Tag: دسمبر وفات

  • وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    مشہور ہے کہ جونسن نے ’’تواریخِ راسلس‘‘ صرف ایک ہفتے میں قلم برداشتہ لکھا۔ اس ناول کی تخلیق کا پس منظر توجہ طلب اور غم آگیں‌ بھی ہے۔ کہتے ہیں یہ ناول اس نے اپنی ماں کے کفن دفن اور چھوٹے موٹے قرضے اتارنے کے لیے لکھا تھا۔

    سیموئل جونسن ایک انگریز ادیب اور لغت نویس تھا جسے ادب میں اس کی تنقیدی بصیرت اور نکتہ سنجی کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے، لیکن وہ ایسا ناول نگار تھا جو افسانوی تخیل سے دور رہا۔ یہاں‌ ہم جونسن کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں وہ افسانوی رنگ نہ ہونے کے سبب بالخصوص ناول نگار کے افکار اور حقائق پر مبنی مباحث کی وجہ سے بظاہر روکھا پھیکا نظر آتا ہے۔ اس پر تنقید بھی کی گئی ہے، لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تواریخِ راسلس کا پلاٹ خوب گٹھا ہوا ہے۔ اس کی نثر متانت آمیز ہے اور اس میں افکار کی صراحت قابلِ توجہ ہے۔

    ہفتے بھر میں‌ ایک ناول لکھ کر ناشر کے حوالے کر دینے سے متعلق انگریزی ادب کے ناقدین قیاس کرتے ہیں کہ کہانی کا پلاٹ یا اس کا کوئی ہیولا ضرور جونسن کے ذہن میں پہلے سے رہا ہو گا۔

    ناول کی کہانی
    اس ناول کا مرکزی کردار حبشہ کا ایک شہزادہ ہے۔ وہ اور اس کے دیگر بہن بھائی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے، لیکن ایک وقت آیا جب راسلس اس عیش و عشرت اور تن آسانی کی زندگی سے بیزار ہو گیا۔ شہزادے کا معلّم اس سے افسردگی کا سبب دریافت کرتا ہے اور اُسے سمجھاتا ہے کہ تم اس خوش حالی اور عیش و عشرت سے محض اس لیے اکتا گئے ہو کہ تم نے دنیا کے رنج اور مصائب نہیں دیکھے، ورنہ تمھیں اس عیش کی قدر ہوتی۔ تب، شہزادہ دنیا کے رنج اور مصیبتیں دیکھنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر سیر کے لیے نکل جاتا ہے۔ ناول میں‌ بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ شہزادہ اپنی سیاحت کے دوران لوگوں سے باہمی میل جول رکھتا ہے اور لوگوں سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مسائل کو سمجھتا ہے اور اپنے خیالات اور مشاہدات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ متعدد لوگوں سے ملتا ہے۔ بادشاہوں، امیروں، غریبوں اور مختلف پیشہ ور افراد سے ملاقات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا، کوئی بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ دراصل اس کردار کے ذریعے جونسن نے ناول میں زندگی اور مسائل پر اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ ناول میں اس طرح کے مباحث کئی مقام پر آتے ہیں، جس سے یہ روکھا پھیکا معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ جونسن کی اُفتادِ طبع کی عکاسی کرتا ہے جس میں‌ وہ نکتہ سنج اور صاحبِ فکر نظر آتا ہے۔ ناول نگار نے افسانہ طرازی سے دور رہتے ہوئے معلومات اور حقائق کو اہمیت دی ہے۔

    ناول کی تخلیق کا درد انگیز پس منظر
    کہتے ہیں ناول نگار نے اپنی ماں کی وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور زندگی میں ان پر واجبُ الادا رقم چکانے کے لیے ایک ناشر سے رجوع کیا اور سو پاؤنڈ کے عوض صرف ایک ہفتے میں ”تواریخِ راسلس” لکھ کر کے اس کے سپرد کر دیا۔ یہ ناول غیرمعمولی طور پر بہت مقبول ہوا اور اس کے فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور ڈچ زبان میں تراجم شایع ہوئے۔

