Tag: دلیپ کمار

  • دلیپ کمار اور راج کپور کے تاریخی گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور

    دلیپ کمار اور راج کپور کے تاریخی گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور

    کے پی حکومت نے ثقافتی ورثے کے تحفظ تحت لیجنڈری بھارتی اداکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے گھروں کی بحالی کیلیے فنڈز منظور کر لیے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا میں ثقافتی ورثے کے تحفظ اور ہیریٹیج ٹور ازم کے فروغ کے لیے اقدامات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ورلڈ بینک کائیٹ پراجیکٹ کے تحت کئی منصوبوں اور ان کے لیے فنڈز کی منظوری دے دی ہے۔

    بھارت کے معروف اداکار دلیپ کمار (یوسف خان مرحوم) اور راج کپور (آنجہانی) کے پشاور میں واقع تاریخی گھروں کی بحالی کے لیے بھی وزیراعلیٰ کے پی نے 33.8 ملین کی منظوری دے دی ہے۔

    اس کے علاوہ کے پی کے عجائب گھروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 295 ملین روپے، ضلع صوابی کے باہو ڈھیری منصوبے کے لیے 45 ملین اور تخت بھائی مردان کی آثار قدیمہ کی بحالی کے لیے 30 ملین روپے فنڈز کی منظوری دی گئی ہے۔

    خیبر پختونخوا کے تاریخی مقامات پر سیکیورٹی اپ گریڈیشن کے لیے 220.59 ملین روپے جب کہ بونیر کے رانی گٹ آثار قدیمہ پر 40 ملین خرچ کیے جائیں گے۔

    وزیراعلیٰ کے پی نے گلی باغ مانسہرہ، کوہ سلیمان ڈی آئی خان، شیخ بدین سائٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے فنڈز بھی جاری کیے۔

    واضح رہے کہ دلیپ کمار (یوسف خان) ار راج کپور بھارتی فلم انڈسٹری کے دو بڑے نام ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان میں پشاور کے مشہور علاقے قصہ خوانی بازار میں ہوئی تھی۔ دونوں نے اپنے بچپن کا کچھ عرصہ پشاور میں گزارا، تاہم قیام پاکستان سے قبل ہی ان کے والدین ممبئی ہجرت کر گئے تھے۔

    اس سے قبل کے پی حکومت 2020 میں دونوں لیجنڈری اداکاروں کے گھر خرید کر انہیں میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تاریخی قصہ خوانی بازار اور دلگران میں واقع مکانات کو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے قومی ورثہ قرار دینے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے پی کی منظوری سے وزارت خزانہ نے لیجنڈری اداکاروں کے گھروں کو خریدنے کےلیے رقم جاری تھی اور 2021 میں دونوں عمارتوں کی ملکیت محکمہ آثار قدیمہ کے نام منتقل کر دی گئی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/ownership-of-the-houses-of-dilip-kumar-and-raj-kumar-transferred-to-the-archaeological-department/

  • دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی یادگار تصاویر وائرل

    دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی یادگار تصاویر وائرل

    بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کی بیوہ و سابقہ اداکارہ سائرہ بانو نے اپنی منگنی کی یادگار تصاویر شیئر کردیں۔

    اداکارہ سائرہ بانو نے 2 اکتوبر کو اپنی اور دلیپ کمار کی منگنی کی 58ویں سالگرہ کا جشن منایا اس موقع پر اداکارہ نے انسٹاگرام پر اپنی منگنی کی چند یادگار تصاویر پوسٹ کیں ہیں۔

    فلم انڈسٹری کی سابقی اداکارہ سائرہ بانو نے منگنی کی تصاویر کے ساتھ محبت بھرا طویل کیپشن بھی لکھا ہے، انہوں نے کیپشن میں لکھا ہے کہ ’محبت میں سوال نہیں کیے جاتے‘، یہ جملہ میں نے اپنی فلم ’ہیرا پھیری‘ میں کہا تھا اور اب میں اس بات پر حیران ہوں کہ یہ جملہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Saira Banu Khan (@sairabanu)

    سائرہ بانو نے لکھا کہ محبت یہ ہے کہ آپ کو اپنے محبوب پر اس قدر بھروسہ ہو کہ کوئی بھی سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، 2 اکتوبر 1966 کا ناقابلِ فراموش دن جب میں نے اپنے سچے پیار دلیپ صاحب کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر شروع کیا۔

    سائرہ بانو نے کہا کہ میں نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا، اچھے یا بُرے حالات میں، میں نے ان سے کبھی کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی سوال کیا، میں نے صرف پیار کیا اور محبت کی بنیاد پر ہی کوئی بھی رشتہ قائم ہوتا ہے۔

    اُنہوں نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ محبت انسان کو کسی بھی بوجھ، شکوک و شبہات یا توقعات سے آزاد کر دیتی ہے، سوائے وفا کے اور وفاداری محبت کا حقیقی جوہر ہے، وفاداری محبت کو غیر مشروط، آزاد اور پائیدار بناتی ہے۔

  • مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    مدھو بالا: عارضۂ قلب کے ساتھ اداکارہ کو عشق کا روگ بھی لگ گیا تھا!

