Tag: دسمبر وفات

  • بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    بلقیس خانم: پاکستان کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ

    معروف پاکستانی شاعر عبید اللہ علیم کی ایک غزل آپ نے بھی سنی ہوگی جس کا ایک شعر ہے:

    ‘کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‌،
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا!

    یہ کلام کلاسیکی گائیکی کے لیے مشہور بلقیس خانم کی آواز میں‌ بے حد مقبول ہوا۔ گلوکارہ بلقیس خانم 21 دسمبر 2022ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی برسی کی مناسبت سے ہم یہاں ان فن و شخصیت اور حالاتِ زندگی کی جھلک پیش کررہے ہیں۔

    بلقیس خانم سِتار نواز استاد رئیس خان کی اہلیہ تھیں۔ لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر 2017ء میں وفات پاگئے تھے۔ معروف انٹرویو نگار اقبال‌ خورشید نے 2013ء میں بلقیس خانم سے جو گفتگو کی تھی، وہ گلوکارہ کے حالاتِ زیست کی تفصیل کچھ یوں بتاتی ہے: انھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی تھیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

    کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ’’وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔‘‘

    وہ استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔ اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ’’تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔‘‘ آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ’’لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔‘‘ ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔

    سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ’’ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔‘‘

    اس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔

    آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ’’تصویر‘‘ کے لیے اُنھوں نے گانا ’’بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ’’گیت کے بول مناسب نہیں!‘‘ جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ’’بی بی‘‘ نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ’’میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت ’اچھی‘ تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔‘‘

    فلم انڈسٹری سے دوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔

    ’’انوکھا لاڈلا‘‘ استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ’’سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‘‘ ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

  • ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    اردو زبان و ادب میں پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی کو ان کی تصنیف اردو تنقید کا ارتقاء نے بے مثال شہرت دی، لیکن یہی ایک کتاب نہیں بلکہ متعدد اصنافِ ادب میں ان کی کتابیں‌ ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ وہ نقاد بھی تھے، جیّد محقق، خاکہ نویس اور سفر نامہ نگار بھی۔ لیکن ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے اور انھیں صفِ اوّل کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آج ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے اور اس مناسبت سے ہم ان پر بھیّا کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی شخصیت ہم پر کھلتی ہے۔ "وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ ان کی نیکی، ہمدردی، خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے۔ دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔ آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلۂ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔ وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلو عریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۴۴ء کا دور تھا۔”

    ڈاکٹر صاحب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے پر پاکستان آئے تھے اور یہاں‌ لاہور میں‌ اورینٹل کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ گیارہ سال یہاں گزارنے کے بعد ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان ان کے سامنے آئے۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔ ۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے اور ۱۹۸۰ء میں ان کی ملازمت ختم ہوئی۔

    ان کا سنہ پیدائش 14 اگست 1920ء تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خاندانی نام عبادت یار خان رکھا گیا اور اردو ادب میں انھوں نے عبادت بریلوی کے نام سے پہچان بنائی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب عبادت بریلوی کو ادب کا شوق ہوا تو مطالعہ شروع کیا اور پھر تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ انھیں کئی بڑے ادیبوں اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے علمی و تحقیقی کام شروع کرنے والے عبادت بریلوی کی تصانیف میں غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید’ کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے جن میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے علاوہ ان کی ایک آپ بیتی بعنوان یادِ عہدِ رفتہ شامل ہیں۔ یہ کتابیں عبادت بریلوی کی کئی سال کی محنت، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہیں اور انھیں اردو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

    ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1998ء کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی حسین اور خوب صورت چہروں نے اس اعتماد کے ساتھ بھی قدم رکھا کہ آج نہیں تو کل وہ ضرور کام یاب ہوں گے اور فلمی ہیرو یا ہیروئن کے طور پر مستقبل میں نام بنا لیں گے۔ بلاشبہ یہ خوب صورت اور باصلاحیت فن کار بھی تھے، اور فلم سازوں نے انھیں موقع بھی دیا، لیکن ان کی فلمیں بری طرح پِٹ گئیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان نئے فن کاروں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر بات کی جائے اداکاراؤں کی تو ان میں بعض خوب صورت چہرے ایسے بھی تھے، جو فلمی دنیا میں کام یاب تو رہے لیکن یہ کام یابی انھیں ثانوی کرداروں یا سائیڈ ہیروئن کے کردار سے آگے نہ لے جاسکی۔