    جونسن کے حالاتِ زندگی اور علمی و ادبی کارنامے
    سیموئل جانسن وسطی انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے لیچفیلڈ میں 1709ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی عمر میں اس کے والدین کو معلوم ہوا کہ ان کی اولاد کی بینائی کم زور ہے۔ اس کا باپ ایک تاجر تھا، تاہم اس کا خاندانی رتبہ اونچا نہ تھا اور حسب نسب میں وہ جونسن کی ماں سے کم تھا۔ اُس نے پڑھ لکھ کر ایک دکان کھول لی تھی جس میں وہ کتابیں اور دوائیں فروخت کرتا تھا۔ جونسن کی ماں اپنے خاندان اور نام و نسب پر فخر کرتی تھی اور اپنے شوہر کو ہمیشہ حقیر اور خود سے کم تر جانتی تھی۔ اسی باعث ان کی آپس میں نہیں‌ بنتی تھی۔

    جونسن کی یادداشت بچپن سے ہی قابلِ رشک تھی جس کا اظہار وہ اکثر اس خوبی سے کرتا کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا۔ اپنی اس غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے وہ اپنے علاقے میں بہت مشہور ہوا اور اسے دعوتوں میں بلایا جانے لگا۔ اسٹیشنری کے سامان اور دکان پر موجود کتابوں سے وہ شروع ہی خاصا مانوس تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے ایک اسکول میں بہ طور مدرس خدمات انجام دیں، لیکن پھر اس کا دل نہ لگا اور اس نے ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کی پہلی کتاب ایک پرتگیزی پادری کے فرانسیسی سفرنامے کا انگریزی ترجمہ تھا۔ اس ترجمے کا اُسے پانچ گنا معاوضہ ملا۔ بعد میں وہ تلاشِ معاش کی غرض سے لندن پہنچا اور وہاں ایک رسالے ”جنٹل مینز میگزین” میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس کی آمد کے بعد رسالے کی مانگ اور مقبولیت تو بڑھ گئی لیکن وہ رسالے کے مالک اور مدیر کی خصاصت کی وجہ سے مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکا۔

    ”جامع انگریزی لغت” جانسن کا نمایاں علمی کام ہے۔ اس کی مرتب کردہ لغت کے لیے اسے بڑے ناشروں نے تین سال کی مدت کے لیے ایک ہزار پانچ سو پچھتّر پاؤنڈ معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم یہ کام طوالت کے باعث آٹھ سال میں‌ مکمل ہوسکا اور زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ جونسن کی اس لغت سے پہلے اس پائے کی لغت انگریزی زبان میں موجود نہ تھی۔ یہاں سے جونسن کی شہرت کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔ یہ اعلیٰ درجے کا علمی کام تھا جس پر آکسفورڈ نے جونسن کو سند بھی دی تھی۔

    والدہ سے جدائی کے 19 برس اور وفات
    1759ء میں جونسن کو جب اپنی ماں کی شدید علالت کی اطلاع ملی تھی تو وہ غربت اور تنگ دستی سے لڑرہا تھا۔ پچھلے انیس برس میں اس نے لندن سے گھر لوٹ کر اپنی ماں کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اور اسی جدائی میں وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلی گئی۔ جونسن دکھی تھا اور تبھی تواریخِ راسلس تخلیق کیا۔

    1762ء میں جونسن کی مالی مشکلات میں خاطر خواہ فرق پڑا اور اس کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت نے اسے پینشن کی پیش کش کی۔ انگریزی کی لغت کے علاوہ جونسن نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا ایک ایڈیشن بھی مرتب کیا تھا جسے مستند مانا جاتا ہے۔ اس نے سوانح اور تنقید بھی لکھی جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔

    انگریزی زبان کے اس ادیب اور لغت نویس کا انتقال 1784ء میں ہوا۔

  • شکیلہ بانو بھوپالی کی کہانی جو ہندوستان کی قوالی کوئین مشہور ہوئیں

    شکیلہ بانو بھوپالی کی کہانی جو ہندوستان کی قوالی کوئین مشہور ہوئیں

    شکیلہ بانو بھوپالی کا سنِ پیدائش 1942ء تھا۔ انھوں‌ نے فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد اور بالخصوص ہندوستان کی پہلی خاتون قوال کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کی زندگی کا سفر 2002ء تک جاری رہا۔ 16 دسمبر کو شکیلہ بانو بھوپالی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔

    وہ شاعرہ بھی تھیں، اداکارہ بھی اور موسیقار بھی کہلائیں۔ انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی جب کہ فلموں کے لیے نغمات بھی تحریر کیے۔ ان کا تذکرہ اکثر ایسی عورت کے طور پر ہوا ہے جو دولت اور شہرت سمیٹنے کا گُر جانتی تھی اور اسی لیے فلمی دنیا میں راستہ بنانے میں کام یاب رہی۔ انھیں کئی فلموں میں قوالیاں فلمانے کی وجہ سے قوالی کوئین بھی لکھا جاتا ہے۔ اپنے فلمی مضامین اور تحقیق کے لیے مشہور رشید انجم نے ان کے بارے میں لکھا:

    "شکیلہ بانو بھوپالی ہندوستان کی پہلی خاتون قوال ہونے کے علاوہ ایک تہذیب کی نمائندہ خاتون بھی تھیں۔ ان کی "ذاتی” محفلوں میں وہ مشاہیرِ علم و ادب دو زانو حاضر رہا کرتے تھے جو بقول کسے اردو زبان کے پاسبان اور معمار رہے۔ یہ وہ انوکھی اور سب سے جداگانہ خاتون قوال و شاعرہ تھیں جن کی ہر ادا، ہر غمزہ، ہر مہذب آرائش، گفتارِ دل چسپ، مہمان نوازی اور منفرد فنِ قوالی پر جس قدر لکھا گیا ہے وہ بڑے سے بڑے فن کار کا ورقِ زندگی نہیں بن سکا۔”

    "شکیلہ بانو کے فنِ قوالی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1956ء میں بی آر چوپڑہ اپنی فلم "نیا دور” کی شوٹنگ کرنے اپنے یونٹ کے ساتھ بھوپال آئے۔ اس یونٹ میں دلیپ کمار، وجنتی مالا، جانی واکر، اجیت اور جیون بھی شامل تھے۔ ایک خصوصی محفل میں شکیلہ بانو کی قوالی کا اہتمام ہوا اور دلیپ کمار ان کی قوالی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے شکیلہ بانو کو بمبئی آنے اور فلموں میں مقدر آزمانے کی دعوت دے دی۔”

    "دلیپ کمار جیسے اعلٰی فن کار کی دعوت کو رد کرنا گویا کفرانِ نعمت کے مترادف تھا۔ قدرت نے کام یابی کے امکانات روشن کیے اور بمبئی نے اپنی دیرینہ روایات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ بمبئی سے ان کے عروج کا جو دور شروع ہوا وہ عمر کے آخری لمحات تک جاری و ساری رہا۔ قوالی کی محفلوں سے بے تحاشہ دولت بھی ملی اور شہرت بھی۔ فلم ساز ان کے مداح ہی نہیں ایک طرح سے معتقد بھی رہے۔ انہیں فلموں میں اداکاری کے مواقع بھی دیے گئے۔”

    "فلموں میں ان کی قوالیاں بھی انہی پر فلمائی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ پس منظر گلوکاری منجھی ہوئی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی۔ انہوں نے بطور موسیقار کچھ فلموں میں موسیقی بھی دی اور نغمے بھی لکھے۔ فلم میں ویمپ کا کردار بھی ادا کیا اور معاون اداکارہ کا بھی۔”

  • امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    قادر خان کی فلمی کہانیاں اور ان کے تحریر کردہ مکالمے ہندی سنیما کے شائقین میں بہت مقبول ہوئے اور بحیثیت اداکار خود انھیں‌ بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    ولن کے روپ میں شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے والے قادر خان نے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ان کے دلوں پر راج کیا۔ ان کا فلمی کیریئر شان دار ثابت ہوا جس میں انھوں نے شائقین اور انڈسٹری کو کئی یادگار فلمیں‌ دیں۔

    قادر خان کا تعلق افغانستان سے تھا جہاں‌ انھوں‌ نے 22 اکتوبر 1937ء کو آنکھ کھولی، لیکن ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مشکل اور تکلیف دہ رہا۔ قادر خان کے والدین افغانستان سے انڈیا جا بسے تھے جہاں ان کے مابین علیحدگی ہوگئی جس کے بعد قادر خان کو سوتیلے باپ کے ساتھ غربت زدہ زندگی گزارنا پڑی۔ قادر خان کسی طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔

    وہ شروع ہی سے پڑھنے، صدا کاری اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ مطالعہ اور تدریس سے وابستگی کے ساتھ جب انھوں نے تھیٹر کے لیے لکھنا شروع کیا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کردار بھی نبھانے لگے۔ ایک مرتبہ ان کے کالج میں تھیٹر مقابلہ ہوا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ اس موقع پر قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام دیا گیا اور ساتھ ہی فلم کے لیے مکالمے لکھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ تیّار ہوگئے۔ یہ سفر دہائیوں پر محیط ہوگیا اور 300 سو سے زائد فلموں میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں فلمی ڈائیلاگ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

    اداکار کے طور پر وہ 1973ء میں فلم داغ میں نظر آئے۔ یہ ایک وکیل کا معمولی کردار تھا اور 1977ء میں انھیں پولیس انسپکٹر کا کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تحریر کردہ فلم مقدّر کا سکندر ہٹ ہوئی اور اس کے ڈائیلاگ ہر گھر میں بولے گئے، پھر ‘خون پسینہ، شرابی، لاوارث، امر اکبر انتھونی، قلی، نصیب، قربانی جیسی کام یاب فلمیں آئیں جنھوں نے انھیں ولن کے روپ میں اور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی نام و مقام دیا۔

    1983ء میں فلم ‘ہمت والا’ بڑے پردے پر پیش کی گئی اور بہت کام یاب ہوئی۔ قادر خان اس کے مصنّف بھی تھے اور اس فلم میں انھوں نے ایک مزاحیہ کردار بھی ادا کیا۔

    اُس زمانے میں‌ امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے والے قادر خان ہی تھے، لیکن خود قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974ء میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔

    اداکاری قادر خان کا اوّلین شوق تھا۔ اپنے فلمی کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم محبوبہ تھی جو ان کی وفات سے دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

    بولی وڈ کے اس فن کار کی زندگی کے اس پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی عملی کوششیں کرتے رہے۔ انھوں نے بالخصوص فلم نگری سے دور ہوجانے کے بعد دین پھیلانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو مٹانے کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان بھی سیکھتے رہے۔

    قادر خان 31 دسمبر 2018ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

  • اردو اور پنجابی زبان کی معروف ادیب اور شاعرہ توصیف افضل کا تذکرہ

    اردو اور پنجابی زبان کی معروف ادیب اور شاعرہ توصیف افضل کا تذکرہ

    افضل توصیف اردو اور پنجابی کی معروف ادیب اور شاعرہ تھیں جن کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔

    انھوں نے ہر دور میں آمریت کی مخالفت کی جب کہ ضیا دور میں سیاسی مخالفت میں‌ گواہی دینے پر زرعی اراضی کی پیشکش کو ٹھکرایا اور جلا وطنی بھی کاٹی، لیکن اپنے افکار و نظریات سے تائب نہ ہوئیں۔ 30 دسمبر 2014ء کو افضل توصیف دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    صنفی امتیاز، عدم مساوات کے خلاف اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے دردمندی سے لکھے گئے ان کے مضامین اور کالموں کے علاوہ کئی کتابیں‌ ان کی یادگار ہیں۔

    انھیں 2010ء میں حکومتِ پاکستان نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ افضل توصیف 18 مئی 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں لاہور میں قیام کیا، لیکن والد کا تبادلہ کوئٹہ کردیا گیا اور یوں‌ ان کی زندگی کا ایک سہانا دور کوئٹہ میں بسر ہوا۔ پرورش اور تعلیم کوئٹہ میں ہوئی۔ لاہور سے ایم اے (اردو) اور ایم اے (انگریزی) کرنے کے بعد انھوں نے ملازمت کا آغاز بطور لیکچرر اسٹاف کالج کوئٹہ سے کیا۔ ازاں بعد مستقل لاہور آگئیں اور لیڈی مکلیکن کالج میں پڑھانا شروع کیا جس کا نام بعد میں ایجوکیشن کالج ہو گیا۔ وہ عمر بھر تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں۔

    اس دوران ان کے علمی اور ادبی مشاغل جاری رہے اور متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں‌ جن میں ‘زمیں پر لوٹ آنے کا دن، شہر کے آنسو، سوویت یونین کی آخری آواز، کڑوا سچ، غلام نہ ہوجائے مشرق، لیبیا سازش کیس، ہتھ نہ لاکسمبڑے، تہنداناں پنجاب، من دیاں وستیاں شامل ہیں۔ ان اردو اور پنجابی زبان میں کہانیاں‌ اور افسانے مختلف ادبی جرائد کی زینت بنے اور کتابی شکل میں‌ بھی شایع ہوئے۔

  • کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    ایک زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کی رسیلی اور مدھر آوازوں نے اپنے دور کے بے شمار گیتوں کو مقبولیت اور ان کے تخلیق کاروں اعتبار بخشا اور فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا، لیکن پھر نگار خانے ویران ہوگئے اور کانوں میں‌ رس گھولنے والی یہ آوازیں بھی ایک ایک کرکے خاموش ہوتی چلی گئیں۔

    کوثر پروین ایک ایسی ہی گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے کئی گیت ان کی یاد دلاتے ہیں۔ پاکستان کی اس مشہور گلوکارہ کا انتقال 30 دسمبر 1967ء کو ہوا تھا۔ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہونے والی کوثر پروین کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

    پاکستانی فلم ’’قاتل‘‘ کا یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا جس کے بول تھے:

    او مینا… نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا، او مینا!….

    یہ ممتاز شاعر اور بے مثال نغمات کے خالق قتیلؔ شفائی کا تحریر کردہ گیت تھا جو کوثر پروین کی آواز میں‌ پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔

    انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کہتے ہیں اس فلم کے نغمات نے کراچی سے دلّی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

    آج فنِ موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے گئے بلکہ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ اُن ناموں کو بھی فراموش کردیا گیا جو اپنے دور میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ کوثر پروین ایسا ہی ایک نام ہے جو مشہور اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات بھی تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے:

    میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں… اسے کوثر پروین کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس لوری نے بطور گلوکارہ انھیں‌ شہرت اور شناخت دی تھی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم وعدہ کا نغمہ بار بار ترسے مورے نین بھی شامل ہے۔ انھوں نے کئی دو گانے بھی گائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

  • اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کی اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنے دور کے سب سے جدا اور منفرد شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ آج منیر نیازی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 2006ء ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ان کے والد وفات پاگئے۔ منیر نیازی کی پرورش ان کی والدہ اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ یوں منیر نیازی بھی مطالعہ کے عادی ہوگئے اور بعد میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے شاعری شروع کردی۔ منیر نیازی نے ابتدا میں چند کہانیاں اور افسانے بھی لکھے تھے، لیکن یہ سلسلہ شعروسخن میں ان کے شوق کے آگے ماند پڑ گیا۔

    منیر نے ابتدائی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے، لیکن یہ ملازمت ان کے ادبی ذوق کی تسکین کے راستے میں رکاوٹ تھی، سو انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کرنے والے منیر نے تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ یہاں انھوں نے کاروبار شروع کیا، لیکن خسارے جھیلنا پڑے اور پھر لاہور میں مجید امجد کے ساتھ ادبی پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ منیر نیازی نے مختلف اخبار اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلمی گیت نگاری کی اور ان کے تحریر کردہ کئی نغمے بہت مشہور ہوئے۔ ان میں ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، ’’جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ اور ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘، ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ شامل ہیں۔

    منیر نیازی نے اردو ادب کو 13 شعری مجموعے دیے جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعتِ سیار شامل ہیں جب کہ پنجابی زبان میں ان کے تین شعری مجموعے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ اردو کے صاحبِ اسلوب اور اپنی لفظیات میں بے مثل منیر نیازی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تُو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
    یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

    ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
    کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں

    جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
    کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

    جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
    غم سے پتّھر ہو گیا، لیکن کبھی رویا نہیں

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ جس نے فلاسفہ کو امام غزالی سے متنفر کردیا

    ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ جس نے فلاسفہ کو امام غزالی سے متنفر کردیا

    عالمِ اسلام میں اپنے علم و فضل کے سبب نہایت بلند مرتبہ پانے والے مفکّر امام غزالی کو حجّۃُ الاسلام کہا جاتا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ کا ایسا درخشاں ستارہ ہیں جنھوں‌ نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر گہرے اور نقوش چھوڑے، جو اساسی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن فلسفے اور علمِ الٰہیات کے اسی ماہر کی تصنیف ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ کو سائنسی علوم اور فلسفے سے مسلمانوں کی بیزاری اور دوری کی وجہ بھی کہا جاتا ہے۔

