Tag: دسمبر وفیات

  • ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    دراز قد اور دل کش خد و خال کی مالک، نشیلی آنکھوں‌ والی فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار نبھا کر لازوال شہرت حاصل کی اور اپنے بحیثیت اداکارہ مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ خود کو بہترین کلاسیکی رقاصہ ثابت کیا۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون تھیں۔

    ان کا فلمی سفر 1960ء کے اوائل میں بہ طور رقاصہ شروع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے بڑے پردے پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وارث شاہ کی مشہورِ زمانہ عشقیہ داستان اور اس کے دو مرکزی کرداروں کو جب ’ہیر رانجھا‘ کے نام سے فلمی پردے پر پیش کیا گیا تو اسے بہت پذیرائی ملی اور یہ فلم آنے والے برسوں میں کلاسک کا درجہ اختیار کرگئی۔ فلم کی کام یابی نے فردوس کی شہرت کو بھی گویا پَر لگا دیے۔

    پاکستانی فلم ’ہیر رانجھا‘ 1970ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس کے بعد فردوس بیگم پاکستان میں ہیر مشہور ہوگئیں۔ ان کے ساتھ ’رانجھا‘ کا کردار اعجاز درانی نے نبھایا تھا۔

    فردوس بیگم 73 برس کی عمر میں پچھلے سال 16 دسمبر کو دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ انھیں برین ہیمبرج ہوا تھا۔ وہ 4 اگست 1947ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا اصل نام پروین تھا۔ بطور کلاسیکل ڈانسر فلم ’فانوس‘ سے انھوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اس میں فلم ملنگی، ہیر رانجھا، انسانیت، آنسو، ضدی، دلاں دے سودے سمیت 150 سے زائد فلمیں ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنیں‌ اور فلمی گیتوں پر ان کا رقص بہت پسند کیا گیا۔ اداکارہ فردوس نے 130 سے زائد پنجابی، 20 اردو اور 3 پشتو فلموں میں‌ کام کیا۔

    انھیں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ فردوس بیگم نے اس دور کے تقریباً تمام ہیروز کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

  • ظہیر کاشمیری اور ان کا ایک شعر

    ظہیر کاشمیری اور ان کا ایک شعر

    ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
    ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

    یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور سیاسی و عوامی جلسوں‌ کے دوران پنڈال میں گونجا۔ ہر تحریک میں منزل کے قریب راستے کی آخری رکاوٹ کو پار کرتے ہوئے اپنا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے اس شعر کو پڑھا جاتا ہے یہ زبان زدِ عام شعر ظہیر کاشمیری کا ہے۔

    ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ وہ 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔ انگریزی میں ایم اے کیا۔ گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ اسی عرصہ میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔

    وہ ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں بھی کام کیا۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ظہیر کاشمیری کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے 12 دسمبر 1994ء کو دارِ فانی سے دارِ‌ بقا کا سفر اختیار کیا اور لاہور میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • میسحُ الملک اور حاذق طبیب حکیم اجمل اپنی عربی دانی کے لیے بھی مشہور تھے

    میسحُ الملک اور حاذق طبیب حکیم اجمل اپنی عربی دانی کے لیے بھی مشہور تھے

    متحدہ ہندوستان کے مشہور اور قابلِ‌ ذکر اطبا میں حکیم محمد اجمل خاں ایسی شخصیت تھے جنھیں برصغیر ہند و پاک سے باہر عالمِ عرب اور یورپ میں‌ بھی پہچانا گیا۔ انھیں جس طرح ہندوستان کے تمام طبقات میں عزّت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسی طرح عالمِ عرب کے علمی حلقوں میں بھی ان کی بڑی پزیرائی ہوئی۔

    حکیم اجمل خان تعلیم و تربیت روایتی انداز میں اس وقت کے فاضل اساتذہ نے کی تھی۔ اس کے بعد ان کی توجّہ علمِ طبّ کی طرف ہوئی۔ انھوں نے 1868ء میں‌ آنکھ کھولی تھی اور اس زمانے میں طبّی تعلیم عربی مصادرِ طبّ کے ذریعے دی جاتی تھی۔ رام پور کے زمانۂ قیام میں حکیم صاحب کو علّامہ محمد طیّب عرب مکی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا تھا۔ علّامہ طیّب کا وطن مکّہ معظمہ تھا، جہاں سے وہ نوجوانی ہی میں رام پور آگئے تھے۔ وہ عربی ادب اور معقولات کے امام تھے۔ تاریخ، انسابِ عرب اور عربی شاعری میں وسیع معلومات رکھتے تھے۔ ایسی علم و شان والی شخصیت کی صحبت میں‌ حکیم اجمل نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا۔

