Tag: دسمبر برسی

  • پروفیسر غفور احمد:‌ مثالی سیاست داں، بامروت اور وضع دار انسان

    پروفیسر غفور احمد پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ گنوانے سے قلم قاصر ہے۔ آج ملکی سیاست میں صادق اور امین، حق گو اور جرأتِ اظہار کے کسی خوگر کا تذکرہ کرنا ہو تو مشکل نظر آتا ہے، لیکن 2012ء تک پروفیسر غفور احمد جیسے مدبّر، قابل اور باصلاحیت سیاست داں ہمارے درمیان موجود تھے۔

    عہد ساز شاعر منیر نیازی بھی 26 دسمبر ہی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے جن کے ایک شعر کا مصرع ہے:

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے…

    پروفیسر غفور احمد بامروت، وضع دار، سراپا عجز و انکسار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے جو سیاست کو توفیقِ خداوندی اور خدمت سمجھتے تھے۔

    کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دنیا میں‌ آنکھ کھولی تو تاریخ 26 ہی تھی اور جب یہاں سے کوچ کیا تو ماہِ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔

    پروفیسر غفور احمد نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی رہے، دو مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے، سینیٹر بنے، 1973 کی آئین ساز کمیٹی کے رکن، 77 میں دوبارہ انتخابات کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ، وفاقی وزیر بھی رہے اور چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کے استاد بھی تھے۔ 1950ء سے 1956ء تک وہ اردو کالج میں کامرس اور معاشیات کے استاد رہے۔ سندھ یونیورسٹی کی سلیبس کمیٹی، سندھ یونیورسٹی بورڈ برائے کامرس اور کراچی یونیورسٹی سلیبس بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اپنی ایک مل کی ملازمت کے دوران لیبر یونین سے وابستگی کے دور میں مزدوروں کی بہبود کے لیے بڑا کام کیا جس کی پاداش میں مالکان نے انھیں ملازمت سے بر طرف کر دیا۔

    1950 میں جماعتِ اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور تاحیات یہ وابستگی برقرار رہی۔ 1958 میں انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے۔ بعد میں کراچی تنظیم کے امیر منتخب اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے۔ ایوب خان کے دور میں‌ گرفتار کیے گئے اور 9 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیرِ صنعت بن کر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمان داری کے ساتھ نبھائیں۔

    وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پُر آشوب دور میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ 1973 کا آئین تشکیل دینے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور مخالفین کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں‌ کام یاب رہے۔

    غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن ہمیشہ صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی ایک مثال بنی۔

  • منیر نیازی: وہ شاعر جس کے تخیل نے طلسم خانۂ حیرت تشکیل دیا

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کے اشعار سے ایک خواب ناک ماحول جنم لیتا ہے جس میں‌ داخل ہونے والا گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے طرزِ بیان اور اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور کسی دبستان کا اثر بھی قبول نہیں کیا بلکہ ایک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • پی ٹی وی کی معروف اداکارہ عذرا شیروانی کی برسی

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ عذرا شیروانی کی برسی

    19 دسمبر 2005ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی مایہ ناز اداکار عذرا شیروانی امریکا میں وفات پاگئی تھیں۔ پی ٹی وی کے یادگار ڈراموں میں عذرا شیروانی کے کردار ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ آج ماضی کی اسی مقبول اداکارہ کی برسی ہے۔

    ماضی میں جھانکیں تو پی ٹی وی کے ڈرامے اور مختلف پروگرام اس شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ لوگ ہر کام چھوڑ کر اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ ٹی وی پر تفریحی پروگرام نشر ہوتے تو شہر کی سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ عذرا شیروانی ٹی وی کے اسی سنہرے عہد میں اسکرین پر یوں ‘ڈرامہ’ کرتی تھیں کہ ان کے کرداروں پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے انکل عرفی میں غازی آپا بنیں تو تنہایاں میں سخت گیر آپا بیگم کے روپ میں‌ دکھائی دیں۔ مقبولیت کا ریکارڈ قائم کرنے والے ڈرامے دھوپ کنارے میں انھوں فضیلت کا کردار ادا کر کے ناظرین کو محظوظ کیا۔

