Tag: دلی شہر

  • ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ماہِ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہِ عالم بادشاہِ دلّی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔

    شہزادہ ماہِ عالم کے باپ مرزا نو روز حیدر دیگر خاندانِ شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے، مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو روپیہ کی چند اں پروا نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گزر اوقات کرتے تھے۔

    جب غدر پڑا تو ماہِ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہورہا تھا، مگر مرض برابر ترقّی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعہ سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہِ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس موت نے عجیب ہراس پیدا کر دیا۔

    اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میّسر آسکتی تھی، نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ شہزادوں میں رسم ہوگئی تھی کہ وہ مردے کے پاس نہ جاتے۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود تیار رہتے تھے۔

    غدر کی عالم گیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت میں انجام کو پہنچاتا۔ گھر میں دو لونڈیاں تھیں، لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نو روز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چوں کہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا، اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔

    القصّہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان اور بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ہی کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا، بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دیے۔ کفن کہاں سے ملتا، شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دو اُجلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔

    اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں۔ باہر لے جانے کا تو موقع نہیں۔ اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے۔ الماریوں کے کواڑا کھیڑ دیے۔ کتابوں کو آگ لگا دی۔

    دونوں لونڈیاں غسل خانے میں جا چھپی تھیں۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا، مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھریاں، لونڈیوں اور خود مرزا نو روز حیدر اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کے سَر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گور و کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

    لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نو روز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سَر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے، مگر غریب ماہِ عالم کی بری حالت تھی۔ اوّل تو اس کے سَر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کم زور واقع ہوا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی ہاتھ چلنے سے چکّر آتے تھے، کجا یہ نوبت کہ سَر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید۔ بچارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دَم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔

    آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا، ’’ابّا حضرت! مجھ سے تو چلا نہیں جاتا۔ گردن بوجھ کے مارے ٹوٹے جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو گر پڑوں۔‘‘

    باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچّے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں۔ اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا، ’’صاحب! اس بچّے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا۔‘‘ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بد نیتی سمجھ کر دو تین مکّے کمر میں مارے اور آگے دھکا دیا۔

    مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی، مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھری لے کر ماہِ عالم کے سَر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بیکس و ناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہِ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔

    مرزا نو روز اپنے لختِ جگر کی حالت دیکھ جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکّا گورے کے کلّے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسا اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوّارہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جا رہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔

    تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکّا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکّا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور یک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔

    لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی۔ اس ناگہانی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی۔ ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانہ سے سینے تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہِ عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا۔

    مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دوساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا۔ سنتے ہی گوروں کی حالت غصّہ سے غیر ہوگئی۔ انہوں نے پستول کے چھے فائر ایک دم کر دیے، جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً میں تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نو روز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہِ عالم کو لونڈیوں سمیٹ پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔

    جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو مسلمان پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہِ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے، ماہِ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پا س کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے۔ اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہِ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے، جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔

    ان افسر کا مزاج تند تھا۔ بات بات پر ٹھوکریں مارتے تھے۔ ماہِ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے۔ پہرے دار نے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں۔ اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

    چھوٹی عمر، راستہ سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجب مایوسی کا عالم تھا۔ آخر بہ ہزار دقّت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ مُلا صاحب نے سوالات شروع کیے، تُو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ماہِ عالم نے ان کو بھی باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہِ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہِ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہِ عالم کو سینہ سے لگا کر بہت پیار کیا اور تسلّی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو۔ خدا حافظ و ناصر ہے۔

    چناں چہ انہوں نے ایک رنگین کُرتا ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہِ عالم نے کہا، ’’حضرت! اب تو میں تھک گیا۔‘‘ تو کسی گاؤں میں ٹھہر جاتے، لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے۔ مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے تھے، ملے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہِ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے۔ وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہِ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کے قلم سے، انھوں‌ نے غدر 1857ء کے بعد شاہی خاندان کی شخصیات پر پڑنے والی افتاد کا تذکرہ نہایت درد ناک انداز میں‌ کیا ہے، یہ تحریر ان کے ایک مجموعہ مضامین سے منتخب کی گئی ہے)

  • دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید رات شب برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکّا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکّا محل نہ سہی کچّی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔

    آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھا رنگیلا۔ بات بات میں دل کے حوصلے دکھانے اور چھٹّی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔

    عید کے پیچھے ہفتے بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہو رہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شبِ برات آئی، آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول ہیں۔ واہ واہ کا شور ہے۔ آج اس مزار پر پنکھا چھڑا کل اس درس گاہ۔ محرم میں سبیلیں سجتیں۔ تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔

    دلّی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی۔ غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا، شاہی اجڑ گئی، سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے باہر کی آب رو جہاں تک سنبھالی جا سکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضع داری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کر کے آٹھویں روز پلائو کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہو تو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں کو قلعے کی تباہی کے بعد ہی ملا ہے۔ اللہ اللہ! ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر مُنھ کی کھانے لگے۔

    اگلے روپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بدنصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب سے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسے جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشا سمجھ کر۔

    (اردو ادب کو لازوال اور یادگار تخلیقات، خاکہ و تذکروں سے مالا مال کرنے والے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کی دلّی سے متعلق یادیں)

  • پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    پہلی بار ریل کا سفر کرنے والی خاتون کا بہن کے نام خط

    میری بڑی آپا ملکہ زمانی صاحبہ،
    آداب!

    میں اصل خیر سے دلّی پہونچ گئی اور سب چھوٹے بڑوں کو تن درست دیکھ کر اور ان سے مل جل کر خوش بھی ہو لی، مگر اللہ جانتا ہے کہ میرا دم آپ میں ہی پڑا ہے۔

    کیا کروں آپا جان! سسرال والوں کا پاس آن پڑا، نہیں تو زچہ خانہ میں آپ کو چھوڑ کر خدائیوں میں بھی نہ آتی۔ ویسے تو خدا رکھے دولہا بھائی نے نوکر چاکر، ماما اصیلیں آپ کی ٹہل کے لیے بہت سی لگا رکھی ہیں مگر جو ہم دردی ماں بہنیں کرتی ہیں وہ نوکریں کب کرسکتی ہیں۔ خیر بہت گئی، تھوڑی رہی ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب کے اٹھوارہ کو سلامتی سے آپ بڑا چلّہ نہا لیں گی اور پلنگ کو لات مار کر کھڑی ہو جائیں گی۔

    میاں ننّھے مجھے ہر وقت یاد آتے ہیں اور ان کی ہُواں ہُواں میرے کانوں میں بسی ہوئی ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے گا جب میں اسے پھر موٹا تازہ آپ کی گود میں دیکھوں گی۔

    نوشابہ کے بیاہ کا حال تو پیچھے لکھوں گی، پہلے آپ یہ سن لیجیے کہ میں کن توائیوں سے دلّی پہونچی۔ اوّل تو پندرہ میل بگّی میں چلنا پڑا۔ بیٹھے بیٹھے نگوڑا دم گھبرا اٹھا۔ ڈگڈگیوں دن ہوگا جو پشاور کے اسٹیشن پر پہونچی۔ بگّی کا دروازہ کھول کر آپ کے بہنوئی بولے:

    “برقعہ اوڑھ کر اتر پڑو۔” میں نے کہا: “ڈولی ذری پاس لگوا دو تو میں جھپ سے اس میں بیٹھ جاؤں۔”

    ہنس کر کہنے لگے: “یہ دلّی کا اسٹیشن نہیں ہے جہاں ہر وقت ڈولیاں مستعد رہتی ہیں۔ یہاں تو بس اللہ کا نام ہے۔ بے ڈولی کے ہی چلنا پڑے گا۔” مرتا، کیا نہ کرتا۔ برقع اوڑھ لپیٹ کر بگّی سے اتر، ان کے ساتھ ہو لی، مگر مارے شرم کے چلنا دوبھر تھا۔ کہیں پیر ڈالتی تھی اور کہیں پڑتا تھا۔

    اسٹیشن کے اندر پہونچی تو وہ دھوم دھام اور آدمیوں کی چلت پھرت کہ الٰہی توبہ۔ لمبی ساری ایک کرسی بچھی ہوئی تھی۔ انھوں نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔ مجھے بیٹھے ہوئے دو ہی گھڑی گزری ہوں گی جو ایک موٹا سا مردوا کالے کپڑے پہنے جھپ سے میرے پاس آن ٹُھسا۔ وہ میری دہنی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اشارہ سے کہا:

    “ یہ ظلم ہے، اس پر خدا کی مار ہے جو پرائی عورت کے پاس آن گھسڑا۔” انھوں نے چپکے سے جواب دیا۔

    “اس بینچ پر بیٹھنے کا حق سب کو حاصل ہے، عورت ہو یا مرد، کچھ برا ماننے کی بات نہیں۔” ڈاک گاڑی کے آنے کا وقت تو رات 9 بجے مقرّر تھا، مگر معلوم ہوا رستہ بگڑ گیا ہے، اس لیے دس بجے آئے گی۔

    میں نے اپنے دل میں کہا غریبوں نے روزہ رکھے دن بڑے آئے۔ وہ جو مثل مشہور تھی، ہنوز دلّی دور، آج اصل ہوگئی۔ کس کا کھانا، کس کا پینا۔ انھوں نے کہا بھی کہ کھانا کھالو، مگر میں نے الٹ کر انھیں یہی جواب دیا کہ صاحب میرا تو ستّر سے بہتّر مردوؤں میں ہواؤ نہیں پڑتا کہ بیٹھ کر نوالے ماروں۔ ریل میں بیٹھنے کو کوئی کونا مل جائے گا تو کھا لوں گی، نہیں فاقہ ہی بھلا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے ٹانگیں شل ہوگئیں۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئیں مگر ریل نہ آنی تھی پر نہ آئی؛ اور غضب یہ ہوا کہ اسٹیشن میں قدم قدم پر بجلی کے ہنڈے روشن ہوگئے؛ رات کا دن بن گیا۔ وہ اجالا کہ زمین پر سوئی پڑے تو الگ دکھائی دے۔

    فرنگی، ریل کے بابو، چپراسی، خلاصی، قلی، مسافر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پڑے پھرتے ہیں۔ کیا مقدور جو کوئی ڈھب پردہ کا نکل آئے۔ جوں جوں ریل کے آنے کا وقت قریب آتا جاتا تھا، اسٹیشن کے اندر مسافر بھرے چلے آتے تھے۔

    ڈاک گاڑی کے آنے میں پندرہ منٹ باقی ہوں گے جو اسٹیشن کا سارا چبوترہ آدمیوں سے بھر گیا۔ گھنٹی بجی اور ریل اس قہر کے ساتھ دندناتی ہوئی اسٹیشن میں داخل ہوئی کہ در و دیوار لرز گئے۔ میں سمجھی یہ لوہے کا سائبان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں، دہل سے ٹوٹ کر اور اُڑ اُڑا کر سر پر آرہے گا۔ پھر جو مسافر بھاگے ہیں اور آپا دھاپی مچی ہے تو حشر برپا ہوگیا۔ تُو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ سب سے آگے تو چار قُلی، اُن کے سروں پر ہمارے ٹرنک، بکس، بچھونے، اِن کے پیچھے وہ، اُن کے پیچھے مَیں۔

    ابھی ریل کا درجہ کوئی پانچ قدم پر ہوگا جو آگے سے ریلا آیا تو آپ کے بہنوئی الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ ان کا ہٹنا کہ میں پیچھے سَرکی۔ اگر اگلے آدمی اور ذرا دھکیلیں تو میں پس ہی گئی ہوتی، مگر خدا نے بال بال بچالیا۔

    بارے ہزار مشکل اور مصیبت کے ساتھ ریل کے اندر پہونچی تو معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے اس درجہ میں دس آدمی اور ٹھسے بیٹھے ہیں۔ بیٹھنے کیا کھڑے رہنے کا بھی ٹھکانہ نہیں۔ وہ الگ بغلیں جھانک رہے ہیں، میں جدا حیران کھڑی ہوں۔ اس میں انھیں کچھ خیال آیا اور ساتھ ہی ایک بھلے مانس نے کہا:

    “حضرت ان کو اوپر والے پلنگ پر چڑھا دیجیے۔” کیا بیان کروں کس مصیبت سے اوپر پہونچی۔ وہ پلنگ دو موٹی موٹی لوہے کی زنجیروں میں پڑا جھول رہا تھا۔ میری سلیم شاہی جوتی کی نوک جو ایک زنجیر میں اٹکی تو جوتی پنجہ سے نکل، نیچے جو ایک بوڑھے آدمی بیٹھے تھے اُن کی سفید ڈاڑھی پر جا گری۔