    ستّر کی دہائی کی ایک اداکارہ ’’نمو‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے جس نے پاکستانی فلمی صنعت میں شہرت تو حاصل کی، مگر ثانوی نوعیت کے کرداروں اور سائیڈ ہیروئن کے طور پر ہی اسے دیکھا جاسکا۔

    یہ نورین بٹ تھی جو 3 اگست 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئی، نورین بٹ کے والد شہزادہ محمود متحدہ ہندوستان کے ایک ایسے اداکار اور مصنّف تھے جنھیں راج پال کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد شہزادہ محمود کراچی آگئے اور بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔ نورین بٹ کو فلم میں کام کرنے کا شوق والد کی وجہ سے ہوا اور وہ قسمت آزمانے کے لیے نگار خانوں کے چکر لگانے لگی۔ موقع ملا تو نورین بٹ نے اسکرین ٹیسٹ دیے، مگر مسترد کر دی گئی۔ حالاںکہ نورین بڑی بڑی آنکھوں والی اور تیکھے نقوش کی لڑکی تھی، مگر فلم سازوں اسے کام دینے کو تیار نہیں تھے۔ نمو مسلسل قسمت آزماتی رہی اور پھر شباب پروڈکشنز کی فلم ‘فسانہ دل’ میں اسے اداکار ندیم کے مدِمقابل نِمو کا نام دے کر بہ طور ہیروئن کاسٹ کر لیا گیا۔ اداکارہ نورین کو یہ نام شباب کیرانوی نے دیا تھا اور اس فلم میں سائن کرتے وقت شباب کیرانوی نے یہ شرط رکھی تھی کہ نمو پانچ سال تک کسی اور فلم ساز کی فلم میں کام نہیں کرے گی۔ یہ بات نمو کو پسند نہ آئی اور اس نے شباب کیرانوی کو انکار کردیا جس کا نتیجہ کاسٹ سے اسے الگ کیے جانے کی صورت میں نکلا۔ بعد میں نمو کی جگہ دیبا بیگم کو اس فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔

    یہ ایک بڑی بات تھی کہ وہ لڑکی جسے ابھی انڈسٹری میں کوئی کام نہیں دے رہا اور شباب کیرانوی جیسے بڑے فلم ساز کی آفر کو اس نے یوں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، تو دوسرے فلم ساز بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بظاہر تو نمو نے اپنے پیروں پر گویا کلہاڑی مار لی تھی لیکن اس کی یہ جرأت ایک چانس بن گئی۔ فلم ساز اور ہدایت کر اسلم ڈار نے اسے اپنی فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ میں کاسٹ کرلیا۔ سخی لٹیرا میں اداکارہ نے بہ طور سائیڈ ہیروئن کام کرکے شائقین کی توجہ حاصل کرلیا۔ یہ کام یاب فلم 1971ء میں پیش کی گئی۔ فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ کے بعد اسلم ڈار کی سسپنس سے بھرپور فلم ’’مجرم کون‘‘ میں نِمو کو ایک اہم کردار میں پیش کیا گیا۔ یہ فلم اگست 1971ء میں کراچی کے ریگل سنیما میں نمائش پذیر ہوئی۔ وہ اسلم ڈار کی فلموں سے شہرت پانے لگی۔ اداکار سلطان راہی کو بامِ عروج پر پہنچانے والی فلم بشیرا تھی۔ اس میں اداکارہ نِمو کو سلطان راہی کی لڑاکا بیوی کا کردار نہایت عمدگی سے نبھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اردو فلم زرق خان میں نمو نے زبردست اداکاری کی۔ 1974ء میں اسلم ڈار کی رومانوی نغماتی اردو فلم ’’دل لگی‘‘ میں اداکارہ شبنم، ندیم، نیر سلطانہ اور دیگر بڑے ناموں کے درمیان اداکارہ نِمو نے بھی اپنی برجستہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ اس فلم میں نمو نے اپنی بڑی بڑی اور گہری آنکھوں سے خوب کام لیا کہ جب جب یہ کردار خاموش رہتا تو فلم بینوں کو اس کی آنکھیں بولتی دکھائی دیتیں‌۔

