Tag: دسمبر فوتیدگی

  • دورانِ خون کا نظریہ پیش کرنے والے مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا تذکرہ

    دورانِ خون کا نظریہ پیش کرنے والے مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا تذکرہ

    انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں‌ کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ‌ معیار قائم ہوا اور مختلف سائنسی علوم اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و منطق، موسیقی اور شعر و ادب میں‌ خوب اور بے مثال کام ہوا۔

    آج ابن النفیس کا یومِ وفات منایا جارہا ہے جن کے مقام و مرتبے اور علمیت سے دنیا پچھلی صدی میں‌ واقف ہوئی۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1210ء اور وطن دمشق بتایا ہے۔ ابن النفیس اپنے وقت ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کے بھی ماہر تھے۔ انھوں‌ نے دمشق میں‌ بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اور بعد میں قاہرہ چلے گئے جو عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر اس زمانے میں‌ شہرت رکھتا تھا اور وہاں طبّ و جراحی کے ماہر اور اپنے دور کے عالم فاضل نسلِ نو کی تعلیم و راہ نمائی کے لیے موجود تھے۔

    ابن النفیس کی طبّ میں‌ دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔

    انھوں نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے جو بہت ضخیم ہے۔ اس مسلمان ماہرِ طبّ نے امراضِ چشم کے حوالے سے بھی ایک تصنیف یادگار چھوڑی جس کا نسخہ یورپ میں محفوظ ہے۔

    اس عظیم مسلمان ماہرِ طبّ کی عظمت پچھلی صدی میں اس وقت ظاہر ہوئی، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے دورانِ خون سے متعلق اہم انکشاف کیے تھے۔ اسی مقالے میں اس طبیب نے لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی تھی، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابن النفیس کا نام اس حوالے سے نہیں‌ لیا گیا۔ مغرب کو مسلمان ماہرِ طبّ کے اس نظریے کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اس زمانے میں نہیں‌ ہوسکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے اس کا چرچا نہیں ہوسکا تھا۔

    ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی ہے۔

    ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طویل القامت اور دبلے تھے، لیکن صاحبِ مروت اور علم و فن کی قدر دان بھی، وہ شادی شدہ نہیں تھے، چنانچہ اپنا گھر، مال اور تمام کتب شفا خانے اور طبّی تحقیق کے لیے وقف کردی تھیں۔ انھوں نے قاہرہ میں 17 دسمبر 1288ء کو وفات پائی۔

  • الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    زندگی کے آخری ایّام میں الیاس کاشمیری گم نامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ جسمانی عوارض کے ساتھ شدید کرب اور پچھتاوے کا شکار بھی تھے۔ ذیابیطس اور اس مرض کی پیچیدگی کے نتیجے میں ٹانگ سے محروم ہوجانے کے بعد وہ اپنی بیماریوں اور تکالیف کو فلم نگری کی چکاچوند اور رنگینیوں کا نتیجہ گردانتے تھے۔

    آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔ 12 دسمبر 2007ء کو پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور اداکار نے زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب ولن تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    الیاس کاشمیری 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کام کیا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    1946ء میں دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے تھے اور فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول حاصل کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد الیاس کاشمیری لاہور آگئے جہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل خوب رُو الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول مل گیا۔ یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ انہوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن اصل کام یابی پنجابی فلموں کے ذریعے ہی نصیب ہوئی۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلا سکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لا زوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا۔ فلم ’بابل‘ اور ’بشیرا‘ نے جہاں سلطان راہی کے لیے مستقبل میں ایک عظیم فلمی ہیرو بننے کا راستہ ہموار کیا، وہیں الیاس کاشمیری کو بھی کام یاب ترین وِلن کا تاج پہنا دیا۔

    1973ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد بٹوری۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں اور الیاس کاشمیری پاکستان کے معروف ترین اداکاروں میں شمار کیے گئے۔

  • یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    یومِ وفات: میر انیسؔ آج بھی اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں

    میر انیسؔ آج بھی اردو زبان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔

    وہ لکھنؤ کے کلاسیکی شعرا میں‌ اپنی مرثیہ نگاری کے سبب ممتاز ہوئے اور ہندوستان بھر میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ انھیں رثائی ادب میں خدائے سخن تسلیم کیا گیا۔ آج بھی اس فن میں وہی یکتا و بے مثل ہیں۔

