Tag: دلچسپ حقائق

  • گہرے سمندر میں پائی جانے والی خوفناک جاندار کی جھلک، چونکا دینے والی ویڈیو دیکھیں

    گہرے سمندر میں پائی جانے والی خوفناک جاندار کی جھلک، چونکا دینے والی ویڈیو دیکھیں

    حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں زیرِ گردش رہیں کہ سمندر میں کچھ عجیب ہونے والا ہے اور اسے گہرے پانی کی نایاب مخلوق کے سطح سمندر یا ساحل پر نمودار ہونے سے منسلک کیا جارہا ہے۔

    حال ہی میں ایک انتہائی عجیب و غریب اور خوفناک سمندری جاندار کو دیکھا گیا جس کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے، اس مخلوق کے دانت انتہائی تیز اور راکشس (دیوقامت) جیسے نظر آتے ہیں، جبکہ آنکھیں موتیوں کی طرح چمکدار ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس مخلوق کو "ٹیلی اسکوپ فِش” کا نام دیا ہے یہ مچھلی اپنی بڑی بڑی ٹیوب جیسی آنکھوں سے دور فاصلے پر موجود شکار کو بھی پہچان سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی آنکھوں میں بایو لومی نینس (Bioluminescence) یعنی روشنی پیدا کرنے کی خاص صلاحیت ہوتی ہے، جس کی مدد سے یہ گہرے سمندر میں بھی آسانی سے دیکھ سکتی ہے۔

    ٹیلی اسکوپ فِش عام طور پر سمندر کی 500 سے 3000 میٹر گہرائی میں رہتی ہے، جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ہے، یہ ایک نایاب اور کم دکھائی دینے والا سمندری جاندار ہے، جو انسانوں کی نظروں سے اکثر اوجھل رہتا ہے۔

    ماہرین حیاتیات نے اس دریافت کو نہایت ہی دلچسپ اور اہم قرار دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی اسکوپ فِش جیسے جانداروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں آج بھی کئی راز چھپے ہوئے ہیں، جن کا انکشاف ہونا باقی ہے۔

    دلچسپ حقائق

    اس کی آنکھیں روشنی کے حساس خلیوں سے بھری ہوتی ہیں، جو کم روشنی میں بھی شکار کو دیکھنے میں مدد دیتی ہیں، اس کا جسم شفاف یا ہلکا ہوتا ہے، جو اسے گہرے پانی میں چھپنے میں مدد دیتا ہے، اس کی ہاضمہ کی صلاحیت غیر معمولی ہے، جو اسے اپنے سائز سے بڑے شکار کو ہضم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

    ٹیلیسکوپ فش کا نام اس کی آنکھوں کی شکل کی وجہ سے پڑا، جو دوربین (ٹیلیسکوپ) کی طرح لمبی اور ٹیوبلر ہوتی ہیں۔

  • ماضی بعید کی 6 گمشدہ تہذیبیں اور دلچسپ حقائق

    ماضی بعید کی 6 گمشدہ تہذیبیں اور دلچسپ حقائق

    بنی نوع انسان کی تاریخ تہذیبوں سے عبارت ہے، جب تہذیب کی ابتداء ہوتی ہے تو انسانی ذہن اِس کو اپنے عروج پر لے جاتا ہے اور پھر بالآخر تہذیب زوال کا شکار ہو کر اپنی نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔

    قدیم اور گمشدہ تہذیبوں کے بارے میں ہماری معلومات کا انحصار اُس کی تعمیر شدہ اور چھوڑی ہوئی عمارتوں کے کھنڈرات  پر ہوتا ہے۔

    محکمہ آثارِ قدیمہ مٹی میں مدفون گمشدہ تہذیبوں کو ڈھونڈ کر باہر نکالتی ہے اور اُن سے مِلنے والی اشیاء کی مدد سے اُن کی کھوئی ہوئی زندگی کو بحال کرتی ہے۔

    معلومات کا دوسرا ماخذ تحریر ہوتی ہے لیکن قدیم تحریروں کو دریافت کرنے اور پڑھنے میں طویل عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔

    وادی سندھ کی بات کی جائے تو اس کی تہذیب کا رسم الخط تو تھا مگر اُسے دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے ہماری معلومات کا انحصار صرف آثارِ قدیمہ پر ہے۔

    اسی طرح تاریخِ انسانی میں دیگر عظیم اور گمشدہ تہذیبیں قائم ہوئیں، پروان چڑھیں اور پھر زوال پذیر ہوکر قصہ پارینہ بن گئیں۔

    ان میں سے کئی کا ذکر مؤرخین نے تفصیل سے کیا اور بعد کی تہذیبوں نے ان کے عروج و زوال کے نشانات محفوظ کیے لیکن کچھ گمشدہ تہذیبیں اچانک غائب ہوگئیں۔

    کچھ تہذیبوں نے اپنی تباہی کے اسباب کے اشارے چھوڑے جبکہ دیگر کی گمشدگی تاحال ایک پوشیدہ راز بنی ہوئی ہے جس کو جاننے کیلیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

    زیر نظر مضمون میں کچھ ایسی ہی 6 پراسرار اور گمشدہ تہذیبوں کا ذکر کیا گیا ہے جن بارے میں جان آپ پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔

    مایا تہذیب

    maya

    مایا تہذیب اپنے عروج پر یوکاٹن جزیرہ نما، موجودہ گوئٹے مالا، بیلیز اور میکسیکو کے حصوں میں پھیلی ہوئی تھی اور اپنی حیرت انگیز مہارتوں اور پیچیدہ ریاضیاتی نظام کے لیے مشہور تھی۔

    900عیسوی کے قریب یہ تہذیب اچانک زوال پذیر ہوگئی۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ تہذیب جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوئی، جس کی وجہ سے قحط پڑا اور بڑے شہروں سے نقل مکانی ہوئی۔ دیہی علاقوں میں وسائل کی کمیابی نے بھی انحطاط میں کردار ادا کیا ہوگا۔

    خمیر ایمپائر کی تہذیب

    Khmer empire

    دنیا کے دوسری طرف خمیر ایمپائر نے موجودہ کمبوڈیا کے علاقے میں ایک مضبوط بنیاد رکھی تھی۔ انگکور اس تہذیب کا ایک عظیم شہر تھا، جس کے پیچیدہ سڑکوں اور نہری نظام کی تعمیر نے حیرت انگیز ترقی کو ظاہر کیا۔

    خمیر ایمپائر کا عروج 1000 سے 1200 عیسوی کے درمیان تھا لیکن یہ اچانک ختم ہوگئی۔ ماہرین کے مطابق اس کے زوال کی وجوہات جنگ سے لے کر ماحولیاتی تباہیوں تک کچھ بھی ہوسکتی ہیں۔

    ہڑپّہ : وادیِ سندھ کی تہذیب

    Indus civilization

    وادیِ سندھ یا ہڑپہ تہذیب قدیم دنیا کی سب سے بڑی تہذیبوں میں سے ایک تھی، جو موجودہ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے عروج پر پانچ ملین کی آبادی اور شاندار تعمیرات موجود تھیں۔

    یہ تہذیب تقریباً 3000 سال قبل نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہوگئی، ایک مفروضے کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیاں، خشک سالی اور قحط اس کے زوال کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    ایسٹر آئی لینڈ کی تہذیب

    Easter Island

    ایسٹر آئی لینڈ جو اپنے عظیم پتھری مجسموں کے لیے مشہور ہے، پولینیشین تہذیب کا مسکن تھا۔ یہاں کے باشندے ماہر ملاح تھے اور دیگر حیرت انگیز صلاحیتوں کے حامل تھے۔ تاہم، اس تہذیب کے زوال کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ قدرتی وسائل کی کمی اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بیماریاں اور دیگر عوامل بھی زوال کا سبب بنے ہوں گے۔

     چاتاویوک تہذیب

    south central Turkey Çatalhöyük

    موجودہ وسطی ترکی کا علاقہ کبھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک چاتاویوک کا مسکن تھا۔ یہ تہذیب 9000 سے 7000 سال پہلے ترقی پذیر رہی لیکن پھر اچانک ختم ہوگئی۔

