Tag: دل

  • دل کو صحت مند رکھنے والے ان مشروبات کے بارے میں جانتے ہیں؟

    دل کو صحت مند رکھنے والے ان مشروبات کے بارے میں جانتے ہیں؟

    تندرستی ہزار نعمت کے مترادف تصور کی جاتی ہے جبکہ انسان کی روز مرّہ کی غذا اسے صحتمند رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    کسی بھی انسان کے صحتمند رہنے کے لیے اس کے دل کا تندرست ہونا اور ٹھیک طرح سے کام کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اپنے جسم کے اس اہم ترین حصے کو صحت مند رکھنے کے لیے کوشش کریں کہ اپنی غذا میں ان مشروبات اور غذاؤں کو شامل کریں جو دل کو تقویت دیتے ہیں

    دل کو صحت مند رکھنے کے لیے ذیل میں آپ کو چندصحت بخش مشروبات کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو آپ باآسانی گھر میں بنا کر بھی پی سکتے ہیں۔

    انار کا مشروب
    انار کو جنت کا پھل بھی کہا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انار پولی فینول نامی اینٹی آکسیڈنٹس اور اینٹی انفلامیٹری خصوصیات سے بھرپور ہوتا ہے جو دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ اس بہترین پھل میں فینول بھی کافی مقدار میں موجود ہوتا ہے جو تناؤ اور بلڈ پریشر کو کم کرنے معاون ثابت ہوتا ہے۔

    چقندر کا جوس
    یہ سبزی اپنے اندر نائٹریٹ کی کثیر مقدار رکھتی ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرنے اور خون کے بہاؤ کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ چقندر ایسی بہترین سبزی ہے جس میں امراض قلب کے خطرے کو کم کرنے والے عوامل بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ایسے تمام افراد جنھیں گردے کی پتھری کی شکایت ہو وہ اس مشروب کو ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔

    چکوترہ
    ترش پھلوں میں فائبر، وٹامن سی اور فلیوونائڈز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے اور دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ چکوترہ بھی ایسا ہی پھل ہے جس کا جوس کافی صحت بخش ہے۔

    ٹماٹر کا رس
    حالیہ تحقیق کے مطابق ٹماٹر کا جوس پینے سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دل کی صحت کو بہتر بنانے میں ٹماٹر کے جوس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ٹماٹر کے جوس میں لائکوپین ہوتا ہے، یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ جو سوزش اور ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح کو کم کرکے دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    سبز پتوں والے سبزیوں کا رس
    سبز پتوں والی سبزیاں ہمیشہ سے ہی صحت مند تصور کی جاتی ہیں اور ایسی سبزیوں کا رس دل کے لیے بے حد مفید ہے۔ پالک، کیل اور سوئس چارڈ کو ملا کر ان کا رس نکال کر پینا دل کی صحت کو حیرت انگیز فائدہ پہنچاتا ہے۔ وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس کی خوبیوں سے مالا مال سبز پتوں والی سبزیوں کا رس سوزش کو کم کرتا ہے اور خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے، جس سے دل کی کارکردگی بہترین رہتی ہے۔

    مشروب پینے کا صحیح وقت
    دن میں کسی بھی وقت ان صحت بخش مشروبات کو پیا جاسکتا ہے، تاہم اگر دن کا آغاز صحت مند جوس کے ساتھ کیا جائے تو کیا ہی اچھی بات ہے۔ تاہم یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کب جوس پینا چاہتے ہیں۔

  • بچی کے پیٹ پر ‘لال رنگ کا دل والا پیدائشی نشان’

    بچی کے پیٹ پر ‘لال رنگ کا دل والا پیدائشی نشان’

    برطانیہ میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، جہاں ایک بچی کا پیدائشی نشان سرخ رنگ کا دل تھا جسے دیکھ کر ڈاکٹر سمیت والدین بھی حیران رہ گئیں۔

    برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس فروری کی 22 تاریخ کو ایک بچی کی پیدائش ہوئی جس کا نام جورجیا رکھا گیا۔

    حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ بچی کے پیٹ کے ایک طرف ایک مخصوص نشان تھا جس کی شکل دل جیسی تھی، عجیب بات یہ تھی کہ اس نشان کا رنگ بھی سرخ تھا۔

    جورجیا کی ماں 37 سالہ جین ویلچ نے بتایا کہ جب ڈاکٹرز اور نرسوں نے اس کے جسم پر یہ نشان دیکھا تو وہ پہلے یقین ہی نہیں کرسکے، جورجیا میری پہلی اولاد ہے جس کے اوپر یہ انوکھا پیدائشی نشان اس کو دوسروں سے مخصوص کرتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ‘ڈاکٹرز نے ہم سے کہا تھا کہ یہ نشان جورجیا کی عمر کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گا لیکن ایسا نہ ہوا، یہ نشان اسی سائز کا اب تک موجود ہے، نا ہی اس کا رنگ ماند پڑا’۔

  • دل کی شریانوں کو کھولنے کے لیے نیا طریقہ علاج

    دل کی شریانوں کو کھولنے کے لیے نیا طریقہ علاج

    خون کی شریانوں میں جمع ہونے والی چربی خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے، اس سے نجات کے لیے مختلف نوعیت کی سرجریز کی جاتی ہیں۔

    امراض قلب کی سب سے بڑی وجہ یعنی خون کی شریانوں کی تنگی کو دور کرنے کے لیے انجیو پلاسٹی، اوپن ہارٹ سرجری یا بائی پاس آپریشن کیا جاتا ہے۔

    تاہم اب ایک نئی ٹیکنالوجی کے تحت لیزر اور الٹرا ساؤنڈ سے بھی شریانوں اور رگوں میں جمع کچرے یعنی پلاک کو گھلا کر ختم کیا جاسکتا ہے۔

    یونیورسٹی آف کنساس کے سائنس دانوں نے خرد بینی بلبلوں کو پھاڑ کر پلاک دور کرنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ ماہرین نے اسے مؤثر، محفوظ اور قابل عمل قرار دیا ہے۔

    اسے لیزر انجیو پلاسٹی کا نام دیا گیا ہے جوایک طرح سے اب بھی رائج ہے لیکن اس میں الٹرا ساؤنڈ کا اضافہ ایک نئی ٹیکنالوجی بھی ہے۔

    فرق یہ ہے کہ انجیو پلاسٹی میں تو اسٹنٹ یا غبارہ وسیع کرکے پلاک کو دبا کر شریانی راہ کھولی جاتی ہے، لیکن لیزر انجیو پلاسٹی میں رگ سے لیزر کا تار تنگی والے مقام تک پہنچایا جاتا ہے۔

    یہاں طاقتور لیزر شریان میں موجود مائع کو گرم کرکے بلبلے بناتی ہے جو پھٹنے لگتے ہیں اور یوں شریانوں میں جمی چربی کا رکاوٹی کچرا صاف ہوجاتا ہے بلکہ تباہ ہوجاتا ہے۔

    لیکن بلند توانائی کی لیزر سے شریان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

    اب ماہرین نے کم قوت کی نینو سیکنڈ لیزر سے شریان کے اندر بلبلے بنائے اور انہیں بیرونی الٹرا ساؤنڈ سے مزید پھیلایا جو پھٹ گئے اور پلاک کو صاف کردیا۔

    ماہرین کے مطابق لیزر اور الٹرا ساؤنڈ کے ملاپ سے دیگر بہت سے علاج ممکن ہیں جن میں آنکھ کے اندر بننے والی ابنارمل رگیں اور شریانوں کا علاج بھی شامل ہے۔

  • انسانی دل کے خلیات سے روبوٹک مچھلی تیار

    انسانی دل کے خلیات سے روبوٹک مچھلی تیار

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے انسانی دل کے خلیات کی مدد سے تیرنے کی صلاحیت رکھنے والی مچھلی تیار کی ہے، مچھلی کو کاغذ، پلاسٹک، جیلاٹین اور انسانی دل کے پٹھوں کے خلیات سے تیار کیا گیا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی اور ایموری یونیورسٹی کے ماہرین نے مکمل طور خود کار بائیو ہائبرڈ مچھلی تیار کی ہے جس کو انقلابی پیشرفت قرار دیا جارہا ہے جو مستقبل میں دل کے پیچیدہ مصنوعی اعصاب کی تیاری میں مددگار ثابت ہوگی۔

