Tag: دلچسپ و عجیب

  • گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا (Guyana) جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع ایک ملک ہے، جس کی سرحدیں وینزویلا، سرینام اور برازیل سے ملتی ہیں۔ اس ملک کا قومی پرندہ Hoatzin ہے جسے فارسی میں گند مرغ کہتے ہیں جس کی وجہ اس کے جسم سے آنے والی بدبُو ہے۔

    یہ جنوبی امریکا اور اس خطّے کے گھنے جنگلات کے دلدلی علاقوں، جوہڑوں اور تالابوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے اور گیانا ہی نہیں برازیل، وینزویلا، کولمبیا کے بھی ایسے ہی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جس کا سارا دن گائے بھینسوں کی طرح پتّے وغیرہ کھاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہ کوئی بھی پھل کم ہی کھاتا ہے۔ کیڑے مکوڑے یا چھوٹے حشرات بالکل نہیں کھاتا۔ یہ ڈھیر سارے پتّے کھا کر اپنی خوراک کی نالی (گلے) میں مخصوص مقام پر ذخیرہ کرتا ہے اور یہاں قدرتی نظام کے تحت خاص بیکٹیریا اسے جسمانی غذائی ضرورت کے لیے مخصوص شکل میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ پتّے کھانے کی وجہ سے اس کے جسم سے مسلسل گائے کے گوبر جیسی بُو آتی رہتی ہے اور اس کا گوشت بھی بہت بدمزہ ہوتا ہے۔

    یہ مادہ سے ملاپ کے وقت نہایت پُراسرار اور خطرے کی صورت میں بھیانک قسم کی آواز نکالتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گند مرغ شور مچانے والا پرندہ ہے جو پرواز نہیں‌ کرسکتا اور درختوں پر اچھل کود کے علاوہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہوا میں غوطہ لگاسکتا ہے۔ قدرت نے اسے درختوں کی شاخوں پر تیزی سے اوپر نیچے اور لمبی چھلانگیں لگانے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ اس کے پیروں کے پنجے بڑے اور مضبوط ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ درخت کی شاخوں پر اپنی گرفت قائم رکھتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے بازوؤں میں بھی اندر کی جانب چھوٹے چھوٹے پنجے موجود ہوتے ہیں جن سے یہ ٹہنیوں پر اچھل کود کے دوران گرفت قائم رکھتا ہے۔ زمین سے کسی درخت پر چڑھنا ہو تو یہ اپنے پروں کو پھیلا کر ان کے اندر موجود پنجوں کو استعمال کرتے ہوئے آسانی سے اوپر چڑھ جاتا ہے۔

    یہ درختوں پر گھونسلا بھی بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پرندہ زیادہ تر دریا اور تالاب کے ساتھ موجود درختوں پر آشیانہ قائم کرتا ہے جہاں اس کے بچّے کسی حملہ آور کو دیکھ کر نیچے پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ خطرہ ٹل جانے پر باہر نکل کر تیرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں اور اپنے پیروں اور بازوؤں کے پنجوں کی مدد سے درخت پر بنے ہوئے اپنے گھونسلے میں دوبارہ پہنچ جاتے ہیں۔

    گند مرغ 12 سے 15 سال تک زندہ رہتے ہیں اور اکثر بازوں، سانپوں اور بندروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ اس کے مختلف نام ہیں جو اس کی خصوصیات کی بنا پر اسے ماہرین نے دیے ہیں۔ یہ خطرناک اور خوب صورت پرندہ ہے جس کی لمبی گردن اور آنکھوں کی سرخی مائل بھوری رنگت ہی نہیں‌ اس کے پروں کا پھیلاؤ بھی نہایت دل کش معلوم ہوتا ہے۔ سَر پر پروں کا تاج سا ہوتا ہے جو دور سے دیکھنے پر نہایت بھلا لگتا ہے۔