    بعد کے عرصے میں‌ انھوں‌ نے عربی زبان میں تصنیف و تالیف کی بدولت شناخت بنائی۔ قیامِ رام پور کے زمانے میں حکیم صاحب کو اپنے ذوقِ مطالعہ کی آب یاری کا موقع ملتا رہا اور اس وقت ریاست کا قدیم اور بے مثال کتب خانہ ان کے سپرد تھا۔ انھوں نے وہاں کے علمی ذخیرے اور خاص طور پر عربی کتب سے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کا ایک اہم علمی کارنامہ یہ ہے کہ اس زمانے میں کتب خانے کی عربی کتابوں کی فہرست تیّار کروا کے اس کی طباعت کروائی تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے طبّی موضوعات پر تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو ان کی یادگار ہیں اور علم و ادب کا بڑا خزانہ بھی۔

    حکیم صاحب کی صرف ایک کتاب رسالۂ طاعون کے علاوہ تمام تصانیف عربی زبان میں ہیں۔ ان میں القول المرغوب فی الماءُ المشروب، الساعاتیۃ، البیانُ الحسن بشرحِ المعجون المسمّیٰ باکسیرُ البدن، الوجیزۃ، مقدمۃُ اللّغاتُ الطبیۃ و دیگر شامل ہیں۔

    حکیم اجمل کی ان تصانیف میں خاص طور پر آخرُ الذّکر کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ وہ کئی پہلوؤں‌ سے افادی ہے جس میں اس کے موضوع طبّ کا احاطہ کرتے ہوئے ہوئے مصنّف نے لغت نویسی کے اصول و مبادی بیان کیے ہیں۔ حکیم اجمل نے اس کتاب میں دونوں موضوعات کو جس خوب صورتی سے جمع کر دیا ہے اور جس دقّت و مہارت کے ساتھ اس میں بحث کی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    وہ اسلامیانِ ہند کے خیر خواہ اور سیاسی راہ نما بھی تھے جن کی سیاسی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ انھوں نے ہندوستان میں طبّی کانفرنس کے علاوہ کالج کے قیام سے بھی شہرت پائی۔

    حکیم اجمل نے عالمِ عرب کی سیّاحت بھی کی اور مختلف شہروں میں ہندوستانی حاذق طبیب کی حیثیت سے ان کا جانا ہوا۔ انھوں نے پہلا سفر مارچ 1905ء میں عراق کا کیا، جہاں تقریباً تین ماہ گزارا اور بصرہ، نجف، کربلا اور دیگر متبرک و تاریخی مقامات کی زیارت کی۔ جب کہ 1911ء میں یورپ کی سیر بھی کی جس میں لندن، کیمبرج، آکسفورڈ کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے متعدد شہروں میں قیام کیا۔ اپنے اس دورے میں‌ حکیم اجمل خان نے وہاں کے تعلیمی اداروں، اسپتالوں، میوزیم اور لائبریریوں کا معائنہ کیا اور نادر کتابیں اور مخطوطات دیکھے۔ اس سفر کے دوران وہ ترکی اور مصر بھی گئے اور وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات کی اور اہم مخطوطات کے مطالعہ میں وقت گزارا۔

    انھوں نے تیسرا سفر بھی یورپ کا کیا اور یہ بات ہے 1925ء کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سوئزر لینڈ میں رہے۔ واپسی میں وہ مصر، شام، فلسطین اور لبنان گئے جہاں‌ کی اہم علمی و ادبی شخصیات اور قابل اطبا و اساتذہ سے ملاقات کرتے ہوئے ان کے علمی کارناموں اور کتابوں کی معلومات اکٹھی کرکے وطن لوٹے۔

    حکیم اجمل بڑی روانی سے عربی زبان بولتے تھے۔ اس صلاحیت سے انھوں نے عالمِ عرب کی سیاحت کے دوران خوب فائدہ اٹھایا۔ 29 دسمبر 1927ء کو طبِّ یونانی کے اس مشہور طبیب و حکیم کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ انھیں‌ ہندوستان میں‌ مسیحُ الملک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    آج مزاحیہ اداکار نرالا کا یومِ وفات ہے جو ماضی میں‌ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور فن کار اور شائقین میں اپنی اداکاری کے سبب خاصے مقبول تھے۔ اس اداکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    نرالا کا اصل نام سیّد مظفر حسین زیدی تھا۔ وہ 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ 1960ء میں انھوں نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ سے بڑے پردے پر بطور اداکار اپنا سفر شروع کیا۔ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹنیم جوبلی فلم ’ارمان‘ میں نرالا نے اپنے مزاحیہ کردار کو اس طرح نبھایا کہ شائقین سے خوب داد اور ناقدین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ وہ اس فلم کے لیے بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھرے۔