    تنہائیاں حسینہ معین کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جس میں آپا بیگم کا کردار بلاشبہ عذرا شیروانی کے کیریئر کا سب سے بہترین اور مشہور کردار تھا۔ اس ڈرامے میں جمشید انصاری کے کردار کے ساتھ ان کے مکالمے بہت پسند کیے گئے۔

    آنگن ٹیڑھا میں انھوں نے مرکزی کردار محبوب احمد (اداکار شکیل) کی ساس عرف سلیہ بیگم کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے ایک اور مقبول کھیل ستارہ اور مہرالنّساء میں بھی ماں کا کردار نبھایا تھا۔ انا، افشاں، گھر اک نگر جیسے ڈراموں میں بھی ان کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا تھا۔

    اس زمانے میں‌ لاہور اور کراچی میں ٹی وی اسٹیشنوں کے درمیان معیاری ڈرامے اور شان دار پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے کے لیے گویا ایک دوڑ لگی رہتی تھی۔ عذرا شیروانی نے اسی زمانے میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    1940ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہونے والی عذرا شیروانی نے 35 سال تک شوبزنس سے تعلق جوڑے رکھا جس میں اپنے معیاری کام اور شان دار پرفارمنس کی بدولت نہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی بلکہ لوگوں کا بہت سا پیار بھی سمیٹا۔ وہ ایک عرصے سے امریکا میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ انھیں امریکا ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    عرصۂ دراز سے گوشۂ گم نامی میں زندگی بسر کرنے والی فردوس بیگم کو ہیر رانجھا میں ان کے فلمی کردار نے بے مثال شہرت عطا کی۔ یہ پاکستانی فلم 19 جون 1970ء کو بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔ آج اس فلم کی ہیروئن فردوس بیگم کی برسی ہے۔ وہ 16 دسمبر 2020ء کو انتقال کر گئی تھیں۔

    ہیر رانجھا وہ فلم تھی جس کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا چرچا ہوا اور شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947 ہے۔ وہ لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں جہاں انھیں شروع ہی سے رقص اور موسیقی کی تربیت اور اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملا۔ ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے تھے جن میں‌ بابا قلندر بھی شامل تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ بعد میں وہ فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار نبھاتی نظر آئیں، مگر فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں انھوں نے اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار نبھایا اور فلم ساز کے کہنے پر فلمی نام فردوس اپنا لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ غلافی آنکھیں‌ اور خوب صورت نین نقش والی فردوس بیگم کو ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار ملا تو جیسے اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ اس فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور شائقینِ سنیما ان کے پرستار ہوگئے۔ وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر بننے والی یہ فلم کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔

    اداکارہ فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا‘ میں بہترین پرفارمنس پر نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ 1973 میں پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر بعد میں ان شہرت کا سفر تھم گیا۔ نئے چہرے ان کے سامنے کام یابی کے زینے طے کرتے چلے گئے اور فردوس بیگم اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔

    ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے جن میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون مشہور تھیں۔ فردوس بیگم کو برین ہیمرج ہوا تھا۔ انھوں نے لاہور میں‌ 73 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    فردوس بیگم نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور مرد اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

  • مولانا شاہ احمد نورانی: ؒ  منبر سے ایوانِ سیاست تک محترم اور معتبر رہے

    مولانا شاہ احمد نورانی: ؒ منبر سے ایوانِ سیاست تک محترم اور معتبر رہے

    پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے سیاست میں‌ فعال بنانے کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کا کردار نہایت اہم رہا۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولانا نورانی تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور سیاسی تنظیموں‌ کے نزدیک اتحاد اور یگانگت کی علامت اور معتبر ہستی تھے۔ آج علّامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی برسی ہے۔

    مولانا نورانی ؒ 1972ء سے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے فعال تھے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست داں، مذہبی راہ نما اور مبلغِ اسلام تھے جنھیں ان کے چاہنے والے اور معتقد قائدِ اہلسنت، نورانی میاں، علّامہ نورانی کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

