصوّر کیا جاتا تھا۔ انہی میں‌ سے ایک اے شاہ شکار پوری تھے۔ ان کی فلمی دنیا میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی پوسٹروں پر ان کی تصویر نمایاں اور نام جلی حروف میں‌ لکھا جاتا تھا۔ اپنے دور کے یہ مقبول کامیڈین اپنے زمانۂ عروج میں‌ لاہور کے ایک شان دار مکان میں رہا کرتے تھے، لیکن آخری عمر میں‌ وہ کرائے دار کے طور پر ایک تنگ کوٹھڑی میں‌ رہنے پر مجبور تھے۔

    اے شاہ شکار پوری کے ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم تو بہت کم ہی کسی کو ہوسکا، لیکن کوئی کہتا ہے کہ وہ 1906ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعض سوانحی خاکوں لکھا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    ان کا اصل نام عبدُاللّطیف شاہ تھا اور فلمی دنیا میں انھیں اے شاہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ "شکار پوری” کیوں لکھا گیا، اس بارے میں کہتے ہیں‌ کہ 1947ء میں "مسٹر شکار پوری” ریلیز ہوئی تھی اور اس میں اے شاہ کا نام بطور اداکار، ہدایت کار اور نغمہ نگار شامل تھا، ٹائٹل رول بھی اے شاہ نے نبھایا تھا۔ غالباً اسی فلم کے بعد شکار پوری ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ اسی سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ وہ سندھ کے مشہور شہر شکار پور کے باسی تھے۔

    وہ اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں، اور اے شاہ نے ان میں‌ ٹائٹل رولز کیے۔ پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے شاہ کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا، اور وہ مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، کیوں کہ وقت بدل چکا تھا اور لہری، رنگیلا، منور ظریف کا شہرہ تھا اور انہی کے نام پر فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں۔

    اے شاہ شکار پوری کی بیوی ان پڑھ اور عام سی گھریلو عورت تھیں جن کے بطن سے انھیں بیٹے کی مسرّت نصیب ہوئی تھی۔ جب اے شاہ کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے چھور پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ بھی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ یہی دکان ان کی روزی روٹی کا اکلوتا ذریعہ تھی۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کا شان دار مکان چھوڑ چکے تھے اور اب نواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں رہنے لگے تھے۔ یہ گھر کیا تھا، ایک ڈبہ نما کمرہ تھا جس میں‌ ایک چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی تھی۔

    اے شاہ نے منفی اور ولن ٹائپ کے سنجیدہ سماجی کرداروں کو مزاحیہ انداز میں‌ بخوبی نبھایا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اداکاری اور فلم سازی کے انھوں نے نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کا تخلّص عاجز تھا۔ اے شاہ کے فلمی سفر کا آغاز تقسیمِ ہند سے قبل 1934ء میں ریلیز ہونے والی فلم فدائے توحید سے ہوا تھا۔ انھوں نے اُس دور میں متعدد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ پاکستان میں اے شاہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم نوکر تھی جو 1955ء کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسی سال کی ایک فلم حقیقت بھی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اور اداکار کے طور پر نظر آئے لیکن کام یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے درجنوں‌ فلموں‌ میں‌ بطور اداکار کام کیا۔ 1963ء اور 1966ء میں انھوں‌ نے سماجی موضوعات پر بنائی گئی فلموں چاچا خوامخواہ اور چغل خور میں ٹائٹل رول کیے۔اے شاہ کی اپنی ایک فلم منشی سب رنگ بھی تھی جو ریلیز نہیں ہو سکی تھی۔

    فلمی دنیا سے متعلق مضامین کے مطابق اے شاہ کی آخری پنجابی فلم اک نکاح ہور سہی تھی اور یہ بات 1982ء کی ہے۔ بطور کامیڈین ان کی یادگار پاکستانی فلموں‌ میں‌ حمیدہ، نوکر، سلمیٰ، موج میلہ، چوڑیاں، ڈاچی، نائلہ، جی دار، لاڈو، جند جان شامل ہیں۔

    وہ پچاس کی دہائی کے وسط تک بھارت میں رہے اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری نے فلم ”بابل” میں دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔

    پاکستانی فلموں‌ کے اس کام یاب مزاحیہ اداکار نے 21 دسمبر 1991ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