Tag: دسمبر وفیات

  • یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    23 نومبر 2002ء کو میر ظفرُ اللہ جمالی نے پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ بردبار اور دھیمے مزاج کے سیاست دان مشہور تھے۔ ان کا شمار بلوچستان کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاق کی سیاست کو ترجیح دی اور قوم پرست جماعتوں سے خود کو دور رکھا۔

    ظفرُ اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اس صوبے کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ وہ 76 سال کی عمر میں پچھلے سال 2 دسمبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم میر ظفرُ اللہ جمالی آبائی علاقے روجھان جمالی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    وفات سے چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ‌ خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی 1944ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ اسکول میں داخل ہوئے اور بعد میں لاہور کے ایچی سن کالج اے لیول کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا گھرانا مسلم لیگی تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ظفرُ اللہ جمالی نے بھی نوجوانی میں فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر فرائض سَر انجام دیے تھے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔

    انھوں نے اپنے چچا کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سیاسی حریف سے شکست کھا گئے اور 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں‌ پہنچے، وہ مارشل لا کے زمانے میں اُن سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاءُ الحق کا ساتھ دیا۔

    1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار پانی و بجلی کی وزارت ان کے حصّے میں آئی اور محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988ء میں ایک بار پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی وفاق میں مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف میں شامل رہے۔ وہ اپنے سیاسی سفر کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

    2004ء کو انھوں نے وزراتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میر ظفرُ‌اللہ جمالی کھیلوں میں‌ بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور ہاکی ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے 1984ء کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی تھی۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی سادگی پسند تھے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی ادوار اور وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی شان و شوکت اپنانے کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کوشش کی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ سیاسی میدان میں بھی وہ کسی کو بھی اپنی بات سے رنج پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔

  • سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی نثر جی تاریخ ایک تحقیقی اور تنقیدی شاہ کار ہے جس کے مصنّف منگھا رام ملکانی تھے۔ وہ جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں شامل تھے۔

    آج نوجوان نسل ان کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ ان کا نام مذکورہ کتاب کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اسی کتاب پر انھیں 1969ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب سے نوازا گیا تھا۔

    اس کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ وقیع، مستند اور نہایت جامع تصنیف ہے۔

    پروفیسر منگھا رام ملکانی سندھی زبان کے نام وَر ادبی مؤرخ، نقّاد، معلّم اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں‌ نے ڈی جے کالج، کراچی میں انگریزی کے استاد اور بعد میں جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    وہ 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔

    ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔

    منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

    وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے مضامین لکھنا شروع کیے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہونے لگے۔منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹ لیا جو ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔

    منگھا رام ملکانی 1980ء کو آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔

  • یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    یومِ وفات:‌ فردوسِ بریں کو عبدُ الحلیم شررؔ کی معرکہ آرا تصنیف کہا جاتا ہے

    بیسوی صدی کے اردو نثر نگاروں میں عبدُ الحلیم شررؔ ایک اہم اور قابلِ‌ ذکر علمی شخصیت ہیں۔ انھیں ایک بلند پایہ ادیب، مترجم، ناول نگار اور ڈرامہ نویس کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ شرر کو لکھنؤ کی سماجی و تہذیبی زندگی کا رمز شناس بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب میں انھیں منظوم ڈرامہ نگاری کے سبب بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    عبدالحلیم شرر نے اردو شعر و ادب میں متعدد نئی اور کارآمد ہیئتوں کو یا تو روشناس کروایا یا انھیں اپنی تخلیقات میں اعتبار و امتیاز بخشا۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں انھوں نے دو ڈرامے ’’میوۂ تلخ‘‘ (1889) اور ’’شہیدِ وفا‘‘(1890) لکھ کر قارئین اور ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ایسے منظوم ڈرامے اس سے قبل نہیں لکھے گئے تھے۔ شرر نے اپنے ہی ناولوں ’’فتح اندلس‘‘ اور ’’رومتہُ الکبریٰ‘‘ پر بھی دو مختصر منظوم ڈرامے لکھے۔