    علّامہ شاہ احمد نورانی نہایت قابل اور تعلیم یافتہ شخص تھے جنھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب اور مقرر بھی جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، سواحلی اور فرانسیسی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا تعلق میرٹھ شہر تھا جہاں انھوں نے 31 مارچ 1926ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا میرٹھ میں روحانی اور علمی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ آپ کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکری خا نوادے میں ہوئی تھی اور کم عمری میں‌ حفظِ قرآن کے بعد میرٹھ میں ہی آپ نے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی، بعدازاں گریجویٹ کیا، اسی دوران میرٹھ کے مشہور مدرسہ سے درسِ نظامی کی مرو جہ و غیر مروجہ کتب پڑھیں۔

    علامہ صاحب نے اپنے والدِ ماجد سے بیعت و خلافت حاصل کی تھی۔ آپ 11 برس کے تھے جب حرمین شریفین کی زیارت کو گئے اور مدینہ میں ایک سال تک تجوید و قرأت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ علّامہ نورانی عالم باعمل تھے اور انتہائی سادہ اور پُروقار زندگی بسر کی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خانقاہی اور سیاسی نظام کو بڑی خوب صورتی سے بہم کردیا تھا اور منبر سے ایوان تک ان کی شخصیت کا ایک رعب اور علمی و نظریاتی تأثر دیکھنے والے پر قائم ہوتا تھا۔

    علّامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ نے ملکی سیاست میں حصّہ لیتے ہوئے اپنی اوّلین اور سب سے بڑی ذمہ داری یعنی تبلیغ اسلام اور تعلیماتِ دین کو پھیلانے کا مشن کبھی کسی مصروفیت کی نذر نہیں‌ ہونے دیا اور خاص طور پر غیر ممالک میں تبلیغی کام جاری رکھا۔ انھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد 1955ء میں علمائے ازہر کی دعوت پر مصر کا دورہ کیا تھا اور وہاں مختلف مقامات پر علماء کے اجتماعات سے یادگار خطاب کیے تھے۔ 1958ء میں پاکستان میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتیٔ اعظم روس مفتی ضیاء الدّین بابا خانوف کی خصوصی دعوت پر وفد کے ساتھ روس گئے، اگلے برس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک طویل خیر سگالی دورہ کیا۔ 1960ء میں مشرقی افریقہ، مڈغاسکر اور ماریشس کا دورہ کیا۔ ان کے غیرملکی تبلیغی دوروں کی فہرست میں سری لنکا، شمال مغربی افریقہ، کینیا، یوگنڈا، شمالی نائجیریا وغیرہ شامل ہیں جہاں علماء اور وہاں کے مسلمانوں سے خطاب کے علاوہ مولانا نورانی نے مختلف اداروں اور تنظیموں کے توسط سے غیرمسلموں تک بھی توحید اور اسلام کی حقانیت کا پیغام پہنچایا۔

    1963ء میں شادی کے بعد علّامہ شاہ احمد نورانی ترکی، مغربی جرمنی، برطانیہ، نائجیریا، ماریشس و دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوگئے، اسی سال کے آخر میں چین اور اگلے برس کینیڈا کا تبلیغی دورہ کیا۔ 1968ء میں یورپ گئے جہاں قادیانی رسالے کے ایڈیٹر سے طویل مناظرہ کیا اور اپنے حریف کو علمی اور منطقی دلائل سے زیر کیا۔ 1972-73ء میں پارلیمانی سیاست، پاکستان کے آئین، اور تحریکِ ختم نبوت کے سلسلے میں متحرک رہے۔ علّامہ نورانی 1973ء میں خانیوال کے کنونشن میں جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ منتخب ہوئے تھے اور تاعمر اسی تنظیم سے وابستہ رہے۔

    دنیا بھر میں ہزاروں غیرمسلم علّامہ نورانی کے وعظ اور خطبات سے متاثر ہوئے اور بڑی تعداد حلقہ بگوشِ‌ اسلام ہوئی۔ پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کے لیے آخری سانس تک متحرک رہنے والے علّامہ نورانی کو مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی اور کارکنوں کو تشدد سے دور رکھنے کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ 1953ء میں ورلڈ مسلم علما آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل بنے۔ 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2003ء میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر سینٹ کے رکن بنے تھے۔