    وہ بیچارے جھینپ کر یہ کہنے لگے: “ریل کے سفر میں پردہ نشین عورتوں کے لیے انگریزی جوتی اچھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس سے چلا اچھا جاتا ہے، دوسرے بھاگ دوڑ میں پاؤں سے نکلنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔”

    ابھی میں سنبھل کر بیٹھنے بھی نہ پائی تھی، جو ایک اور آفت کا سامنا ہوا۔ آگے آگے ایک بابو، اس کے پیچھے ایک فرنگن بھبوکا رنگ، سادہ پن میں لاکھ لاکھ بناؤ، چھلّا جیسی کمر اور وہ بھی چمڑے کی پیٹی سے کسی ہوئی، گلے میں ڈھیلا سا ایک کوٹ جس کی سنجاف سمور کی تھی، سیاہ سایہ گھیر دار سر پر ٹوپی اور ٹوپی میں دو تین گلاب کے پھول اوڑھے ہوئے، مگر گلاب کے لال لال پھول اس کے چہرہ کی بہار کے سامنے بالکل پھیکے دکھائی دیتے تھے۔ ہاتھ میں ننھا سا کالے چمڑے کا ایک بیگ۔ ان کے پیچھے ان کے صاحب۔

    بابو نے ٹکٹ کاٹنے کی قینچی گاڑی کے کواڑ میں زور سے مار کر کہا: “تم ہندوستانی دیکھتا ہے، نہ بھالتا ہے، گاڑی میں یونہی گھس جاتا ہے۔ اترو اس میں سے، یہ صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا گاڑی ہے۔”

    اس صدا کو سن کر میرا تو جی چھوٹ گیا۔ نیچے جو لوگ بیٹھے تھے پہلے وہ اپنا اپنا اسباب سنبھالتے ہوئے نکل کر بھاگے۔ آپ کہیں گی کہ جو کمرا صاحب لوگوں کے بیٹھنے کا ہوتا ہے، اس پر لکھا ہوا ہوتا ہے اور تمہارے میاں تو انگریزی پڑھے ہیں، وہ تمہیں انجانوں کی طرح اس کمرے میں لے کر کس طرح گھس گئے؟

    آپا جان! مسافروں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ رات کا وقت، ہول جول میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ بندریا کی طرح پھر اس پلنگ پر سے نیچے اتری۔ یہ بھلا ہوا تھا کہ قُلیوں کو ابھی چُکایا نہیں تھا اور وہ ریل سے لگے کھڑے تھے۔ نہیں تو اسباب کا اتارنا دوبھر ہو جاتا اور ریل ہنک جاتی۔ نکلتے نکلتے بابو نے ہمارے پیچھے دھیری لگا دی۔ “ڈاک گاڑی جاتا ہے جلدی اترو۔”

    اب کی دفعہ مجھے ایک زنانہ کمرا مل گیا۔ جس میں میرے سوائے عورت کیا کوئی چڑیا بھی نہ تھی۔ پاس ہی مردانہ کمرا تھا وہ اس میں بیٹھ گئے۔ ڈاک گاڑی چل دی۔ چلتی ریل میں ہمارا اسباب دھر دیا اور ایک قلی ریل کے پٹرے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مزدوری لے کر جھپ سے کود گیا۔

    اب کیا تھا، بلی کے بختوں چھینکا ٹوٹا۔ بے مہتا اکیلا کمرا مل گیا۔ کھانا بھی کھایا، پان بھی کھائے۔ اگلے اسٹیشن پر انھوں نے آکر بستر بند میں سے میرا بچھونا کھول کر بچھا دیا اور جو میں پاؤں پھیلا کر سوئی ہوں تو دلّی تک مجھے ہوش نہ ہوا۔ جب ریل اسٹیشن پر آکر ٹھہر گئی تو انھوں نے مجھے آکر جگایا کہ اٹھو گھر آگیا۔

    اسی میں میاں ناصر بھی آن پہونچے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر کہنے لگے: “باجی جان! آداب۔ میں ڈولی لے آیا ہوں۔ ”میں نے کہا شکر ہے۔


    (یہ افسانہ نما بیانیہ (خط) ہے جس میں پشاور سے دلّی جانے والی بلقیس زمانی نے اپنی بہن کو ٹرین کے سفر کا احوال لکھا ہے اور کچھ واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ پارہ ناصر نذیر فراق دہلوی کی کتاب "دلّی میں بیاہ کی ایک محفل اور بیگموں کی چھیڑ چھاڑ” سے لیا گیا ہے)