    اداکار نرالا کی فلموں کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور ان کی اداکاری کو ناقابلِ فراموش اور یادگار قرار دیا گیا۔ نرالا نے فلم سپیرن، مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، جہاں تم وہاں ہم، نصیب اپنا اپنا جیسی کام یاب ترین فلموں میں اپنے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقینِ سنیما کے دل جیت لیے۔ ان کی آخری فلم چوروں کا بادشاہ تھی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اداکار، نرالا نے 9 دسمبر 1990ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    حاجی محمد شریف پاکستان کے نام وَر مصوّر تھے جنھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے انھوں نے پاکستان میں فنِ‌ مصوّری کی تعلیم اور آرٹ کے فروغ کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    9 دسمبر 1978ء کو حاجی محمد شریف لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ کمال رکھتے تھے اور پٹیالہ کے دربار سے منسلک فن کار تھے۔ یوں‌ محمد شریف کو شروع ہی سے رنگوں سے کھیلنے اور اس فن کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑے ہوئے تو باقاعدہ مصوّری سیکھی۔

    حاجی محمد شریف کو ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شاؤ رام اور استاد محمد حسین خان نے مصوّری سکھائی۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور ان کے کام کو بہت پزیرائی ملی۔ وہ پاکستان کے ان مصوّروں میں سے تھے جنھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا گیا۔

    1945ء میں تقسیمِ ہند سے قبل محمد شریف لاہور آگئے جہاں انھوں نے میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1965ء میں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوگئے اور طویل عرصے تک طلبا کو فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے۔ انھیں استاد حاجی محمد شریف بھی کہا جاتا ہے۔

    حاجی محمد شریف کے فن کا اتنا شہرہ ہوا کہ اس وقت صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل ہوگئے تھے۔ انھیں وفات کے بعد لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ معمولی صورت والے مجاز کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور شاعری بہت مقبول۔

    وہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں، بالخصوص لڑکیوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جن کا شہرہ ہر طرف ہوا۔ نظموں‌ نے مجاز کو زیادہ شہرت دی۔

    وہ 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا او دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوگئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی تاریخِ وفات 5 دسمبر 1955ء ہے۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    ان کی وحشت نے انھیں چین سے جینے نہ دیا۔ وہ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار رہے اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔

  • عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    دیو آنند صاف گو اور باضمیر کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک اور ایسے انسان تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔

    ہندوستان کی فلم نگری میں‌ دیو آنند کا کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ وہ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    بولی وڈ میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت کام یاب ہونے والے اس اداکار نے عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن ایسی بھرپور زندگی گزاری جس میں ہر خاص و عام ان کے فن کا مداح اور شخصیت کا گرویدہ رہا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق سے جڑا فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والا ایک حادثہ کچھ یوں تھا کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جارہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ اس موقع پر دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ اس حادثے کا تو چرچا ہوا ہی، ان کی محبّت کا خوب شہرہ بھی ہوا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔

    اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں ان کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھر دیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے مکمل کی، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔

    یہ 1943ء کی بات ہے جب وہ نوکری کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی کے لیے نکلے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا۔ کچھ کوششوں کے بعد ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ تقریباً ایک سال تک نوکری کرنے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندوستانی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور چھوٹے موٹے کردار ان کی ہمّت اور حوصلہ بڑھانے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند نے ہر قسم کے کردار ادا کیے، اور ان کی مقبولیت اور وجہِ شہرت وہ انداز تھا جس میں دیو آنند جھک کر لہراتے ہوئے چلتے، مخصوص انداز سے بولتے اور اسی طرح ان کے لباس میں شامل اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کی توجہ حاصل کرلیتی تھی۔ دیو آنند انڈسٹری میں‌ اپنے اسٹائل کے لیے مشہور تھے۔

  • فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    لینڈ اسکیپ فن پارے غلام رسول کے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا وہ نمونہ ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ نوآموز اور فائن آرٹسٹ کے طالبِ علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ان فن پاروں میں‌ پنجاب کی دیہی زندگی کو پیش کیا ہے۔

    آج غلام رسول کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر نے 2009ء میں وفات پائی تھی۔