    اس مچھلی کو کاغذ، پلاسٹک، جیلاٹین اور انسانی دل کے پٹھوں کے خلیات سے تیار کیا گیا ہے۔

    یہ مچھلی اپنی دم کو دائیں بائیں ہلا سکتی ہے جس سے اسے تیرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کے تیرنے کا انداز دھڑکن جیسا ہوتا ہے۔

    ہارورڈ اسکول آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز کی جانب سے ٹویٹر پر اس روبوٹک مچھلی کی ویڈیو بھی شیئر کی گئی۔ ماہرین نے بتایا کہ اس تحقیق سے دل کے علاج جیسے پیس میکرز میں پیشرفت کرنے میں مدد ملے گی۔

    انہوں نے کہا کہ دل بہت زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے اور اس کی ساخت کی نقل ہی کافی نہیں، دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے مصنوعی دل تیار کرنے کے لیے ہمیں اس عضو کے بارے میں سب کچھ جاننا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ مصنوعی مچھلی کب تک متحرک رہے گی مگر وہ 100 سے زیادہ دن تک تیرتی رہی۔

    انہوں نے کہا کہ اس مچھلی میں دل کے بائیو فزکس کی نقل کرکے ہم نے خلیات کے اندر متعدد ایسے پراسیس متحرک کیے جو خود کو مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں ہم ان خلیات اور ٹشوز کو زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

    اس تجربے میں جن خلیات کا استعمال کیا گیا وہ ورزش کے ساتھ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ انہیں ہارٹ فیلیئر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ موجودہ غیرمعمولی پیشرفت کے باوجود اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

  • ‘پاکستان میں دل کے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے’

    ‘پاکستان میں دل کے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے’

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سید نصرت شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کے پٹھوں کی کمزوری (ہارٹ فیلیئر) کا مرض وبائی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، ان مریضوں کا پہلے مرحلے میں علاج کر کے انھیں موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے تحت ‘فرسٹ کارڈیک الیکٹروفزیالوجی سمپوزیم آن ڈرگس، ڈیوائس بیسڈ تھراپی فار ہارٹ فیلیئر’ کا انعقاد کیا گیا، جس سے پروفیسر خاور عباس کاظمی، پروفیسر زاہد جمال، ڈاکٹر اعظم شفقت، ڈاکٹر عامر حمید خان، ڈاکٹر طاہر بن نذیر، ڈاکٹر غزالہ عرفان، ڈاکٹر فوزیہ پروین، ڈاکٹر طارق فرمان، ڈاکٹر فیصل خانزادہ نے خطاب کیا۔

    پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ دل کے پٹھوں کی کمزوری (ہارٹ فیلیئر) کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا حجم کینسر (سرطان ) سے بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے، ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، چوں کہ پٹھوں کی کمزوری کا عمل بتدریج ہوتا ہے، اس لیے دل کے پٹھوں کی کمزوری کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص سے ہارٹ فیلیئر سے اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا علاج کی جدید ترین سہولتیں عوام کو فراہم کی جانی ضروری ہیں، ڈاؤ یونیورسٹی دل کے علاج کی تمام جدید ترین سہولتیں عوام کو مناسب ترین قیمت میں فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صحت مند طرز زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹرز کو بھی اپنے طرز عمل سے کوئی غلط پیغام عوام کو نہیں دینا چاہیئے، دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض ڈاکٹرز خود سگریٹ نوشی کرتے ہیں، مریضوں کو بھی اس کا علم ہوتا ہے، ڈاکٹر کو قطعی طور پر سگریٹ نوشی یا کوئی بھی ایسا طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگ غلط پیغام لیں۔

