Tag: دسمبر برسی

  • کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    ایک زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کی رسیلی اور مدھر آوازوں نے اپنے دور کے بے شمار گیتوں کو مقبولیت اور ان کے تخلیق کاروں اعتبار بخشا اور فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا، لیکن پھر نگار خانے ویران ہوگئے اور کانوں میں‌ رس گھولنے والی یہ آوازیں بھی ایک ایک کرکے خاموش ہوتی چلی گئیں۔

    کوثر پروین ایک ایسی ہی گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے کئی گیت ان کی یاد دلاتے ہیں۔ پاکستان کی اس مشہور گلوکارہ کا انتقال 30 دسمبر 1967ء کو ہوا تھا۔ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہونے والی کوثر پروین کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

    پاکستانی فلم ’’قاتل‘‘ کا یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا جس کے بول تھے:

    او مینا… نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا، او مینا!….

    یہ ممتاز شاعر اور بے مثال نغمات کے خالق قتیلؔ شفائی کا تحریر کردہ گیت تھا جو کوثر پروین کی آواز میں‌ پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔

    انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کہتے ہیں اس فلم کے نغمات نے کراچی سے دلّی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

    آج فنِ موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے گئے بلکہ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ اُن ناموں کو بھی فراموش کردیا گیا جو اپنے دور میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ کوثر پروین ایسا ہی ایک نام ہے جو مشہور اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات بھی تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے:

    میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں… اسے کوثر پروین کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس لوری نے بطور گلوکارہ انھیں‌ شہرت اور شناخت دی تھی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم وعدہ کا نغمہ بار بار ترسے مورے نین بھی شامل ہے۔ انھوں نے کئی دو گانے بھی گائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

  • عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مترجم تھے۔ انھیں‌ عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے ماہر اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد 16 دسمبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع بارہ بنکی کے علاقے عثمان آباد سے تھا۔ وہ 11 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    عزیز احمد نے ہندوستان کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور بعد میں لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور کراچی آگئے جہاں‌ وزارتِ اطلاعات سے منسلک ہوئے۔ 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور تا دمِ آخر وہ پروفیسر کی حیثیت سے اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔

    وہ ایک محقق اور مضمون نگار بھی تھے جنھوں نے اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی انگریزی زبان میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے حوالے سے گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ ان انگریزی کتب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا۔

    وفات کے بعد انھیں ٹورنٹو ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    عزیز میاں کی وجہِ شہرت قوالی اور صوفیانہ کلام ہے جس میں‌ وہ اپنے مخصوص انداز سے سماں باندھ دیتے تھے۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی 21 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوگئے۔

    عزیز میاں عالمی شہرت یافتہ قوال تھے۔ انھوں نے علّامہ اقبال اور قتیل شفائی کی شاعری کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ پڑھنے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ عزیز میاں نے کئی معروف اور غیر معروف شعرا کے عشقِ‌ حقیقی پر مبنی اشعار اور صوفیانہ کلام گایا۔

    ان کا شمار ایسے قوالوں میں ہوتا تھا جو تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ تھے۔ انھوں نے جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کیا تھا۔ وہ فلسفے کا شوق رکھتے تھے اور فلسفیانہ مباحث میں حصّہ لیتے اور دلیل اور منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل سجانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا جہاں غیر مسلم بھی انھیں‌ سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔ وہ 17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    انھوں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ منقبت کو بھی اپنی آواز میں سامعین تک نہایت خوب صورتی سے پہنچایا۔

    ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنا جاتا رہے گا۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    عزیز میاں قوال کو 1989ء میں حسنِ کارکردگی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ معمولی صورت والے مجاز کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور شاعری بہت مقبول۔

    وہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں، بالخصوص لڑکیوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جن کا شہرہ ہر طرف ہوا۔ نظموں‌ نے مجاز کو زیادہ شہرت دی۔

    وہ 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا او دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوگئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی تاریخِ وفات 5 دسمبر 1955ء ہے۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    ان کی وحشت نے انھیں چین سے جینے نہ دیا۔ وہ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار رہے اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔

    5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں‌ لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ مختلف زبانوں‌ جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں‌ حیرت انگیز دنیا میں‌ لے جاتی ہیں‌ جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    ڈوما کی چند کہانیوں‌ میں‌ "تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” اردو میں‌ ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں‌ سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔

    خاص طور پر اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیں‌ بھی بنائی‌ گئیں‌ جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔

  • فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    لینڈ اسکیپ فن پارے غلام رسول کے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا وہ نمونہ ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ نوآموز اور فائن آرٹسٹ کے طالبِ علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ان فن پاروں میں‌ پنجاب کی دیہی زندگی کو پیش کیا ہے۔

    آج غلام رسول کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر نے 2009ء میں وفات پائی تھی۔

    غلام رسول کا تعلق جالندھر سے تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1942ء کو اس جہانِ رنگ و بُو میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے فطرت اور قدرتی مناظر میں‌ کشش محسوس کرتے تھے اور زندگی کے مختلف رنگوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے مشاہدے کی عادت اور تخلیقی شعور نے انھیں آرٹ کی طرف مائل کیا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔

    1964ء میں غلام رسول نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعد میں امریکا چلے گئے جہاں غلام رسول نے فائن آرٹس کے شعبے میں‌ داخلہ لیا اور 1972ء میں ڈگری لے کر وطن لوٹے۔