    غلام رسول کا تعلق جالندھر سے تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1942ء کو اس جہانِ رنگ و بُو میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے فطرت اور قدرتی مناظر میں‌ کشش محسوس کرتے تھے اور زندگی کے مختلف رنگوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے مشاہدے کی عادت اور تخلیقی شعور نے انھیں آرٹ کی طرف مائل کیا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔

    1964ء میں غلام رسول نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعد میں امریکا چلے گئے جہاں غلام رسول نے فائن آرٹس کے شعبے میں‌ داخلہ لیا اور 1972ء میں ڈگری لے کر وطن لوٹے۔

    اس وقت تک وہ فن پارے تخلیق کرنے اور اپنی پینٹنگ کے لیے پہچان بناچکے تھے۔ 1974ء میں وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    غلام رسول نے مصوّری میں لینڈ اسکیپ کو اپنی توجہ اور دل چسپی کا محور بنایا اور خوب کام کیا۔ انھیں پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارنے والے مصوّروں میں اہم جانا جاتا ہے۔ دیہی ماحول اور فطرت کے حُسن پر غلام رسول کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔ انھیں‌ شائقین اور آرٹ کے ناقدین نے سراہا اور ان کے کام کی پذیرائی ہوئی۔

    غلام رسول کی فائن آرٹ کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    فکرِ‌ معاش اور زندگی کے اتار چڑھاؤ ایک طرف، لیکن جس حادثے نے سُرور کو توڑ کر رکھ دیا، وہ ان کی شریکِ حیات اوراکلوتے بیٹے کی موت تھا۔ اس درد ناک واقعے کے بعد انھوں‌ نے شراب نوشی شروع کر دی اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    سُرور جہاں آبادی کا نام درگا سہائے تھا۔ وہ 1873ء میں برطانوی ہند کے علاقے جہاں آباد، ضلع پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی زبان سیکھی۔ اسی زبان کی بدولت شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگریزی زبان بھی سیکھ لی اور دو سال بعد انگریزی، مڈل امتحان بھی پاس کر لیا۔

    سُرور نے ابتدائی فارسی اور سنسکرت کی تعلیم اپنے والد سے لی تھی، لیکن مڈل اسکول کے صدر مدرس مولوی سید کرامت حسین بہار بریلوی جو عربی، فارسی اور اردو کے جیّد عالم تھے، ان کی خصوصی توجہ کی بدولت سرور نے ان زبانوں پر مکمل عبور حاصل کرلیا۔ انگریزی سیکھی تو اس زبان میں‌ بھی ادب کا مطالعہ شروع کردیا اور انگریزی نثر و نظم کی اعلیٰ کتابیں ان کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ ان کی علم و ادب میں‌ دل چسپی عمر کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور انگریزی میں اس قدر استعداد حاصل کرلی کہ متعد نظموں کو اردو زبان میں ڈھالا اور ان کے اسلوب و کلام پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ انھوں نے طب کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی تھی۔

    یہ غالباً انگریزی شاعری کے مطالعے کا اثر تھا کہ سُرور نظم نگاری کی طرف مائل رہے۔انھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی نظمیں منفرد فضا کی حامل تھیں۔

    انھوں نے نئی نظم کو موضوعاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سُرور کی قافیہ بند نظموں میں‌ اردو، ہندی اور فارسی الفاظ کا نہایت خوب صورت استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اردو شاعری میں‌ نظیر کے بعد سرور جہان آبادی کے یہاں حبُ الوطنی کا جذبہ نسبتاً زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ہندوستانی روایت اور رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

    سرور کے عہد کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار تھا اور آزادی کا جوش و ولولہ تحریکوں کی صورت میں‌ بڑھ رہا تھا جس میں‌ حبُ الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کے لیے سُرور نے اپنی نظموں‌ سے خوب کام لیا۔ ان کا کلام ’ادیب‘ اور ’مخزن‘ جیسے رسالوں میں تسلسل کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔ 3 دسمبر 1910ء میں سُرور ہمیشہ کے لیے غمِ روزگار سے نجات پاگئے۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    بہ خدا عشق کا آزار بُرا ہوتا ہے
    روگ چاہت کا برا پیار برا ہوتا ہے

    جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے
    ہائے معشوق طرح دار برا ہوتا ہے

    یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چبھ کر دل سے
    خلشِ عشق کا آزار برا ہوتا ہے

    ٹوٹ پڑتا ہے فلک سَر پہ شبِ فرقت میں
    شکوۂ چرخِ ستم گار بُرا ہوتا ہے

    آ ہی جاتی ہے حسینوں پہ طبیعت ناصح
    سچ تو یہ ہے کہ دلِ زار بُرا ہوتا ہے

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