    اداکارہ نمو نے اپنے کیریئر میں 113 فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ اردو کے علاوہ نمو نے پنجابی اور چند پشتو فلموں میں بھی اداکاری کی۔ نمو نے زیادہ تر ثانوی اور سیکنڈ ہیروئن کے رول کیے اور انھیں اکثر ماڈرن اور گلیمر کرداروں میں پسند کیا گیا۔ 1977ء میں ہدایت کار نذرُ الاسلام کی بلاک بسٹر اردو فلم ’’آئینہ‘‘ میں اداکارہ نمو نے ایک نہایت ماڈرن اور ہائی سوسائٹی کی عورت کا رول کیا تھا جس کا شوہر تاش اور شراب کی محفلوں میں اسے ساتھ رکھتا ہے۔ اداکارہ نمو نے چاہت، ننھا فرشتہ، فرض اور مامتا، شیریں فرہاد، نیک پروین، سنگم، پیار کا وعدہ، آواز، قربانی، دو دل اور دیگر فلموں‌ میں کام کرکے شہرت پائی۔ اس کی پنجابی فلموں میں حشر نشر، کل کل میرا ناں، ڈنکا، دادا، انتقام دی اگ، خون دا دریا، شرابی، بابل صدقے تیرے، ہتھکڑی، میڈم باوری شامل ہیں۔

    اداکارہ نے فلمی دنیا میں نام بنانے کے بعد شادی کی تھی لیکن ان کے مطابق وہ خود غرض اور لالچی شخص تھا جس سے انھوں نے علیحدگی حاصل کر لی تھی۔ بعد میں‌ دوسری شادی کرکے وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئیں۔ 16 دسمبر 2010ء کو نورین بٹ المعروف نمو لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

  • یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    گزشتہ ایک صدی کے دوران سائنسی ایجادات کی بدولت داستان گوئی، نوٹنکی، کہانی یا کھیل کو عام لوگوں کی دل چسپی اور تفریح‌ کے لیے پیش کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا اور برصغیر کی بات کی جائے تو سنیما اسکرین نے فن اور ثقافت کی دنیا میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ پاکستانی سنیما کو دیکھیں‌ تو اس کے عروج کے زمانے میں پاکستان میں‌ فلمی صحافت اور تاریخ قلم بند کرنے کا بھی آغاز ہوا۔

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ بھی روزناموں میں فلمی دنیا کی خبریں، اشتہارات، فلمی صنعت سے متعلق مختلف اعلانات وغیرہ شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی فلمی پرچے بازار میں آتے اور بہت سے فلمی جرائد بک اسٹالوں پر پہنچتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جس میں پاکستان کے واحد فلمی مؤرخ کے طور پر یٰسین گوریجہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گوریجہ صاحب نے 26 دسمبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔ یٰسین گوریجہ کی مرتب کردہ فلمی تاریخ اور ان کے لکھے ہوئے فلمی ستاروں‌ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ شخصیات کی باتیں یادیں، کہانیاں اور ذاتی زندگی کے کئی دل چسپ، رنگین اور بعض سنگین مگر یادگار واقعات اور قصّے بھی مستند مانے جاتے ہیں۔

    معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار لکھتے ہیں‌ کہ فلمی صحافت سے اُن (گوریجہ) کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اُن کا دائرۂ کار ایکٹرسوں کے اسکینڈل تلاش کرنے یا کسی ہیرو کے تازہ ترین معاشقے کا کھوج لگانے سے بالکل مختلف تھا اور وہ فلمی دنیا کے ایک ایسے وقائع نگار بن گئے تھے جِن کے لکھے ہوئے روزنامچے مستقبل کے فلمی مورّخ کے لیے مستند اور موقّر ترین مواد فراہم کریں گے۔

    یٰسین گوریجہ نے 1966 میں پاکستان کی فلمی ڈائری مرتب کرنا شروع کی تھی جو ایک قسم کی Year Book ہوتی تھی اور اس میں یہاں کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص اور ادارے کا نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہوتا تھا۔ سال بھر کے دوران بننے والی فلموں کی فہرست اور ہر فلم کی ضروری تفصیل بھی اُس میں درج ہوتی تھی۔ اس کی سالانہ اشاعت میں کئی بار رخنہ بھی پڑا لیکن زود یا بدیر اس کا نیا ایڈیشن ضرور شائع ہو جاتا تھا۔