    11 دسمبر 2003ء کو مولانا شاہ احمد نورانی اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ انھیں کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ عظیم فارسی شاعر کی حیثیت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ جو مقام و مرتبہ انھیں‌ حاصل ہے، وہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں‌ مل سکا۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی اس عظیم شاعر کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کا انداز اپنانے کو شعرا نے اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ وہ 1644ء میں عظیم آباد، پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔ 5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔

    پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ آج اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کے لیے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    فلمی اداکارہ بیگم پارہ نے 1951 ء میں‌ لائف میگزین کے لیے ‘بولڈ’ فوٹو شوٹ کروایا تھا۔ اپنی ‘بیہودہ’ تصاویر پر سماج میں انھیں اپنی مخالفت اور لعن طعن برداشت کرنا پڑا۔ یہ نیم برہنہ فوٹو شوٹ تھا۔ بیگم پارہ کی اس بے باکی کا ہندی سنیما میں بھی خوب چرچا ہوا اور پھر وہ پردۂ سیمیں سے دور ہو گئیں۔

    بیگم پارہ 1926ء میں جہلم میں پیدا ہوئی تھیں، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کا خاندان علی گڑھ سے تعلق رکھتا تھا، لیکن بیگم پارہ کا بچپن اور عمر کا ایک بڑا حصّہ ریاست بیکانیر میں گزرا جہاں ان کے والد بغرضِ ملازمت قیام پذیر تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی بیگم پارہ بعد میں‌ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں اور چالیس اور پچاس کی دہائی میں نام کمایا۔ اس زمانے میں بیگم پارہ کو ‘گلیمر گرل’ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

    انھوں نے اپنے بچپن اور ابتدائی عمر میں نظم و ضبط اور ایک ایسا ماحول دیکھا جس میں اصولوں اور اقدار کو بھی اہمیت دی جاتی تھی، لیکن بیگم پارہ نے اپنی زندگی کو اپنے ہی ڈھب سے گزارا اور آزاد خیال نہیں بلکہ اس دور میں خود کو ‘لبرل’ ثابت کیا۔

    بیگم پارہ کے بارے میں یہاں ہم ایک تحریر نقل کررہے ہیں، جو کتاب ‘ہندی سنیما میں مسلم اداکارائیں’ سے لی گئی ہے، جس کے مصنّف غیاث الرحمٰن ہیں۔

    "ہندی فلموں کی اداکاراؤں میں اہم اور دل چسپ نام ہے جن کا اصل نام زبیدہ الحق تھا۔ بیگم پارہ فلمی دنیا میں آنے کے لیے سماج سے ٹکرائیں اور آخر عمر تک اسی دنیا میں رہیں۔”

    "انہوں نے نرم و گرم سارے دور دیکھے اور گردشِ ایّام کے انہیں مراحل کو طے کرتی ہوئیں وہ 2008 کے دسمبر کی ایک سرد تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔”

    "بیگم پارہ اپنے انتقال سے 82 سال قبل جہلم (پنجاب، پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احسان الحق کا شمار اپنے زمانے کے معزز و محترم اشخاص میں ہوتا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔”

    "بیگم پارہ نے جب فلمی دنیا میں جانے کا فیصلہ کیا تو کافی شور شرابا ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں فلمی اداکاراؤں کا پیشہ شرفا کے لیے شایانِ شان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لیے جب ایک معروف جج کی بیٹی کے فلمی دنیا میں داخلے کی خبر آئی تو لوگوں نے اس کو کافی بڑا اسکینڈل بنا دیا۔ خود بیگم پارہ کے والد بھی فکرمند ہوئے مگر چونکہ گھر والوں کو احساس تھا کہ بیگم کو اس کے ارادوں سے باز رکھنا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے ہلکے پھلکے احتجاج پر اکتفا کیا اور اس کے راستے میں بھی حائل نہ ہوئے۔”