    شرر بسیار نویس ادیب تھے۔ معاشرتی اور تاریخی ناول، انشائیے، سوانح و تاریخ، ڈرامہ اور شاعری کے ساتھ ترجمہ نگاری میں انھوں نے اپنا کمال دکھایا۔ تاہم جو مقبولیت انھیں اپنے تاریخی ناولوں اور مضامین کے سبب حاصل ہوئی، وہ بے مثال ہے۔

    عبدالحلیم شررؔ 1860ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام تفضّل حسین تھا اور وہ حکیم تھے۔ شررؔ لکھنؤ میں پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تو انھیں مٹیا برج بھیج دیا گیا جہاں‌ عربی، فارسی اور طب کی تعلیم حاصل کی، لیکن وہاں‌ امرا کی اولادوں سے دوستانہ بڑھا لیا اور بگڑنے لگے تو والد نے انھیں لکھنؤ واپس بھیج دیا اور بعد میں دہلی جاکر انگریزی بھی پڑھی اور 1880ء میں دہلی سے زاہدِ خشک بن کر لوٹے۔ لکھنؤ میں وہ منشی نول کشور کے ’’اودھ اخبار‘‘ کے صحافتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بے شمار مضامین لکھے۔ چند اور ملازمتیں اور مختلف شہروں میں‌ قیام کے بعد لکھنؤ لوٹے اور اپنا رسالہ ’’دل گداز’’ جاری کیا جس میں ان کا پہلا تاریخی ناول ’’ملک العزیز ورجنا‘‘ قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’حسن انجلینا‘‘ اور ’’منصور موہنا‘‘ شائع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم ان کا معرکہ آرا ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ تھا۔

    ’’دل گداز‘‘ میں شررؔ نے پہلی بار آزاد نظم کے نمونے بھی پیش کیے اور اردو داں طبقے کو انگریزی شعر و ادب کے نئے رجحانات سے متعارف کرایا۔ انھوں نے یکم دسمبر 1926ء کو وفات پائی۔

  • پاکستان ٹیلی وژن اور اسلم اظہر

    پاکستان ٹیلی وژن اور اسلم اظہر

    ٹیلی وژن اور براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں اسلم اظہر کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ وہ پاکستان میں ٹیلی وژن کے بانی اور اس کے مختلف شعبہ جات میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اس میڈیم میں اپنی فنی مہارتوں کا شان دار مظاہرہ کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    فنونِ لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ اسلم اظہر نے پی ٹی وی کے لیے معیاری اور مثالی کام کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے ستارۂ پاکستان اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اسلم اظہر 1932ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کو علم و فنون کی دنیا میں اے ڈی اظہر کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور وہ ایک ادیب، شاعر اور بیدار مغز شخص تھے۔ اردو، انگریزی، فارسی، عربی، صَرف و نحو کے ماہر تھے۔ یوں علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے اسلم اظہر بھی شروع ہی سے تھیٹر اور فنون میں دل چسپی لینے لگے تھے۔ وہ ذہین تھے اور اچھّے طالبِ علم بھی ثابت ہوئے۔

    اسلم اظہر کا زرخیز اور تخلیقی ذہن تھیٹر جیسے اس وقت کے مقبول میڈیم کے ساتھ ہندوستان میں فلم سازی اور اس کی تیکنیک میں بھی دل چسپی لے رہا تھا، لیکن وہ قانون کے طالبِ علم تھے۔ انھوں نے 1954ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے اس مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ وہ تعلیم کے حصول کے لیے بیرونِ ملک بھی مقیم رہے۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد نوکری کے سلسلے میں کچھ عرصہ چٹاگانگ میں گزرا، لیکن دل نہ لگا اور 1960ء میں کراچی چلے گئے۔