    کچھ عرصہ بعد یٰسین گوریجہ نے 1947 سے لے کر تاحال بننے والی تمام فلموں کی تفصیل جمع کر لی اور اسے اپنی ڈائریکٹری میں شائع کیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں انھوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے بننے والی فلموں کی تفصیل بھی اکھٹی کر لی اور اس طرح ڈائریکٹری کے موجودہ ایڈیشن میں 1913 میں بننے والی ہندوستان کی اوّلین فلم سے لیکر 1947 تک بننے والی تمام انڈین فلموں کی تفصیل درج ہے جب کہ 1947 کے بعد صرف پاکستانی فلموں کا احوال ہے جو کہ دسمبر 2002 تک چلتا ہے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں‌، اس ڈائریکٹری کے علاوہ یٰسین گوریجہ نے ہفت روزہ نگار میں اپنی فلمی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو بعد میں کتابی شکل میں ڈھل گیا اور ’لکشمی چوک‘ کے نام سے میّسر ہے۔ اس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات درج ہیں جوکہ مُصنّف نے چشم دید صورت میں رقم کیے ہیں۔ نورجہاں کی زندگی اور فن پر اُن کی کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فلمی حلقوں سے باہر بھی داد وصول کر چکی ہے۔

    یٰسین گوریجہ یقیناً پاکستان کی چلتی پھرتی فلمی تاریخ تھے۔ آخری عمر تک حافظہ اتنا شان دار تھا کہ کسی بھی پرانی فلم کا سنِ تکمیل یا کاسٹ کی تفصیل وہ زبانی بتا دیتے تھے۔ اُن کے پاس پرانی فلمی تصویروں اور پوسٹروں کا بہت بڑا خزانہ تھا۔ پچھلے برس (غالباً زندگی کے آخری سال میں) جاپان سے ایک ٹیم آئی جو پوسٹروں کے فن پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی تھی۔ یٰسین گوریجہ کے دفتر میں نایاب پوسٹروں کا ڈھیر دیکھ کر وہ سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ٹیم کی لیڈر خاتون نے گوریجہ مرحوم سے اجازت لی کہ اُن کی کتاب ’لکشمی چوک‘ کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور باہر کی دنیا کو یہاں کی گم نام فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا جائے۔

    یٰسین گوریجہ 1926ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 برس کے تھے جب قیامِ‌ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ یٰسین گوریجہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے کچھ حصّے سامنے آئے اس میں تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خودنوشت کا مواد بھی اکٹھا کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے۔ ڈائری میں ایک جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان کی نظر میں تقسیم سے پہلے معاشرہ کیسا تھا اور بٹوارے کے بعد نفرت اور دوریوں کو وہ کیسا دیکھتے ہیں:

    ’آج کے دور میں جب کہ ہندوؤں کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور یہ محض اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہے ورنہ میں نے جو بیس سال ہندوؤں میں گزارے۔ آریہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ زیادہ تر دوست ہندو اور سکھ لڑکے ہی تھے، لیکن کسی قسم کا بغض یا نفرت کا جذبہ نہ تھا۔ اوم پرکاش میرا کلاس فیلو تھا۔ خالص پنڈت اور برہمن گھرانہ۔ لیکن میں ہر وقت ان کے گھر کھیلتا کودتا رہتا۔ بالکل بھائیوں جیسا پیار۔ لچھمن داس، گوبندرام، جیوتی پرکاش، رام پرکاش، جگدیش چندر، گوردیال سنگھ اب کتنے نام دہرائے جائیں۔ ان کے گھروں میں آنا جانا۔ ان کے ماں باپ بھی ہمیں اولاد کی طرح سمجھتے‘۔ٰ

    یٰسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کو ان کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کی فلموں کا مفصل احوال اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر اہم شخص کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں۔ ابتدائی ایڈیشنوں میں 1948 کے بعد کی تمام پاکستانی فلموں کا مختصر احوال اور بعد میں ماضی کی طرف 1931 تک یعنی اوّلین متکّلم فلم سے لے کر دورِ جدید تک تمام پاکستانی فلموں کا بنیادی ڈیٹا اس میں شامل کر لیا گیا۔