    "بیگم پارہ کی پہلی فلم 1944 میں آئی۔ پربھات پروڈکشن کی اس فلم کا نام "چاند” تھا۔ چاند کے بعد تو بیگم پارہ کی فلموں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئیں۔ چھمیا، شالیمار (1946)، دنیا ایک سرائے، لٹیرا، مہندی، نیل کمل اور زنجیر (1947) ، جھرنا، شہناز اور سہاگ رات (1948)، دادا (1949)، مہربانی (1950)، لیلی مجنوں اور نیا گھر (1953)، آدمی (1957) اور دوستانہ (1956) ان کی اہم فلمیں رہیں۔”

    "بیگم پارہ کی شادی ناصر خان سے ہوئی جو خود ایک فلمی اداکار اور شہرۂ آفاق سپر اسٹار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ ناصر خان کچھ دنوں تک ساتھ نبھانے کے بعد موت کے بہانے بیگم پارہ کو داغِ مفارقت دے گئے اور اس طرح بیگم ایک مرتبہ پھر اکیلی پڑ گئیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان بھی گئی تھیں۔”

    "فلموں سے بیگم پارہ کا جذباتی رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود انہوں نے 2007 میں فلم "سانوریا” (رنبیر کپور اور سونم کپور کی اولین فلم) میں کام کرنے کے لیے ہامی بھر لی۔ چونکہ وہ بہت لاغر ہو چکی تھیں لہذا بدقت تمام وہیل چیئر پر بیٹھ کر سیٹ پر آتیں اور دن بھر شوٹنگ میں مشغول رہتیں۔”

    "اخیر عمر میں وہ اپنے ایّامِ شباب کو شدت سے یاد کرتی تھیں اور ان باتوں کا تذکرہ کرتیں کہ انہوں نے کس طرح کی تنقید اور برائی کو خاطر میں لائے بنا ہمیشہ وہ کیا جو انہوں نے چاہا۔ دسمبر 2008 میں ممبئی میں بیگم پارہ انتقال کر گئیں۔”

  • شکیلہ بانو بھوپالی کی کہانی جو ہندوستان کی قوالی کوئین مشہور ہوئیں

    شکیلہ بانو بھوپالی کی کہانی جو ہندوستان کی قوالی کوئین مشہور ہوئیں

    شکیلہ بانو بھوپالی کا سنِ پیدائش 1942ء تھا۔ انھوں‌ نے فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد اور بالخصوص ہندوستان کی پہلی خاتون قوال کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کی زندگی کا سفر 2002ء تک جاری رہا۔ 16 دسمبر کو شکیلہ بانو بھوپالی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔

    وہ شاعرہ بھی تھیں، اداکارہ بھی اور موسیقار بھی کہلائیں۔ انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی جب کہ فلموں کے لیے نغمات بھی تحریر کیے۔ ان کا تذکرہ اکثر ایسی عورت کے طور پر ہوا ہے جو دولت اور شہرت سمیٹنے کا گُر جانتی تھی اور اسی لیے فلمی دنیا میں راستہ بنانے میں کام یاب رہی۔ انھیں کئی فلموں میں قوالیاں فلمانے کی وجہ سے قوالی کوئین بھی لکھا جاتا ہے۔ اپنے فلمی مضامین اور تحقیق کے لیے مشہور رشید انجم نے ان کے بارے میں لکھا:

    "شکیلہ بانو بھوپالی ہندوستان کی پہلی خاتون قوال ہونے کے علاوہ ایک تہذیب کی نمائندہ خاتون بھی تھیں۔ ان کی "ذاتی” محفلوں میں وہ مشاہیرِ علم و ادب دو زانو حاضر رہا کرتے تھے جو بقول کسے اردو زبان کے پاسبان اور معمار رہے۔ یہ وہ انوکھی اور سب سے جداگانہ خاتون قوال و شاعرہ تھیں جن کی ہر ادا، ہر غمزہ، ہر مہذب آرائش، گفتارِ دل چسپ، مہمان نوازی اور منفرد فنِ قوالی پر جس قدر لکھا گیا ہے وہ بڑے سے بڑے فن کار کا ورقِ زندگی نہیں بن سکا۔”