    دنیا اس بات پر متفق ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے فلسفہ، منطق، اخلاقیات، طبّ و جراحی، سائنسی علوم اور فن و ثقافت کے شعبوں میں بھی گراں قدر کام کیا، لیکن غزالی کی مذکورہ تصنیف غیرمعمولی طور پر اسلامی دانش کی سمت پر اثر انداز ہوئی اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علم و دانش کا راستہ محدود ہوتا چلا گیا۔

    تہافۃُ الفلاسفہ یعنی فلسفیوں میں عدم مطابقت یا انتشار نامی کتاب میں امام غزالی نے فلسفے اور اس کی روشنی میں خدا اور کائنات پر مباحث گم راہ کُن قرار دیا ہے اور بالخصوص ابن سینا اور الفارابی جیسے مسلم فلاسفہ پر کڑی تنقید کی۔ وہ فلسفیوں کے استدلال کی بنیادی خامیوں کو زیرِ بحث لائے اور ان کی منطق کے پرخچے اڑا دیے۔

    امام غزالی نے اپنے دور کے علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے بالخصوص فلاسفہ کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی شخصیت اور افکار کے اثرات آج بھی اسلامی فکر میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ان کا نام محمد اور ابو حامد کنیت جب کہ غزالی وہ خاندانی عرفیت ہے جس سے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ وہ خراسان کے ضلع طوس میں‌ پیدا ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1058ء لکھا ہے۔۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں‌ ہوئی اور یہیں اس دور کے رائج علوم سیکھتے ہوئے فلسفہ و منطق، فقہ اور دیگر علوم میں‌ مہارت حاصل کی۔ نیشا پور امامُ الحرمین کی شاگردی اختیار کی اور علمِ کلام و جدل میں‌ بھی ماہر ہوگئے۔ انھوں‌ نے دربار سے منسلک ہونے کے ساتھ مختلف ممالک بغداد، بیتُ المقدس کا سفر بھی کیا اور حج کے لیے مکّہ اور اسی سفر میں مصر و اسکندریہ بھی گئے۔ اس عرصے میں ان کی شہرت اور علم و فضل کے میدان میں ترقّی بھی ہوئی، تصانیف بھی سامنے آئیں اور کے خلاف سازشیں اور علما کے مختلف طبقات میں مخالفت نے بھی زور پکڑا مگر وہ اپنے علمی مشاغل اور مذہب پر دلیل و منطق کے ساتھ مباحث اور اپنی فکر کا اظہار کرنے سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔ وہ ایک مدرس اور معلّم کے طور پر بھی مصروف رہے اور ان کے کئی شاگردوں نے ان کی فکر کو اپنایا اور علمی کام کیا۔

    امام غزالی 19 دسمبر 1111ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی کتب کا اردو زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔ چند مشہور تصانیف کا ذکر کیا جائے تو احیاءُ العلوم، اسرارُ الانوار، مکاشفتہُ القلوب، کیمیائے سعادت کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب میں‌ لکھتے ہیں، امام غزالی نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس کے عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرماں روا تھا۔ امام صاحب نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوق ہائے زرّیں کے بار سے۔“ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے دیگر طبقات کو بھی ان کے قول و فعل میں‌ تضاد اور فضولیات پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی کم زوریوں کو بیان کیا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔

  • یومِ وفات: فرانس میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ کے درس سے متاثر ہو کر تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا

    یومِ وفات: فرانس میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ کے درس سے متاثر ہو کر تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا

    آج عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیدُ اللہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ مسلم دنیا کے ایک ایسے مفکر تھے جنھیں 22 زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انھوں نے مغرب و یورپ میں اپنی عمر کا بڑا حصّہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا اور کئی ممالک میں غیرمسلموں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

    پروفیسر ڈاکٹر محمد حمیدُ اللہ بغرضِ علاج امریکا میں‌ مقیم تھے جہاں سن 2002ء میں وہ اس دارِ فانی سے اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ وہ 9 فروری 1908ء کو حیدر آباد (دکن) کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں اور 1932ء میں جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈی فل کیا۔