    پاکستانی سنیما کے اس واحد وقائع نگار کا بہت سا کام ان کی زندگی میں شایع نہ ہوسکا لیکن گوریجہ صاحب کے جانشین طفیل اختر صاحب نے ان کی متعدد کتابیں تدوین اور ترتیب کے عمل سے گزار کر شایع کروائی ہیں۔ پاکستانی سنیما کی پچاس سالہ تاریخ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جسے مصنّف نے دس دس برس کے پانچ ادوار میں تقسیم کیا تھا اور 1947 سے 1997 پر محیط عرصہ ہے۔

  • کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت وہ کتاب تھی جس کے بارے میں مصنّف باری علیگ لکھتے ہیں کہ پہلے ایڈیشن کا طرزِ تحریر یک طرفہ اور طریقِ تنقید منتقامانہ تھا، اس کے باوجود اس کی مقبولیت کی وجہ یہی تھی کہ لوگ انگریز سے نفرت اور کمپنی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن 1945ء میں آیا تھا۔ آج بھی باری علیگ کی اس کتاب کی اہمیت برقرار ہے۔

    باری علیگ کو اردو دنیا ایک ترقی پسند دانش وَر، مؤرخ، نقاد اور صحافی کی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔ 1949ء میں باری علیگ آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی کتاب ’ کمپنی کی حکومت‘ منفرد انداز کی تاریخ نگاری میں ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ سعادت حسن منٹو جیسے مشہور ادیب باری علیگ کو اپنا راہ نما اور استاد تسلیم کرتے تھے۔ 1933ء میں جب منٹو بارہویں جماعت کے طالبِ علم تھے تو ان کی ملاقات اشتراکی ادیب باری علیگ سے ہوئی تھی جو ان دنوں روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر تھے۔ منٹو کی ذہنی پرداخت میں باری علیگ کا بڑا حصّہ ہے۔

    یہ باری صاحب ہی تھے جن کی ہدایت پر منٹو نے وکٹر ہیوگو کے انگریزی ترجمے ’دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈیمنڈ‘ کو اُردو کے قالب میں ڈھالا اور بعد میں آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’ ویرا‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ باری علیگ کے دیگر خورد معاصرین نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا اور ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    باری علیگ 1906ء کو برطانوی ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام باری تھا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور دیگر طالبِ علموں کی طرح اسی درس گاہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ علیگ کا لاحقہ جوڑا۔ باری علیگ کی تصانیف میں تاریخ کا مطالعہ، انقلابِ فرانس، کارل مارکس، مشین اور مزدور اور دیگر کتب شامل ہیں۔

    حالاتِ حاضرہ اور سیاسی امور پر اخبارات کے لیے مضمون نویسی سے باری علیگ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا۔ بعد میں اخبار مساوات کی ادارت سنبھالی۔ یہاں انھوں نے معیاری صحافت کی۔ باری‌ صاحب کی دل چسپی کے موضوع تاریخ اور معاشیات تھے۔ اپنی اوّلین دو کتابوں میں انھوں نے فرانس کے انقلاب، ہندوستان میں انگریزوں کی آمد، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قیام اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ باری علیگ کی دیگر کتابوں میں‌ اسلامی تاریخ و تہذیب، عالمی تاریخ، تاریخِ اسلام بھی شامل ہیں۔ باری علیگ نے مارکسی فلسفے پر چند کتابچے بھی تحریر کیے۔

    باری علیگ جوانی میں لاہور شہر میں وفات پاگئے تھے۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • سلجوق حکم راں برکیاروق کا تذکرہ

    سلجوق حکم راں برکیاروق کا تذکرہ

    سلجوق خاندان اور اس سے وابستہ شخصیات کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ یہ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ سلجوق خاندان نے گیارہویں صدی عیسوی میں حکومت قائم کی تھی۔ اس خاندان سے رکن الدّین برکیاروق نے چوتھے حکم راں کی حیثیت سے شہرت پائی۔  