    زبان و بیان پر میر انیس کو غیرمعمولی دسترس حاصل تھی۔ میر انیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس صنف کو وسیلۂ اظہار بناتے، اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیتے اور اسے فن کی معراج نصیب ہوتی۔

    اردو زبان و ادب کا ادنیٰ‌ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اُس دور کے شعرا کو "غزل” محبوب تھی۔ وہ اس صنف کو خلّاقی کا معیار سمجھتے تھے۔ میر انیس نے اس خیال کو باطل ثابت کر دیا اور رثائی شاعری کو جس مرتبہ و کمال تک پہنچایا وہ بجائے خود ایک مثال ہے۔

    میر انیسؔ کے کلام کی سحر انگیزی ہی نہیں ان کا منبر پر مرثیہ پڑھنا بھی مشہور تھا۔ یعنی وہ ایک زبردست مرثیہ خواں بھی تھے۔ سانس کا زیر و بم، آواز کا اتار چڑھاؤ، جسمانی حرکت یعنی آنکھوں، ابرو، ہاتھوں کی جنبش اور اشارے سے جذبات اور کیفیات کے اظہار پر انھیں وہ قدرت حاصل تھی کہ اہلِ مجلس خود سے بیگانہ ہو جاتے، لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہ رہتا۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تأثر کے عناصر کا اضافہ کر کے مرثیہ کی صنف کو ایک معراج عطا کی۔

    اردو زبان کا یہ عظیم شاعر 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں‌ وفات پا گیا۔ آج میر انیسؔ کی برسی ہے۔ انھوں نے 1803ء کو محلہ گلاب باڑی، فیض آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ نام ان کا میر ببر علی اور تھا۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پر دادا امیر ضاحک بھی قادرُ الکلام شاعر تھے۔ یوں انیس کو بچپن ہی سے شاعری سے شغف ہو گیا اور زبان پر ان کی دسترس اور بیان میں مہارت بھی اسی ماحول کی دین تھی۔

    انیسؔ کا یہ شعر دیکھیے۔

    گل دستۂ معنیٰ کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
    اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

    میر انیسؔ نے غزل اور رباعی کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن مرثیہ گوئی کی صنف کو خلّاقی کی معراج تک پہنچایا۔ ان کا ایک شعر ہے۔

    لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار
    خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    اردو کے عظیم نقّاد، شاعر و ادیب شمسُ الرّحمٰن فاروقی نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ میر انیس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’میں میر انیسؔ کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پر غیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

    معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیسؔ۔‘‘

    میر انیسؔ کے مرثیہ کی خصوصیات سراپے کا بیان، جنگ کی تفصیلات، رخصت اور سفر کے حالات کے ساتھ ان کی جذبات نگاری تھی جس نے مرثیے کو ایک شاہ کار اور ایسا ادبی فن پارہ بنا دیا جس کی برصغیر میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

    بقول رام بابو سکسینہ ” ادبِ اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ بحیثیت شاعر ان کی جگہ صفِ اوّلین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبانِ اردو کے تمام شعراء سے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کا شکسپیئر اور خدائے سخن اور نظمِ اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“

    انیسؔ دَم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

  • یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    تحریکِ آزادی میں فعال کردار ادا کرنے والی شائستہ اکرامُ اللہ نے قیامِ‌ پاکستان کے بعد سفارت کار کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں اور علم و ادب کے میدان میں اپنے زورِ قلم کے لیے بھی پہچانی گئیں۔

    وہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ شائستہ اکرام اللہ کے والد حسّان سہروردی ہندوستان میں برطانوی وزیر کے مشیر تھے۔ ان کے شوہر اکرام اللہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی 1932ء میں ہوئی تھی۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اس زمانے کی اپنی یادوں کو تحریری شکل بھی تھی جن میں حقائق بیان کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے یادوں بھری اپنی کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    وہ شائستہ اختر سہروردی کے نام سے شادی سے پہلے افسانے لکھا کرتی تھیں جو اس وقت کے مشہور اور قابلِ ذکر ادبی پرچوں میں شایع ہوتے تھے۔ 1940ء میں وہ لندن یونیورسٹی کی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں جس نے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔

    انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ مراکش میں بحیثیت سفارت کار بھی خدمات انجام دیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ نے افسانوی ادب کو اپنا مجموعہ کوششِ ناتمام کے نام سے دیا، دلّی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے، فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ، لیٹرز ٹو نینا، اور دیگر کتب ان کے ادبی مشاغل کی یادگار ہیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز عطا کیا گیا تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 2000ء کو وفات پائی اور کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں پیوندِ خاک ہوئیں۔

  • گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی یہ تحریر اداکار اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے۔ ہندوستان کی فلم نگری میں بہ طور اداکار اشوک کمار نے اپنی صلاحیتوں کو منوا کر متعدد اہم اور معتبر فلمی ایوارڈ اور حکومتی سطح پر بھی اعزازات اپنے نام کیے تھے۔

    اشوک کمار 13 اکتوبر، 1911ء کو بنگال میں پیدا ہوئے۔ انھیں دادا منی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اشوک کمار نے کئی فلموں اور بنگالی ڈراموں میں فنِ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابیاں‌ سمیٹیں۔ وہ 10 دسمبر 2001ء کو چل بسے تھے۔ ان کا انتقال ممبئی میں ہوا۔ سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

    نجمُ الحسن جب دیوکا رانی کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

    بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

    ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

    دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

    ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کردیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

  • پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    آج مزاحیہ اداکار نرالا کا یومِ وفات ہے جو ماضی میں‌ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور فن کار اور شائقین میں اپنی اداکاری کے سبب خاصے مقبول تھے۔ اس اداکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    نرالا کا اصل نام سیّد مظفر حسین زیدی تھا۔ وہ 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ 1960ء میں انھوں نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ سے بڑے پردے پر بطور اداکار اپنا سفر شروع کیا۔ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹنیم جوبلی فلم ’ارمان‘ میں نرالا نے اپنے مزاحیہ کردار کو اس طرح نبھایا کہ شائقین سے خوب داد اور ناقدین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ وہ اس فلم کے لیے بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھرے۔

    اداکار نرالا کی فلموں کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور ان کی اداکاری کو ناقابلِ فراموش اور یادگار قرار دیا گیا۔ نرالا نے فلم سپیرن، مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، جہاں تم وہاں ہم، نصیب اپنا اپنا جیسی کام یاب ترین فلموں میں اپنے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقینِ سنیما کے دل جیت لیے۔ ان کی آخری فلم چوروں کا بادشاہ تھی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اداکار، نرالا نے 9 دسمبر 1990ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    نام وَر قوال عزیز میاں شخصیت اور فن کے آئینے میں

    عزیز میاں کی وجہِ شہرت قوالی اور صوفیانہ کلام ہے جس میں‌ وہ اپنے مخصوص انداز سے سماں باندھ دیتے تھے۔ عزیز میاں 6 دسمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی 21 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    عزیز میاں کا اصل نام عبدالعزیز تھا۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔ یوں وہ عزیز میاں مشہور ہوگئے۔

    عزیز میاں عالمی شہرت یافتہ قوال تھے۔ انھوں نے علّامہ اقبال اور قتیل شفائی کی شاعری کو اپنے مخصوص طرزِ گائیکی سے سامعین میں مقبول بنایا۔ وہ پڑھنے کے لیے کلام کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ عزیز میاں نے کئی معروف اور غیر معروف شعرا کے عشقِ‌ حقیقی پر مبنی اشعار اور صوفیانہ کلام گایا۔

    ان کا شمار ایسے قوالوں میں ہوتا تھا جو تعلیم یافتہ اور وسیعُ‌ المطالعہ تھے۔ انھوں نے جامعہ پنجاب لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کیا تھا۔ وہ فلسفے کا شوق رکھتے تھے اور فلسفیانہ مباحث میں حصّہ لیتے اور دلیل اور منطق کے ساتھ اپنی فکر کا اظہار کرتے۔

