Tag: دلی والے

  • دلّی والے اور برسات

    دلّی والے اور برسات

    اب ہم نشیں میں روؤں کیا اگلی صبحوں کو
    بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئی ہیں

    جن وقتوں کا یہ ذکر ہے، ان کو بیتے 50 سال سے اوپر ہوئے، ہر چند کہ ’غدر‘ کے بعد دلّی والوں کی قسمت میں زوال آگیا تھا اور مصائب و آلام نے ان کو گھروں سے بے گھر کر دیا تھا، مگر اَمی جَمی ہو جانے پر ان کی فطری زندہ دلی پھر کے سے ابھر آئی۔

    بے شک وقت اور حالات نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، لیکن ان کے طور طریق، ان کا رکھ رکھاؤ، ان کی قدیم روایات، ان کا ہنسنا بولنا اور ان کی وضع داریاں ان کے سینوں سے لگی رہیں، مگر یہ سب باتیں بھی انھی لوگوں کے دم قدم سے تھیں۔ جب نئی تعلیم اور نئی تہذیب نے نئی نئی صورتوں کے جلو میں اپنی جوت دکھائی تو ’شاہ جہاں آباد‘ کے وہ سدا بہار پھول کملانے لگے۔ ان وقتوں میں دلّی والے اپنی زندگی ہنس بول کر گزارتے تھے۔ سال کا ہر موسم اور مہینے کا ہر روز ان کے لیے خوشی کا ایک نیا پیغام لاتا تھا۔ آندھی جائے، مینہ جائے ان کو خوش رہنے اور خوش رکھنے سے کام۔

    یادش بخیر، مینہ کا ذکر آیا، تو برسات کے وہ سہانے سمے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ آج کی دہلی دیکھیے تو زمین آسمان کا فرق…! اب کی باتیں تو خیر جانے دیجیے کہ اس زمانے میں خوش وقتی کا جو ہدڑا بنا ہے وہ ہر بھلے مانس کو معلوم ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ ان مبارک دنوں میں دلّی والے برسات کو کس طرح مناتے تھے۔

    جیٹھ بیساکھ کی قیامت خیز گرمیاں رخصت ہوئیں، اب برسات کی آمد آمد ہے۔ بہنوں کو سسرال آئے ہوئے مہینوں گزر گئے اور ان کی آنکھیں میکے کے کاجل کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ نیم میں نبولیاں پکتی دیکھ کر ان کو میکہ یاد آ رہا ہے اور وہ چپکے چپکے گنگناتی ہیں۔

    نیم کی نمبولی پکی، ساون بھی اب آوے گا
    جیوے میری ماں کا جایا، ڈولی بھیج بلاوے گا

    لیجیے یہ وقت بھی آگیا، ساون کی اندھیری جھکی ہوئی ہے۔ لال کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خاک اور ہوا کا وہ زور کہ الامان الحفیظ! آخر مینہ برسنا شروع ہوا، خاک دب گئی ہے اور پچھلے مہینوں گرمی نے جو آفت ڈھائی تھی، اس سے خدا خدا کر کے چھٹکارا ملا۔ بارش کے دو چار ہی چھینٹوں نے ہر شے میں نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔ لوؤں کے تھپیڑوں سے جھلسے ہوئے درخت اور پودے جو سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے، اب پھر ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ اونچے اونچے پیڑوں کی ٹہنیاں خوشی سے جھوم رہی ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، مخملی فرش بچھا ہوا ہے۔ دلّی والے، سیلانی پنچھی، گھڑی گھڑی آسمان کو دیکھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہیں۔

    کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں برسے
    ایسا برسے میرے اللہ کہ چھاجوں برسے

    (اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ڈراما نویس اور مترجم صادق الخیری کے مضمون سے اقتباسات جو 1939ء میں لکھا گیا تھا)

  • صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    آج اردو زبان کے صاحبِ طرز ادیب اور صحافی ملّا واحدی کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں دلّی سے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ملّا واحدی نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔

    "میرے زمانہ کی دلّی” ملّا واحدی کی وہ یادگار تصنیف ہے جسے دہلی کے ایک دور کی مستند تاریخ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں مصنّف نے وہ تمام حالات تحریر کیے ہیں جو انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

    ان کا نام اصل نام محمد ارتضیٰ تھا، مگر مصوّرِ فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے انھیں ملّا واحدی کے نام سے یاد کیا جو اتنا مشہور ہوا کہ یہی ان کی شناخت بن گیا۔

    ملّا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں تعلیم پائی۔ ابتد اہی سے ادب اور صحافت کا شوق تھا۔ نوعمری میں قلم تھام لیا اور ملک کے مؤقر اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا جن میں ماہ نامہ ’’زبان‘‘ دہلی، ماہنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر، ہفتہ وار ’’وطن‘‘ لاہور اور مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور شامل تھے۔ بعد میں خواجہ حسن نظامی کے ساتھ نظام المشائخ رسالہ نکالنے میں معاونت کی اور اسی عرصے میں اشاعتِ کتب اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ انھوں نے چند اور رسالے بھی جاری کیے جن میں ہفتہ وار درویش، ہفتہ وار طبیب، ہفتہ وار خطیب، ہفتہ وار انقلاب اور روزنامہ رعیت شامل تھے، لیکن انھیں زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملّا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری 1948ء میں کراچی سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا احیا کیا جو 1960ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ دلّی اور دلّی کی شخصیات کا احوال و تذکرہ بھی رقم کرتے رہے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    ملّا واحدی کی تصانیف میں تین جلدوں میں حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات نامی کتابیں شامل ہیں۔

    اردو کے اس صاحبِ اسلوب ادیب کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید رات شب برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکّا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکّا محل نہ سہی کچّی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔

    آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھا رنگیلا۔ بات بات میں دل کے حوصلے دکھانے اور چھٹّی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔

    عید کے پیچھے ہفتے بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہو رہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شبِ برات آئی، آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول ہیں۔ واہ واہ کا شور ہے۔ آج اس مزار پر پنکھا چھڑا کل اس درس گاہ۔ محرم میں سبیلیں سجتیں۔ تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔

    دلّی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی۔ غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا، شاہی اجڑ گئی، سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے باہر کی آب رو جہاں تک سنبھالی جا سکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضع داری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کر کے آٹھویں روز پلائو کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہو تو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں کو قلعے کی تباہی کے بعد ہی ملا ہے۔ اللہ اللہ! ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر مُنھ کی کھانے لگے۔

    اگلے روپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بدنصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب سے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسے جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشا سمجھ کر۔

    (اردو ادب کو لازوال اور یادگار تخلیقات، خاکہ و تذکروں سے مالا مال کرنے والے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کی دلّی سے متعلق یادیں)

  • دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو بیش قیمت تخلیقی سرمائے سے مالا مال کرنے اور نثر یا نظم کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد موضوعات کی وجہ سے پہچان بنانے والوں میں اشرف صبوحی بھی شامل ہیں۔

    انھیں ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ آج ان کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہونے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

    اشرف صبوحی کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا۔ ان کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ دلّی سے متعلق اشرف صبوحی کی تحریر سے ایک پارہ باذوق قارئین کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید، رات شبِ برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔

    ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