    سلجوق سلطنت کے بانی نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جن کے بیٹے برکیاروق تھے۔ وہ زبیدہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے سلطنت کو تقسیم کردیا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار نے ان کی طاقت اور اثر کم کر دیا تھا۔

    تاریخ کے ماہرین اور محققین برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کا اقتدار 1104ء میں ان کی وفات تک قائم رہا۔ تاریخ کی کتب میں ان کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

    ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور ان کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ مگر اس کے لیے برکیاروق کو خاندان میں مزاحمت اور بغاوت کا سر کچلتے ہوئے کئی سازشوں اور یورشوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو کچلنے کے بعد جب تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق نے مکمل طور پر سلطنت کو سنبھالا۔

    عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کیا اور خلعت سے نوازا۔ ان کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور سلطنت کے اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے ان کی حکم رانی کا اعلان کیا۔ برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کے سرداروں اور حکم رانوں کو اپنا مطیع اور تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو سنبھالتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر ان کا اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور امراء و سپاہ پر حاکمیت اور اثر برقرار رکھنا آسان نہیں رہا تھا جب کہ اسی عرصے میں ان کی والدہ زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑ گیا۔ بعد میں وہ واپس ہوئے تو اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط پر تمام ہوا۔ محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی پر ایک معاہدہ کر لیا۔

    سلطان برکیاروق کا دور لڑائیوں اور بغاوتیں فرو کرتے گزر گیا۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

  • دیو آنند: لاجواب اداکار، حیرت انگیز شخصیت

    دیو آنند: لاجواب اداکار، حیرت انگیز شخصیت

    دیو آنند صاف گو آدمی اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک بھی تھے۔ دیو آنند کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ زندگی کو گزارنے کے بجائے اسے جینے پر یقین رکھتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی دیو آنند کا انداز وہی تھا جس میں وہ پُرجوش اور زندگی سے پیار کرنے والے شخص نظر آتے ہیں۔ 

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں‌ دیو آنند کا کیریئر بطور اداکار پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دیو آنند اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ دیو آنند بولی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں اداکاری میں ایک ادارے کی حیثیت حاصل رہی۔ اپنے مخصوص انداز میں مکالموں کی ادائيگی کے لیے مشہور دیو آنند نے اداکاری کے علاوہ عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن بطور اداکار ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق کا قصہ یہ ہے کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جا رہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ جہاں اس حادثے کا خوب چرچا ہوا، وہیں اس حادثے کے بعد دونوں فن کاروں کی محبّت کا بھی شہرہ ہونے لگا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں دیو آنند کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ، پنجاب میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھردیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے کیا، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ یہ 1943ء کی بات ہے جب دیو آنند نوکری تلاش کرنے کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی روانہ ہوئے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا تھا۔ کچھ کوششوں کے بعد جب ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری ملی تو وہاں لگ گئے۔ تقریباً ایک سال تک یہ نوکری کی اور پھر اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو اداکاری کرنے کا موقع مل گیا۔  دیو آنند چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند کا فلمی دنیا میں ان کے شائقین کو وہ انداز بہت بھایا جس میں اداکار کچھ جھک کر، خاص طرح سے لہراتے ہوئے چلتے تھے، اور ان کی مخصوص آواز میں مکالمہ سماعتوں سے ٹکراتا تھا۔ اسی طرح ان کے ملبوس کا حصہ یعنی اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کو بہت بھاتی تھی۔

    بھارتی حکومت نے دیو آنند کو پدبھوشن اعزاز سے نوازا۔ انھیں دادا پھالکے اعزاز بھی دیا گیا۔ دیو آنند کو کئی فلم فئیر ایوارڈ بھی دیے گئے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے اور ان کی ایک فلم گائیڈ آسکر کے لیے نام زد ہوئی تھی۔ دیو آنند نے جو کردار ادا کیے ان پر اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔ اداکار کی مقبول ترین فلموں میں ’پیئنگ گیسٹ، بازی، جویل تھیف، سی آئی ڈی، جانی میرا نام، امیر غریب، ہرے راما ہرے کرشنا، ضدی اور ٹیکسی ڈرائیور‘ شامل ہیں۔

    1993ء میں دیو آنند کو فلم فئیر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا تھا۔
  • پتھر کی سرگذشت

