Tag: دسمبر وفات

  • یومِ وفات: نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے بغیر نامکمل ہے

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے ساتھ 1994ء تک پروین شاکر کی زندگی کا سفر بھی جاری رہا، لیکن جب ‘‘ماہِ تمام’’ مداحوں تک پہنچی تو پروین شاکر دنیا سے جا چکی تھیں۔ آج اردو کی اس نام ور شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں یہ نام شاید رومانوی موضوعات کی وجہ سے زیادہ مقبول ہے، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو ان کی شاعری میں‌ نسائی جذبات اور ان کے عصری شعور کی وجہ سے بہت سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملتی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • دادا امیر حیدر خان: ایک انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما کا تذکرہ

    آج عظیم انقلابی اور کمیونسٹ راہ نما دادا امیر حیدر خان کا یومِ‌ وفات ہے جو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے اور اس پلیٹ فارم سے انقلابی جدوجہد کرنے کی پاداش میں‌ کئی بار گرفتار ہوئے اور طرح طرح‌ کی صعوبتیں کیں۔ دادا امیر حیدر خان 26 دسمبر 1989ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    2 مارچ 1900ء کو ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے دادا امیر حیدر خان کا بچپن اور نوجوانی کے ایّام بڑی محرومیوں اور تنگی دیکھتے ہوئےگزرے جس نے انھیں‌ معاشرے کا باغی اور نظریات کا کھرا بنا دیا تھا۔ وہ نہایت کم عمری میں تلاش معاش میں گھر سے نکلے تھے اور 1914ء میں بمبئی میں برٹش مرچنٹ نیوی میں ملازم ہوگئے۔ بعد میں ان کی ملاقات غدر پارٹی کے جلا وطن راہ نمائوں سے ہوئی جس نے دادا امیر حیدر خان کو کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ بعد ازاں سوویت یونین چلے گئے جہاں ان کی فکر اور نظریات پختہ ہوئے۔

    مرزا حامد بیگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں‌ اس عظیم انقلابی لیڈر نے اپنے بارے میں‌ بتایا تھا، ہمارا تعلق پلندری تحصیل پونچھ، کشمیر سے ہے، ہمارے آبا و اجداد موسمِ گرما میں امرائے وقت کے گھروں میں چھت سے ٹنگے جھالر دار پنکھے کھینچا کرتے اور سُدھن کہلاتے تھے۔ تین مارچ 1900ء کو میرا جنم ہوا۔ میں ابھی پانچ برس کا تھا کہ والد صاحب فوت ہوگئے۔ ایک بہن اور ہم تین بھائی بے یار و مددگار۔ میری ماں کے ساتھ میرے سوتیلے چچا کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔

    وہ بتاتے ہیں، ایک روز کسی غلطی پر ماں نے بھی مارا تو میرا دل ٹوٹ گیا اور میں بغیر شلوار پہنے، ایک لمبے کرتے میں پشاور بھاگ گیا۔ مجھے خچر بس سروس، پشاور میں مزدوری کا کام مل گیا۔ پشاور سے کئی روز بعد گھر پلٹا تو ماں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ سوتیلے چچا نے مجھے مولوی محمد جی کے پاس الف لام میم پڑھنے پر لگا دیا۔ لیکن شاید مجھے مزید ٹھوکریں کھانا تھیں۔ ہمارے گھر سے گورنمنٹ پرائمری اسکول بیول، تحصیل گوجر خان آٹھ میل دور تھا۔ چچا نے سوچا وہاں ٹھیک رہے گا۔ سو مجھے بیول بھیج دیا گیا۔ وہاں، اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے مجھے مدرسین کے گھوڑوں کو پانی پلانے اور اسکول کی جھاڑو دینے کا کام سونپا۔ لیکن اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا۔ وہ یوں کہ اس کام کے بدلے مجھے کھانے کو روٹی اور سونے کو ہیڈ ماسٹر کے گھر کے ڈیوڑھی بھی میسر آگئی۔ جس میں مال مویشی بھی بندھے ہوتے۔ ایسے میں، میں خود حیران ہوں کہ تین جماعتیں کیوں کر پاس کر گیا۔