  • حادثے کی شکار مرغی کی ٹوٹی ٹانگوں کا کامیاب آپریشن

    حادثے کی شکار مرغی کی ٹوٹی ٹانگوں کا کامیاب آپریشن

    قاہرہ: مصر کے ایک علاقے میں حادثے کی شکار مرغی کی ٹوٹی ٹانگوں کے لیے ایک پیچیدہ آپریشن کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کے ایک شہر مرسی علم میں گھر کی چھت سے گر کر ایک مرغی کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں، جس پر مرغی کا آپریشن کیا گیا، اور اس کی ٹوٹی ہڈیاں جوڑ دی گئیں۔

    یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب و غریب آپریشن تھا، مرغی کی ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن پر 7 ہزار مصری پونڈ لاگت آئی۔ مصری اخبار الوطن کے مطابق مرغی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ جانے کے باعث بہت زیادہ مشکل میں تھی اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔

    جانوروں کے مصری ڈاکٹر محمد احمد نے بتایا کہ آپریشن سے قبل مرغی کا مکمل معائنہ کیا گیا تھا، اور اسے بے ہوش کر کے آپریشن کیا گیا، یہ آپریشن ایک گھنٹہ 45 منٹ تک جاری رہا اور اس میں دو ڈاکٹروں اور ایک معاون نے حصہ لیا۔

    مرغی کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سوئٹزرلینڈ کا باشندہ ہے اور مصر میں مقیم ہے، انھوں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ لیسکی نسل کی ان کی پالتو مرغی گھر کی دوسری منزل سے گری تھی، مرغی صحت مند اور بھاری بھرکم تھی، جس کی وجہ سے اس کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جب مرغی کے آپریشن کی خبر دی گئی تو یہ اطلاع بڑی تیزی سے وائرل ہو گئی، صارفین کا ردِ عمل دل چسپ تبصروں کی صورت میں سامنے آیا۔

    ایک صارف نے لکھا ’متاثرہ مرغی کے لیے مشورہ ہے کہ وہ آپریشن کے بعد انڈے استعمال کرے جو کیلشیم سے بھر پور ہوتے ہیں‘۔ ایک صارف نے مرغی کے علاج پر اتنی رقم خرچ کرنے پر سوئس شہری کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

  • دنیا بھر میں‌ نئے سال سے جُڑی دل چسپ اور عجیب و غریب روایات

    دنیا بھر میں‌ نئے سال سے جُڑی دل چسپ اور عجیب و غریب روایات

    نئے سال کا استقبال کرنے کے لیے جہاں دنیا بھر میں رنگا رنگ تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، وہیں اس روز کچھ عجیب و غریب رسومات اور روایات پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔

    دنیا کی بعض اقوام میں اس دن سے متعلق توہم پرستی بھی پائی جاتی ہے۔ کسی کے نزدیک گزرتے ہوئے سال کے کچھ خاص لمحے نحوست اور بدشگونی کی علامت ہوتے ہیں تو کوئی اسے خوش قسمتی سمیٹنے کا نادر موقع سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ اس روز کچھ خاص اعمال انجام دینا ضروری سمجھتے ہیں جب کہ مخصوص عبادات کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ سالِ نو سے متعلق چند عجیب و غریب تصورات اور روایات یہ ہیں۔

    رشتے داروں کے دروازے پر شیشے کے برتن توڑنا
    اس عجیب و غریب روایت پر برسوں سے ڈنمارک کے باسی عمل کرتے آرہے ہیں۔ وہاں شیشے کے پرانے برتنوں کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھروں کے صدر دروازے پر مار کر چکنا چور کر دیا جاتا ہے۔ اس روایت پر اکتیس دسمبر کی شام گہری ہوجانے پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دوستوں اور عزیزوں کو خوش بختی کا پیغام دینا ہوتا ہے۔

    دروازے، کھڑکیاں اور تمام لائٹس کھول دینا
    سال کی آخری شب فلپائن میں لوگ گھر کو برقی قمقموں سے روشن کر کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بھی کھول دیتے ہیں اور رات کے بارہ بجتے ہی پُھرتی کے ساتھ انھیں بند کر دیا جاتا ہے۔ اکتیس دسمبر کو فلپائن میں لوگ گول اشکال والی اشیا کا استعمال بڑھا دیتے ہیں جن میں پھل اور سبزیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اس روایت کے پیچھے تصور یہ ہے کہ اس طرح خوش حالی آئے گی اور نیا سال منافع بخش ثابت ہو گا۔