    شہناز، نرگس اور نوتن کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا۔‌ فلم مغلِ‌ اعظم کا یہ کردار حسن کی دیوی مدھو بالا نے نبھایا اور ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں۔‌ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا کو ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج ماضی کی اس مقبول ہیروئن کی برسی منائی جارہی ہے۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے اپنا فلمی نام مدھو بالا رکھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور مغلِ اعظم کے بعد تو ہر طرف ان کی اداکاری اور حسن کے چرچے تھے۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران وہ بہت بیمار تھیں، لیکن انار کلی کے روپ میں انھوں نے لازوال اداکاری کی اور نام وَر فلم ساز کے آصف کی توقعات پر پورا اتریں۔ ہندوستانی سنیما میں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے مرکزی کردار میں فلم ساز جیسا حسن و جمال، رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ چاہتے تھے، وہ مدھو بالا کو قدرت نے دے رکھا تھا۔ اداکارہ نے بیماری کے باوجود شوٹنگ کروائی اور بے مثال اداکاری کی۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنیں‌ اور خوب شہرت پائی۔ روپ کی اس رانی نے نام و مقام تو بہت پایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ مدھو بالا زندگی کی صرف 36 بہاریں دیکھ سکیں اور بدنصیبی دیکھیے کہ ان میں بھی نو برس ایسے تھے جب وہ بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود رہیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، وہ بہت زیادہ کام اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی آسانی سے انجام نہیں دے سکے گی، لیکن ممتاز کو اس کے والد عطاء اللہ نے چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوا دیا۔ یہاں‌ ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ ممتاز کے بہن بھائی گیارہ تھے اور والد نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، اور پھر وہ نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔ وہاں سے وہ اپنی بیٹی کو بمبئی لے گئے اور بھولی بھالی، من موہنی صورت والی ممتاز کو فلموں میں کام مل گیا۔ عطاء اللہ نے بیٹی کی کمائی سے گھر کی گاڑی کھینچنا شروع کی اور بہت جلد ممتاز کے حسن کا جادو مدھو بالا کے نام ایسا چلا کہ عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا دکھ بھرا پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جنھوں نے مدھو بالا کو موت کے منہ میں‌ دھکیل دیا۔ اداکارہ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    مدھو بالا اور دلیپ کمار کا عشق زوروں پر رہا۔ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات اور اپنی بیماری سے تنگ آئی ہوئی مدھو بالا یہ سوچ کر کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ انھوں نے 1960 میں شادی کی۔ لیکن گلوکار کشور کمار انھیں سکھ نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی دلہن کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، چاہنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری میں ہر کوئی دیوانہ، ہر ایک عاشق مگر مدھو بالا ان سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھی۔

    یہاں ہم ہندوستانی فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی جو عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے، ان کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کررہے ہیں اور یہ واقعہ انیس امروہوی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    مدھو بالا کی دیگر مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔

    مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار نبھائے۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ مدھو بالا ممبئی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے ناصر خان کا جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں‌ بننے والی پہلی فلم تیری یاد میں‌ بطور اداکار کام کیا تھا۔ وہ عظیم اداکار اور بولی وڈ کے شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کے بھائی تھے۔

    ناصر خان تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آگئے۔ پاکستان میں‌ انھوں نے بطور اداکار فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ تیری یاد 1948ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم شاہدہ میں کام کیا اور یہ دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ ناصر خان نے 1951ء میں اچانک بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہاں‌ انھوں نے ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔ ممبئی میں نگینہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں‌ وہ نوتن کے ساتھ نظر آئے۔ یہ بولی وڈ کی کام یاب ترین فلم تھی۔ اداکارہ کے ساتھ ان کی چند مزید فلمیں‌ ریلیز ہوئیں‌ جن میں‌ آغوش اور شیشم شامل ہیں۔ ناصر خان نے اپنے بھائی دلیپ کمار کے ساتھ بھی گنگا جمنا نامی فلم میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے بعد وہ 1970ء تک اسکرین سے دور رہے اور پھر یادوں‌ کی بارات جیسی فلم سے چھوٹے موٹے کردار نبھانے کا آغاز کیا۔ ناصر خان کی آخری فلم بیراگ تھی جو 1976ء میں‌ ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ناصر خان غلام سرور علی خان اور عائشہ بیگم کی اولاد تھے۔ وہ 11 جنوری 1924 کو پیدا ہوئے۔ ناصر خان اپنے بھائی دلیپ کمار سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے۔ اداکار ناصر خان کی پہلی شادی ثریا نذیر سے ہوئی تھی جو لیجنڈری فلم میکر نذیر احمد خان کی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انھیں‌ ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام انھوں نے ناہید خان رکھا۔ ناصر خان نے اپنے وقت کی مشہور اداکار بیگم پارہ سے دوسری شادی کی اور ان کے بطن سے ایک بیٹے کے باپ بنے۔ ان کا بیٹا ایوب خان بھی اداکار بنا۔

