Tag: دسمبر وفیات

  • روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم: گلوکاری کی دنیا کا ایک بڑا نام

    روشن آراء بیگم اپنی سریلی آواز کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی کے فن پر مکمل عبور رکھتی تھیں اور اسی لیے انھیں ملکہ موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پاکستان میں اپنے ہم عصر گائیکوں میں نمایاں تھیں۔

    روشن آراء بیگم 19 جنوری 1917ء کو کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام وحید النساء بیگم تھا۔ روشن آراء بیگم نے موسیقی کی تعلیم شہرۂ آفاق گائیک استاد عبد الکریم خان سے حاصل کی اور فن کی اس دنیا میں ملکۂ موسیقی کا خطاب پایا۔ تقسیم ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے روشن آراء بیگم لاہور آتی تھیں اور یہاں موسیقی کی یادگار محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہوگئیں۔ یہاں موسیقی کے دلدادہ پولیس افسر احمد خان کے ساتھ ان کی شادی ہوئی اور انھوں نے لالہ موسیٰ میں سکونت اختیار کرلی۔ ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے جن کی دھنیں انیل بسواس، فیروز نظامی، نوشاد اور تصدق حسین جیسے موسیقاروں نے ترتیب دیں۔ روشن آراء بیگم نے فلم پہلی نظر، جگنو، قسمت، روپ متی باز بہادر اور نیلا پربت میں آواز کا جادو جگایا۔

    حکومت پاکستان نے روشن آراء بیگم کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ یہ عظیم گلوکارہ 5 دسمبر 1982ء کو انتقال کر گئی تھیں۔ اپنے فن میں ممتاز اور باکمال گلوکارہ نے اپنے زمانے کے کئی اہم موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ موسیقی کی نجی محافل میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ گلوکارہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تان لگانے کا انداز بہت ہی سہل اور میٹھا تھا۔

  • یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    گزشتہ ایک صدی کے دوران سائنسی ایجادات کی بدولت داستان گوئی، نوٹنکی، کہانی یا کھیل کو عام لوگوں کی دل چسپی اور تفریح‌ کے لیے پیش کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا اور برصغیر کی بات کی جائے تو سنیما اسکرین نے فن اور ثقافت کی دنیا میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ پاکستانی سنیما کو دیکھیں‌ تو اس کے عروج کے زمانے میں پاکستان میں‌ فلمی صحافت اور تاریخ قلم بند کرنے کا بھی آغاز ہوا۔

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ بھی روزناموں میں فلمی دنیا کی خبریں، اشتہارات، فلمی صنعت سے متعلق مختلف اعلانات وغیرہ شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی فلمی پرچے بازار میں آتے اور بہت سے فلمی جرائد بک اسٹالوں پر پہنچتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جس میں پاکستان کے واحد فلمی مؤرخ کے طور پر یٰسین گوریجہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گوریجہ صاحب نے 26 دسمبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔ یٰسین گوریجہ کی مرتب کردہ فلمی تاریخ اور ان کے لکھے ہوئے فلمی ستاروں‌ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ شخصیات کی باتیں یادیں، کہانیاں اور ذاتی زندگی کے کئی دل چسپ، رنگین اور بعض سنگین مگر یادگار واقعات اور قصّے بھی مستند مانے جاتے ہیں۔

    معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار لکھتے ہیں‌ کہ فلمی صحافت سے اُن (گوریجہ) کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اُن کا دائرۂ کار ایکٹرسوں کے اسکینڈل تلاش کرنے یا کسی ہیرو کے تازہ ترین معاشقے کا کھوج لگانے سے بالکل مختلف تھا اور وہ فلمی دنیا کے ایک ایسے وقائع نگار بن گئے تھے جِن کے لکھے ہوئے روزنامچے مستقبل کے فلمی مورّخ کے لیے مستند اور موقّر ترین مواد فراہم کریں گے۔

    یٰسین گوریجہ نے 1966 میں پاکستان کی فلمی ڈائری مرتب کرنا شروع کی تھی جو ایک قسم کی Year Book ہوتی تھی اور اس میں یہاں کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص اور ادارے کا نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہوتا تھا۔ سال بھر کے دوران بننے والی فلموں کی فہرست اور ہر فلم کی ضروری تفصیل بھی اُس میں درج ہوتی تھی۔ اس کی سالانہ اشاعت میں کئی بار رخنہ بھی پڑا لیکن زود یا بدیر اس کا نیا ایڈیشن ضرور شائع ہو جاتا تھا۔