    "شکیلہ بانو کے فنِ قوالی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1956ء میں بی آر چوپڑہ اپنی فلم "نیا دور” کی شوٹنگ کرنے اپنے یونٹ کے ساتھ بھوپال آئے۔ اس یونٹ میں دلیپ کمار، وجنتی مالا، جانی واکر، اجیت اور جیون بھی شامل تھے۔ ایک خصوصی محفل میں شکیلہ بانو کی قوالی کا اہتمام ہوا اور دلیپ کمار ان کی قوالی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے شکیلہ بانو کو بمبئی آنے اور فلموں میں مقدر آزمانے کی دعوت دے دی۔”

    "دلیپ کمار جیسے اعلٰی فن کار کی دعوت کو رد کرنا گویا کفرانِ نعمت کے مترادف تھا۔ قدرت نے کام یابی کے امکانات روشن کیے اور بمبئی نے اپنی دیرینہ روایات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ بمبئی سے ان کے عروج کا جو دور شروع ہوا وہ عمر کے آخری لمحات تک جاری و ساری رہا۔ قوالی کی محفلوں سے بے تحاشہ دولت بھی ملی اور شہرت بھی۔ فلم ساز ان کے مداح ہی نہیں ایک طرح سے معتقد بھی رہے۔ انہیں فلموں میں اداکاری کے مواقع بھی دیے گئے۔”

    "فلموں میں ان کی قوالیاں بھی انہی پر فلمائی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ پس منظر گلوکاری منجھی ہوئی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی۔ انہوں نے بطور موسیقار کچھ فلموں میں موسیقی بھی دی اور نغمے بھی لکھے۔ فلم میں ویمپ کا کردار بھی ادا کیا اور معاون اداکارہ کا بھی۔”

  • اردو اور پنجابی زبان کی معروف ادیب اور شاعرہ توصیف افضل کا تذکرہ

    اردو اور پنجابی زبان کی معروف ادیب اور شاعرہ توصیف افضل کا تذکرہ

    افضل توصیف اردو اور پنجابی کی معروف ادیب اور شاعرہ تھیں جن کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔

    انھوں نے ہر دور میں آمریت کی مخالفت کی جب کہ ضیا دور میں سیاسی مخالفت میں‌ گواہی دینے پر زرعی اراضی کی پیشکش کو ٹھکرایا اور جلا وطنی بھی کاٹی، لیکن اپنے افکار و نظریات سے تائب نہ ہوئیں۔ 30 دسمبر 2014ء کو افضل توصیف دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    صنفی امتیاز، عدم مساوات کے خلاف اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے دردمندی سے لکھے گئے ان کے مضامین اور کالموں کے علاوہ کئی کتابیں‌ ان کی یادگار ہیں۔

    انھیں 2010ء میں حکومتِ پاکستان نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ افضل توصیف 18 مئی 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں لاہور میں قیام کیا، لیکن والد کا تبادلہ کوئٹہ کردیا گیا اور یوں‌ ان کی زندگی کا ایک سہانا دور کوئٹہ میں بسر ہوا۔ پرورش اور تعلیم کوئٹہ میں ہوئی۔ لاہور سے ایم اے (اردو) اور ایم اے (انگریزی) کرنے کے بعد انھوں نے ملازمت کا آغاز بطور لیکچرر اسٹاف کالج کوئٹہ سے کیا۔ ازاں بعد مستقل لاہور آگئیں اور لیڈی مکلیکن کالج میں پڑھانا شروع کیا جس کا نام بعد میں ایجوکیشن کالج ہو گیا۔ وہ عمر بھر تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں۔

    اس دوران ان کے علمی اور ادبی مشاغل جاری رہے اور متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں‌ جن میں ‘زمیں پر لوٹ آنے کا دن، شہر کے آنسو، سوویت یونین کی آخری آواز، کڑوا سچ، غلام نہ ہوجائے مشرق، لیبیا سازش کیس، ہتھ نہ لاکسمبڑے، تہنداناں پنجاب، من دیاں وستیاں شامل ہیں۔ ان اردو اور پنجابی زبان میں کہانیاں‌ اور افسانے مختلف ادبی جرائد کی زینت بنے اور کتابی شکل میں‌ بھی شایع ہوئے۔