    اس زمانے میں ہندوستان سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف تحریکوں کا عروج اور زوال دیکھ رہا تھا اور ان حالات میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران غور و فکر سے یہ پایا کہ تحصیلِ علم سے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سدھار لایا جاسکتا ہے اور خاص طور پر مسلمان مفکرین اور مدبّروں کو اس حوالے سے عملی میدان میں اترنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنی اعلیٰ قابلیت کے باعث بون یونیورسٹی میں لیکچرر شپ حاصل کی۔ بعدازاں وہ پیرس چلے گئے جہاں سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ سات دہائیوں تک علم پھیلاتے اور شعور بیدار کرتے رہے۔ اس سفر کے دوران وہ متعدد مشہور اور قابلِ‌ ذکر تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ وہ ایک محقق، دانش ور اور مصلح کی حیثیت سے جہاں‌ بھی رہے دین کی سربلندی اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوشش کرتے رہے۔

    انھوں‌ نے مختلف موضوعات پر مقالے اور سات زبانوں میں‌ ایک سو سے زائد کتابیں‌ لکھیں‌۔ ان کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ 22 زبانوں کے ان کے علم اور عبور سے لگایا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید اللہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت پاکستان آئے اور اس وقت حکومت پاکستان نے ان سے مشاورت اور ان کی معاونت حاصل کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے یہاں‌ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں لیکچرز بھی دیے جو خطباتِ بہاولپور کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ فرانسیسی زبان میں‌ قرآن پاک کا ترجمہ ہے جب کہ فقہ، حدیث اور سیرت النبی کے مختلف پہلوؤں پر ان کی لاتعداد کتابیں شایع ہوئیں۔

    عالمِ اسلام کے لیے ان کی ایک گراں قدر کاوش صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تدوین ہے۔ یہ کتاب 101ھ کی تحریر کردہ ہے جس مختلف جلدیں دنیا کے مختلف ممالک کے کتب خانوں میں تو محفوظ تھیں مگر انھیں کوئی یکجا نہیں کرسکا تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ان کی تدوین کے بعد اشاعت کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی و دینی لیکچرز اور ان کی تحریروں کی بدولت امریکا، یورپ اور افریقا میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔

    انھیں دنیا بھر کی جامعات اور حکومتوں نے متعدد اعزازات سے نوازا تھا اور حکومتِ پاکستان نے بھی ہلالِ امتیاز عطا کرتے ہوئے ان کے علم اور مرتبے کے ساتھ ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف کیا۔

  • ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    دراز قد اور دل کش خد و خال کی مالک، نشیلی آنکھوں‌ والی فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار نبھا کر لازوال شہرت حاصل کی اور اپنے بحیثیت اداکارہ مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ خود کو بہترین کلاسیکی رقاصہ ثابت کیا۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون تھیں۔

    ان کا فلمی سفر 1960ء کے اوائل میں بہ طور رقاصہ شروع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے بڑے پردے پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وارث شاہ کی مشہورِ زمانہ عشقیہ داستان اور اس کے دو مرکزی کرداروں کو جب ’ہیر رانجھا‘ کے نام سے فلمی پردے پر پیش کیا گیا تو اسے بہت پذیرائی ملی اور یہ فلم آنے والے برسوں میں کلاسک کا درجہ اختیار کرگئی۔ فلم کی کام یابی نے فردوس کی شہرت کو بھی گویا پَر لگا دیے۔

    پاکستانی فلم ’ہیر رانجھا‘ 1970ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس کے بعد فردوس بیگم پاکستان میں ہیر مشہور ہوگئیں۔ ان کے ساتھ ’رانجھا‘ کا کردار اعجاز درانی نے نبھایا تھا۔

    فردوس بیگم 73 برس کی عمر میں پچھلے سال 16 دسمبر کو دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ انھیں برین ہیمبرج ہوا تھا۔ وہ 4 اگست 1947ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا اصل نام پروین تھا۔ بطور کلاسیکل ڈانسر فلم ’فانوس‘ سے انھوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اس میں فلم ملنگی، ہیر رانجھا، انسانیت، آنسو، ضدی، دلاں دے سودے سمیت 150 سے زائد فلمیں ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنیں‌ اور فلمی گیتوں پر ان کا رقص بہت پسند کیا گیا۔ اداکارہ فردوس نے 130 سے زائد پنجابی، 20 اردو اور 3 پشتو فلموں میں‌ کام کیا۔

    انھیں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ فردوس بیگم نے اس دور کے تقریباً تمام ہیروز کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