    3 مئی 1974ء میں ناصر خان پچاس سال کی عمر میں‌ وفات پاگئے۔

  • سائرہ بانو نے انسٹاگرام کی دنیا میں قدم رکھ دیا

    سائرہ بانو نے انسٹاگرام کی دنیا میں قدم رکھ دیا

    بھارتی فلم انڈسٹری کے ”شہنشاہِ جذبات“ کہلائے جانے والے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دو سال کا عرصہ بیت گیا۔

    بر صغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول دلیپ کمار کی اہلیہ سائرہ بانو اپنے شوہر کی دوسری برسی پر بھی اپنے جذبات پر قابو نہ کرسکیں اور انہیں یاد کرکے افسردہ ہوگئیں۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام اکاؤنٹ سے انہوں نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے شاعرانہ انداز میں اپنے شوہر کو خراج عقیدت پیش کیا۔انہوں نے لکھا کہ

    سکون دل کے لئے کچھ تو اہتمام کروں
    ذرا نظر جو ملے پھر انہیں سلام کروں
    مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
    کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

    دلیپ کمار کی دوسری برسی کے موقع پر اہلیہ سائرہ بانو کے جذباتی الفاظ وائرل ہوگئے اور مداحوں نے بھی ان کے ساتھ لیجنڈ اداکار کیلئے دعاؤں اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

    سائرہ بانو کا کہنا تھا کہ کہ میں اس تحریر کے ذریعے اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے میرے کوہِ نور کے دنیا سے جانے کے بعد بھی مجھے بہت زیادہ پیار و عزت بخشتی اور پلکوں پر بٹھائے رکھا۔

    ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ آج ہی کے دن سات جولائی سات بجے میری محبت ایک گہری نیند میں چلی گئی اور میرے لیے وقت رک سا گیا ۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں آج تک ان کی کمی محسوس کرتی ہوں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم اب بھی زندگی کے راستے پر ایک ساتھ چلیں گے، ہاتھ میں ہاتھ ملا کر،اپنے خیالات میں ایک رہیں گے اور آخری وقت تک ساتھ رہیں گے۔

    واضح رہے کہ برصغیر کے عہد ساز اداکار دلیپ کمار 7 جولائی 2021 کو طویل علالت کے بعد ممبئی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔

  • جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    جب ‘فلپ کمار’ کی دیوانی اینا ممبئی پہنچی!

    مجھے یاد ہے کہ ایک دن آسٹریلیا سے نریش نام کے ایک آدمی کا میرے پاس فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔

    میں نے سوچا کہ کوئی NRI ہے جو مجھ سے فلم بنوانا چاہتا ہے۔ وہ کم بخت جب تک نہیں ملا میں نئے نئے خواب بُنتا رہا۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں اور وہ ایک دن ایک دو تحفے لے کر میرے دفتر میں حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بہت دیر تک دھڑکتا رہا۔ سوچا پتا نہیں کہ کیا مژدہ سنانے والا ہے۔ جب کفر ٹوٹا تو میں ٹھس سے نیچے بیٹھ گیا۔ پتا چلا کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون ہے جو دلیپ صاحب کی زبردست فین ہے اور ایک بار دلیپ صاحب کا دیدار کرنا چاہتی ہے۔

    کچھ دیر تک میں آنا کانی کرتا رہا۔ جب اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجھے ہامی بھرنی پڑی۔ وہ اگلے دن اس خاتون کے ہمراہ آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ سوچا یہ خاتون کون ہے۔ کیا سائرہ جی کے ہوتے ہوئے اس کی ملاقات دلیپ صاحب سے ممکن ہے۔ میں رات بھر اسی ادھیڑ بن میں پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔

    اگلے روز جب میں آفس میں پہنچا تو ایک عمر رسیدہ، پر بے حد خوب صورت خاتون کو دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی رسوائی کا سامان خود ہی کر لیا ہے۔ میں بڑا حساس اور جذباتی آدمی ہوں۔ چہرے سے آدمی کے دل کی بات پڑھ سکتا ہوں۔ ایک عورت اتنی دور سے چل کر آئی تھی۔ انسانیت کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کے ساتھ پیار سے پیش آؤں۔

