Tag: دلیپ کمار کی فلمیں

  • ‘دلیپ کمار نے ہالی وڈ کی فلم میں‌ کام کرنے سے انکار کردیا تھا’

    ‘دلیپ کمار نے ہالی وڈ کی فلم میں‌ کام کرنے سے انکار کردیا تھا’

    آج لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کی زندگی کا سفر تمام ہوا اور وہ پرستاروں‌ کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    طویل عرصے تک بالی وڈ پر راج کرنے والے دلیپ کمار کا خاندانی نام یوسف خان تھا۔ انھوں نے 11 دسمبر 1922ء کو پاکستان کے شہر پشاور میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ اکثر تقاریب، انٹرویوز کے دوران اپنی جنم بھومی کا تذکرہ کرتے، یہاں گزارے ہوئے دنوں کی یاد تازہ کرتے اور ماضی میں‌ جھانکتے ہوئے دلیپ کمار جہاں‌ خوشی و مسرّت محسوس کرتے، وہیں‌ افسردہ بھی نظر آتے۔

    وہ پشاور کا ذکر کرتے ہوئے ’میرا شہر‘ کہہ کر اپنی بات بڑھاتے۔ گزری دہائیوں میں دلیپ کمار دو بار پاکستان آئے اور اپنے آبائی گھر کا دورہ بھی کیا تھا۔ پشاور شہر اور آبائی مکان سے ان کی جذباتی وابستگی آخر تک برقرار رہی۔

    دلیپ کمار کو شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ انھوں نے المیہ کرداروں کو اپنی فنّ اور صلاحیتوں کی بدولت اس خوبی اور مہارت سے نبھایا کہ یہ لقب ہی ان کی پہچان بن گيا۔

    آئیے بالی وڈ کے ٹریجڈی کنگ (شہنشاہِ جذبات)‌ کی چند سپرہٹ فلموں، ساتھی فن کاروں‌ اور ان کی زندگی کے بارے میں‌ کچھ باتیں جانتے ہیں۔

    سپرہٹ فلمیں، ساتھی فن کار اور دلیپ کمار کی انفرادیت
    یوسف خان المعروف دلیپ کمار کو فلموں‌ میں‌ مختلف المیہ اور رومانوی کرداروں‌ کے علاوہ 1960ء میں‌ مغل شہزادے سلیم کا کردار نبھا کر شائقین سے ‘گہرا جذباتی تعلق’ قائم کرلیا۔ یہ فلم تو بالآخر پردے سے اتر گئی، مگر شہزادہ سلیم کی ایک کنیز انارکلی سے محبّت اور بادشاہ اکبر کی جانب سے اسے دیوار میں‌ چنوائے جانے کے مناظر دہائیوں‌ تک فلم بینوں کی نظر سے نہیں اترے۔

    دلیپ کمار کی دیگر رومانٹک، سپرہٹ اور کام یاب فلموں‌ میں‌ آن، آزاد، انسانیت، کوہِ نور شامل ہیں‌ جن میں اپنے فن سے بھی ان کا ‘رومان’ عروج پر تھا۔

    دلیپ کمار نے مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور یہ بالی ووڈ کی وہ فلمیں ہیں‌ جو باکس آفس پر سپر ہٹ رہیں۔

    انھوں نے اپنے وقت کے مشہور اور کام یاب ترین اداکار راج کمار کے ساتھ فلم ‘سوداگر’ میں کام کیا جب کہ امیتابھ بچن کے ساتھ ان کی فلم ‘شکتی’ بھی قابلِ ذکر ہے۔ دلیپ کمار ان اداکاروں‌ میں‌ شامل تھے جنھوں نے اپنے وقت کے عظیم اور مقبول ترین فن کاروں‌ کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی شناخت اور انفرادیت کو بہرحال منوایا۔

    دلیپ کمار کی آخری فلم
    ہندوستانی سنیما پر راج کرنے والے دلیپ کمار کی آخری فلم 1998ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کا نام تھا، ‘قلعہ’۔ اس میں انھوں نے ڈبل رول ادا کیے تھے۔

    وہ اشوک کمار سے متاثر تھے
    سرکاری اور فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈز اپنے نام کرنے والے دلیپ کمار کو فنِ اداکاری میں بے مثال مانا گیا۔ تاہم متعدد انٹرویوز میں‌ انھوں نے اپنے فن اور بالی وڈ میں‌ اپنے سفر کا ذکر کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ابتدا میں وہ اشوک کمار کی اداکاری سے بہت متاثر تھے، لیکن اشوک کمار جو ان کے دوست بن چکے تھے، انھوں‌ نے دلیپ کمار کو فطری انداز اپنانے کی ہدایت کی تھی۔

    ہالی وڈ سے آفر
    دلیپ کمار کو 1962ء میں مشہورِ زمانہ فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا مرکزی کردار نبھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ یہ آفر ڈیوڈ لین کی جانب سے کی گئی تھی جو فلم ڈائریکٹر تھے۔

    لیجنڈری اداکار کی شادیاں
    سن 1966ء میں انھوں نے سائرہ بانو سے شادی کی تھی جو خود بھی اداکارہ تھیں اور عمر میں ان سے 22 سال چھوٹی تھیں۔

    1981ء میں دلیپ کمار نے اسما نامی خاتون سے دوسری شادی کی، لیکن 1983ء میں ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔

    اولاد
    فلمی پردے کے اس سپر اسٹار نے بالی وڈ میں اپنے سفر کے دوران خوب ہنگامے دیکھے اور داد و تحسین کا شور سنا، لیکن گھر کا آنگن سُونا رہا اور‌ انھیں‌ دونوں‌ بیویوں سے اولاد نصیب نہیں ہوئی۔