    ایک مرتبہ وہ حالات سے تنگ آکر بمبئی چلے گئے جب ان کی عمر تیرہ چودہ برس تھی۔ بمبئی کی بندرگاہ پر دخانی جہازوں پر روزی کا ذریعہ بن گیا۔ صبح سے شام ڈھلے تک کام اور صرف کام۔ بہت مشکل اور کڑے دن تھے اور پھر وہ ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر برطانیہ پہنچے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بیگار میں بھرتی کر کے لایا گیا ہے اور اب اس جبری مشقت کا معاوضہ صرف ایک پاﺅنڈ ملا کرے گا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کے عروج کا زمانہ تھا، لیکن 1916ء میں ان کو ساتھیوں سمیت تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر قید کر دیا گیا۔ برطانیہ میں زیرِ حراست رکھنے کے بعد سنگا پور لائے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین بمبئی پہنچے۔

    انھیں کئی بحری اسفار کرنے کا موقع ملا جس میں برطانیہ، ساﺅتھ افریقہ اور امریکا اور فرانس شامل ہیں یہاں تک کہ پہلی جنگِ عظیم ختم ہوگئی۔ لیکن اس ساری اکھاڑ پچھاڑ اور اپنے وطن میں برطانوی سامراج کے کرتوت دیکھ کر دادا امیر حیدر خان میں ایک انقلابی روح بیدار ہوچکی تھی۔ انھوں نے سامراج دشمن، محبانِ وطن کی انقلابی جماعت ”غدر پارٹی“ کی رکنیت حاصل کر لی اور فروری 1921ء میں غدر پارٹی کے پمفلٹس اور ہینڈ بلز کے ساتھ ایک بحری جہاز کے ذریعے شنگھائی پہنچے۔ بعد میں ہندوستان میں سامراجی جبر شدید تر ہوجانے پر وہ ماسکو چلے گئے تھے۔ 1932ء میں واپسی پر گرفتار ہوئے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔

    تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان میں‌ کمیونسٹ پارٹی کو منظّم کرنے میں مصروف رہے۔ اس زمانے میں‌ ان کی زندگی کا بیش تر حصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔

    امیر حیدر خان کی سوانح عمری Chains to Lose کے نام سے انگریزی میں اور دادا کے نام سے اردو میں شائع ہوچکی ہے۔

  • منیر نیازی: وہ شاعر جس کے تخیل نے طلسم خانۂ حیرت تشکیل دیا

    منیر نیازی کی شاعری ایک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کے اشعار سے ایک خواب ناک ماحول جنم لیتا ہے جس میں‌ داخل ہونے والا گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے طرزِ بیان اور اسلوب نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آج منیر نیازی کی برسی ہے۔

    منیر نیازی کو اپنے عہد کا بڑا شاعر کہا جاتا ہے جس نے کسی کلاسیکی روایت کا تعاقب نہیں کیا اور کسی دبستان کا اثر بھی قبول نہیں کیا بلکہ ایک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

    بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کو ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی وجہ سے جو پذیرائی اور مقبولیت ملی، وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی شاعری انجانے اور اچھوتے احساس کے ساتھ ان رویّوں کی عکاسی کرتی ہے جن سے منیر اور ان کے عہد کے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ منیر نیازی کے کلام کا قاری معانی کی کئی پرتیں اتارتا اور امکانات کی سطحوں کو کریدتا ہوا اس میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔

    منیر نیازی نے 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے ایک قصبہ میں آنکھ کھولی۔ وہ پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے جو منیر نیازی کی زندگی کے پہلے برس ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ منیر نیازی کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہ نوکری ان کے مزاج کے برعکس تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ادبی رسائل پڑھتے تھے جس کا نتیجہ نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ کی صورت سامنے آیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہوئی تھی کہ ملک کا بٹوارہ ہو گیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا آیا۔ یہاں انھوں نے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، لیکن یہ اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار میں ناکام ہونے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ وہاں مجید امجد کے ساتھ ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا اور اسی زمانے میں مختلف اخبارات اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں منیر نیازی نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ فلم ’’شہید‘‘ کے لیے نسیم بانو کی آواز میں ان کا کلام ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بہت پسند کیا گیا، اور نور جہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ ایک مقبول نغمہ ثابت ہوا۔ اسی طرح 1976 میں ’’خریدار‘‘ کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ ناہید اختر کی آواز میں آج بھی مقبول ہے۔