    پاکستان ہی نہیں‌ انھیں دنیا بھر میں قوالی کی محافل سجانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا جہاں غیر مسلم بھی انھیں‌ سننے کے لیے جمع ہوتے۔ انھوں نے بیرونِ ملک اپنے منفرد انداز میں حمد و نعت کے ساتھ مختلف صوفیانہ کلام گایا اور حاضرین سے داد و ستائش پائی۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور ان کا انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے۔ وہ 17 اپریل 1942ء کو دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔

    انھوں نے قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے معروف استاد عبدالوحید کی شاگردی اختیار کی اور اس فن میں کمال حاصل کیا۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ وہ کلام تھا جو عزیز میاں کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے علاوہ منقبت کو بھی اپنی آواز میں سامعین تک نہایت خوب صورتی سے پہنچایا۔

    ‘‘نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ وہ نعتیہ کلام ہے جو عزیز میاں کی آواز میں ہمیشہ نہایت عقیدت سے سنا جاتا رہے گا۔

    مختصر علالت کے بعد 58 سال کی عمر میں وفات پاجانے والے عزیز میاں کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ملتان شہر میں ان کے مرشد کے پہلو میں کی گئی۔

    عزیز میاں قوال کو 1989ء میں حسنِ کارکردگی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔

    5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں‌ لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ مختلف زبانوں‌ جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں‌ حیرت انگیز دنیا میں‌ لے جاتی ہیں‌ جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    ڈوما کی چند کہانیوں‌ میں‌ "تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” اردو میں‌ ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں‌ سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔

    خاص طور پر اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیں‌ بھی بنائی‌ گئیں‌ جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریب اور مظلوم طبقے کی آواز بنے۔ وہ عوام کے شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ استحصالی طبقے کی مذمت کی اور ملک کے پسے ہوئے اور مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ حق اور سچ کا ساتھ دینے اور عوام کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حاکمِ وقت اور استحصالی ٹولے کے سامنے جس بے خوفی سے انھوں نے جرأتِ اظہار کا راستہ اپنایا، اس کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیض اور جالب کی طرح انھوں نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن کی وجہِ شہرت ان کا پنجابی کلام ہے جسے انھوں نے سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھا اور مقبول ہوئے۔

    ان کی مقبولیت اور کلام کی تاثیر کا عالم یہ تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں حاضرین ان کا کلام سُن کر رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے۔ مشہور ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہو جانے کی دعوت دی تو استاد دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے اور عالمی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ کتب بینی کی پختہ عادت نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے سماج میں سانس لیتے عوام کو دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ اس مشاہدے اور تجربے نے ان کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس میں غریبوں کے لیے امید اور ولولہ تھا، لیکن ان کے = یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں نشتر بن کر اتر گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر والد کو کہہ کر دکان سے مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے رکھا، لیکن مطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور بڑھنے کے ساتھ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن کی شاعری میں بہت تنوّع تھا۔ انھوں نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں جب کہ تقسیم کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے۔ اس کا انھیں‌ بہت رنج تھا۔ انہی دنوں وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے جس نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، لیکن استاد دامن بہت خود دار تھے۔ انھوں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    ہر دور میں مشاہیرِ ادب اور قابل شخصیات نے پنجابی زبان و ادب کے لیے استاد دامن کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔

    پنجابی زبان کا یہ مقبول شاعر لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوا۔

  • سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی نثر جی تاریخ ایک تحقیقی اور تنقیدی شاہ کار ہے جس کے مصنّف منگھا رام ملکانی تھے۔ وہ جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں شامل تھے۔

    آج نوجوان نسل ان کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ ان کا نام مذکورہ کتاب کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اسی کتاب پر انھیں 1969ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب سے نوازا گیا تھا۔

    اس کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ وقیع، مستند اور نہایت جامع تصنیف ہے۔

    پروفیسر منگھا رام ملکانی سندھی زبان کے نام وَر ادبی مؤرخ، نقّاد، معلّم اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں‌ نے ڈی جے کالج، کراچی میں انگریزی کے استاد اور بعد میں جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    وہ 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔

    ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔

    منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

    وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے مضامین لکھنا شروع کیے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہونے لگے۔منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹ لیا جو ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔

    منگھا رام ملکانی 1980ء کو آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