    نریش نے جب اس خاتون سے میرا تعارف کرایا تو میں اسے ازراہِ مروّت آفس میں لے آیا۔ چائے، شربت سے اس کی خاطر تواضع کی۔ بہت جلد وہ مجھ سے گھل مل گئی۔ پتا چلا کہ وہ ایک آرمینین خاتون ہے۔ ایک بار اس نے محبوب خان کی فلم "آن” دیکھی۔ یہ فلم آرمینی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ اس زبان میں اس کا ٹائٹل "منگلا” رکھا گیا تھا۔ (فلم میں نمی کا نام منگلا تھا) کاسٹنگ میں دلیپ کمار کا نام فلپ کمار لکھا گیا تھا۔ اینا (یہ اس خاتون کا نام تھا) نے جب یہ فلم دیکھی تو دلیپ کمار پر فدا ہو گئی۔

    ان دنوں وہ ایک دم جوان تھی، خوب صورت تھی۔ وہ اپنے خوابوں کے شہزادے فلپ کمار کی تلاش میں بمبئی چلی آئی۔ لوگوں سے پوچھا۔ اسٹوڈیو کے چکر لگائے مگر اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ فلپ کمار کہیں نہیں ملا۔ وہ اگر فلم کا اصلی نام بھی جانتی تو اس کی مشکل آسان ہو سکتی تھی مگر نام میں بھی لوچا تھا۔ یہاں نہ کوئی فلپ کمار کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی نے "منگلا” فلم کے بارے میں سنا تھا۔ (وہ منگلا بھی صحیح ڈھنگ سے بول نہیں پا رہی تھی منگلا کو منگالا کہتی تھی) آخر ایک مہینے تک ممبئی کی خاک چھاننے کے بعد جب کچھ بھی اس کے ہاتھ نہ آیا تو وہ مایوس و نامراد اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔

    اس بیچ اس کی شادی ہوئی۔ اس نے پہلی ہی رات کو اپنے شوہر کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ وہ فلپ کمار سے جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ وہ بھلے ہی اس کی بیوی بن چکی ہے پر وہ یہی تصور کرے گی کہ وہ جسمانی اور روحانی طور پر اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے۔ اس کا شوہر بھی بڑا دل دار اور وسیع القلب تھا۔ اس نے اس کے جذبات کو سراہا اور کوئی ایسی بات نہ کی جس سے اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔

    اسی بیچ اینا آسٹریلیا آگئی۔ ایک دن وہ ایسے ہی گھومتے گھماتے نریش کی دکان کے پاس آ کے رک گئی جہاں ہندی فلموں کے کیسٹ ملتے تھے۔ اینا نے اس سے فلم "منگالا” کا کیسٹ مانگا۔ نریش نے اپنے رجسٹر کو خوب کھنگالا مگر "منگلا” نام کی کوئی فلم اس پورے رجسٹر میں کہیں دکھائی نہ دی۔ دل برداشتہ ہو کر وہ ایک ایک کیسٹ بیٹھ کر دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی خوشی اور حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب اس کے ہاتھ "آن” کا کیسٹ لگا۔ وہ دیوانہ وار اس کیسٹ کو چومنے لگی۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس فلم کے پیچھے اس نے کس قدر خاک چھانی تھی اس نے نریش کو اپنے دل کی کیفیت سے آشنا کر دیا اور اس نے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے انڈیا لے جا کر دلیپ کمار سے ایک بار ملا دے گا۔

    نریش نے فلم ڈائریکٹری سے میرے آفس کا نمبر ڈھونڈ نکالا تھا، اس طرح نریش نے مجھ سے رابطہ قائم کیا تھا اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

    یہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی لو اسٹوری تھی اور اس لو اسٹوری کے ٹوٹے تار کو جوڑنے کا ذمہ مجھے سونپا جارہا تھا۔ میں محبت کرنے والوں کا امین ہوں، پر یہ جو عشقیہ داستان تھی اس میں ملن کم اور جوکھم زیادہ نظر آرہا تھا۔ میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف اینا کی تڑپ اور دوسری طرف میری مجبوریاں۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا اتنا آسان نہ تھا۔

    اینا بھی اب کے طے کرکے آئی تھی کہ وہ دلیپ کمار سے مل کے ہی جائے گی چاہے دنیا اِدھر ادھر ہو جائے۔ میں نے اینا سے دو دن کی مہلت مانگی۔ وہ خوشی خوشی نریش کے ساتھ چلی گئی مگر میں اضطراب اور تذبذب کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔

    میں اسی دن شام کے وقت صاحب سے ملنے سائرہ جی کے بنگلے پر چلا گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اصلی مدعے پر آگیا۔ میں نے دلیپ کمار صاحب سے کہا کہ ایک خاتون آسٹریلیا سے خاص طور پر ان سے ملنے چلی آئی ہے۔ اسے صرف پانچ منٹ چاہییں۔ وہ بس ان سے مل کر چلی جائے گی۔ دلیپ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی یہ پراسرار خاموشی میرے لیے سوہان روح بنتی جا رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولے: "کیوں مجھے آپ مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟”