    منیر نیازی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انا پرست تھے اور کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کے پسندیدہ تھے۔ اسی طرح منیر نیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم میں بھی معیار کو بلند رکھا ہے۔ لیکن گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیر نیازی خود پسند ہی نہیں، بلا کے مے نوش بھی تھے اور آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی۔ وہ 26 دسمبر 2006ء کو بیماری کے سبب وفات پاگئے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو اور پنجابی زبان کے اس مقبول شاعر کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا تھا۔

    ان کی زندگی میں تنہائی اور آوارگی کے ساتھ رومانس کا بڑا دخل رہا اور وہ خود کہتے تھے کہ زندگی میں‌ درجنوں عشق کیے ہیں۔ وہ ساری عمر شاعری کرتے رہے اور بے فکری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنائے رکھا۔ اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہونے والے منیر نیازی لاہور میں حلقۂ اربابِ ذوق کے رکن بنے اور سیکرٹری بھی رہے، لیکن کسی مخصوص گروہ اور ادبی تنظیموں سے کوئی وابستگی اور تعلق نہ رکھا۔ وہ اپنی دھن میں‌ رہنے والے انسان تھے جس کے مزاج نے اسے سب الگ رکھا۔

    مجید امجد وہ شاعر تھے جن کے ساتھ رہ کر منیر نیازی کا تخلیقی جوہر کھلنے لگا۔ وہ ایک ساتھ بہت سا وقت گزراتے اور شعر و ادب پر بات کرتے، اور اپنی شاعری ایک دوسرے کو سناتے۔ بقول منیر نیازی دونوں روز ایک نئی نظم لکھ کر لاتے تھے اور ایک دوسرے کو سناتے۔ منیر نیازی کی تخلیقات فنون، اوراق، سویرا، ادب لطیف، معاصر اور شب خون وغیرہ میں شائع ہوتی تھیں۔

    منیر نیازی کی شخصیت بھی سحر انگیز تھی۔ وہ ہر محفل میں مرکزِ نگاہ ہوتے۔ ان کے ایک ہم عصر رحیم گل نے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔

    ‘ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ و سرخ قمیض میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سرخ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوتِ شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بُوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پا لیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا۔’

    منیر نیازی کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
    تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
    ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

    مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
    اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

    اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اردو میں منیر نیازی کے 13 اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں اپنے دور کے اہلِ قلم اور بالخصوص نقادوں سے ایک محفل میں یہ شکوہ اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا کہ ’ایک زمانے میں نقّادوں نے مجھے اپنی بے توجہی سے مارا اور اب اس عمر میں آ کر توجہ سے مار رہے ہیں۔‘

  • ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    ‘خدا کی بستی’ کے خالق شوکت صدیقی کا تذکرہ

    خدا کی بستی شوکت صدیقی کا معرکہ آرا ناول ہے جسے 1960ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ شوکت صدیقی اردو ادب کے ایک مقبول ناول اور افسانہ نگار تھے جن کی آج برسی ہے۔

    شوکت صدیقی فکشن نگاری کے علاوہ صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں وفات پانے والے شوکت صدیقی کے مشہور ناول خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل پی ٹی وی پر پیش کی گئی تھی اور یہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ وہ ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو شہر کے راستے سنسان ہو جایا کرتے تھے۔ یہ ڈرامہ تین مرتبہ نشرِ مکرر کے طور پر پیش کیا گیا اور 42 زبانوں میں ان کے ناول کا ترجمہ ہوا۔

    شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ شوکت صدیقی کا ایک اور مشہور ناول جانگلوس ہے اور اسے بھی پاکستان ٹیلی وژن پر ڈرامائی تشکیل کے بعد نشر کیا گیا۔ لیکن اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اس زمانے میں بعض پالیسیاں رکاوٹ بن گئیں اور اس ڈرامے کی تمام اقساط نشریات کا حصّہ نہیں بن سکیں۔ اس ناول کا موضوع بھی مظلوم طبقات کی بے بسی ہے جس میں‌ وڈیرے اور ان کے جرائم و مظالم کے علاوہ سیاست اور قانون کی کم زوریوں اور مفاد کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس پر پابندی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جانگلوس استحصالی قوتوں کی قلعی کھولتا ہے خاص طور پر جاگیرداری نظام کی۔ اور امراء کے گھناؤنے کردار اور بدترین روپ کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہ ناول ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوا تھا۔ یہ ناول تین جلدوں پر محیط ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز فکشن رائٹر کی دیگر تصانیف میں افسانوں کے مجموعے راتوں کا شہر، رات کی آنکھیں، کوکا بیلی، کیمیا گر، شریف آدمی جب کہ ناول چار دیواری اور کمین گاہ شامل ہیں‌۔ ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور مساوات کے مدیر بھی رہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2002ء میں انہیں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا تھا جب کہ 2004ء میں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ بھی شوکت صدیقی کو دیا گیا تھا۔

    انتظار حسین کہتے ہیں، ‘شوکت صدیقی نے لوگوں‌ کے لیے لکھا اور لوگوں کے بارے میں‌ لکھا۔’

    انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔

  • ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    خواجہ اینڈ سنز میں علی اعجاز کا کردار آج بھی پی ٹی وی کے ناظرین کے ذہنوں‌ میں تازہ ہے اور ان کا پسندیدہ بھی۔ علی اعجاز ڈرامے میں ایک منظر میں اگر نہایت سنجیدہ نظر آتے، تو دوسرے ہی لمحے ظرافت آمیز مکالمے اس خوبی سے ادا کرتے کہ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    فنِ اداکاری میں ان کے چہرے کے تأثرات اور مکالمے کی ادائیگی کا ڈھب مثالی تھا۔ ٹی وی کے ڈراموں میں علی اعجاز نے مختلف کردار نبھائے اور یہ سب منفرد اور یادگار ثابت ہوئے۔ ان کرداروں نے انھیں ایسے فن کار کے طور پر شہرت دی جو کسی بھی عمر کی مختلف شخصیات کے روپ میں، ان کے انداز اور لب و لہجے کو خوبی سے نبھا سکتا ہے اور یہ ان کے فن کی خاص بات تھی۔ اس کی ایک مثال خواجہ اینڈ سنز کا وہ بوڑھا بھی ہے جو ڈرامے میں ابّا جان بنا تھا۔

    18 دسمبر 2018ء کو پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار علی اعجاز لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ آج علی اعجاز کی برسی ہے۔

    علی اعجاز نے تھیٹر کی دنیا میں 60 کی دہائی میں قدم رکھا جب پاکستان میں لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے چند برس بعد لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں معروف ڈرامہ نگار، ادیب اور شاعر اطہر شاہ خان المعروف جیدی کے سلسلہ وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ میں مرکزی کردار دیا گیا۔ یہ کھیل لائیو پیش کیا جاتا تھا۔ علی اعجاز نے اس کھیل میں‌ جو تکیہ کلام اپنایا ہوا تھا، وہ بہت مقبول ہوا۔

    اسی زمانہ میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع بھی ملا جہاں انھوں نے چند چھوٹے کردار تو ادا کیے تھے، مگر دبئی چلو وہ فلم تھی جس کے بعد انھیں انڈسٹری میں مزید کام کرنے کی پیشکش ہونے لگی۔ اس سے قبل وہ ٹی وی پر عارف وقار کے پیش کردہ مقبول ترین ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ میں کردار نبھا کر اپنے فن کی داد اور مقبولیت سمیٹ چکے تھے۔ اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی تھی اور یہ 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ علی اعجاز کو شائقینِ سنیما نے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا کے ساتھ بھی دیکھا اور ان کی جوڑی مقبول ہوئی۔