    کچھ عرصہ بعد یٰسین گوریجہ نے 1947 سے لے کر تاحال بننے والی تمام فلموں کی تفصیل جمع کر لی اور اسے اپنی ڈائریکٹری میں شائع کیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں انھوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے بننے والی فلموں کی تفصیل بھی اکھٹی کر لی اور اس طرح ڈائریکٹری کے موجودہ ایڈیشن میں 1913 میں بننے والی ہندوستان کی اوّلین فلم سے لیکر 1947 تک بننے والی تمام انڈین فلموں کی تفصیل درج ہے جب کہ 1947 کے بعد صرف پاکستانی فلموں کا احوال ہے جو کہ دسمبر 2002 تک چلتا ہے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں‌، اس ڈائریکٹری کے علاوہ یٰسین گوریجہ نے ہفت روزہ نگار میں اپنی فلمی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو بعد میں کتابی شکل میں ڈھل گیا اور ’لکشمی چوک‘ کے نام سے میّسر ہے۔ اس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات درج ہیں جوکہ مُصنّف نے چشم دید صورت میں رقم کیے ہیں۔ نورجہاں کی زندگی اور فن پر اُن کی کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فلمی حلقوں سے باہر بھی داد وصول کر چکی ہے۔

    یٰسین گوریجہ یقیناً پاکستان کی چلتی پھرتی فلمی تاریخ تھے۔ آخری عمر تک حافظہ اتنا شان دار تھا کہ کسی بھی پرانی فلم کا سنِ تکمیل یا کاسٹ کی تفصیل وہ زبانی بتا دیتے تھے۔ اُن کے پاس پرانی فلمی تصویروں اور پوسٹروں کا بہت بڑا خزانہ تھا۔ پچھلے برس (غالباً زندگی کے آخری سال میں) جاپان سے ایک ٹیم آئی جو پوسٹروں کے فن پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی تھی۔ یٰسین گوریجہ کے دفتر میں نایاب پوسٹروں کا ڈھیر دیکھ کر وہ سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ٹیم کی لیڈر خاتون نے گوریجہ مرحوم سے اجازت لی کہ اُن کی کتاب ’لکشمی چوک‘ کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور باہر کی دنیا کو یہاں کی گم نام فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا جائے۔

    یٰسین گوریجہ 1926ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 برس کے تھے جب قیامِ‌ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ یٰسین گوریجہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے کچھ حصّے سامنے آئے اس میں تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خودنوشت کا مواد بھی اکٹھا کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے۔ ڈائری میں ایک جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان کی نظر میں تقسیم سے پہلے معاشرہ کیسا تھا اور بٹوارے کے بعد نفرت اور دوریوں کو وہ کیسا دیکھتے ہیں:

    ’آج کے دور میں جب کہ ہندوؤں کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور یہ محض اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہے ورنہ میں نے جو بیس سال ہندوؤں میں گزارے۔ آریہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ زیادہ تر دوست ہندو اور سکھ لڑکے ہی تھے، لیکن کسی قسم کا بغض یا نفرت کا جذبہ نہ تھا۔ اوم پرکاش میرا کلاس فیلو تھا۔ خالص پنڈت اور برہمن گھرانہ۔ لیکن میں ہر وقت ان کے گھر کھیلتا کودتا رہتا۔ بالکل بھائیوں جیسا پیار۔ لچھمن داس، گوبندرام، جیوتی پرکاش، رام پرکاش، جگدیش چندر، گوردیال سنگھ اب کتنے نام دہرائے جائیں۔ ان کے گھروں میں آنا جانا۔ ان کے ماں باپ بھی ہمیں اولاد کی طرح سمجھتے‘۔ٰ

    یٰسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کو ان کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کی فلموں کا مفصل احوال اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر اہم شخص کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں۔ ابتدائی ایڈیشنوں میں 1948 کے بعد کی تمام پاکستانی فلموں کا مختصر احوال اور بعد میں ماضی کی طرف 1931 تک یعنی اوّلین متکّلم فلم سے لے کر دورِ جدید تک تمام پاکستانی فلموں کا بنیادی ڈیٹا اس میں شامل کر لیا گیا۔