    کراچی میں اس زمانے میں محکمۂ اطلاعات کے لیے دستاویزی فلمیں بنائی جارہی تھیں۔ اسلم اظہر تھیٹر پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے داد و تحسین سمیٹ چکے تھے اور ریڈیو سے بھی وابستہ رہے تھے، یہی نہیں‌ بلکہ فلم سازی کا بھی شوق تھا۔ انھیں محکمۂ اطلاعات کے لیے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اسی عرصے میں انھوں نے اپنے ایک دوست فرید احمد کے ساتھ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی بھی قائم کی اور اس بینر تلے تھیٹر کے لیے کئی ڈرامے تخلیق کیے۔

    ایک جاپانی کمپنی سے جب حکومت نے لاہور میں ٹی وی اسٹیشن قائم کرنے کا معاہدہ کیا تو اس کمپنی نے اسلم اظہر سے رابطہ کیا اور ان کی خدمات حاصل کیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس میڈیم کے حوالے سے کچھ نہیں‌ جانتے۔ مگر اس وقت کمپنی کی نظر میں کوئی اور قابل اور باصلاحیت شخص اس پروجیکٹ کے لیے نہیں تھا۔ان کے اصرار پر اسلم اظہر نے ہامی بھر لی۔ یوں ان کی سربراہی میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے منصوبے پر کام شروع ہوا جسے بعد میں‌ حکومتِ پاکستان نے خرید لیا اور اسلم اظہر کو پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ انھوں نے یہ ذمہ داری اس طرح نبھائی کہ باصلاحیت فن کاروں اور آرٹسٹوں سے کر تیکنیکی شعبے میں ماہرین اور قابل لوگوں کو اکٹھا کرلیا اور لاہور کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور کراچی میں بھی ٹی وی اسٹیشن قائم کیے۔ وہ اسٹیٹ فلم اتھارٹی کے سربراہ اور ریڈیو پاکستان کے بھی اہم عہدے پر فائز رہے۔

    اسلم اظہر بذاتِ خود نہایت منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ صدا کاری کا فن ان کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک تخلیق کار اور اختراع ساز بھی تھے جن کے زمانے میں نت نئے آئیڈیاز اور مختلف تجربات کیے گئے اور وہ کام یاب ہوئے۔

    1982-83 میں پی ٹی وی کی پہلی ایوارڈ تقریب اور متعدد شان دار اور طویل دورانیے کی نشریات کو اسلم اظہر کا تاریخی کارنامہ ہیں۔

    اسلم اظہر 1977ء کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں پاکستان ٹیلی وژن تربیتی اکیڈمی کے سربراہ رہے۔ ضیاءُ الحق کے زمانے میں وہ ٹی وی سے منسلک نہیں رہے اور کراچی میں دستک تھیٹر گروپ کے تحت تخلیقی کام کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں انھیں پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

    پی ٹی وی کو ہر لحاظ سے ایک قابلِ تقلید اور مثالی ادارہ بنانے والے اس جوہرِ قابل کی وفات 29 دسمبر 2015ء کو ہوئی۔

  • جہاں آرا کجّن: ایک بھولی بسری یاد

    جہاں آرا کجّن: ایک بھولی بسری یاد

    ہندوستان میں تھیٹر کے بعد جب فلم سازی کا آغاز ہوا تو کئی ایسی اداکارائیں بھی بڑے پردے پر نظر آئیں جو خوش گُلو بھی تھیں اور اداکارہ بننے سے پہلے ہی مغنّیہ مشہور تھیں۔ ان میں سے بعض نے اپنے دور میں اداکارہ کے طور پر قابلِ رشک حد تک عروج دیکھا اور مقبولیت حاصل کی۔ جہاں آرا کجّن انہی میں سے ایک ہیں۔

    کجّن نے 1915ء کو لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ بھی اپنے دور کی ایک مشہور مغنّیہ تھیں جن کے حسن و جمال کا بھی بڑا چرچا تھا۔ جہاں آرا کجّن بھی آواز کے ساتھ اپنی خوب صورتی اور انداز و ادا کے لیے مشہور ہوئیں۔