    اداکار علی اعجاز 1941ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے اور انہی کی وجہ سے علی اعجاز کو بھی اداکاری کا شوق ہوا تھا۔ اس دور میں اسٹیج پلے دیکھنے والوں کی بڑی تعداد سے علی اعجاز نے اپنے فنِ‌ اداکاری کی داد پائی جب کہ ٹی وی کے بعد ان کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی اور اردو فلموں میں‌ کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    12 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی سلور اسکرین کے مشہور ولن الیاس کاشمیری نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب اداکار تھے جنھیں پنجابی فلموں میں ان کے کرداروں کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    فلم نگری سے دور ہو جانے کے بعد مدّت ہوئی الیاس کاشمیری گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں اپنی ماضی کی زندگی پر پچھتاوا تھا۔ وہ اپنی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کو فلمی دنیا سے اپنی وابستگی اور رنگینیوں کا نتیجہ سمجھتے تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس کام یاب اداکار نے 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ مجموعی طور پر 547 فلموں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    یہ 1946ء کی بات ہے جب دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے۔ وہاں انھیں فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہجرت کرکے الیاس کاشمیری لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں ہیں۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    اپنے وقت کے اس نام ور اداکار کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ان کا گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فیروز خان نون جو اپنے ‘خصوصی خطاب’ کے ایک ماہ بعد وزیرِاعظم نہیں‌ رہے

    فیروز خان نون جو اپنے ‘خصوصی خطاب’ کے ایک ماہ بعد وزیرِاعظم نہیں‌ رہے

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی حکومتِ پاکستان نے اہم ساحلی علاقے گوادر کو سلطنتِ‌ عمان سے لینے کی کوشش شروع کردی تھی، لیکن اس معاملے میں کام یابی 1958ء میں اُس وقت ملی جب ملک فیروز خان نون ملک کے وزیرِ‌اعظم بنے۔

    یہ ستمبر کا مہینہ تھا جب وزیرِاعظم فیروز خان نون نے ریڈیو پر اپنے خصوصی خطاب میں عوام سے کہا کہ جذبۂ خیر سگالی کے تحت سلطنتِ عمان نے گوادر پاکستان کو دے دیا ہے، لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان نے اس کے لیے عرب سلطان کو رقم ادا کی تھی۔ وزیرِاعظم کے خطاب سے عوام پر یہ تأثر قائم ہوا تھا کہ گوادر کا علاقہ عرب مسلم سلطنت کا پاکستان کے لیے تحفہ ہے۔

    پاکستان کی تاریخ سے گوادر کے اس چند سطری تذکرے کے بعد اب ہم پنجاب کے معروف زمین دار گھرانے کے چشم و چراغ ملک فیروز خان نون کی بات کریں گے جنھوں نے 1970ء میں‌ آج ہی دن وفات پائی تھی۔ فیروز خان نون کو اکثر فادر آف گوادر بھی کہا اور لکھا جاتا ہے۔

    مناصب و عہدے، برطرفی اور مارشل لاء
    ملک فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں‌ وزیرِاعظم رہے جن کی اس منصب سے برطرفی کے ساتھ ہی عوام نے ملک میں پہلا مارشل لاء دیکھا تھا۔ فیروز خان نون 1957ء میں وزیرِاعظم بنے تھے اور گوادر کی پاکستان کو حوالگی کے اگلے ہی ماہ اس وقت کے صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا نے اسمبلیاں توڑ کر انھیں برطرف کردیا تھا۔

    ملک فیروز خان نون ایک جاگیردار گھرانے کے فرد ہی نہیں بلکہ انگریز نواز سیاست داں بھی تھے۔ تقسیمِ‌ ہند سے قبل انگریز راج میں اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کے پاس کئی عہدے رہے، وہ دفاع و اقتصادی امور، دولت مشترکہ، سرحدی علاقے، امورِ خارجہ برائے کشمیر اور قانون کے محکمے میں بااختیار ہوئے۔