    پاکستانی سنیما کے اس واحد وقائع نگار کا بہت سا کام ان کی زندگی میں شایع نہ ہوسکا لیکن گوریجہ صاحب کے جانشین طفیل اختر صاحب نے ان کی متعدد کتابیں تدوین اور ترتیب کے عمل سے گزار کر شایع کروائی ہیں۔ پاکستانی سنیما کی پچاس سالہ تاریخ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جسے مصنّف نے دس دس برس کے پانچ ادوار میں تقسیم کیا تھا اور 1947 سے 1997 پر محیط عرصہ ہے۔

  • فلمی موسیقار جی اے چشتی کی برسی

    جی اے چشتی پاکستان کے نام وَر فلمی موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 25 دسمبر 1994ء کو وفات پانے والے جی اے چشتی تقسیم سے قبل ہندوستان میں کام یاب فلمی کیریئر کا آغاز کرچکے تھے۔

    غلام احمد چشتی کو انڈسٹری میں بابا چشتی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں‌ نے 1905ء میں جالندھر میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی راج کے خلاف سیاسی تحریکوں کے ساتھ ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کی دنیا میں بھی نئے افکار، رجحانات کے علاوہ ٹیکنالوجی بھی داخل ہورہی تھی اور مقامی فلم ساز اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ جی اے چشتی نے بھی کلکتہ اور ممبئی کے فلمی مراکز کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    موسیقار جی اے چشتی شاعر بھی تھے۔ کئی فلموں میں سحر انگیز دھنیں مرتب کرنے والے جی اے چشتی نے دلوں کو موہ لینے والے گیت بھی لکھے۔ کہتے ہیں انھیں بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آواز سریلی تھی اور دینی محافل میں انھیں خوب ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا جس نے انھیں موسیقی اور شاعری کی طرف مائل کیا۔ کچھ شعور آیا تو جی اے چشتی موسیقار سیتا رام کے شاگرد ہو گئے۔ اسی دوران موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ملاقات ہوئی اور ان کے طفیل آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے والے گروپ کا حصّہ بنے۔ بعد میں لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے معاون ہو گئے اور پھر فلم نگری تک پہنچے۔

    جی۔ اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ’’چمبے دی کلی‘‘ اور ’’پردیسی ڈھولا‘‘ قابلِ ذکر تھیں۔ بعد میں کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں۔ کلکتہ میں فلم ’’شکریہ‘‘ کی موسیقی اور شاعری کے سبب جی اے چشتی کو ہندوستان میں بہت سراہا گیا تھا۔ لیکن 1947ء میں وہ فسادات کے سبب وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔

    بابا چشتی نے اپنا فنی سفر آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے شروع کیا۔ بعد میں وہ ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوئے تھے، لیکن بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ‘دنیا’ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی کی فلم نگری میں بھی گزارا۔ 1949ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور خوب نام کمایا۔ ہجرت کے بعد بابا چشتی نے فلمی صنعت میں ‘شاہدہ’ نامی فلم سے یہاں اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ مجموعی طور پر انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں نغمات کی دھنیں‌ تخلیق کیں۔

    بابا چشتی کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، دلا بھٹی، لختِ جگر، مٹی دیاں مورتاں، عجب خان اور چن تارا کے نام شامل ہیں۔ ان کی موسیقی میں ملکۂ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی جیسے گلوکاروں‌ نے فلمی صنعت کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے اور ان فن کاروں کی شہرت کا سبب بنے۔

    جی اے چشتی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    عرصۂ دراز سے گوشۂ گم نامی میں زندگی بسر کرنے والی فردوس بیگم کو ہیر رانجھا میں ان کے فلمی کردار نے بے مثال شہرت عطا کی۔ یہ پاکستانی فلم 19 جون 1970ء کو بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔ آج اس فلم کی ہیروئن فردوس بیگم کی برسی ہے۔ وہ 16 دسمبر 2020ء کو انتقال کر گئی تھیں۔

    ہیر رانجھا وہ فلم تھی جس کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا چرچا ہوا اور شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947 ہے۔ وہ لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں جہاں انھیں شروع ہی سے رقص اور موسیقی کی تربیت اور اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملا۔ ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے تھے جن میں‌ بابا قلندر بھی شامل تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ بعد میں وہ فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار نبھاتی نظر آئیں، مگر فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں انھوں نے اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار نبھایا اور فلم ساز کے کہنے پر فلمی نام فردوس اپنا لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ غلافی آنکھیں‌ اور خوب صورت نین نقش والی فردوس بیگم کو ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار ملا تو جیسے اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ اس فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور شائقینِ سنیما ان کے پرستار ہوگئے۔ وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر بننے والی یہ فلم کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔

    اداکارہ فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا‘ میں بہترین پرفارمنس پر نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ 1973 میں پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر بعد میں ان شہرت کا سفر تھم گیا۔ نئے چہرے ان کے سامنے کام یابی کے زینے طے کرتے چلے گئے اور فردوس بیگم اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔

    ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے جن میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون مشہور تھیں۔ فردوس بیگم کو برین ہیمرج ہوا تھا۔ انھوں نے لاہور میں‌ 73 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    فردوس بیگم نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور مرد اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

  • امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    قادر خان کی فلمی کہانیاں اور ان کے تحریر کردہ مکالمے ہندی سنیما کے شائقین میں بہت مقبول ہوئے اور بحیثیت اداکار خود انھیں‌ بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    ولن کے روپ میں شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے والے قادر خان نے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ان کے دلوں پر راج کیا۔ ان کا فلمی کیریئر شان دار ثابت ہوا جس میں انھوں نے شائقین اور انڈسٹری کو کئی یادگار فلمیں‌ دیں۔

    قادر خان کا تعلق افغانستان سے تھا جہاں‌ انھوں‌ نے 22 اکتوبر 1937ء کو آنکھ کھولی، لیکن ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مشکل اور تکلیف دہ رہا۔ قادر خان کے والدین افغانستان سے انڈیا جا بسے تھے جہاں ان کے مابین علیحدگی ہوگئی جس کے بعد قادر خان کو سوتیلے باپ کے ساتھ غربت زدہ زندگی گزارنا پڑی۔ قادر خان کسی طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔

    وہ شروع ہی سے پڑھنے، صدا کاری اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ مطالعہ اور تدریس سے وابستگی کے ساتھ جب انھوں نے تھیٹر کے لیے لکھنا شروع کیا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کردار بھی نبھانے لگے۔ ایک مرتبہ ان کے کالج میں تھیٹر مقابلہ ہوا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ اس موقع پر قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام دیا گیا اور ساتھ ہی فلم کے لیے مکالمے لکھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ تیّار ہوگئے۔ یہ سفر دہائیوں پر محیط ہوگیا اور 300 سو سے زائد فلموں میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں فلمی ڈائیلاگ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

    اداکار کے طور پر وہ 1973ء میں فلم داغ میں نظر آئے۔ یہ ایک وکیل کا معمولی کردار تھا اور 1977ء میں انھیں پولیس انسپکٹر کا کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تحریر کردہ فلم مقدّر کا سکندر ہٹ ہوئی اور اس کے ڈائیلاگ ہر گھر میں بولے گئے، پھر ‘خون پسینہ، شرابی، لاوارث، امر اکبر انتھونی، قلی، نصیب، قربانی جیسی کام یاب فلمیں آئیں جنھوں نے انھیں ولن کے روپ میں اور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی نام و مقام دیا۔

    1983ء میں فلم ‘ہمت والا’ بڑے پردے پر پیش کی گئی اور بہت کام یاب ہوئی۔ قادر خان اس کے مصنّف بھی تھے اور اس فلم میں انھوں نے ایک مزاحیہ کردار بھی ادا کیا۔

    اُس زمانے میں‌ امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے والے قادر خان ہی تھے، لیکن خود قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974ء میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔

    اداکاری قادر خان کا اوّلین شوق تھا۔ اپنے فلمی کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم محبوبہ تھی جو ان کی وفات سے دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

    بولی وڈ کے اس فن کار کی زندگی کے اس پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی عملی کوششیں کرتے رہے۔ انھوں نے بالخصوص فلم نگری سے دور ہوجانے کے بعد دین پھیلانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو مٹانے کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان بھی سیکھتے رہے۔

    قادر خان 31 دسمبر 2018ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

  • کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    کوثر پروین: بھولی بسری مدھر آواز

    ایک زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کی رسیلی اور مدھر آوازوں نے اپنے دور کے بے شمار گیتوں کو مقبولیت اور ان کے تخلیق کاروں اعتبار بخشا اور فلموں کی کام یابی میں اپنا حصّہ ڈالا، لیکن پھر نگار خانے ویران ہوگئے اور کانوں میں‌ رس گھولنے والی یہ آوازیں بھی ایک ایک کرکے خاموش ہوتی چلی گئیں۔

    کوثر پروین ایک ایسی ہی گلوکارہ تھیں جن کے گائے ہوئے کئی گیت ان کی یاد دلاتے ہیں۔ پاکستان کی اس مشہور گلوکارہ کا انتقال 30 دسمبر 1967ء کو ہوا تھا۔ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہونے والی کوثر پروین کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

    پاکستانی فلم ’’قاتل‘‘ کا یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا جس کے بول تھے:

    او مینا… نہ جانے کیا ہو گیا، کہاں دل کھو گیا، او مینا!….