    سمپوزیم سے خطاب میں ماہرین نے بتایا کہ سمپوزیم کے انعقاد کا مقصد ہارٹ فیلیئر کے جدید طریقہِ علاج کے بارے میں ڈاکٹرز اور طلبہ کو آگاہی فراہم کرنا ہے، ہارٹ فیلیئر میں دل کے پٹھے پہلے کمزور اور بعد میں ناکارہ ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں دل خون کو پمپ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

    پروفیسر اعظم شفقت نے کہا کہ جدید طریقہ علاج میں تاروں (پٹھوں) کو درست کیا جاتا ہے اس علاج کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مہنگا ہے، متعین درست منصوبہ بندی کر کے اس کی لاگت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

    ڈاؤ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کےڈائریکٹر ڈاکٹر طارق فرمان نے کہا کہ انجیوپلاسٹی کی سہولت اور ارزاں قیمتوں پر فراہمی کے بعد اب ہمیں ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کے لیے طبی میدان میں موجود تمام آلات کار اور صلاحیتیں استعمال کر کے ایک کامیاب حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے پٹھوں کی کمزوری کے مریضوں کا جدید ترین اور ارزاں علاج ہو سکے۔

    انھوں نے کہا عام طور پر اچانک حرکت قلب بند (سڈن کارڈیک ڈیتھ) ہونے سے موت کو ہارٹ فیلیئر سمجھا جاتا ہے جب کہ طبی اصطلاح میں ہارٹ فیلیئر اچانک دل بند ہونے کو نہیں بلکہ مرحلہ وار دل کے اعضا کمزور ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل خان زادہ نے کہا کہ دل کے پٹھے کمزور ہونے کا عمل چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، بلڈ پریشر یا شوگر کے مرض کی باقاعدہ دوا استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں اس کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، اور سانس پھولنے کا عمل اس کے تشویش ناک مرحلے میں داخل ہونے کی نشانی ہے، یہ تیسرا مرحلہ تصور کیا جاتا ہے اس مرحلے کو دواؤں سے آگے بڑھ کر جدید علاج یعنی الیکٹروفزیالوجی کے مختلف طریقوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ آخری مرحلے میں پہنچنے سے بچا جا سکے۔

    انھوں نے کہا آخری مرحلے میں دل کے پٹھے کمزور ہو کر خون پمپ کرنے کے قابل نہیں رہتے اور بالکل ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

  • ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ افراد جو ڈیری مصنوعات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل پی ایل او ایس میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین نے دودھ کے استعمال اور دل کی صحت سے متعلق 18 مطالعات کا جائزہ لیا جو پچھلے 16 سال کے دوران سوئیڈن، امریکا، برطانیہ اور ڈنمارک میں کیے گئے تھے۔

    ان تمام مطالعات میں مجموعی طور پر 47 ہزار سے زائد رضا کار شریک ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر کی ابتدائی عمر 60 سال کے لگ بھگ تھی۔

    اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ دودھ اور دودھ سے بنی غذائیں مثلاً دہی، مکھن اور پنیر وغیرہ زیادہ استعمال کرنے والوں میں امراض قلب کی شرح خاصی کم تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اپنے روزمرہ معمولات میں سب سے زیادہ دودھ اور ڈیری مصنوعات استعمال کرنے والوں کےلیے دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی سب سے کم دیکھا گیا۔

    ان کے مقابلے میں وہ افراد جن میں ڈیری پروڈکٹس استعمال کرنے رجحان کم تھا، ان کی بڑی تعداد اپنی بعد کی عمر میں دل اور شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئی۔

    واضح رہے کہ طبّی ماہرین پچھلے کئی سال سے دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کم مقدار استعمال کرنے پر زور دیتے آرہے ہیں کیونکہ ان میں چکنائی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، البتہ دوسری کئی تحقیقات سے اس کے برخلاف نتائج بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

    آسٹریلیا، امریکا، سوئیڈن اور چین کے ماہرین پر مشتمل اس مشترکہ پینل کی تحقیق نے بھی صحت کے حوالے سے دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی افادیت ثابت کی ہے۔