    زندگی کی جھلک، تعلیم اور ملازمت کا سلسلہ
    7 مئی 1893ء کو ملک فیروز خان نون نے ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد سَر محمد حیات نون بھی ایک معروف شخصیت تھے۔ فیروز خان نے ابتدائی تعلیم سرگودھا سے حاصل کی اور 1905ء میں ایچی سن کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے اور بعدازاں بیرسٹر ان لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ وطن واپسی پر بطور وکیل اپنے ضلع میں پریکٹس شروع کر دی اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کرتے رہے۔

    1945ء میں ملک فیروز خان نون نے آسٹریلین نژاد خاتون سے دوسری شادی کی تھی جنھوں نے اسلام قبول کیا اور ہم انھیں بیگم وقارُ النساء نون کے نام سے پہچانتے ہیں۔

    سیاسی سفر اور حکومتی ذمہ داریاں
    ملک فیروز خان نون 1920ء میں سیاست کے میدان میں اترے تھے۔ اس زمانے کی یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم نے انھیں پنجاب قانون ساز اسمبلی کی رکنیت دلوائی۔ 1927ء سے 1936ء تک وہ پنجاب کابینہ کا حصّہ رہے اور 1930ء تک انگریز دور میں صوبائی وزیرِ بلدیات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد کے دور میں وزیرِ صحت اور وزیر تعلیم بنائے گئے۔ 1936ء میں فیروز خان نون لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر کیے گئے۔ بعد میں وائسرائے ہند کی کابینہ کے رکن بنے اور 1942ء سے 1945ء تک ان کا نام برطانوی ہند میں وزیرِ دفاع کے طور پر لیا جاتا رہا جو اس عہدے پر پہلے ہندوستانی تھے۔ 1945ء میں انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی زندگی
    ملک فیروز خان نون 1947ء سے 1953ء تک پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ بعد میں مشرقی پاکستان کے دوسرے گورنر بنے۔ 1955ء تک پنجاب کے تیسرے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہروردی کی کابینہ میں خارجہ امور اور دولت مشترکہ کے محکمے ان کے پاس رہے۔

    وزیر اعظم کے منصب سے اپنی برطرفی کے بعد فیروز خان نون نے باقی ماندہ عمر گوشۂ گمنامی میں گزار دی اور طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پائی۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف بھی تھے۔

  • مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ عظیم فارسی شاعر کی حیثیت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ جو مقام و مرتبہ انھیں‌ حاصل ہے، وہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں‌ مل سکا۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی اس عظیم شاعر کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کا انداز اپنانے کو شعرا نے اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ وہ 1644ء میں عظیم آباد، پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔ 5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔

    پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ آج اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کے لیے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    ‘لبرل’ بیگم پارہ سے ملیے!

    فلمی اداکارہ بیگم پارہ نے 1951 ء میں‌ لائف میگزین کے لیے ‘بولڈ’ فوٹو شوٹ کروایا تھا۔ اپنی ‘بیہودہ’ تصاویر پر سماج میں انھیں اپنی مخالفت اور لعن طعن برداشت کرنا پڑا۔ یہ نیم برہنہ فوٹو شوٹ تھا۔ بیگم پارہ کی اس بے باکی کا ہندی سنیما میں بھی خوب چرچا ہوا اور پھر وہ پردۂ سیمیں سے دور ہو گئیں۔

    بیگم پارہ 1926ء میں جہلم میں پیدا ہوئی تھیں، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کا خاندان علی گڑھ سے تعلق رکھتا تھا، لیکن بیگم پارہ کا بچپن اور عمر کا ایک بڑا حصّہ ریاست بیکانیر میں گزرا جہاں ان کے والد بغرضِ ملازمت قیام پذیر تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی بیگم پارہ بعد میں‌ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں اور چالیس اور پچاس کی دہائی میں نام کمایا۔ اس زمانے میں بیگم پارہ کو ‘گلیمر گرل’ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

