Tag: دسمبر وفات

  • استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

    استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریب اور مظلوم طبقے کی آواز بنے۔ وہ عوام کے شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ استحصالی طبقے کی مذمت کی اور ملک کے پسے ہوئے اور مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ حق اور سچ کا ساتھ دینے اور عوام کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حاکمِ وقت اور استحصالی ٹولے کے سامنے جس بے خوفی سے انھوں نے جرأتِ اظہار کا راستہ اپنایا، اس کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیض اور جالب کی طرح انھوں نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن کی وجہِ شہرت ان کا پنجابی کلام ہے جسے انھوں نے سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھا اور مقبول ہوئے۔

    ان کی مقبولیت اور کلام کی تاثیر کا عالم یہ تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں حاضرین ان کا کلام سُن کر رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے۔ مشہور ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہو جانے کی دعوت دی تو استاد دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے اور عالمی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ کتب بینی کی پختہ عادت نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے سماج میں سانس لیتے عوام کو دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ اس مشاہدے اور تجربے نے ان کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس میں غریبوں کے لیے امید اور ولولہ تھا، لیکن ان کے = یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں نشتر بن کر اتر گئے۔

    پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

    چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر والد کو کہہ کر دکان سے مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے رکھا، لیکن مطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور بڑھنے کے ساتھ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

    استاد دامن کی شاعری میں بہت تنوّع تھا۔ انھوں نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

    لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں جب کہ تقسیم کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے۔ اس کا انھیں‌ بہت رنج تھا۔ انہی دنوں وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے جس نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، لیکن استاد دامن بہت خود دار تھے۔ انھوں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

    ہر دور میں مشاہیرِ ادب اور قابل شخصیات نے پنجابی زبان و ادب کے لیے استاد دامن کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔

    پنجابی زبان کا یہ مقبول شاعر لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوا۔

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    23 نومبر 2002ء کو میر ظفرُ اللہ جمالی نے پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ بردبار اور دھیمے مزاج کے سیاست دان مشہور تھے۔ ان کا شمار بلوچستان کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاق کی سیاست کو ترجیح دی اور قوم پرست جماعتوں سے خود کو دور رکھا۔

    ظفرُ اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اس صوبے کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ وہ 76 سال کی عمر میں پچھلے سال 2 دسمبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم میر ظفرُ اللہ جمالی آبائی علاقے روجھان جمالی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    وفات سے چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ‌ خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی 1944ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ اسکول میں داخل ہوئے اور بعد میں لاہور کے ایچی سن کالج اے لیول کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا گھرانا مسلم لیگی تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ظفرُ اللہ جمالی نے بھی نوجوانی میں فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر فرائض سَر انجام دیے تھے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔

    انھوں نے اپنے چچا کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سیاسی حریف سے شکست کھا گئے اور 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں‌ پہنچے، وہ مارشل لا کے زمانے میں اُن سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاءُ الحق کا ساتھ دیا۔

    1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار پانی و بجلی کی وزارت ان کے حصّے میں آئی اور محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988ء میں ایک بار پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی وفاق میں مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف میں شامل رہے۔ وہ اپنے سیاسی سفر کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

    2004ء کو انھوں نے وزراتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میر ظفرُ‌اللہ جمالی کھیلوں میں‌ بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور ہاکی ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے 1984ء کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی تھی۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی سادگی پسند تھے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی ادوار اور وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی شان و شوکت اپنانے کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کوشش کی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ سیاسی میدان میں بھی وہ کسی کو بھی اپنی بات سے رنج پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔

  • یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    بیسوی صدی کے اردو نثر نگاروں میں عبدُ الحلیم شررؔ ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر علمی شخصیت ہیں۔ انھیں ایک بلند پایہ ادیب، مترجم، ناول نگار اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ شرر کو لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب میں انھیں منظوم ڈرامہ نگاری کے سبب بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اردو شعر و ادب میں متعدد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کروایا یا انھیں اپنی تخلیقات میں اعتبار و امتیاز بخشا۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انھوں نے دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہیدِ وفا‘‘(1890) لکھ کر قارئین اور ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ایسے منظوم ڈرامے اس سے قبل نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ہی ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہُ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔

    شرر بسیار نویس ادیب تھے۔ معاشرتی اور تاریخی ناول، انشائیے، سوانح و تاریخ، ڈرامہ اور شاعری کے ساتھ ترجمہ نگاری میں انھوں نے اپنا کمال دکھایا۔ تاہم جو مقبولیت انھیں اپنے تاریخی ناولوں اور مضامین کے سبب حاصل ہوئی، وہ بے مثال ہے۔

    عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور وہ حکیم تھے۔ شررؔ لکھنؤ میں پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو انھیں مٹیا برج بھیج دیا گیا جہاں‌ عربی، فارسی اور طب کی تعلیم حاصل کی، لیکن وہاں‌ امرا کی اولادوں سے دوستانہ بڑھا لیا اور بگڑنے لگے تو والد نے انھیں لکھنؤ واپس بھیج دیا اور بعد میں دہلی جاکر انگریزی بھی پڑھی اور 1880ء میں دہلی سے زاہدِ خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشور کے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بے شمار مضامین لکھے۔ چند اور ملازمتیں اور مختلف شہروں میں‌ قیام کے بعد لکھنؤ لوٹے اور اپنا رسالہ ’’دل گداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم ان کا معرکہ آرا ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ تھا۔

    ’’دل گداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کیے اور اردو داں طبقے کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ انھوں نے یکم دسمبر 1926ء کو وفات پائی۔

  • جہاں آرا کجّن: ایک بھولی بسری یاد

    جہاں آرا کجّن: ایک بھولی بسری یاد

    ہندوستان میں تھیٹر کے بعد جب فلم سازی کا آغاز ہوا تو کئی ایسی اداکارائیں بھی بڑے پردے پر نظر آئیں جو خوش گُلو بھی تھیں اور اداکارہ بننے سے پہلے ہی مغنّیہ مشہور تھیں۔ ان میں سے بعض نے اپنے دور میں اداکارہ کے طور پر قابلِ رشک حد تک عروج دیکھا اور مقبولیت حاصل کی۔ جہاں آرا کجّن انہی میں سے ایک ہیں۔

    کجّن نے 1915ء کو لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ بھی اپنے دور کی ایک مشہور مغنّیہ تھیں جن کے حسن و جمال کا بھی بڑا چرچا تھا۔ جہاں آرا کجّن بھی آواز کے ساتھ اپنی خوب صورتی اور انداز و ادا کے لیے مشہور ہوئیں۔

    ہندوستان کے مقبول ترین فلمی رسالے شمع میں کجّن بائی کا تذکرہ کچھ یوں کیا گیا ہے۔

    "آج تک ان سے زیادہ مقبول کوئی اداکارہ نہیں ہوئی۔ بمبئی کیا پورا ملک ان کا دیوانہ تھا۔ راجے، مہاراجے، نواب بھی دل ہاتھ میں لیے پھرتے تھے۔ کجّن نے 1930ء میں فلموں میں قدم رکھا۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، شکنتلا، بلوا منگال، دل کی پیاس، آنکھ کا نشہ، جہاں آرا، رشیدہ، انوکھا پیار اور پرتھوی ولبھ ان کی مشہور فلمیں تھیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ریڑھ کی ہڈی تھیں جن کا دور خاموش فلموں سے شروع ہوا تھا اور بولتی فلموں سے عروج پر پہنچا۔ اپنی فلم "منورما” کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئیں، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کجّن کی موت پر لاکھوں دل ٹوٹے، کئی ایک نے خودکشی کی۔ جہاں آرا کجّن کو کتوں سے نفرت تھی، وہ شیر پالتی تھیں۔ ساری عمر شادی نہیں کی مگر میڈن تھیٹر کلکتہ کے عمر رسیدہ مالک سیٹھ کرنانی کی منظورِ نظر رہیں۔ سیٹھ کرنانی نے ایک بڑآ مکان کجّن کو دیا ہوا تھا جہاں ان کا تعینات کردہ چوکیدار کجّن کے ہر ملنے والے پر نظر رکھتا تھا اور رات کو پوری رپورٹ کرنانی کو دی جاتی تھی مگر کرنانی کو کبھی کجّن سے اس سلسلے میں بات چیت کرنے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ کجّن نے ایک ماہ وار رسالہ بھی جاری کرایا تھا۔”

    1945ء میں ممبئی میں کجّن بائی وفات پاگئیں۔ انھوں نے کئی فلموں کے لیے گیت بھی اپنی آواز میں ریکارڈ کروائے تھے جن میں سے ایک مشہور فلم شریں فرہاد تھی جس نے ریکارڈ بزنس کیا تھا۔