    ریسرچ پیپر کی مرکزی مصنفہ اور جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ آسٹریلیا کی پروفیسر کیتھی ٹریو کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے دودھ پر مبنی غذاؤں کا استعمال مکمل طور پر ترک کردینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی سنگینی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے مخصوص خلیات میں تبدیلی لا کر ان کے افعال میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔

    برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارد گرد موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔

    دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو جب کرونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کر کے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔

    اس پروٹین کو کرونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد خارج کرتا ہے۔

    اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا ہے، پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک پروٹین کے زیر اثر آنے پر ان کا علاج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی 147 نامی ریسیپٹر کو بلاک کر کے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورم کا باعث بننے والا کیمیکل پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جا سکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک تھام کے ذرائع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے تک پھیلا دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر، ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنا دیتا ہے۔

  • دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بعض مریضوں کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، اب حال ہی میں اس کی ایک اور علامت سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کو دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی جیسی علامت کا بھی طویل المعیاد بنیادوں پر سامنا ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں 875 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی جانب سے نظام تنفس کی بیماری کی علامات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 234 میں بعد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور محققین نے ویئر ایبل ڈیوائسز کی مدد سے ان کی بیماری کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچھ مریضوں کی دھڑکن کی رفتار اور نیند کے رجحان کو معمول پر آنے میں 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

    ویئر ایبل ڈیوائسز سے ان کے روزانہ قدموں سے توانائی کی سطح کی جانچ پڑتال سے دریافت ہوا کہ بیماری کی علامات کے آغاز کے بعد کم از کم 30 دن لگے جب ان کی جسمانی توانائی کی سطح معمول پر آسکی۔

    مجموعی طور پر کووڈ 19 کے شکار افراد میں دھڑکن کی رفتار کو معمول پر آنے میں اوسطاً 79 دن اور توانائی کی سطح بحال ہونے میں 32 دن لگے۔ دھڑکن کی بے ترتیبی کا مسئلہ ان افراد میں زیادہ عام تھا جن کو کووڈ کے دوران کھانسی، جسمانی درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا۔

    ماہرین نے کہا کہ تنائج سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے کی وجہ جاننا یہ تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ کس کو کووڈ سے منسلک ورم یا مدافعتی نظام تھم جانے کا سامنا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سنسر ڈیٹا اس وائرس سے لوگوں کے جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کو جاننے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد دل کی کسی قسم کی علامات کو نوٹس نہیں کرتے تاہم دھڑکن کی رفتار کا غیر اطمینان دہ احساس کچھ افراد کو ہوتا ہے۔

    کچھ افراد کو لگتا ہے کہ محض ٹوائلٹ تک جانے سے ہی ان کا دل تیزی سے بھاگنے لگا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ بیشتر افراد چند ہفتوں میں کووڈ کو شکست دے دیتے ہیں اور کسی قسم کے اثرات کا سامنا نہیں ہوتا، مگر جب دھڑکن کی رفتار بڑھتی ہے تو بیشتر افراد کو عدم اطمینان کا احساس ہوتا ہے، مگر اس سے ہٹ کر فی الحال کسی قسم کے سنگین نتائج سامنے نہیں آئے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو ان علامات کا سامنا 3 ماہ سے زیادہ ہوتا ہے یا جسمانی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں تو پھر خدشہ ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

  • دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    دل کے امراض کا آسان علاج کیا ہے؟

    بدلتے ہوئے غیر صحت مندانہ طرز زندگی نے امراض قلب میں تشویشناک حد تک اضافہ کردیا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ زندگی کی اس مصروفیت کو برقرار رکھتے ہوئے دل کا خیال کیسے رکھا جائے۔

    ماہرین صحت کے مطابق امراض قلب دنیا بھر میں انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ہر سال دنیا بھر میں 1 کروڑ 80 لاکھ کے قریب افراد دل کی بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر فیصل ضیا نے شرکت کی اور اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ امراض قلب کی شرح میں اضافے کی وجوہات غیر صحت مندانہ طرز زندگی، بہت زیادہ کام کا بوجھ، نیند کا خیال نہ رکھنا، جنک فوڈ کا استعمال، ورزش نہ کرنا اور ذہنی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہونا ہے۔