    میں نے انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ خاتون پانچ منٹ مل کر چلی جائے گی۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر کار انہوں نے ملنے کے لیے ہامی بھرلی۔ میں نے اسی وقت نریش کو فون کرکے اطلاع دی۔

    اگلے دن ہم بغل کی بلڈنگ میں شوٹنگ کر رہے تھے کہ ایک نوکر میرے پاس یہ خبر لے آیا کہ اینا، نریش کے ساتھ نیچے کھڑی ہے۔ پتا نہیں اینا کے نام سے مجھ پر لرزہ کیوں طاری ہوگیا۔ میں سوچنے لگا کہ اینا پاگل پن کی حد تک دلیپ صاحب کو چاہتی ہے۔ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔

    میں کیا کروں مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری حالت تو اس سانپ سے بدتر تھی جس کے منہ میں چھچھوندر ہو۔ جسے وہ نگلے تو اندھا، اگلے تو کوڑھی۔ میں عجیب مشکل سے دوچار تھا۔ نہ ہی میں سامنے آنے کی حالت میں تھا اور نہ ہی پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں۔ آگے پیچھے کے راستے مجھے مسدود نظر آرہے تھے۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ان کے گھر کے ہی ایک آدمی کو اعتماد میں لیا اور اس کے ساتھ نریش اور اینا کو روانہ کر دیا۔

    جونہی دلیپ صاحب اینا سے ملنے نیچے اتر آئے تو میں اپنے دل کو تھام کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑا رہا۔ وہ آدھے گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اینا نے اپنے محبوب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ جب تک دلیپ صاحب کے پاس بیٹھی رہی بہت ہی ڈھنگ اور قاعدے سے بیٹھی رہی۔ اس میٹنگ کے دوران سائرہ جی برابر موجود رہیں، مگر اینا نے کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ میٹنگ آدھے پونے گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اینا کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میری بات بھی رہ گئی۔ سب سے خوش کن بات یہ تھی کہ ہم سب کی عزّت سلامت رہی۔

    (ہندوستانی ہدایت کار اور ادیب دیپک کنول کی کتاب ‘دلیپ صاحب’ سے)

  • دلیپ کمار کا ہم شکل مشہور پاکستانی ہیرو کون تھا؟

    دلیپ کمار کا ہم شکل مشہور پاکستانی ہیرو کون تھا؟

    اداکار حنیف کا نام شاید آپ میں‌ سے بہت سے قارئین کے لیے نیا ہو اور سنیما کے ان شائقین کے لیے جو اب خاصے سن رسیدہ ہیں، ایک بھولی بسری یاد۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کا یہ اداکار شہنشاہِ‌ جذبات دلیپ کمار سے خاصی مشابہت رکھتا تھا؟ انھیں اکثر لوگ دلیپ کمار کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

    اداکار حنیف نے فلموں‌ سے ہیرو کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں‌ ولن کی حیثیت سے خوب شہرت پائی۔ وہ خُوب رو اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ کہتے ہیں‌ کہ دلیپ کمار سے مشابہت ہی اسے فلمی دنیا کی طرف لے گئی تھی۔

    حنیف موٹر مکینک تھے۔ اس زمانے میں‌ ایک فلم ساز کو ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ کے لیے ہیرو کی تلاش تھی اور حنیف کی خوش قسمتی تھی کہ وہ فلم ساز کی نظر میں‌ آگئے۔ یوں وہ 1963ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر نظر آئے۔ اگلے ہی برس بھارت سے آئے ہوئے فلم ساز اور ہدایت کار نے انھیں اپنی فلم ’’میخانہ‘‘ کا کردار نبھانے کو دے دیا اور حنیف نے اس میں‌ بگڑے ہوئے نواب زادے کا کردار نبھا کر خوب ستائش اور داد سمیٹی۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ کئی کام یاب اور سپر ہٹ فلمیں حنیف کے کیریئر کا حصّہ بنیں۔

    فلم ’’ہم دونوں‘‘ میں پہلی بار حنیف نے ولن کا کردار نبھایا اور اس کے بعد انھیں زیادہ تر وِلن کے کردار آفر ہونے لگے۔ اس اداکار نے ہر کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔

    دلیپ کمار سے مشابہت رکھنے والے پاکستانی اداکار حنیف نے اپنے وقت کے تمام بڑے اداکاروں اور اپنے وقت کی مشہور اور مقبول ترین ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔

    اداکار حنیف 2 جولائی 1990ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے اور اتفاق ہے کہ دلیپ کمار کا بھی ماہِ وفات یہی ہے۔

  • ‘دلیپ کمار نے ہالی وڈ کی فلم میں‌ کام کرنے سے انکار کردیا تھا’

    ‘دلیپ کمار نے ہالی وڈ کی فلم میں‌ کام کرنے سے انکار کردیا تھا’