    اس وقت تک وہ فن پارے تخلیق کرنے اور اپنی پینٹنگ کے لیے پہچان بناچکے تھے۔ 1974ء میں وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    غلام رسول نے مصوّری میں لینڈ اسکیپ کو اپنی توجہ اور دل چسپی کا محور بنایا اور خوب کام کیا۔ انھیں پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارنے والے مصوّروں میں اہم جانا جاتا ہے۔ دیہی ماحول اور فطرت کے حُسن پر غلام رسول کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔ انھیں‌ شائقین اور آرٹ کے ناقدین نے سراہا اور ان کے کام کی پذیرائی ہوئی۔

    غلام رسول کی فائن آرٹ کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    فکرِ‌ معاش اور زندگی کے اتار چڑھاؤ ایک طرف، لیکن جس حادثے نے سُرور کو توڑ کر رکھ دیا، وہ ان کی شریکِ حیات اوراکلوتے بیٹے کی موت تھا۔ اس درد ناک واقعے کے بعد انھوں‌ نے شراب نوشی شروع کر دی اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    سُرور جہاں آبادی کا نام درگا سہائے تھا۔ وہ 1873ء میں برطانوی ہند کے علاقے جہاں آباد، ضلع پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی زبان سیکھی۔ اسی زبان کی بدولت شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگریزی زبان بھی سیکھ لی اور دو سال بعد انگریزی، مڈل امتحان بھی پاس کر لیا۔

    سُرور نے ابتدائی فارسی اور سنسکرت کی تعلیم اپنے والد سے لی تھی، لیکن مڈل اسکول کے صدر مدرس مولوی سید کرامت حسین بہار بریلوی جو عربی، فارسی اور اردو کے جیّد عالم تھے، ان کی خصوصی توجہ کی بدولت سرور نے ان زبانوں پر مکمل عبور حاصل کرلیا۔ انگریزی سیکھی تو اس زبان میں‌ بھی ادب کا مطالعہ شروع کردیا اور انگریزی نثر و نظم کی اعلیٰ کتابیں ان کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ ان کی علم و ادب میں‌ دل چسپی عمر کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور انگریزی میں اس قدر استعداد حاصل کرلی کہ متعد نظموں کو اردو زبان میں ڈھالا اور ان کے اسلوب و کلام پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ انھوں نے طب کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی تھی۔

    یہ غالباً انگریزی شاعری کے مطالعے کا اثر تھا کہ سُرور نظم نگاری کی طرف مائل رہے۔انھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی نظمیں منفرد فضا کی حامل تھیں۔

    انھوں نے نئی نظم کو موضوعاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سُرور کی قافیہ بند نظموں میں‌ اردو، ہندی اور فارسی الفاظ کا نہایت خوب صورت استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اردو شاعری میں‌ نظیر کے بعد سرور جہان آبادی کے یہاں حبُ الوطنی کا جذبہ نسبتاً زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ہندوستانی روایت اور رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

    سرور کے عہد کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار تھا اور آزادی کا جوش و ولولہ تحریکوں کی صورت میں‌ بڑھ رہا تھا جس میں‌ حبُ الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کے لیے سُرور نے اپنی نظموں‌ سے خوب کام لیا۔ ان کا کلام ’ادیب‘ اور ’مخزن‘ جیسے رسالوں میں تسلسل کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔ 3 دسمبر 1910ء میں سُرور ہمیشہ کے لیے غمِ روزگار سے نجات پاگئے۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    بہ خدا عشق کا آزار بُرا ہوتا ہے
    روگ چاہت کا برا پیار برا ہوتا ہے

    جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے
    ہائے معشوق طرح دار برا ہوتا ہے

    یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چبھ کر دل سے
    خلشِ عشق کا آزار برا ہوتا ہے

    ٹوٹ پڑتا ہے فلک سَر پہ شبِ فرقت میں
    شکوۂ چرخِ ستم گار بُرا ہوتا ہے

    آ ہی جاتی ہے حسینوں پہ طبیعت ناصح
    سچ تو یہ ہے کہ دلِ زار بُرا ہوتا ہے

  • استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریب اور مظلوم طبقے کی آواز بنے۔ وہ عوام کے شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ استحصالی طبقے کی مذمت کی اور ملک کے پسے ہوئے اور مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ حق اور سچ کا ساتھ دینے اور عوام کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حاکمِ وقت اور استحصالی ٹولے کے سامنے جس بے خوفی سے انھوں نے جرأتِ اظہار کا راستہ اپنایا، اس کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیض اور جالب کی طرح انھوں نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن کی وجہِ شہرت ان کا پنجابی کلام ہے جسے انھوں نے سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھا اور مقبول ہوئے۔

    ان کی مقبولیت اور کلام کی تاثیر کا عالم یہ تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں حاضرین ان کا کلام سُن کر رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے۔ مشہور ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہو جانے کی دعوت دی تو استاد دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے اور عالمی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ کتب بینی کی پختہ عادت نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے سماج میں سانس لیتے عوام کو دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ اس مشاہدے اور تجربے نے ان کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس میں غریبوں کے لیے امید اور ولولہ تھا، لیکن ان کے = یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں نشتر بن کر اتر گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر والد کو کہہ کر دکان سے مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے رکھا، لیکن مطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور بڑھنے کے ساتھ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن کی شاعری میں بہت تنوّع تھا۔ انھوں نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں جب کہ تقسیم کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے۔ اس کا انھیں‌ بہت رنج تھا۔ انہی دنوں وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے جس نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، لیکن استاد دامن بہت خود دار تھے۔ انھوں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    ہر دور میں مشاہیرِ ادب اور قابل شخصیات نے پنجابی زبان و ادب کے لیے استاد دامن کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔

    پنجابی زبان کا یہ مقبول شاعر لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوا۔

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