    یہ ممتاز شاعر اور بے مثال نغمات کے خالق قتیلؔ شفائی کا تحریر کردہ گیت تھا جو کوثر پروین کی آواز میں‌ پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔

    انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ کہتے ہیں اس فلم کے نغمات نے کراچی سے دلّی تک مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

    آج فنِ موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے گئے بلکہ پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ اُن ناموں کو بھی فراموش کردیا گیا جو اپنے دور میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ کوثر پروین ایسا ہی ایک نام ہے جو مشہور اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات بھی تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے:

    میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں… اسے کوثر پروین کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس لوری نے بطور گلوکارہ انھیں‌ شہرت اور شناخت دی تھی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم وعدہ کا نغمہ بار بار ترسے مورے نین بھی شامل ہے۔ انھوں نے کئی دو گانے بھی گائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

  • اداکارہ ریما اور شان کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے والے جاوید فاضل کا تذکرہ

    اداکارہ ریما اور شان کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے والے جاوید فاضل کا تذکرہ

    اداکارہ ریما اور شان کو فلم ’بلندی‘ کے ذریعے بڑے پردے پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا موقع جاوید فاضل کی وجہ سے ملا تھا جن کا شمار پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور ہدایت کاروں میں‌ ہوتا ہے۔

    آج جاوید فاضل کی برسی ہے۔ وہ 29 دسمبر 2010ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ جاوید فاضل فلم نگری کے زوال کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنی مصروفیات کے سبب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مقیم تھے۔ وہ تنہا رہتے تھے۔ انھیں قدرت نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔

    ڈاکٹروں‌ کے مطابق ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ وہ ایک نجی پروڈکشن ہاؤس کے لیے کام کررہے تھے اور صبح جب ان کی پروڈکشن ٹیم فلیٹ پر پہنچی تو کافی دیر تک اندر سے جواب نہ ملنے پر دروازہ توڑا گیا، جہاں جاوید فاضل صوفے پر پڑے ہوئے تھے اور ان کی روح فقسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔

    جاوید فاضل نے ریما اور شان ہی نہیں کئی فن کاروں کو فلموں اور ڈراموں میں متعارف کروایا جنھوں نے بڑا نام کمایا اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان میں عمر شریف، شکیلہ قریشی، سیمی زیدی اور دیگر نام شامل ہیں۔

    جاوید فاضل کے کیریئر کی بات کی جائے تو 1962ء میں انھوں نے فلم ’دامن‘ کے لیے بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ اس کے بعد بطور ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم ’میرے جیون ساتھی‘ تھی جس کی پروڈیوسر اور ہیروئن اداکارہ دیبا تھیں۔ ان کے سامنے ہیرو وحید مراد تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس وقت وحید مراد کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ کیوں کہ یہ ان کی پہلی فلم تھی اور بدقسمتی سے یہ فلم ریلیز بھی نہیں ہوسکی۔

    ہدایت کار جاوید فاضل نے تقریباً پچیس فلمیں بنائیں جن میں‌ گونج، آہٹ، دہلیز، بازار حسن، استادوں کے استاد، فیصلہ اور بلندی شامل ہیں۔ بلندی کام یاب فلم تھی جس نے شائقینِ سنیما کو بھولی بھالی صورت والی ریما ہی سے نہیں شان سے بھی ملوایا۔ بعد میں یہ جوڑی ہٹ ہوگئی اور پاکستانی فلم انڈسٹری کو دونوں فن کاروں نے کئی سپرہٹ فلمیں دیں۔ ریما اور شان کی مقبولیت آسمان کو چُھونے لگی، لیکن پھر پاکستان کے نگار خانوں کی رونقیں ماند پڑتی چلی گئیں اور سنیما بھی ویران ہوگئے۔