    پتھر کی سرگذشت

    شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی۔

    گزرتی ہوئی گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جدا کردیا۔ اس پتھر نے دل میں سوچا۔’’ مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالات میں نہیں رہنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ جا کر رہوں۔‘‘

    ایک لڑکا آیا اور اس پتھر کو اٹھا کرلے گیا۔ پتھر نے دل میں خیال کیا۔’’ میں نے سفر کرنا چاہا تو سفر بھی نصیب ہوگیا، صرف آہنی ارادہ کی ضرورت تھی۔‘‘ لڑکے نے پتھر کو ایک گھر کی جانب پھینک دیا۔

    پتھر نے خیال کیا ’’میں نے ہوا میں اڑنا چاہا تھا۔ یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ صرف ارادہ کی دیر تھی۔ پتھر کھٹ سے کھڑکی کے شیشہ پر لگا۔

    شیشہ یہ کہہ کر چکنا چور ہوگیا۔’’بدمعاش! ایسا کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ تم نے بہت اچھا کیا۔ جو میرے راستے سے ہٹ گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے راستے میں حائل ہوں۔‘‘ ہر ایک چیز میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ میرا اصول ہے۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے پتھر ایک نرم بستر پر جا پڑا۔ پتھر نے بستر پر پڑے ہوئے خیال کیا۔’’ میں نے کافی سفر کیا ہے اب ذرا دو گھڑی آرام تو کروں۔‘‘

    ایک نوکر آیا اور اس نے پتھر کو بستر پر سے اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا۔ سڑک پر گرتے ہی پتھر نے اپنے ہم جنسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو! خدا تمہیں سلامت رکھے۔ میں ابھی ابھی ایک عالی شان عمارت سے ہو کر آرہا ہوں لیکن اس کی شان و شوکت مجھے بالکل متاثر نہ کرسکی۔ میرا دل تم لوگوں سے ملاقات کے لیے بیتاب تھا۔ چنانچہ اب میں واپس آگیا ہوں۔‘‘

    (روس کے مشہور شاعر اور ادیب فیودور سلوگب کی کہانی، جو علامت اور تمثیل نگاری کے لیے مشہور تھے)

  • اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    اے شاہ: اپنے دور کے ایک مقبول مزاحیہ اداکار کے عروج و زوال کی کہانی

    فارسی کی کہاوت ہے ہَر کمالے را زوال اور اس عبرت سرا میں عروج و زوال کی ان گنت داستانیں، بلندی اور پستی کی بے شمار کہانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ اگر بات کریں‌ فلم انڈسٹری کی تو کئی پری چہرہ آئے گئے اور ان کا پُرشباب دور نہایت شان دار طریقے سے تمام ہوا، لیکن ان میں‌ چند ایسے ستارے بھی تھے جنھیں یا تو زمانہ سازی نہ آئی یا پھر وہ وقت کی ستم ظریفی کا نشانہ بنے۔ اے شاہ شکار پوری بھی ایسا ہی نام ہے جنھیں فراموش کردیا گیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا کے ابتدائی دس، پندرہ برسوں میں تین مزاحیہ اداکاروں نے خوب نام کمایا اور یہ وہ کامیڈین تھے جنھیں فلموں کی کام یابی کی ضمانت تصوّر کیا جاتا تھا۔ انہی میں‌ سے ایک اے شاہ شکار پوری تھے۔ ان کی فلمی دنیا میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی پوسٹروں پر ان کی تصویر نمایاں اور نام جلی حروف میں‌ لکھا جاتا تھا۔ اپنے دور کے یہ مقبول کامیڈین اپنے زمانۂ عروج میں‌ لاہور کے ایک شان دار مکان میں رہا کرتے تھے، لیکن آخری عمر میں‌ وہ کرائے دار کے طور پر ایک تنگ کوٹھڑی میں‌ رہنے پر مجبور تھے۔