  • دلیپ کمار کا نائی

    دلیپ کمار کا نائی

    میں اپنی لانڈری میں لالہ ہر پرشاد کے لڑکے ہنسی پرشاد کی نئی ریشمی قمیص پر استری پھیر رہا تھا جو اس نے پچھلے ہفتے اپنی شادی کے موقع پر سلوائی تھی، کہ اتنے میں میرا نوجوان ملازم فضلو آہستہ آہستہ سیٹی بجاتا ہوا دکان کے اندر داخل ہوا۔

    میں اسے دیکھتے ہی بھونچکا رہ گیا۔ کیوں کہ فضلو بہت ہی سیدھا سادہ احمق لڑکا ہے جیساکہ لانڈری والے کے ملازم کو بلکہ ہر ملازم کو ہونا چاہیے۔ اسی لیے تو جب میں نے فضلو کے سر کی طرف دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔

    "فضلو یہ تمہارے سر کو کیا ہوا ہے ؟” آخر میں نے چلّا کے پوچھا۔
    فضلو نے مسکرا کے کہا۔ "شہر میں دلیپ کمار کا نائی آیا ہے۔ ” یہ کہنے کے بعد فضلو نے بہت محبت سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے پر جھکی ہوئی لٹ کو اور لٹکا لیا۔ اس کے سر کے بال چھدرے چھدرے کٹے تھے۔ اور چھوٹے کر دیے گئے تھے۔

    صرف بائیں جانب بالوں کا ایک گچھا لانبا رہ گیا تھا جو باقی بالوں سے لانبا ہونے کی وجہ سے خود بخود ایک کٹی ہوئی بیل کی طرح ماتھے پر آپڑا تھا۔ اور دور سے دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سریش سے ماتھے پر چپکا دیا گیا ہو۔ پیچھے سے سر کی ڈھلوان سے بال یوں کاٹے گئے تھے جیسے کسی پہاڑی ڈھلوان سے گھاس کاٹ لی گئی ہو۔ بہ حیثیت مجموعی فضلو کا سر دور سے ایک منڈی ہوئی بھیڑ کی طرح نظر آ رہا تھا۔

    میں نے حیرت سے پوچھا: "کون ہے وہ نائی؟”

    "اپنا شدو۔ ”

    وہ گھیسو قصاب کا لونڈا جو دو سال ہوئے گھر سے بھاگ گیا تھا؟” فضلو نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    "کہاں ہے اس کی دکان؟”

    فضلو بولا "تیلیوں کے بازار سے آگے چوک میں۔ ”

    میں جلدی سے اپنی لانڈی سے باہر نکلا تو فضلو نے پکار کے کہا۔ "مگر جمن چاچا، بال بنوانے ہیں، تو ڈیڑھ روپیہ ساتھ لیتے جاؤ، وہ اس سے کم میں بال نہیں کاٹے گا، دلیپ کمار کا نائی ہے۔”

    "چپ بے نامعقول۔ "میں نے چوک کی طرف بھاگتے ہوئے کہا۔ ” اس بھیڑ منڈائی کا میں ڈیڑھ روپیہ دوں گا؟”

    لیکن شدو کی دکان پر بہت بھیڑ تھی۔ میں ذرا دیر میں پہنچا، بال بنوانے والوں کا پہلے ہی سے ایک لمبا کیو لگ چکا تھا۔ دکان کے باہر جلی حروف میں بورڈ پرلکھا تھا۔

    ‘دلیپ کمار کا نائی’، بمبئی ٹرینڈ، ماسٹر شدو حجام۔ اور اس بورڈ کے نیچے ایک دوسرے بورڈ پر ریٹ لکھے تھے۔

    دلیپ کمار ہیئر کٹ = ڈیڑھ روپیہ
    دلیپ کمار شیو = ایک روپیہ
    دلیپ کمار شمپو = دو روپیہ آٹھ آنے
    دلیپ کمار مالش = پانچ روپے

    شدو نے مجھے آتے ہی پہچان لیا۔ وہ میرے گھٹنوں کو چھو کر بولا” چاچا جمن مجھے پہچانتے ہو؟” شدو کو کون نہیں پہچانے گا۔ محلے کا سب سے شریر لونڈا دبلا، پتلا، کالا، چیچک رو، ایک آنکھ سے کانا۔ مگر زبان جیسے لال مرچ، جیسے کترنی، جیسے گالیوں کا فوارہ بار بار چنے پر بھی شرارت سے باز نہ آئے۔ ایک روز سویرے فضلو کو پھسلا کر اس سے شیخ غلام رسول بیرسٹر کے لڑکے کا ہنٹنگ کوٹ جو میری لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کو آیا تھا، ایک روز کے لیے پہننے کو لے گیا تھا۔ بس اسی دن سے غائب تھا۔

    ناچار کوٹ کی قیمت مجھے ادا کرنی پڑی، میں شدو کو بھول سکتا تھا۔ میں نے زور سے ایک دھپ اس کی پیٹھ پر جمائی، شدو کے ہاتھ سے قینچی گر کر زمین پر جا پڑی، شدو کچھ ہنس کر کچھ رونکھا سا ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔

    میں نے غصے سے کہا۔ ” میری طرف کیا دیکھتے ہو، کدھر ہے وہ کوٹ؟”

    شدو کو یکایک یاد آیا، ہنستے ہنستے بولا: "واہ چاچا۔ تم بھی دو سال کے بعد اس زٹیل کوٹ کا ذکر کرتے ہو۔ ارے چاچا، جتنے کوٹ کہو اس بیرسٹر کے لونڈے کو بنوا دوں، کیا سمجھتے ہو، دلیپ کمار کانائی ہوں، دلیپ کمار کا۔”

    (معروف افسانہ نگار اور ادیب کے مضمون سے اقتباسات)