    ہندوستان کے مقبول ترین فلمی رسالے شمع میں کجّن بائی کا تذکرہ کچھ یوں کیا گیا ہے۔

    "آج تک ان سے زیادہ مقبول کوئی اداکارہ نہیں ہوئی۔ بمبئی کیا پورا ملک ان کا دیوانہ تھا۔ راجے، مہاراجے، نواب بھی دل ہاتھ میں لیے پھرتے تھے۔ کجّن نے 1930ء میں فلموں میں قدم رکھا۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، شکنتلا، بلوا منگال، دل کی پیاس، آنکھ کا نشہ، جہاں آرا، رشیدہ، انوکھا پیار اور پرتھوی ولبھ ان کی مشہور فلمیں تھیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ریڑھ کی ہڈی تھیں جن کا دور خاموش فلموں سے شروع ہوا تھا اور بولتی فلموں سے عروج پر پہنچا۔ اپنی فلم "منورما” کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئیں، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کجّن کی موت پر لاکھوں دل ٹوٹے، کئی ایک نے خودکشی کی۔ جہاں آرا کجّن کو کتوں سے نفرت تھی، وہ شیر پالتی تھیں۔ ساری عمر شادی نہیں کی مگر میڈن تھیٹر کلکتہ کے عمر رسیدہ مالک سیٹھ کرنانی کی منظورِ نظر رہیں۔ سیٹھ کرنانی نے ایک بڑآ مکان کجّن کو دیا ہوا تھا جہاں ان کا تعینات کردہ چوکیدار کجّن کے ہر ملنے والے پر نظر رکھتا تھا اور رات کو پوری رپورٹ کرنانی کو دی جاتی تھی مگر کرنانی کو کبھی کجّن سے اس سلسلے میں بات چیت کرنے کی ہمّت نہیں ہوئی۔ کجّن نے ایک ماہ وار رسالہ بھی جاری کرایا تھا۔”

    1945ء میں ممبئی میں کجّن بائی وفات پاگئیں۔ انھوں نے کئی فلموں کے لیے گیت بھی اپنی آواز میں ریکارڈ کروائے تھے جن میں سے ایک مشہور فلم شریں فرہاد تھی جس نے ریکارڈ بزنس کیا تھا۔

  • ماہرِ فنِ موسیقی اور محقق سعید ملک کی برسی

    ماہرِ فنِ موسیقی اور محقق سعید ملک کی برسی

    فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کو صدیوں سے بلند مقام اور اہمیت حاصل رہی ہے اور ہر خاص و عام میں‌ یکساں‌ مقبول فن ہے اور ذوق کی تسکین کا باعث ہے۔ موسیقی کا فن ہر دور میں ترقی کرتا رہا ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں‌ کلاسیکی موسیقی کا عروج تھا، لیکن اس کے بعد نئے آلاتِ موسیقی، جدید رجحانات اور طرزِ گائیکی کے سبب جہاں‌ کئی ساز اور اصنافِ موسیقی ماضی کا حصّہ بن گئیں، وہیں اس فن کے ماہر اور ان کی فنِ موسیقی پر تحریر کردہ کتب بھی شیلف تک محدود ہوگئیں۔

    آج سعید ملک کا یومِ وفات ہے، وہ 30 دسمبر 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ماہرِ موسیقی اور اس فن سے متعلق اپنی تصنیفات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ پاکستان کے اس مشہور ادیب کا مدفن لاہور میں ہے۔

    سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں‌ فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں اور اس کی گورننگ کونسل کے رکن تھے۔ وہ 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی کے موضوع پر مسلسل کالم لکھتے رہے جس میں انھوں‌ نے بڑی محنت اور تحقیق کے ساتھ اس فن سے متعلق مواد باذوق قارئین اور موسیقی سیکھنے اور سمجھنے کے شائقین کے لیے اکٹھا کردیا ہے یہ کالم پاکستان میں موسیقی کی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں۔

    سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔

  • اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ اور ادیب افضل توصیف کی برسی

    اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ اور ادیب افضل توصیف کی برسی

    افضل توصیف نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ شاعری اور نثر میں نام و مقام بنایا اور ان کی متعدد کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ پاکستان کی اس معروف شاعرہ اور ادیبہ نے 30 دسمبر 2014ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ افضل توصیف کو ان کی ادبی تخلیقات پر حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    افضل توصیف 18 مئی 1936ء کو ہوشیار پور (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں لاہور میں قیام کیا، لیکن والد کا تبادلہ کوئٹہ کردیا گیا اور یوں‌ وہ بھی کوئٹہ چلی گئیں۔

    افضل توصیف نے کوئٹہ سے بی اے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی اور ایم اے اُردو کیا اور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئیں۔ اس دوران ادبی مشاغل جاری رہے اور ان کی تصانیف منظر عام پر آئیں‌۔ ان میں ‘زمیں پر لوٹ آنے کا دن، شہر کے آنسو، سوویت یونین کی آخری آواز، کڑوا سچ، غلام نہ ہوجائے مشرق، لیبیا سازش کیس، ہتھ نہ لاکسمبڑے، تہنداناں پنجاب، من دیاں وستیاں شامل ہیں۔ ان اردو اور پنجابی زبان میں کہانیاں‌ اور افسانے مختلف ادبی جرائد کی زینت بنے جنھیں کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    افضل توصیف لاہور کے ایک قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • کوثر پروین جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    کوثر پروین جن کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے

    پاکستان کے کئی نام ور اور اپنے زمانے کے مشہور فن کار ایسے ہیں‌ جنھیں وقت کے ساتھ فراموش کردیا گیا۔ خاص طور پر وہ فن کار جنھوں نے‌ نہ صرف شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھوا بلکہ کسی زمانے میں جہانِ فن میں‌ ان کا طُوطی بولتا تھا۔

    کوثر پروین بھی پاکستان کی نام وَر گلوکارہ تھیں جو 30 دسمبر 1967ء کو وفات پاگئیں۔ زمانے کے ساتھ فن موسیقی اور گائیکی کے انداز ہی نہیں‌ بدلے بلکہ اس نگری میں‌ کئی نئی اور خوب صورت آوازوں‌ نے خود کو متعارف کروانے کے بعد شہرت اور مقبولیت کا عروج دیکھا اور یوں ماضی کے باکمال فن کاروں کو بھلا دیا گیا۔ کوثر پروین انہی میں‌ سے ایک نام ہے جو اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن اور معروف موسیقار اختر حسین کی شریکِ حیات تھیں۔

    کوثر پروین نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ گیت ریکارڈ کروائے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان کام یاب فلموں کے کئی گیت کوثر پروین کی آواز میں‌ یادگار ٹھہرے اور آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھولتے ہیں۔ 1954ء میں فلم نوکر کی ایک لوری بہت مشہور ہوئی جس کے بول تھے، میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جائوں۔ یہ لوری کوثر پروین کی آواز میں‌ تھی جس نے انھیں‌ شہرت اور شناخت دی۔

    کوثر پروین کے دیگر مقبول گیتوں میں فلم قاتل کا یہ گیت او مینا، نہ جانے کیا ہوگیا، کہاں‌ دل کھو گیا آپ نے بھی سنا ہوگا۔ فلم وعدہ کا یہ نغمہ بار بار ترسے مورے نین اور کئی گیت شامل ہیں۔ انھوں نے دو گانے بھی گائے اور اپنے وقت کے باکمال گلوکاروں کے ساتھ آواز ملائی۔

    وہ ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بطور گلوکارہ ان کے کیرئیر کا آغاز 1950ء میں ہوا تھا۔