    انھوں نے اپنے بچپن اور ابتدائی عمر میں نظم و ضبط اور ایک ایسا ماحول دیکھا جس میں اصولوں اور اقدار کو بھی اہمیت دی جاتی تھی، لیکن بیگم پارہ نے اپنی زندگی کو اپنے ہی ڈھب سے گزارا اور آزاد خیال نہیں بلکہ اس دور میں خود کو ‘لبرل’ ثابت کیا۔

    بیگم پارہ کے بارے میں یہاں ہم ایک تحریر نقل کررہے ہیں، جو کتاب ‘ہندی سنیما میں مسلم اداکارائیں’ سے لی گئی ہے، جس کے مصنّف غیاث الرحمٰن ہیں۔

    "ہندی فلموں کی اداکاراؤں میں اہم اور دل چسپ نام ہے جن کا اصل نام زبیدہ الحق تھا۔ بیگم پارہ فلمی دنیا میں آنے کے لیے سماج سے ٹکرائیں اور آخر عمر تک اسی دنیا میں رہیں۔”

    "انہوں نے نرم و گرم سارے دور دیکھے اور گردشِ ایّام کے انہیں مراحل کو طے کرتی ہوئیں وہ 2008 کے دسمبر کی ایک سرد تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔”

    "بیگم پارہ اپنے انتقال سے 82 سال قبل جہلم (پنجاب، پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احسان الحق کا شمار اپنے زمانے کے معزز و محترم اشخاص میں ہوتا تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔”

    "بیگم پارہ نے جب فلمی دنیا میں جانے کا فیصلہ کیا تو کافی شور شرابا ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں فلمی اداکاراؤں کا پیشہ شرفا کے لیے شایانِ شان تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لیے جب ایک معروف جج کی بیٹی کے فلمی دنیا میں داخلے کی خبر آئی تو لوگوں نے اس کو کافی بڑا اسکینڈل بنا دیا۔ خود بیگم پارہ کے والد بھی فکرمند ہوئے مگر چونکہ گھر والوں کو احساس تھا کہ بیگم کو اس کے ارادوں سے باز رکھنا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے ہلکے پھلکے احتجاج پر اکتفا کیا اور اس کے راستے میں بھی حائل نہ ہوئے۔”

    "بیگم پارہ کی پہلی فلم 1944 میں آئی۔ پربھات پروڈکشن کی اس فلم کا نام "چاند” تھا۔ چاند کے بعد تو بیگم پارہ کی فلموں کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئیں۔ چھمیا، شالیمار (1946)، دنیا ایک سرائے، لٹیرا، مہندی، نیل کمل اور زنجیر (1947) ، جھرنا، شہناز اور سہاگ رات (1948)، دادا (1949)، مہربانی (1950)، لیلی مجنوں اور نیا گھر (1953)، آدمی (1957) اور دوستانہ (1956) ان کی اہم فلمیں رہیں۔”

    "بیگم پارہ کی شادی ناصر خان سے ہوئی جو خود ایک فلمی اداکار اور شہرۂ آفاق سپر اسٹار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ ناصر خان کچھ دنوں تک ساتھ نبھانے کے بعد موت کے بہانے بیگم پارہ کو داغِ مفارقت دے گئے اور اس طرح بیگم ایک مرتبہ پھر اکیلی پڑ گئیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان بھی گئی تھیں۔”

    "فلموں سے بیگم پارہ کا جذباتی رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود انہوں نے 2007 میں فلم "سانوریا” (رنبیر کپور اور سونم کپور کی اولین فلم) میں کام کرنے کے لیے ہامی بھر لی۔ چونکہ وہ بہت لاغر ہو چکی تھیں لہذا بدقت تمام وہیل چیئر پر بیٹھ کر سیٹ پر آتیں اور دن بھر شوٹنگ میں مشغول رہتیں۔”

    "اخیر عمر میں وہ اپنے ایّامِ شباب کو شدت سے یاد کرتی تھیں اور ان باتوں کا تذکرہ کرتیں کہ انہوں نے کس طرح کی تنقید اور برائی کو خاطر میں لائے بنا ہمیشہ وہ کیا جو انہوں نے چاہا۔ دسمبر 2008 میں ممبئی میں بیگم پارہ انتقال کر گئیں۔”