Tag: دسمبر شاعری

  • چبھونے زخم میں نشتر دسمبر آیا ہے…

    چبھونے زخم میں نشتر دسمبر آیا ہے…

    جدید شعری منظر نامے میں اکرم جاذب کا نام باذوق اور سخن فہم حلقوں میں‌ ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جن کی غزل جدّت اور روایت کا حسین امتزاج اور شاعر کے گہرے جمالیاتی شعور کی عکاسی کرتی ہے۔

    اکرم جاذب کا تعلق منڈی بہاءُ الدّین سے ہے۔ وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کا کلام ملک کے مختلف معتبر ادبی رسائل اور مؤقر روزناموں میں شایع ہوتا رہتا ہے۔

    اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کے دو مجموعہ ہائے کلام ”امید“ اور ”امکان“ کی اشاعت کے بعد پچھلے ماہ ”اتصال“ کے نام نئی کتاب بھی شایع ہوئی ہے۔ یہاں ہم ”دسمبر“ پر اکرم جاذب کی ایک خوب صورت غزل آپ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    گزر گیا ہے نومبر، دسمبر آیا ہے
    جمی ہے برف دلوں پر دسمبر آیا ہے
    تصوّرات پہ پڑنے نہ دیجیے گا دھند
    ٹھٹھرتی صبحوں کو لے کر دسمبر آیا ہے
    ہمارے جذبے نہ یخ بستگی میں دَب جائیں
    دکھا بہار کے تیور، دسمبر آیا ہے
    اداس پیڑ ہیں، ویرانیاں ہیں باغوں میں
    ملول کرتا ہے منظر، دسمبر آیا ہے
    فضا میں ٹھنڈی ہواؤں کی سرسراہٹ ہے
    اڑھا دے پیار کی چادر دسمبر آیا ہے
    تمہاری سرد روی کا چھڑا ہوا تھا ذکر
    یقیں کرو کہ لبوں پر دسمبر آیا ہے
    ملال لے کے گذشتہ کی رائیگانی کا
    چبھونے زخم میں نشتر دسمبر آیا ہے
    گیارہ ماہ بھی کچھ کم نہ تھے جدائی کے
    اکیلا سب کے برابر دسمبر آیا ہے
    برستی بھیگتی شاموں میں ان دنوں جاذب
    ہے گرم یاد کا بستر دسمبر آیا ہے

  • ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    لالہ مادھو رام جوہر مرزا غالب کے ہم عصر شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق فرخ آباد (ہندوستان) سے تھا۔

    اپنے زمانے میں‌ استاد شعرا میں‌ شمار ہوتے تھے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے جس کا ایک مصرع بہت مشہور ہے۔ شاید کبھی آپ نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنی بات کہنے کے لیے یہ مصرع پڑھا ہو۔ ہم جس ضرب المثل بن جانے والے مصرع کی بات کررہے ہیں، وہ پیشِ نظر غزل میں شامل ہے۔ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رات دن چین ہم اے رشکِ قمر رکھتے ہیں
    شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں

    بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    ڈھونڈھ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے
    کیا کہوں آپ دلِ غیر میں گھر رکھتے ہیں

    اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں کر
    دشمنی مجھ سے مرے دیدۂ تر رکھتے ہیں

    کون ہیں ہم سے سوا ناز اٹھانے والے
    سامنے آئیں جو دل اور جگر رکھتے ہیں

    حالِ دل یار کو محفل میں سناؤں کیوں کر
    مدعی کان اِدھر اور اُدھر رکھتے ہیں

    جلوۂ یار کسی کو نظر آتا کب ہے
    دیکھتے ہیں وہی اس کو جو نظر رکھتے ہیں

    عاشقوں پر ہے دکھانے کو عتاب اے جوہرؔ
    دل میں محبوب عنایت کی نظر رکھتے ہیں

    غزل آپ نے پڑھ لی ہے، اور یقیناَ جان گئے ہوں گے کہ ہم کس مصرع کی بات کررہے تھے۔

    یہ مصرع ہے: ‘تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں’

  • دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    کہنے کو تو دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے، لیکن اس نے جو معنی پہنے، جو مفہوم اوڑھا، اس کی تفصیل کے لیے دفتر چاہیے۔

    یخ بستہ ہوائیں، خنک شامیں اور یادیں دسمبر کا امتیاز ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ نجانے کب جدائی اور ہجر کا استعارہ بنا ہو گا، کیوں‌ اسے یادوں سے جوڑا اور کب یاسیت اور افسردگی سے نتھی کیا گیا ہو گا۔

    یوں‌ تو سبھی دسمبر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، لیکن اردو شعرا نے خاص طور پر اپنی تخلیقات میں‌ دسمبر سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

    آئیے، 2019 کے اس دسمبر کو شاعری کے قالب میں‌ دیکھتے ہیں۔

    امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے” پڑھیے

    ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
    خواہشوں کے نگار خانے میں
    کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
    رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
    ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
    فون کی ڈائری کے صفحوں سے
    کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
    جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
    اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
    کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
    رینگتی بدنما لکیریں سی
    میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
    دوریاں دائرے بناتی ہیں
    دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
    مشعلیں درد کی جلاتے ہیں

    خالد شریف کے اشعار

    کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
    کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
    ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
    یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

    یہ شعر ملاحظہ ہو

    یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
    تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

    اور دسمبر میں کسی امید پر ایک دستک، ایک آہٹ پر بے تاب ہو جانے والے شاعر کی یہ کیفیت دیکھیے

    دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
    یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

    جب کسی کے سامنے خود کو بکھرا ہوا اور شکستہ نہ ثابت کرنا ہو تو اس شعر کا سہارا لیا جاسکتا ہے

    مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
    اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا

    وہ دسمبر کی آخری اور نامہربان شام تھی جب عبدالرحمان واصف نے جنوری کے نام ایک پیام پڑھا، ان کی یہ نظم پڑھیے

    جنوری مبارک ہو

    ڈوبتے دسمبر کی
    ناتمام کرنوں نے
    شام کے سرہانے پر
    چند پھول رکھے ہیں
    دل نشین لہجوں کے
    دل فگار باتوں کے
    دل فریب لمحوں کے

    یہ پیام بھیجا ہے
    دل نشین چہروں کو
    دل فریب لہجوں کو
    دل نواز لوگوں کو
    زندگی مبارک ہو
    جنوری مبارک ہو
    آنے والے وقتوں کی دوستی مبارک ہو!