  • استاد چھوٹے غلام علی خان کی برسی

    استاد چھوٹے غلام علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی میں استاد چھوٹے غلام علی خان پاکستان کے‌ نام ور‌ فن کاروں‌ میں شمار کیے جاتے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 29 دسمبر 1986ء کو لاہور میں وفات پانے والے استاد چھوٹے غلام علی خان کا تعلق قصور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور تھا۔

    استاد چھوٹے غلام علی خان 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد میاں امام بخش سے حاصل کی جو دھرپد انداز گائیکی میں اختصاص رکھتے تھے۔ استاد چھوٹے غلام علی خان خیال، ترانہ، ٹھمری، دادرا اور غزل سبھی یکساں مہارت سے گاتے تھے۔

    انھوں نے کلاسیکی موسیقی کو پاکستان میں‌ فروغ دینے اور اس کی تربیت کے لیے بھی کام کیا۔ وہ اس حوالے سے لاہور آرٹس کونسل سے وابستہ رہے جہاں موسیقی کی تربیت کے لیے اپنی اکیڈمی قائم کی تھی۔

    چھوٹے غلام علی خان کے شاگردوں میں شاہدہ پروین اور بدرالزماں، قمر الزماں کے نام نمایاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1985ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    پاکستان میں‌ موسیقی اور گائیکی کے فن میں نام و مقام بنانے والے استاد چھوٹے غلام علی خان کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • نام ور ادیب، شاعر اور دانش ور شیخ ایاز کا یومِ وفات

    نام ور ادیب، شاعر اور دانش ور شیخ ایاز کا یومِ وفات

    اردو اور سندھی کے نام ور شاعر، ادیب اور دانش وَر شیخ ایاز 28 دسمبر 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ ماہرِ قانون اور ماہرِ تعلیم بھی تھے جنھوں نے سماج، سیاست اور ادب میں‌ اپنے فکر و فلسفے سے ایک نسل کو متاثر کیا اور دوسروں کے لیے مثال بنے۔

    شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا جو 1923ء کو شکار پور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ شیخ ایاز کو تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کے نظریات کے حامی ادیبوں اور سیاست دانوں سوبھو گیان چندانی، گوبند مالھی، ابراہیم جویو اور دیگر کی صحبت نصیب ہوئی جس نے انھیں عملی میدان میں‌ مختلف نظریات اور جدوجہد پر آمادہ کیا۔ وہ ترقی پسند ادب اور مختلف سیاسی اور حقوق سے متعلق تحریکوں کا زمانہ تھا اور شیخ ایاز ان سے وابستہ رہے اور نہایت فعال اور سرگرم کردار ادا کیا۔

    انھوں نے سندھی اور اردو زبانوں میں ادب تخلیق کیا اور 1946ء میں ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’سفید وحشی‘‘ کے نام سے آیا اور یہ سلسلہ کئی مجموعہ ہائے کتب تک دراز ہوگیا۔ وہ نثر ہی نہیں نظم کے میدان میں بھی نام ور ہوئے۔ ان کی انقلابی شاعری تقسیم سے پہلے ہی مشہور ہوچکی تھی۔

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’بھور بھرے آکاس‘‘ 1962ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شایع ہوا۔ یہ مجموعہ حکومت کی پابندی کی زد میں آیا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’کلھے پاتم کینرو‘‘ 1963ء میں آیا اور اس پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ اردو شاعری کے مجموعے بوئے گل نالۂ دل، کف گل فروش اور نیل کنٹھ اور نیم کے پتے کے نام سے شایع ہوئے۔

    شیخ ایاز کا ایک بڑا کارنامہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس سے شاہ لطیف کا پیغام اردو بولنے والوں تک پہنچا اور مقبول ہوا۔ شیخ ایاز کی تقاریر کے مجموعے بھی شایع ہوئے ہیں‌ جب کہ ان کے مضامین اور یادداشتوں کے علاوہ دوسری کتب قابلِ ذکر ہیں۔

    انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