    بدقسمتی کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے جھاڑو دینا
    نئے سال کی آخری شب چلی کے لوگ قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ وہ یہ لمحات اپنے ان پیاروں کے ساتھ گزارتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ان سے دور جا چکے ہوں۔ اسی طرح اکتیس دسمبر کی رات منہ بھر کر دال کھانا بھی چلی میں خوش قسمتی سمیٹنے کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سال کی آخری رات گھر میں جھاڑو دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ خاندان نے بدقسمتی کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔

    بارہ انگوروں سے جڑی خوش نصیبی
    اسپین میں نئے سال کی آمد کا جشن مناتے ہوئے رات بارہ بجے سے پہلے اگر کوئی شخص بارہ انگور منہ میں رکھ کر ایک ساتھ کھا لے تو اسے خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔

    کھڑکی سے باہر پانی پھینکنے کی روایت
    پورٹو ریکو میں روایت ہے کہ گزرتے ہوئے سال کی آخری شام بالٹی یا گلاس میں پانی بھر کے گھر کی کھڑکی سے باہر پھینکا جائے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ اس عمل سے بُری قوتوں کو گھر سے باہر نکال دیتے ہیں۔

  • کرناٹکا میں چائے والےکی منفرد اسکیم، 5 روپے فی کپ پر آدھے گھنٹے انٹرنیٹ مفت

    کرناٹکا میں چائے والےکی منفرد اسکیم، 5 روپے فی کپ پر آدھے گھنٹے انٹرنیٹ مفت

    کرناٹکا : چھوٹے سے گاؤں کا چائے والا گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے 5 روپے کی چائے کے ایک کپ کے ساتھ آدھے گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت مفت فراہم کر رہا ہے، اس اقدام نے نوجوان ہوٹل والے کو سوشل میڈیا پرمقبول بنادیا۔

    تفصیلات کے مطابق 23 سالہ سید قدر علی باشا نے آبائی کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اپنے ہوٹل میں چائے پینے والوں کے لیے انٹر نیٹ کی مفت سہولت فراہم کرنے کا مشکل فیصلہ کیا جس پر نوجوان کو خاندان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا رہا تاہم اُس نے اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا کامیاب تجربہ کیا جسے شہریوں نے سراہا۔

    میٹرک پاس نوجوان نے ایم بی اے کی ڈگری لیے کسی شخص کی طرح چائے کے ہوٹل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور اس سلسلے میں سب سے پہلے اپنے ڈھابے کی شکل و صورت کو تبدیل کیا اور پھر اُس میں فری وائی فائی کا انتظام کیا اور صرف 5 روپے فی پیالی کے ارزاں قیمت پر آدھے گھنٹے مفت انٹر نیٹ فراہم کی.

    کرناٹکا سے پورے بھارت میں مقبولیت حاصل کرنے والے نوجوان سید قدرعلی کا بین الااقوامی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے چائے کے ہوٹل ہر آنے لگا اور دو سال قبل 2016 میں انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مفت وائی فائی سروس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہوٹل میں آنے لگی اور آج ہمیں اپنے مختصر سے ڈھابے کو قدرے وسیع ہوٹل میں تبدیل کرنا پڑا ہے۔

    نوجوان چائے والا کے ہوٹل میں  آدھے گھنٹے کے بعد مزید انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو ایک کپ چائے اور پینا ہو گی اس طرح قدر علی کی روزانہ کی ’’ بِکری‘‘  میں بھی اضافہ ہوا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس کے ہوٹل پر آنے لگی، نوجوان چائے والا کے اس منفرد اقدام کو کچھ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس کے بعد کرناٹکا کا یہ نوجوان پورے بھارت میں مشہور میں ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