    اے شاہ شکار پوری کے ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم تو بہت کم ہی کسی کو ہوسکا، لیکن کوئی کہتا ہے کہ وہ 1906ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے تھے اور بعض سوانحی خاکوں لکھا ہے کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    ان کا اصل نام عبدُاللّطیف شاہ تھا اور فلمی دنیا میں انھیں اے شاہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ان کے نام کے ساتھ "شکار پوری” کیوں لکھا گیا، اس بارے میں کہتے ہیں‌ کہ 1947ء میں "مسٹر شکار پوری” ریلیز ہوئی تھی اور اس میں اے شاہ کا نام بطور اداکار، ہدایت کار اور نغمہ نگار شامل تھا، ٹائٹل رول بھی اے شاہ نے نبھایا تھا۔ غالباً اسی فلم کے بعد شکار پوری ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ اسی سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ وہ سندھ کے مشہور شہر شکار پور کے باسی تھے۔

    وہ اتنے مقبول کامیڈین تھے کہ درجنوں فلموں کی کہانیاں ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھوائی گئیں، اور اے شاہ نے ان میں‌ ٹائٹل رولز کیے۔ پھر وہ وقت آیا جب کوئی پروڈیوسر، ڈائریکٹر اے شاہ کو فلم میں سائن نہیں کرتا تھا، اور وہ مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، کیوں کہ وقت بدل چکا تھا اور لہری، رنگیلا، منور ظریف کا شہرہ تھا اور انہی کے نام پر فلمیں کام یاب ہونے لگی تھیں۔

    اے شاہ شکار پوری کی بیوی ان پڑھ اور عام سی گھریلو عورت تھیں جن کے بطن سے انھیں بیٹے کی مسرّت نصیب ہوئی تھی۔ جب اے شاہ کو فلموں میں کام ملنا بالکل بند ہوگیا تو ان کے اکلوتے بیٹے امانت نے مزنگ بازار کے چھور پر جہاں سمن آباد کا پہلا گول چکر آتا ہے، پتنگوں کی دکان کھول لی۔ اے شاہ بھی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے نظر آتے۔ یہی دکان ان کی روزی روٹی کا اکلوتا ذریعہ تھی۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کا شان دار مکان چھوڑ چکے تھے اور اب نواں مزنگ میں ڈیڑھ مرلے کے ایک کھولی ٹائپ مکان میں رہنے لگے تھے۔ یہ گھر کیا تھا، ایک ڈبہ نما کمرہ تھا جس میں‌ ایک چارپائی رکھنے کے بعد دو تین آدمیوں کے بیٹھنے کی بمشکل گنجائش نکل آتی تھی۔

    اے شاہ نے منفی اور ولن ٹائپ کے سنجیدہ سماجی کرداروں کو مزاحیہ انداز میں‌ بخوبی نبھایا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اداکاری اور فلم سازی کے انھوں نے نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کا تخلّص عاجز تھا۔ اے شاہ کے فلمی سفر کا آغاز تقسیمِ ہند سے قبل 1934ء میں ریلیز ہونے والی فلم فدائے توحید سے ہوا تھا۔ انھوں نے اُس دور میں متعدد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ پاکستان میں اے شاہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم نوکر تھی جو 1955ء کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسی سال کی ایک فلم حقیقت بھی تھی جس میں وہ پہلی اور آخری بار فلم ساز، ہدایت کار، نغمہ نگار اور اداکار کے طور پر نظر آئے لیکن کام یاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے درجنوں‌ فلموں‌ میں‌ بطور اداکار کام کیا۔ 1963ء اور 1966ء میں انھوں‌ نے سماجی موضوعات پر بنائی گئی فلموں چاچا خوامخواہ اور چغل خور میں ٹائٹل رول کیے۔اے شاہ کی اپنی ایک فلم منشی سب رنگ بھی تھی جو ریلیز نہیں ہو سکی تھی۔

    فلمی دنیا سے متعلق مضامین کے مطابق اے شاہ کی آخری پنجابی فلم اک نکاح ہور سہی تھی اور یہ بات 1982ء کی ہے۔ بطور کامیڈین ان کی یادگار پاکستانی فلموں‌ میں‌ حمیدہ، نوکر، سلمیٰ، موج میلہ، چوڑیاں، ڈاچی، نائلہ، جی دار، لاڈو، جند جان شامل ہیں۔

    وہ پچاس کی دہائی کے وسط تک بھارت میں رہے اور پھر ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اے شاہ شکار پوری نے فلم ”بابل” میں دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔

    پاکستانی فلموں‌ کے اس کام یاب مزاحیہ اداکار نے 21 دسمبر 1991ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