    چاتاویوک کی منفرد خصوصیت اس کا شہد کے چھتے نما طرز تعمیر تھا، گھر آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ان میں چھتوں کے راستے داخل ہوا جاتا تھا۔ یہ تہذیب اپنے پیچھے رسم و رواج اور زندگی کے بارے میں کئی اہم اشیاء چھوڑ گئی۔

    مسی سیپیئنز تہذیب

    Mississippians

    700عیسوی سے لے کر یورپی استعمار تک امریکی جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں ایک زراعتی تہذیب آباد تھی جسے ’مسی سیپیئنز‘ تہذیب کہا جاتا ہے۔

    اس کا ایک اہم شہر ’کاہوکیا‘ تھا جو موجودہ کولنز ول، الینوائے کے قریب واقع تھا تقریباً 40ہزار افراد پر مشتمل اس تہذیب نے بڑے چوک، مٹی کے بنے ہوئے اہرام اور ستاروں کا مشاہدہ کرنے کے لیے لکڑی کے ڈھانچے تعمیر کیے۔

    اس تہذیب کے زوال کی وجوہات بھی یقین کے ساتھ معلوم نہیں لیکن ماحولیات کی خرابی یا قحط و بیماری ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔

  • پہلے سزا یافتہ امریکی صدر ٹرمپ کو فتح کیسے ملی؟ دلچسپ  حقائق

    پہلے سزا یافتہ امریکی صدر ٹرمپ کو فتح کیسے ملی؟ دلچسپ حقائق

    کیا عجیب اتفاق ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت جس کا دورانیہ دو سو سال پر محیط ہے اس کا حالیہ صدر ایک سزا یافتہ شخص ہے جس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ پے۔

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں فتح کی داستان اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر ایک فلم کا اسکرپٹ تیار کیا جاسکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے تفصیلی گفتگو کی اور صدر ٹرمپ کی مذکورہ داستان پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ نے تقریباً 91 مختلف نوعیت کے الزامات اور مقدمات کے ساتھ اپنی دوسری صدارتی مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں سال 2020 کے انتخابات کے نتائج نہ ماننے سمیت 6 جنوری 2021کو کیپیٹل ہل پر حملے کیلئے لوگوں کو اکسانے کے الزامات بھی شامل تھے۔

    اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیو یارک میں ایک اداکارہ کو غیر قانونی ہش رقم ادا کرنے پر 34 سنگین جرائم میں قصور وار پایا گیا تھا جس کے بعد وہ پہلے سابق صدر تھے جن پر فرد جرم عائد کی گئی اور پھر باقاعدہ سزا بھی سنائی گئی۔

    ٹرمپ پر نصف ملین ڈالر سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا جب عدالتوں نے قرار دیا کہ انہوں نے مصنف ای جین کیرول کو بدنام کیا اور اپنے کاروبار میں مالی فراڈ کا ارتکاب کیا۔

    20دسمبر 2023کو ریاست کولوراڈو نے 6جنوری کو کیپیٹل ہل حملے کے الزامات پر 14ترمیم کے سیکشن تھری کے تحت ٹرمپ پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے تحت وہ اپنی ریپبلکن پارٹی میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اس کے بعد مزید دو ریاستوں ایلینوس اور مین میں بھی ٹرمپ پر یہی پابندی عائد کردی گئی۔

    لیکن 4مارچ 2024کو امریکی سپریم کورٹ کے 9 ججز نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ امریکی ریاستیں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار بننے سے نہیں روک سکتیں اور ساتھ ہی انہیں الیکشن لڑنے کیلیے اہل قراردے دیا تھا۔

    اس فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے غلط طو رپر فرض کیا تھا کہ ریاستں اس بات کا تعین کرسکتی ہیں کہ وہ صدارتی امیدوار یا وفاقی دفتر کے لیے کسی دوسرے امیدوار کو نااہل قرار دے سکتی ہیں۔

    امریکی سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یہ ریاستوں کا نہیں کانگریس کا کام ہے کہ وہ ایسے قوانین کو وفاقی دفاتر کی امیدوار کے خلاف کس طرح نافذ کرتی ہیں۔

    ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف مقدمات ہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ دو مرتبہ قاتلانہ حملوں سے محفوظ رہ کر صدارتی امیدوار کی کرسی تک پہنچے، 5نومبر کو ہونے والی ٹرمپ کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو ووٹ ان پر لگے الزامات اور مقدمات کو بالائے طاق رکھ کر دیا ہے۔

    ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ صرف یہ ہی نہیں اس الیکشن کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ روایتی میڈیا کی بھی موت ہے کیونکہ تمام پولز تمام الیکشن سرویز اور تمام اخبارات ڈونلڈ ٹرمپ کی اتنے بڑے مارجن سے جیت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے، سب کے تجزیے غلط ثابت ہوئے اور اس غلطی کا اندازہ خود امریکی میڈیا کو بھی ہوگیا ہے اور خود اپنا موازنہ کررہا ہے۔

    ٹرمپ کی جیت میں سوشل میڈیا کا کردار

    ماریہ میمن نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں ان کے 18 سالہ صاحبزادے بیرن ٹرمپ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا بیرن ٹرمپ نے ہی اپنے والد کو بتایا کہ سوشل میڈیا کیسے استعمال کیا جائے؟ انہیں کن پوڈ کاسٹ میں جانا چاہیے کن موضوعات پر زیادہ بات کرنی چاہیے یا عوام کیا سننا چاہتے ہیں۔

  • مسافر طیارہ ہزاروں فٹ بلندی پر کیوں اڑتا ہے؟ دل چسپ معلومات

    مسافر طیارہ ہزاروں فٹ بلندی پر کیوں اڑتا ہے؟ دل چسپ معلومات

    کیا آپ کو اپنا پہلا فضائی سفر یاد ہے؟

    جہاز کے اڑان بھرنے کے ساتھ ہی آپ کی گھبراہٹ بڑھ گئی ہو گی اور جب آپ نے فضائی میزبان کی جانب سے یہ اناؤنسمنٹ سنی ہو گی کہ  جس  جہاز  میں  آپ سفر کررہے ہیں اب وہ زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر پرواز کررہا ہے تو آپ کا کیا حال ہوا ہو گا؟

    سوچیے، آپ زمین سے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ مسافر بردار طیارے اس سے کم بلندی پر کیوں پرواز نہیں کرتے؟

    انجینئرنگ سائنس اور ایوی ایشن کے ماہرین اس کی متعدد وجوہ بتاتے ہیں جن میں چند اور اہم ترین یہ ہیں۔

    بلندی پر ہونے کی وجہ سے کمرشل طیاروں کو ہوا کی کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ ہوا کے مستحکم ہونے کی وجہ سے جہاز کو پرواز کرنے میں آسانی رہتی ہے اور اضافی ایندھن بھی خرچ نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی کمرشل فلائٹ کم ایندھن خرچ کر کے اپنی منزل پر پہنچ سکتی ہے۔

    کم بلندی پر ہوا میں زیادہ ایئر پیکٹس ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جہاز کو زیادہ جھٹکے لگتے ہیں اور یہ اس کی رفتار پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے نزدیک بلندی پر ایمرجنسی کی صورت میں پائلٹ جہاز کو نسبتاً آسانی سے سنبھال سکتا ہے۔

    ایک اور وجہ کم بلندی پر چھوٹے طیاروں کی پرواز بھی ہے۔ کسی بھی مسافر بردار طیارے کو ان چھوٹے طیاروں کی فضا میں موجودگی سے خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بلندی پر پرواز کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسافر بردار طیارے کے انجنوں کو ان کی ضرورت کے مطابق اور مطلوبہ مقدار میں آکسیجن ملتی رہے۔ بلندی پر آکسیجن کی یہ مقدار انجنوں کو ملتی رہتی ہے۔

  • نئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ ساز تشکیل: چند دل چسپ حقائق کے ساتھ

    نئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ ساز تشکیل: چند دل چسپ حقائق کے ساتھ