    آج لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کی زندگی کا سفر تمام ہوا اور وہ پرستاروں‌ کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    طویل عرصے تک بالی وڈ پر راج کرنے والے دلیپ کمار کا خاندانی نام یوسف خان تھا۔ انھوں نے 11 دسمبر 1922ء کو پاکستان کے شہر پشاور میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ اکثر تقاریب، انٹرویوز کے دوران اپنی جنم بھومی کا تذکرہ کرتے، یہاں گزارے ہوئے دنوں کی یاد تازہ کرتے اور ماضی میں‌ جھانکتے ہوئے دلیپ کمار جہاں‌ خوشی و مسرّت محسوس کرتے، وہیں‌ افسردہ بھی نظر آتے۔

    وہ پشاور کا ذکر کرتے ہوئے ’میرا شہر‘ کہہ کر اپنی بات بڑھاتے۔ گزری دہائیوں میں دلیپ کمار دو بار پاکستان آئے اور اپنے آبائی گھر کا دورہ بھی کیا تھا۔ پشاور شہر اور آبائی مکان سے ان کی جذباتی وابستگی آخر تک برقرار رہی۔

    دلیپ کمار کو شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ انھوں نے المیہ کرداروں کو اپنی فنّ اور صلاحیتوں کی بدولت اس خوبی اور مہارت سے نبھایا کہ یہ لقب ہی ان کی پہچان بن گيا۔

    آئیے بالی وڈ کے ٹریجڈی کنگ (شہنشاہِ جذبات)‌ کی چند سپرہٹ فلموں، ساتھی فن کاروں‌ اور ان کی زندگی کے بارے میں‌ کچھ باتیں جانتے ہیں۔

    سپرہٹ فلمیں، ساتھی فن کار اور دلیپ کمار کی انفرادیت
    یوسف خان المعروف دلیپ کمار کو فلموں‌ میں‌ مختلف المیہ اور رومانوی کرداروں‌ کے علاوہ 1960ء میں‌ مغل شہزادے سلیم کا کردار نبھا کر شائقین سے ‘گہرا جذباتی تعلق’ قائم کرلیا۔ یہ فلم تو بالآخر پردے سے اتر گئی، مگر شہزادہ سلیم کی ایک کنیز انارکلی سے محبّت اور بادشاہ اکبر کی جانب سے اسے دیوار میں‌ چنوائے جانے کے مناظر دہائیوں‌ تک فلم بینوں کی نظر سے نہیں اترے۔

    دلیپ کمار کی دیگر رومانٹک، سپرہٹ اور کام یاب فلموں‌ میں‌ آن، آزاد، انسانیت، کوہِ نور شامل ہیں‌ جن میں اپنے فن سے بھی ان کا ‘رومان’ عروج پر تھا۔

    دلیپ کمار نے مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور یہ بالی ووڈ کی وہ فلمیں ہیں‌ جو باکس آفس پر سپر ہٹ رہیں۔

    انھوں نے اپنے وقت کے مشہور اور کام یاب ترین اداکار راج کمار کے ساتھ فلم ‘سوداگر’ میں کام کیا جب کہ امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی فلم ‘شکتی’ بھی قابلِ ذکر ہے۔ دلیپ کمار ان اداکاروں‌ میں‌ شامل تھے جنھوں نے اپنے وقت کے عظیم اور مقبول ترین فن کاروں‌ کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی شناخت اور انفرادیت کو بہرحال منوایا۔

    دلیپ کمار کی آخری فلم
    ہندوستانی سنیما پر راج کرنے والے دلیپ کمار کی آخری فلم 1998ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کا نام تھا، ‘قلعہ’۔ اس میں انھوں نے ڈبل رول ادا کیے تھے۔

    وہ اشوک کمار سے متاثر تھے
    سرکاری اور فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والے دلیپ کمار کو فنِ اداکاری میں بے مثال مانا گیا۔ تاہم متعدد انٹرویوز میں‌ انھوں نے اپنے فن اور بالی وڈ میں‌ اپنے سفر کا ذکر کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ابتدا میں وہ اشوک کمار کی اداکاری سے بہت متاثر تھے، لیکن اشوک کمار جو ان کے دوست بن چکے تھے، انھوں‌ نے دلیپ کمار کو فطری انداز اپنانے کی ہدایت کی تھی۔

    ہالی وڈ سے آفر
    دلیپ کمار کو 1962ء میں مشہورِ زمانہ فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا مرکزی کردار نبھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ یہ آفر ڈیوڈ لین کی جانب سے کی گئی تھی جو فلم ڈائریکٹر تھے۔

    لیجنڈری اداکار کی شادیاں
    سن 1966ء میں انھوں نے سائرہ بانو سے شادی کی تھی جو خود بھی اداکارہ تھیں اور عمر میں ان سے 22 سال چھوٹی تھیں۔

    1981ء میں دلیپ کمار نے اسما نامی خاتون سے دوسری شادی کی، لیکن 1983ء میں ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔

    اولاد
    فلمی پردے کے اس سپر اسٹار نے بالی وڈ میں اپنے سفر کے دوران خوب ہنگامے دیکھے اور داد و تحسین کا شور سنا، لیکن گھر کا آنگن سُونا رہا اور‌ انھیں‌ دونوں‌ بیویوں سے اولاد نصیب نہیں ہوئی۔

  • بالی وڈ کی وہ فلمیں‌ جن سے شائقینِ سنیما کو ‘دلی صدمہ’ ہوا

    بالی وڈ کی وہ فلمیں‌ جن سے شائقینِ سنیما کو ‘دلی صدمہ’ ہوا

    آج سے چند دہائیوں قبل تک پاک و ہند میں سنیما کے شائقین کا مزاج کچھ الگ ہی رہا ہے۔ فلمی پردے پر ہیرو اور ہیروئن کی محبّت کا الم ناک انجام ان کے لیے قابلِ قبول نہیں‌ ہوتا تھا۔

    کسی بھی فلم میں محبّت کرنے والوں کے درمیان دائمی جدائی یا ان میں سے کسی ایک کی دنیا سے رخصتی کا منظر پیش کرنا فلم ساز یا کہانی کار کے لیے آسان نہ تھا۔ اس لیے رومانوی فلموں کا اختتام خوش گوار ہی ہوتا تھا، لیکن اس وقت بھی بالی وڈ میں ایسی فلمیں‌ بنائی گئیں جو "ہیپی اینڈنگ فارمولے” کے برخلاف تھیں اور یہ کام یاب بھی ہوئیں۔

    یہاں‌ ہم تین ایسی فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا ناخوش گوار انجام فلم بینوں کے لیے بڑا دھچکا تو ثابت ہوا، لیکن ان فلموں نے زبردست بزنس بھی کیا۔

    مغلِ اعظم 1960ء کی وہ فلم تھی جس کا ذکر ہندی سنیما کی تاریخ میں‌ آج بھی کیا جاتا ہے۔ مدھو بالا اور دلیپ کمار کی فلمی جوڑی بہت مقبول ہوئی تھی۔ فلم ساز آصف نے تاریخی کرداروں اور اُس مشہور واقعے پر فلم بنائی جسے سنیما بین سنتے اور پڑھتے آئے تھے۔ یعنی وہ اس جوڑی کا انجام پہلے سے جانتے تھے۔

    ایک طرف انار کلی اور دوسری طرف شہزادہ سلیم تھا اور ان کی محبّت بادشاہ کے حکم پر بدترین انجام سے دوچار ہوئی۔ فلم کے آخر میں انار کلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی تاثر دیا جاتا ہےکہ اکبر نے اس لڑکی کو سلیم سے کبھی نہ ملنے کا وعدہ لے کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوجانے دیا۔ تاریخ میں محفوظ اس محبّت کے انجام سے واقف ہونے کے باوجود فلم بینوں کو پردے پر یہ سب دیکھ کر شدید رنج اور دکھ پہنچا تھا۔

    شرت چندر کے مشہور ناول دیو داس پر یوں تو ہندوستان میں متعدد فلمیں بنائی جاچکی ہیں، لیکن 2002ء میں شاہ رخ خان نے اس فلم کا مرکزی کردار ادا کیا اور کہانی کے مطابق پارو کے گھر کے سامنے دم توڑا تو جیسے ہر دل ٹوٹ ہی گیا۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور فلم بین اداس و مغموم نظر آئے۔ تاہم فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

    فلم ایک دوجے کے لیے 1981ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس میں کمل ہاسن اور رتی اگنی ہوتری دونوں ہی نے شان دار اداکاری کی اور خوب داد پائی، لیکن فلمی پردے کی اس جوڑی کا انجام بہت درد ناک تھا۔ فلم کے آخر میں ہیرو ہیروئین اپنی زندگی ختم کرلیتے ہیں اور فلم کے اس اختتام سے شائقین کو بڑا دھچکا لگا تھا۔

  • دلیپ کمار کا نائی

    دلیپ کمار کا نائی

    میں اپنی لانڈری میں لالہ ہر پرشاد کے لڑکے ہنسی پرشاد کی نئی ریشمی قمیص پر استری پھیر رہا تھا جو اس نے پچھلے ہفتے اپنی شادی کے موقع پر سلوائی تھی، کہ اتنے میں میرا نوجوان ملازم فضلو آہستہ آہستہ سیٹی بجاتا ہوا دکان کے اندر داخل ہوا۔

    میں اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گیا۔ کیوں کہ فضلو بہت ہی سیدھا سادہ احمق لڑکا ہے جیساکہ لانڈری والے کے ملازم کو بلکہ ہر ملازم کو ہونا چاہیے۔ اسی لیے تو جب میں نے فضلو کے سر کی طرف دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔

    "فضلو یہ تمہارے سر کو کیا ہوا ہے ؟” آخر میں نے چلّا کے پوچھا۔
    فضلو نے مسکرا کے کہا۔ "شہر میں دلیپ کمار کا نائی آیا ہے۔ ” یہ کہنے کے بعد فضلو نے بہت محبت سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے پر جھکی ہوئی لٹ کو اور لٹکا لیا۔ اس کے سر کے بال چھدرے چھدرے کٹے تھے۔ اور چھوٹے کر دیے گئے تھے۔

    صرف بائیں جانب بالوں کا ایک گچھا لانبا رہ گیا تھا جو باقی بالوں سے لانبا ہونے کی وجہ سے خود بخود ایک کٹی ہوئی بیل کی طرح ماتھے پر آپڑا تھا۔ اور دور سے دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سریش سے ماتھے پر چپکا دیا گیا ہو۔ پیچھے سے سر کی ڈھلوان سے بال یوں کاٹے گئے تھے جیسے کسی پہاڑی ڈھلوان سے گھاس کاٹ لی گئی ہو۔ بہ حیثیت مجموعی فضلو کا سر دور سے ایک منڈی ہوئی بھیڑ کی طرح نظر آ رہا تھا۔

    میں نے حیرت سے پوچھا: "کون ہے وہ نائی؟”

    "اپنا شدو۔ ”

    وہ گھیسو قصاب کا لونڈا جو دو سال ہوئے گھر سے بھاگ گیا تھا؟” فضلو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    "کہاں ہے اس کی دکان؟”

    فضلو بولا "تیلیوں کے بازار سے آگے چوک میں۔ ”

    میں جلدی سے اپنی لانڈی سے باہر نکلا تو فضلو نے پکار کے کہا۔ "مگر جمن چاچا، بال بنوانے ہیں، تو ڈیڑھ روپیہ ساتھ لیتے جاؤ، وہ اس سے کم میں بال نہیں کاٹے گا، دلیپ کمار کا نائی ہے۔”

    "چپ بے نامعقول۔ "میں نے چوک کی طرف بھاگتے ہوئے کہا۔ ” اس بھیڑ منڈائی کا میں ڈیڑھ روپیہ دوں گا؟”

    لیکن شدو کی دکان پر بہت بھیڑ تھی۔ میں ذرا دیر میں پہنچا، بال بنوانے والوں کا پہلے ہی سے ایک لمبا کیو لگ چکا تھا۔ دکان کے باہر جلی حروف میں بورڈ پرلکھا تھا۔

    ‘دلیپ کمار کا نائی’، بمبئی ٹرینڈ، ماسٹر شدو حجام۔ اور اس بورڈ کے نیچے ایک دوسرے بورڈ پر ریٹ لکھے تھے۔

    دلیپ کمار ہیئر کٹ = ڈیڑھ روپیہ
    دلیپ کمار شیو = ایک روپیہ
    دلیپ کمار شمپو = دو روپیہ آٹھ آنے
    دلیپ کمار مالش = پانچ روپے

    شدو نے مجھے آتے ہی پہچان لیا۔ وہ میرے گھٹنوں کو چھو کر بولا” چاچا جمن مجھے پہچانتے ہو؟” شدو کو کون نہیں پہچانے گا۔ محلے کا سب سے شریر لونڈا دبلا، پتلا، کالا، چیچک رو، ایک آنکھ سے کانا۔ مگر زبان جیسے لال مرچ، جیسے کترنی، جیسے گالیوں کا فوارہ بار بار چنے پر بھی شرارت سے باز نہ آئے۔ ایک روز سویرے فضلو کو پھسلا کر اس سے شیخ غلام رسول بیرسٹر کے لڑکے کا ہنٹنگ کوٹ جو میری لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کو آیا تھا، ایک روز کے لیے پہننے کو لے گیا تھا۔ بس اسی دن سے غائب تھا۔

    ناچار کوٹ کی قیمت مجھے ادا کرنی پڑی، میں شدو کو بھول سکتا تھا۔ میں نے زور سے ایک دھپ اس کی پیٹھ پر جمائی، شدو کے ہاتھ سے قینچی گر کر زمین پر جا پڑی، شدو کچھ ہنس کر کچھ رونکھا سا ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔

    میں نے غصے سے کہا۔ ” میری طرف کیا دیکھتے ہو، کدھر ہے وہ کوٹ؟”

    شدو کو یکایک یاد آیا، ہنستے ہنستے بولا: "واہ چاچا۔ تم بھی دو سال کے بعد اس زٹیل کوٹ کا ذکر کرتے ہو۔ ارے چاچا، جتنے کوٹ کہو اس بیرسٹر کے لونڈے کو بنوا دوں، کیا سمجھتے ہو، دلیپ کمار کانائی ہوں، دلیپ کمار کا۔”

    (معروف افسانہ نگار اور ادیب کے مضمون سے اقتباسات)