    انہوں نے کہا کم عمری میں سگریٹ کی لت لگ جانا بھی اس کی اہم وجہ ہے، اکثر 20 سے 25 سال کی عمر کے افراد کا بلڈ پریشر بھی اسی وجہ سے ہائی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی کے خاندان میں امراض قلب کی تاریخ موجود ہے تو ایسے شخص کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ اگر 24 گھنٹے کی مصروفیت میں صرف 1 گھنٹہ اپنے لیے مختص کیا جائے اور ہلکی پھلکی ورزش کرلی جائے تو دوران خون بہتر ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    علاوہ ازیں روزمرہ کی خوراک کو بھی زیادہ سے زیادہ صحت مند اور متوازن بنایا جائے۔

    ڈاکٹر فیصل کے مطابق ہارٹ اٹیک اور کارڈیک اریسٹ میں فرق یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک میں خون کا بہاؤ دل کی طرف رک جاتا ہے (عموماً خون کے لوتھڑے بننے کے سبب) جبکہ کارڈیک اریسٹ میں دل میں اچانک کوئی خرابی واقع ہوتی ہے اور وہ دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔

    انبہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ادھیڑ عمر افراد کی اکثریت کو صحت یابی کے بعد دل کی تکلیف کا سامنا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے جس سے دل کو خون پمپ کرنے اور آکسیجن کھینچنے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ ایک دفعہ ہارٹ اٹیک ہوجانے کے بعد کسی بھی عمر کے شخص کو نہایت محتاط ہوجانا چاہیئے کیونکہ دوسرا دورہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس دل کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب

    کرونا وائرس دل کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب

    انسانی جسم پر کرونا وائرس کے مختلف نقصانات کی فہرست طویل ہے، اب حال ہی میں سامنے آنے والے ایک اور نقصان نے ماہرین کو پریشان کردیا ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 کا شکار اسپتال میں زیر علاج افراد میں سے 50 فیصد کو اس مرض سے صحت یاب ہونے کے بعد امراض قلب کی شکایت ہوسکتی ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے نتیجے میں سنگین حد تک بیمار ہو کر لندن کے 6 اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے 148 مریضوں کو شامل کیا گیا۔

    ان تمام مریضوں میں ایک پروٹین ٹروپونین کی سطح میں اضافے کو دیکھا گیا جو خون میں اس وقت خارج ہوتا ہے جب دل کے پٹھوں کو انجری کا سامنا ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے بیشتر مریضوں میں اس وقت ٹروپونین کی سطح میں اضافے کو دیکھا گیا جب ان میں بیماری کی شدت بہت زیادہ بڑھ گئی اور جسم کی جانب سے بیماری کے خلاف مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوگیا۔

    ان مریضوں کے اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم ایک ماہ بعد ان کے دل کے ایم آر آئی اسکینز کیے گئے اور معلوم ہوا کہ 54 فیصد افراد کے دلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس نقصان میں دل کے پٹھوں میں ورم، ان پر خراشیں یا دل کے ٹشوز کا مردہ ہونا اور دل کی جانب سے خون کی سپلائی محدود ہونا شامل تھا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کے دوران دل براہ راست متاثر ہوتا ہے، یہ وجہ بتانا مشکل ہے کہ دل کو نقصان کس طرح پہنچتا ہے مگر دل کے ایم آر آئی اسکینز سے مختلف اقسام کی انجریز کی شناخت ہوتی ہے، جس سے ہمیں زیادہ بہتر تشخیص اور مؤثر علاج کو ہدف بنانے میں مدد مل سکے گی۔

    کچھ مریضوں میں دل کے مسائل کووڈ 19 سے متاثر ہونے سے پہلے بھی موجود تھے مگر ایم آر آئی اسکینز سے ثابت ہوا کہ بیشتر میں یہ مسائل نئے تھے اور ممکنہ طور پر کووڈ ہی اس کی وجہ تھی۔