    ادھرپاکستان کی جمہوری تاریخ نے اہم سنگِ میل عبور کیا اور ادھر نئے اور دل چسپ واقعات کا ظہور ہونے لگا، پورا ملک ایک نئی کروٹ لیتا دکھائی دے رہا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں مسلسل تیسری بار قومی اسمبلی اپنی تشکیل کے عمل سے پُر امن طور پر گزرنے لگی ہے، اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے، ایک دوسرے کے دشمن سمجھے جانے والے ایک بار پھر جمہوری اسٹیج پر مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے دکھائی دیے۔

    عام لوگ ایسے مناظر دیکھ کر ایک دوسرے کی پارٹی وابستگیوں کو طنز کا نشانہ بنانے لگتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انتخابی سیاست الگ ہوتی ہے اور حکومت بننے کے بعد ملکی معاملات چلانے کا عمل بالکل الگ ہوتا ہے۔

    ایک دہائی سے قوم جس شخص کا نام لے رہی ہے اور جس کا نام اکثر منفی طور پر لیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان کا نام بھی نہیں لیا جاتا اور اشارہ کردیا جاتا ہے کہ ’سمجھ تو گئے ہوں گے‘ جس نے پہلی بار ملکی تاریخ کو نئی سمت دکھائی، اور جمہوری حکومت کو پانچ سال کا ہندسہ عبور کروایا، وہ آصف علی زرداری پہلی بار  اسمبلی میں قدم رکھنے والے اپنے بیٹے بلاول کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہوئے۔

    قومی اسمبلی کے اراکین کی فہرست والی دستاویز پر سب سے پہلا دستخط بھی زرداری نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کیا، انتخابات 2018 میں ایک دوسرے کے بد ترین حریف دکھائی دینے والے پارٹی سربراہان عمران خان، آصف زرداری، بلاول زرداری اور شہباز شریف ایوانِ بالا میں ایک ساتھ دکھائی دیے۔

    [bs-quote quote=”ملک کی مسلسل تیسری مرتبہ تشکیل پانے والی اسمبلی کا سب سے اہم واقعہ وہ تھا جب عمران خان اور آصف زرداری نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا، شرمائے اور کپتان نے سابق صدر سے ہاتھ ملا لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوٹرن کا نان اسٹاپ طعنہ دینے والے چھوٹے زرداری نے نئے پاکستان کے متوقع وزیرِ اعظم کے ساتھ تصویر بھی بنوائی، اور شوباز کی پھبتی جس پر کستے رہے تھے ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔ یوں نئے پاکستان کی نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس سیاست دانوں کی مسکراہٹوں کی نذر ہو گیا۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی میں اس بار کچھ نئے چہرے بھی شامل ہوگئے ہیں، جس سے نئے پاکستان کا عکس اور عزم بھی جھلکتا ہے۔ ان نئے چہروں میں بلاول زرداری، فیصل واوڈا، خیبر پختونخوا کی پرعزم خاتون زرتاج گل، اسد قیصر، سابق وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، علی زیدی اور چوہدری حسین الہیٰ شامل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ سب سے کم عمر پارلیمنٹیرین بننے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ 26 سالہ چوہدری حسین الٰہی صدر مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت کے صاحب زادے ہیں۔

    نئے پاکستان کی نئی قومی اسمبلی سے اس بار کچھ پرانے بھی آؤٹ ہو گئے ہیں جو اس ملک کے لیے سب سے بڑا نیک شگون بھی ہے، ان میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، فاروق ستار، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار علی خان شامل ہیں۔ سب سے بڑا اَپ سیٹ وہ تھا جب جیپ قومی اسمبلی میں رسائی حاصل نہ کرسکی۔

    نئے پاکستان میں ابھی ہمیں مزید کیا کچھ دیکھنا پڑے گا، یہ وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوتا جائے گا، عمران خان نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں ’سرسبز پاکستان‘ کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر پودے اُگانے کی مہم جاری ہے، جس کا آغاز تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا میں درخت اگانے کی مہم کے ساتھ کیا تھا، جسے الیکشن سے قبل اے آر وائی کی ٹیم نے آگے بڑھایا اور اب پاک فوج اسے ایک نئی سطح تک لے جا رہی ہے۔