    فلمی صنعت کے زوال کے بعد جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں نے کام شروع کیا تو جاوید فاضل نے چھوٹی اسکرین پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ڈراموں کے لیے ہدایت کاری کرنے لگے۔ انہوں نے کئی درجن ڈرامے ڈائریکٹ کیے، جن میں سری نگر، گھر گلیاں اور راستے، بری عورت، انجان، لکیر، داغِ دل شامل ہیں۔

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • یومِ وفات: فرانس میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ کے درس سے متاثر ہو کر تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا

    یومِ وفات: فرانس میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ کے درس سے متاثر ہو کر تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا

    آج عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمیدُ اللہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ مسلم دنیا کے ایک ایسے مفکر تھے جنھیں 22 زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انھوں نے مغرب و یورپ میں اپنی عمر کا بڑا حصّہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا اور کئی ممالک میں غیرمسلموں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

    پروفیسر ڈاکٹر محمد حمیدُ اللہ بغرضِ علاج امریکا میں‌ مقیم تھے جہاں سن 2002ء میں وہ اس دارِ فانی سے اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ وہ 9 فروری 1908ء کو حیدر آباد (دکن) کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں اور 1932ء میں جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈی فل کیا۔

    اس زمانے میں ہندوستان سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف تحریکوں کا عروج اور زوال دیکھ رہا تھا اور ان حالات میں ڈاکٹر حمیدُ اللہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران غور و فکر سے یہ پایا کہ تحصیلِ علم سے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں سدھار لایا جاسکتا ہے اور خاص طور پر مسلمان مفکرین اور مدبّروں کو اس حوالے سے عملی میدان میں اترنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنی اعلیٰ قابلیت کے باعث بون یونیورسٹی میں لیکچرر شپ حاصل کی۔ بعدازاں وہ پیرس چلے گئے جہاں سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ سات دہائیوں تک علم پھیلاتے اور شعور بیدار کرتے رہے۔ اس سفر کے دوران وہ متعدد مشہور اور قابلِ‌ ذکر تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ وہ ایک محقق، دانش ور اور مصلح کی حیثیت سے جہاں‌ بھی رہے دین کی سربلندی اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کوشش کرتے رہے۔

    انھوں‌ نے مختلف موضوعات پر مقالے اور سات زبانوں میں‌ ایک سو سے زائد کتابیں‌ لکھیں‌۔ ان کی ذہانت اور قابلیت کا اندازہ 22 زبانوں کے ان کے علم اور عبور سے لگایا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید اللہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت پاکستان آئے اور اس وقت حکومت پاکستان نے ان سے مشاورت اور ان کی معاونت حاصل کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے یہاں‌ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں لیکچرز بھی دیے جو خطباتِ بہاولپور کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ فرانسیسی زبان میں‌ قرآن پاک کا ترجمہ ہے جب کہ فقہ، حدیث اور سیرت النبی کے مختلف پہلوؤں پر ان کی لاتعداد کتابیں شایع ہوئیں۔

    عالمِ اسلام کے لیے ان کی ایک گراں قدر کاوش صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تدوین ہے۔ یہ کتاب 101ھ کی تحریر کردہ ہے جس مختلف جلدیں دنیا کے مختلف ممالک کے کتب خانوں میں تو محفوظ تھیں مگر انھیں کوئی یکجا نہیں کرسکا تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ان کی تدوین کے بعد اشاعت کی۔

    ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی و دینی لیکچرز اور ان کی تحریروں کی بدولت امریکا، یورپ اور افریقا میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا اور صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔

    انھیں دنیا بھر کی جامعات اور حکومتوں نے متعدد اعزازات سے نوازا تھا اور حکومتِ پاکستان نے بھی ہلالِ امتیاز عطا کرتے ہوئے ان کے علم اور مرتبے کے ساتھ ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف کیا۔

  • عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مترجم تھے۔ انھیں‌ عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے ماہر اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد 16 دسمبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع بارہ بنکی کے علاقے عثمان آباد سے تھا۔ وہ 11 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    عزیز احمد نے ہندوستان کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور بعد میں لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور کراچی آگئے جہاں‌ وزارتِ اطلاعات سے منسلک ہوئے۔ 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور تا دمِ آخر وہ پروفیسر کی حیثیت سے اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔

    وہ ایک محقق اور مضمون نگار بھی تھے جنھوں نے اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی انگریزی زبان میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے حوالے سے گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ ان انگریزی کتب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا۔

    وفات کے بعد انھیں ٹورنٹو ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